ہارون یحییٰ

ترک مذہبی رہنما (پیدائش: 1956ء)

ہارون یحییٰ (Harun Yahya)، جن کا اصلی نام عدنان اکتار ہے، (پیدائش: 2 فروری سنہ 1956ء) ایک ترکی مصنف اور مؤلف ہیں۔ سنہ 2007 میں انھوں نے اسلامی تظریہ تخلیق پر مبنی اپنی کتاب دی ایٹلس آف کریشن کے ہزاروں نسخے امریکی سائنس دانوں، کانگریس کے ارکان اور سانئسی میوزیم کو ہدیہ میں دیں۔ وہ دو تنظیمیں چلاتے ہیں جن کے وہ اعزازی صدر ہیں: سائنس ریسرچ فاؤنڈیشن اور نیشنل ویلیوز پریزرویشن فاؤنڈینشن۔ دونوں کو بالترتیب 1990 اور 1995 میں قائم کیا گیا۔ حالیہ دنوں میں وہ ٹی وی پر بہت فعال رہے ہیں اور انھوں نے اپنا ایک ٹی وی چینل اے9 ٹی وی کے نام سے قائم کیا ہے۔ ان کی تنظیموں کو مذہبی تنظیم مانا جاتا ہے۔ اور ان کو ترکی کا سب سے بدنام مذہبی رہنما تصور کیا جاتا ہے۔ہارون نے گذشتہ دہائی میں 5000 سے زیادہ لوگوں کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کیا ہے۔ جس کی وجہ سے ترکی میں کافی اہم ویبسائٹیں بلاک کر دی گئی ہیں ۔

ہارون یحییٰ
(ترکی میں: Adnan Oktar ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

معلومات شخصیت
پیدائش (1956-02-02) فروری 2, 1956 (عمر 68 برس)
انقرہ، ترکی
رہائش ترکی
شہریت ترکیہ   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دیگر نام ہارون یحییٰ، عدنان اوکطار
مذہب اہل سنت
جماعت جسٹس اینڈ ڈویلمپنٹ پارٹی [1][2][3][4]  ویکی ڈیٹا پر (P102) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی معمار سنان فائن آرٹس یونیورسٹی (1979–)
استنبول یونیورسٹی (1986–)  ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تخصص تعلیم interior designer ،فلسفہ   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ مصنف
پیشہ ورانہ زبان ترکی [5]  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل بلیک میل ،  تلبیس اطلاعات ،  جاسوسی   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ویب سائٹ
ویب سائٹ www.harunyahya.com

حیات و اعمال

ترمیم

ابتدائی زندگی اور تعلیم

ترمیم

ان کی ولادت سنہ 1956 میں انقرہ میں ہوئی اور ہائی اسکول تک وہیں تعلیم مکمل کی، وہیں انھوں نے بدیع الزمان سے اسلامی علوم سے آگاہی حاصل کی۔ بدیع لازمان ایک کرد مسلم عالم ہیں جنھوں نے رسالہ نور تحریر کیا ہے۔ وہ ایک ماہر مفسر قرآن ہیں اور ان کا اپنا ایک الگ سیاسی اور مسلکی نظریہ ہے۔

ہارون یحییٰ 1979میں استامبول آئے اور میمار سینان یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔اس دوران ترکی میں بغاوت اور کشیدگی کا در دورہ تھا۔ سیاسی اور تہذیبی افراتفری کا ماحول تھا۔ سرد جنگ کے خدشات منڈرا رہے تھے۔ اور سیکیولر اور مذہبی گروہوں کے درمیان زبردست جنگ جاری تھی۔ اس ماحول میں انھوں نے بلا ناغہ فندکلی کی محلہ مسجد میں حاضری دی۔ یہ مسجد اکیڈمی کے قریب تھی جہاں انھوں نے داخلی آرکیٹیکچر کی پڑھائی کی۔ ادیب یوکسیل جو ان ہارون یحیی کو انہی دنوں سے جانتے ہیں کہتے ہیں کہ وہ ایک حوصلہ مند سنی مسلمان تھے۔

