میرے نام پر نہیں

2016ء اور 2017ء کے دوران مسلمان اقلیت پر حملوں، قتل و غارت گری کے واقعات کے خلاف احتحاج ہے۔

میرے نام پر نہیں یا ناٹ ان مائی نیم (انگریزی: Not in my name) بھارت بھر میں 2016ء اور 2017ء کے دوران مسلمان اقلیت پر حملوں، قتل و غارت گری کے واقعات کے خلاف احتحاج ہے۔ یہ احتجاج کچھ بیرونی ممالک اور سماجی رابطے کی سائٹوں جیسے کہ فیس بک اور ٹویٹر پر بھی دیکھا گیا۔ احتجاج کا ایک پہلو مسلمانوں پر حملے کے علاوہ بعض گورکشکوں (گاؤ کشی مخالفین) کی جانب سے دلت طبقوں پر حملے کے موضوع پر بھی احتجاج کرنا تھا۔ یہ احتجاجی مظاہرے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ریاستہائے متحدہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے 2017ء کی ملاقات کے فوری بعد منظم ہوئے، جس سے حکومت کو عالمی برادری کے رو بہ رو اور بھی شرمندہ ہونا پڑا۔

میرے نام پر نہیں (Not in my name) مہم کا لوگو

احتجاجی مہم ترمیم

اس مہم کا آغاز فلم ساز صبا دیوان کی طرف سے ہوا۔ حالانکہ ابتدا میں یہ احتجاج صرف نئی دہلی کے جنتر منتر علاقے میں منظم ہونے والا تھا، تاہم ملک گیر سطح پر فیس بک کے ذریعے لوگوں کو اطلاع ملنے کے بعد یہ کئی شہروں میں پھیل گیا۔ ان میں کچھ احتجاجی مقامات اس طرح ہیں: کولکاتا میں دکھیناپن، سیول لائنز، الہ آباد، سیکٹر 17، چنڈی گڑھ، گاندھی نگر،جے پور، کارگل چوک، پٹنہ، ٹینک بنڈ، حیدرآباد، بنگلور ٹاؤن ہال، بنگلور، کارٹر روڈ، ممبئی، لکھنؤ کے جی پی او کے قریب گاندھی پارک، کوچی کا ہائی کورٹ جنکشن اور ترواننت پورم کا سیکریٹریٹ۔ ان سب مقامات پر 28 جون، 2017ء کو احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ 29 جون کو یہ احتجاجی مظاہرے لندن، ٹورانٹو اور بوسٹن میں ہوئے۔[1]

احتجاج کے محرکات ترمیم

  • اس احتجاج میں ویسے تو قصاب برادری، مویشی کاروباری اور حمل و نقل سے جڑے مسلمانوں کے حالیہ قتل اور مار پیٹ کے واقعات تھے۔ تاہم اس سے بھی بڑھ کر ہریانہ کے بلبھ گڑھ میں ٹرین میں سوار 15 یا 16 سالہ لڑکے جنید خان کے قتل پر شدید احتجاج کرنا مقصود تھا۔ یہ لڑکا ٹرین میں سوار ساتھی مسافروں سے سیٹ کے معاملے میں بھِڑ گیا تھا۔ اس پر یہ لوگ اس کے سر کی ٹوپی اور اس کی گاؤخوری کا مذاق اڑاتے ہوئے قتل کر دیتے ہیں۔[1] یہ قتل گویا اس بات کا آغاز سمجھا گیا کہ کسی بھی مسلمان کو یوں طعنہ دے کر قتل کر سکتے ہیں۔ اسی طرح سے بھارت بھر میں مردہ گایوں کے چمڑے نکالنے والے دلتوں پر بھی حملے کیے گئے تھے۔
  • سماجی کارکن شبنم ہاشمی نے جون 2017ء میں مسلمانوں پر ہو رہے حملوں کے خلاف 2008ء میں انھیں عطا کیے گئے نیشنل مائناریٹی رائٹز ایوارڈ واپس کر دیا۔ یہ ایوارڈ انھیں نیشنل کمیشن فار مائناریٹیز کی جانب سے دیا گیا تھا۔

