گائے کے تحفظ کے نام پر تشدد

گائے کے تحفظ کے نام پر تشدد (انگریزی: Cow vigilante violence in India) یا گائے کے تحفظ کی بات بی بی سی اردو کے مطابق محض بھارت کے ہندوؤں کا ووٹ حاصل کرنے کے ایک نعرہ رہا ہو لیکن یہ بہ طور خاص 2014ء کے بعد کے سالوں میں مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر ہجومی حملے کا ایک بڑا ذریعہ بن گیا ہے۔ حقوق انسانی کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے امریکا میں جاری کی گئی اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ گذشتہ بی جے پی کے بر سر قتدار ہونے کے پانچ برس میں گائے کے نام پر نفرت اور ہجومی تشدد میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ ’گئو رکشک‘(گائے کے محافظ) اور دوسرے گروپ جو مسلمانوں، دلتوں اور قبائلیوں کے خلاف نفرت پھیلاتے اور انھیں بدنام کرتے ہیں۔ ان کی تعداد ان سالوں میں کافی بڑھ گئی ہے۔[1]

بھارت میں گاؤ کشی کے قانونی موقف کا نقشہ

2015ء میں مملکتی وزیر برائے پارلیمانی امور مختار عباس نقوی نے گاؤ کشی پر پابندی کی حمایت کی اور کھانے والوں کو پاکستان جانے کا مشورہ دیا۔[2] ان کے اس بیان کا جواب ان ہی کے کابینہ کے ساتھی اور مملکتی وزیر برائے داخلہ کرن ریجیجو نے یہ کہہ کر دیا کہ میں گائے کا گوشت کھاتا ہوں، کون ہے جو مجھے روکے گا۔ کِرن شمال مشرق سے وابستہ ہیں جہاں گائے کا گوشت عام بات ہے۔ [3] گووا کے مرحوم وزیر اعلیٰ منوہر پریکر نے بھی گائے کے گوشت کے کاروبار کی حمایت کی تھی۔ [4] تاہم اور بی جے پی قائدین جیسے کہ ہریانہ کے وزیر اعلیٰ منوہر لال کھٹر نے گاؤ کشی کی مخالفت کی اور مسلمانوں سے گائے کا گوشت نہیں کھانے کے لیے کہا۔ [5] ملک میں حد درجہ گاؤ کشی کی مخالفت اور مبینہ گاؤ کشوں کے خلاف جذبہ ان بیانات سے بڑھنے لگا۔ اُسی سال تشدد اور قتل کے واقعات میں اضافہ اور اولین قتلوں میں ہماچل پردیش میں نعمان اختر نامی شخص کا قتل کر دیا گیا۔

2019ء کی فروری تک سے متعلق جاری کردہ رپورٹ میں ایک اندازے کے مطابق مبینہ گاؤکشی کے خلاف ہجومی تشدد میں گذشتہ تین سالوں میں 44 لوگ ہلاک اور 280 سے زیادہ لوگ زخمی ہوئے تھے۔ ان تین سالوں میں 100 ایسے حملے ہوئے تھے۔اس ہجومی تشدد کا شکار اقلیتی فرقے کے لوگ ہی نہیں بلکہ کچھ دلت بھی مارے گئے ہیں، حالانکہ مقتولین کی اکثریت مسلمان تھی۔[6] کچھ دلتوں کو مردہ گائے کے چمڑے نکالنے کی وجہ سے زد و کوب کے شکار ہوئے۔ [7] کچھ لوگ مردہ بیلوں کا چمڑا نکالنے کی وجہ سے بھی مار دیے گئے۔ ایسے معاملے میں کم از کم ایک مسیحی شخص ہلاک ہوا۔[8]

گاؤ کشی سے جڑے تشدد میں بھارت مین کئی لوگ زخمی بھی ہوئے اور ہلاک بھی ہوئے ہیں۔ سماجی میڈیا، میڈیا اور کئی علمی حلقوں میں اس تشدد کو گئو تنگ واد کے نام سے موسوم کیا گیا ہے، جس کے معنی گاؤ دہشت گردی یا گائے سے جڑی دہشت گردی ہے۔ [9][10][11][12][13]


مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. انڈیا: گائے کے نام پر ہجومی تشدد میں اضافہ
  2. "Those who want to eat beef should go to Pak: Mukhtar Abbas Naqvi"۔ ہندوستان ٹائمز 
  3. "'I eat beef, can somebody stop me?' Rijiju retorts to Naqvi statement"۔ ہندوستان ٹائمز 
  4. "Goa CM Manohar Parrikar backs beef traders"۔ اکنامک ٹائمز 
  5. "India BJP leader says Muslims should stop eating beef"۔ بی بی سی نیوز 
  6. "Cow Vigilantes in India Killed at Least 44 People, Report Finds"۔ بلومبرگ 
  7. "Dalits thrashed for allegedly skinning dead cow in Gujarat"۔ بنگلور میرر 
  8. "Christian killed in India for skinning a dead ox"۔ کویت ٹائمز 
  9. "گئو تنگ واد"۔ ٹویٹر ہیش ٹیگ 
  10. "گئو تنگ واد"۔ فیس بک ہیش ٹیگ 
  11. "Victims of Gautankwad: Pehlu Khan"۔ Citizens for Justice and Peace (CJP) 
  12. "گئو تنگ واد"۔ فیس بک ہیش ٹیگ 
  13. "How Hindustan is turning into Lynchistan"۔ ڈیلی ہنٹ ویب سائٹ