گھر گھر تشہیر (انگریزی: Door-to-door) ایک تشہیری مہم ہے جو عمومًا فروخت، بازار کاری، اشتہارات یا مہم جوئی میں استعمال کی جاتی ہے۔ اس میں ایک شخص یا چند اشخاص ایک گھر سے دوسرے گھر چل کر کسی مصنوعات یا خدمات کی افادیت عوام الناس کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہیں یا پھر معلومات جمع کرتے ہیں۔ فروخت کے معاملے میں جو لوگ اس تکنیک کا سہارا لیتے وہ سفری فروخت کار (ٹریولنگ سیلز مین) ہوتے ہیں۔ اس تکنیک کے ذریعے ہونے والی بکری کو کبھی کبھار راست فروخت کہا جاتا ہے۔ اس کی ایک مختلف شکل سرد بلاوا ہوتی ہے، جس میں پہلے کسی کو فون یا کسی ذریعے سے بلایا جاتا ہے اور پھر کوئی فروخت کا نمائندہ یہ رضا مندی حاصل کرتا ہے کہ فروخت کار اس شخص کے گھر آ سکتا ہے۔

سیاسی میدان میں گھر گھر تشہیر کا استعمال ترمیم

گھر گھر تشہیر کے بارے میں عالمی سطح پر یہ تسلیم کیا جا چکا ہے کہ وہ نتیجہ خیز ثابت ہوئے۔ اس سے کئی بار جب رائے دہندوں سے راست بات چیت ہوئی اور گفتگو ہوئی، تو انھیں انتخابات مخصوص پارٹیوں کی جانب کامیابی کے ساتھ راغب کیا جا سکا ہے۔ اس کوشش میں جن لوگوں سے ملاقات ہوتی ہے، وہ اکثر اپنے دیگر اہل خانہ اور دوستوں کے خیالات اور ان کی آراء کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ امیریکن اکنامک ریویو میں شائع جون 2018ء کے ایک مضمون کے مطابق، جسے ہارورڈ بزنس اسکول کے اسسٹنٹ پروفیسر وینسنٹ پونس نے لکھا تھا، یہ بیان کیا گیا ہے کیسے فرانس کے 2012ء کے صدارتی انتخابات میں بر سر اقتدار نکولس سرکوزی کے خلاف فرانسوا اولاند نے گھر گھر کی تشہیری مہم چلائی تھی اور کس طرح اس کی اثر انگیزی دیکھی گئی تھی۔ پونس کے مطابق اس مقالے میں "اولین تخمینہ ہے کہ کیسے گھر گھر تشہیر حقیقی انتخابی نتائج پر اثر انداز ہوئے تھے۔"[1]

تاہم یہ تکنیک ہر بار کار گر یا کامیاب نہیں ہوتی۔ اس کا ثبوت بھارت کی ریاست مدھیہ پردیش میں بی جے پی کے سامنے اصحاب اقتدار سے بد ظنی کی لہر ایک بڑا چیلنج تھی۔ 2018ء میں ریاست میں انتخابات ہونے والے تھے۔ ایسے میں اس پر کچھ نیا کرنے کا دباؤ بھی تھا۔ بی جے پی سیاسی مہمات اور یاتراؤں کے لیے تو پہلے سے ہی جانی جاتی تھی لیکن ادھر وہ انتخابی جملوں ، نعروں اور شان و شوکت کی تقاریب میں بھی ماہر ہو گئی تھی۔ انتخابی سال کے دوران مدھیہ پردیش میں بی جے پی اپنی اسی خصوصیت کا بھرپور مظاہرہ کررہی تھی جس سے انتخابی ماحول اور رجحان کو بدلا جا سکے۔اس کے وزیر اعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان کے قریب ڈھائی مہینے کے ’جن آشرواد یاترا‘ کے بعد پھر ’’بھوِش کا سندیش، خوش حال مدھیہ پردیش ‘‘ مشن کی شروعات کی تھی۔ 21 اکتوبر سے شروع کیے گئے اس مشن کے تحت بی جے پی ریاست کے عوام سے نئے آئیڈیا مانگ رہی تھی جس سے ریاست کی خوش حالی کا نقشہ بنایا جاسکے۔ 5 نومبر تک چلنے والے اس مشن کی شروعات کرتے ہوئے وزیر علیٰ شیو راج سنگھ چوہان نے کہا کہ ریاست کی خوش حالی کا روڈ میپ میں اکیلا نہیں ساڑھے سات کروڑ لوگ مل کر بنائیںگے۔ اس کے لیے گھر گھر تشہری مہم کا سہارا لیا گیا۔ اس دوران عوام سے جو بھی اچھے سجھاؤ ملیں گے، ان کی بنیاد پر ہم روڈ میپ تیار کریں گے اور اگلے 5 سالوں میں ریاست کو خوش حال مدھیہ پردیش بنائیں گے۔[2] تاہم یہ ساری کوششیں ناکام ہو گئی اور اصحاب اقتدار سے بد ظنی کی وجہ سے انڈین نیشنل کانگریس بر سر اقتدار ہو گئی۔


مزید دیکھیے ترمیم

حوالہ جات ترمیم