احتجاج کا طریقہ ترمیم

احتجاج کے منتظمین نے مظاہروں کے دوران سیاسی یا تنظیمی پلے کارڈوں کے لانے سے منع کیا۔

تاہم ان لوگوں نے حاضرین کو ایسے پلے کارڈ لانے کے لیے کہا جن پر انگریزی میں Not in my name یا میرے نام پر نہیں لکھا ہو۔[1]

سماجی ذرائع ابلاغ پر احتجاج ترمیم

بھارت میں جاری یہ احتجاج سماجی ذرائع ابلاغ فیس بک اور ٹویٹر پر بھی دیکھا گیا۔ بھارتی ٹیلی ویژن کی سابقہ اینکر رینوکا شاہانے نے فیس بک پر ایک طویل پیغام تحریر کیا جس میں درج تھا:[2]

...میرا بڑا لڑکا اگلے سال 16 برس کا ہو جائے گا۔ میرا دل جنید کی ماں کے لیے دکھی ہے۔ نہ صرف قسی القلب انسانوں نے جنید کا قتل کیا، بلکہ کچھ اور قسی القلب انسانوں نے ان کی حمایت کی۔ جنید کا قتل ان لوگوں کی وجہ سے ہوا جنہوں نے اس پاگل پن کا مشاہدہ کیا اور چپ رہنے کا فیصلہ کیا۔ ...

رد عمل ترمیم

  • وزیر اعظم نریندر مودی نے 29 جون کو گائے تحفظ کے نام پر حملوں کی سخت مذمت کی۔ تاہم اس مہم کی منتظمہ صبا دیوان نے مطالبہ کیا کہ وزیر اعظم کے الفاظ کے ساتھ مساویانہ کارروائی ہونا چاہیے اور خاطیوں کو کڑی سزا ملنا چاہیے۔[3]
  • وزیر اعظم کے بیان کے کچھ ہی گھنٹے بعد بھارت کی ریاست جھارکھنڈ کے رام گڑھ علاقے میں ایک مسلمان ڈرائیور علیم الدین عرف اصغر علی کو گورکشکوں کے جنونی ہجوم نے کار روک کر شدید زدو کوب کا نشانہ بنایا۔ یہ لوگ جن کا تعلق بجرنگ دل سے بتایا گیا ہے، اس بات سے ناراض تھے کہ اصغر گائے کا گوشت لے جا رہا تھا۔ بتایا جاتا ہے کہ 45 سالہ اصغر کوئلے کی حمل و نقل کے کاروبار سے جڑا تھا اور وہ واقعے کے وقت کار میں 200 کیلو بکرے کا گوشت لے جا رہا تھا۔ اشرار نے جہاں ڈرائیور کی بھرپور پٹائی کی، وہیں کار کو بری طرح جلا دیا اور گوشت کو بکھیر دیا۔ پولیس کی مداخلت کی وجہ سے اصغر کو چھڑاکر اسپتال لے جایا جا سکا، مگر وہ جاں بر نہیں رہ سکا۔ وہ اپنے خاندان کا واحد کمانے والا شخص تھا۔[4]
  • مشہور بالی وڈ اداکار اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے رکن پارلیمان شتروگھن سنہا نے ہجوم کے حملوں کی مذمت کو دیر سے انجام پانے والا کم زور اقدام قرار دیا۔ ان کے مطابق اگر اس وقت صورت حال کو قابو میں نہ لایا گیا تو آگے چل کر لاقانونیت پھیلے گی اور ہجوم کے لوگ یہ فیصلہ کریں گے کہ کسی کو کیا کھانا یا پہننا چاہیے۔[5]

مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب پ "What is the 'Not In My Name' protest?"۔ 28 جون، 2017 
  2. "'Not In My Name' protest: Renuka Shahane posts strong message after Junaid Khan lynching"۔ 28 جون، 2017 
  3. "'PM's speech should be matched by action'"۔ Rediff 
  4. "Bajrang Dal activists killed my husband: Widow of man lynched in Jharkhand"۔ Hindustan Times۔ 30 جون، 2017 
  5. "BJP's Anti-Lynching Message Too Little Too Late: Shatrughan Sinha"۔ The Quint۔ 30 جون، 2017  [مردہ ربط]