ہندومت اور اسلام
ہندو مت اور اسلام دنیا کے دو بڑے مذاہب ہیں، جن کے مابین ساتویں صدی عیسوی میں اشاعت اسلام کے بعد تعلقات قائم ہوئے۔
تعارف
ترمیممذہبی تعریف
ترمیمہندومت لفظ ”ہندو“ سے بنا ہے ہندومت/ہندو ازم لفظ انیسویں صدی میں انگریزوں نے انگریزی زبان میں رائج کیا تھا کیونکہ سرزمین سندھ پر عقائد اور مذاہب بکثرت پائے جاتے تھے۔ |
اسلام ایک عربی لفظ ہے جو لفظ ”سلام“ سے بنا ہے جس کا مطلب سلامتی / اللہ تعالیٰ کی تابعداری ہے۔ |
تعریف
ترمیمبنیادی عقائد
ترمیماسلام اور دیگر مذاہب |
دیگر مذاہب
قبل از اسلام • ہندومت • جین مت • سکھ مت اسلام اور...
ارتداد • * توہین • جبری تبدیلی • ضد سامیت • جمہوریت • آزاد خیالی • مادیت |
مُشابِہَت
ترمیم- دونوں مذاہب میں زیارت کی جاتی ہے، اسلام میں مکہ میں حج، جبکہ ہندو مت میں کمبھ میلا لگایا اور تیرتھ یاترا کی جاتی ہے۔ مسلمان حج کے دوران میں سات چکر لگاتے ہیں جسے طواف کہتے ہیں۔ ہندو بھی مندر کے درمیان میں (گربھاگریہ) ایک یا ایک سے زائد چکر لگاتے ہیں جسے پریکرما کہتے ہیں۔
- دونوں مذاہب میں روزہ رکھا جاتا ہے جسے مسلمان صوم اور ہندو ورت کہتے ہیں۔
اختلاف
ترمیمہندومت اور اسلام میں بنیادی فرق خدا اور خداؤں کا ہے۔ اسلام کے مطابق ہر چیز کا مالک خدا ہے (”اَلَاۤ اِنَّ لِلہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرْض“) جبکہ ہندو کہتے ہیں کہ ہر چیز خدا ہے ("Every thing is "God) یعنی بندر، آسمان، سورج سب خدا ہیں۔
ہندوؤں اور مسلمانوں میں سب سے بڑا فرق یہ ہے کہ ہندو اس فلسفے پر یقین رکھتے ہیں کہ خدا ایک نہیں ہے خدا بہت سے ہیں اور ہر چیز کا ایک الگ خدا (بھگوان) موجود ہے۔ ہندومت کے زیادہ تر عقائد دھرمی ادیان (بدھ مت، جین مت اور سکھ مت) سے ملتے جلتے ہیں جبکہ اسلام ایک توحیدی مذہب ہے، مسلمانوں کے عقائد ہندومت سے بالکل جدا ہیں وہ کہتے ہیں کہ ”ایک خدا (اللہ) کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں“ ہے اور محمد ان کے آخری رسول ہیں جن پر قرآن نازل کیا گیا ہے۔ اسلام کے عقائد زیادہ تر ابراہیمی ادیان (مسیحیت، یہودیت اور بہائیت) سے ملتے جُلتے ہیں۔
مذہبی متون
ترمیممزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- مصنف: ذاکر عبد الکریم نائک، مترجم: محمد زاہد ملک، اسلام اور ہندومت (ایک تقابلی مطالعہ)، مطبوعہ زبیر پبلیشرز، اُردو بازار لاہور۔
- الهندوسية وتأثر بعض الفرق الإسلامية بها (ہندومت اور اس پر کچھ اسلامی گروہوں کا اثر) , أبو بكر محمد زكريا, یونیورسٹی کے کاغذات (دار الأوراق الثقافية) (پی ڈی ایف)