ایک کمیونٹی کی تخلیق

ترمیم

1980 کے اوائل میں ہارون نے طلبہ کی ایک جماعت کو اکٹھا کیا تاکہ مذہب سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کریں۔ یہ طلبہ استامبول کے سماجی طور پر متحرک اور خوشگوار خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے ساتھ مزید ہائی اسکول کے وہ طلبہ جڑ گئے جو استامبول کے مالدار خاندان کے تھے اور نئے نئے مذہبی تھے۔ 1982 سے 1984 تک 20 سے 30 لوگوں کا گروہ تیار ہو چکا تھا۔ ادیب کا کہنا ہے کہ ہارون نے ان کو بڑے ہی جدید انداز میں اپنی تعلیمات پیش کیں۔ اور بدیع الزمان کے ایک بہتر اوتار کے طور پر لوگوں کے سامنے آئے۔ اپنی مذہبی تعلیمات میں انھوں نے مارکسیت، اشتمالیت اور مادیت کے خلاف خوب دلائل پیش کیں۔ اس کے علاوہ انھوں نے نظریہ ارتقا اور ڈارونیت پر بھی جم کر ہلہ بولا۔ کیونکہ انکولگتا تھا کہ ڈارونیت سے ہی مادیت، دہریت اور دیگر نظریات کو بڑھاوا ملا ہے۔ انھوں نے اپنی ذاتی مالیت سے اک پمفلیٹ شائع کرواکر تقسیم کیا جس کا عنوان ‘‘نظریہ ارتقا‘‘ تھا اور جس میں باطنیت کو سائنسی حوالوں کے ساتھ پیش کیا گیا تھا۔

سنہ 1986 میں انھوں نے استامبول یونیورسٹی میں فلسفہ میں داخلہ لیا۔وہ نقظہ مجلہ کے صفحہ اول پر ظاہر ہوئے جس میں یہ بتایا گیا کہ کیسے انھوں نے دوستوں اور دوسرے لوگوں کو جمع کر کے مساجد میں تقریریں کیں۔ ترکی کی سب سے اہم یونیورسٹیوں میں سے ایک باسفورس ینونیورسٹی کے طالب علموں نے شرکت کرنی شروع کی۔ ہارون یحیی کا نام میڈیا اوریہاں تک کہ سرخیوں میں آنے لگا۔ انھوں نے ‘‘یہودیت اور فری میسن‘‘ نام سے 550 صفحوں کی ایک کتاب لکھی۔ یہ کتاب سازشی نظریات پر مبنی تھی جس کے مطابق حکومتی دفاتر، یونیورسٹیاں، سیاسی جماعتیں اور میڈیا ایک ‘‘ مخفی گروہ‘‘ سے متاثر تھیں تاکہ ترکی باشندوں کی روحانی، مذہبی اور اخلاقی قدروں کو ختم کر کے ان کو جانوروں جیسا بنا دیا جائے۔ ہارون کو گرفتار کر لیا گیا اور ان پر نظریاتی انقلاب کا مقدمہ کیا گیا۔ حالانکہ ان پر کبھی کوئی سرکاری مقدمہ نہیں کیا گیا۔ انھوں نے 10 ماہ پاگل خانے میں بتائے لیکن انھوں نے شکوہ کیا کہ وہ کبھی پاگل تھے ہی نہیں بلکہ وہ سیاسی قیدی بن گئے ہیں جنکو ان کی کتاب یہودیت اور فری میسن کے عوض سزا دی جارہی ہے۔ 1980 اور 1990 کے اوائل میں ہارون نے صرف کمیونٹی بنانے پر زور دیا۔ اس کے متبعین خاص طور پر بحیرہ مرمرہ کے موسم سرما کے ہوٹلوں میں بھرتی کیے گئے تھے۔ گروہ کے دوران سماجی تنظیم مزید منظم اور منسق ہو گئی اور مسیحائی فطرت اختیار کر لی۔ ہارون کا کہنا ہے کہ ان دنوں دہشت اور انتشار کی باعث وہ اپنی تعلیم مکمل نہیں کر سکے۔ انھوں نے دوران تعلیم ہی کتابوں پر کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ لہذا جیسے اسکول سے فراغت ہوئی انھوں نے ساری محنت کتابوں پر صرف کردی۔

سہ 1990 میں سائنس ریسرچ فاؤنڈیشن (ایس آر ایف) کی بنیاد رکھی۔ ہارون نے ایس آر ایف کی بنیاد ان سائنسی کارروائیوں کے لیے کانفرنسیں اور سیمینار منعقد کرنے کے لیے رکھی جو ایک بڑے پیمانے پر سماجی اور سیاسی شعور کو بیدار کرتے ہیں۔ اور ان تنازعات کو ختم کریں کو مادیت اور ڈاروینت کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ حالانکہ کچھ میڈیا والے ان کو ایک خفیہ اسلامی گروہ بتاتے ہیں ۔

حوالہ جات

ترمیم