خراج اسلامی حکومت کی آمدنی کا ایک شعبہ ہے اس کا قیام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ ہی میں ہو چکا تھا، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اس میں کوئی خاص تغیر نہیں ہوا، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے البتہ حکومت کے دوسرے شعبوں کی طرح اس کوایک حد تک منظم کیا اور اس کے انتظام میں بہت سے تغیرات کیے، اس کے بعد سے برابر اس شعبہ میں اصلاح وترقی ہوتی رہی؛ لیکن ڈیڑھ صدی تک اس کا کوئی مکمل تحریری دستور مرتب نہیں ہوا سنہ170ھ میں جب ہارون رشید خلیفہ ہوا تواس نے اس کام کی طرف توجہ کی اور قاضی ابویوسف رحمہ اللہ سے اس موضوع پرایک خاص کتاب لکھنے کی درخواست کی؛ انھوں نے اس مبارک کام کواپنے ذمہ لیا اور کتاب الخراج کے نام سے ایک کتاب لکھ کرہارون کے سامنے پیش کی، کتاب کے نام سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب صرف خراج یعنی اسلامی ٹیکس سے متعلق ہوگی؛ لیکن ایسا نہیں ہے؛ بلکہ یہ کتاب اسلامی حکومت کی مالی آمدنی اور خراج کا ایک مکمل دستور ہے۔ امام ابویوسف رحمہ اللہ ہی کے زمانہ یااس کے قریب قریب اس موضوع پرمتعدد کتابیں لکھی گئی، جن میں یحییٰ بن آدم کی کتاب الخراج اور ابو عبیدہ کی کتاب الاموال زیادہ مشہور ہیں۔ اوّل الذکر یعنی امام ابویوسف رحمہ اللہ اور ان کی کتاب کا ذکر کتاب کے شروع میں آچکا ہے اور اس کتاب کا خاتمہ ثانی الذکر کے سوانح حیات اور ان کی کتاب کے تعارف پرکیا جاتا ہے، انشاء اللہ تعالیٰ ثالث الذکر کا تذکرہ کتاب کے دوسرے حصہ میں آئے گا۔

محدث
یحییٰ بن آدم
معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش سنہ 757ء [1][2]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات سنہ 818ء (60–61 سال)[3][4][1][2]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات طبعی موت
رہائش کوفہ
شہریت خلافت عباسیہ
کنیت ابو زکریا
لقب الاحول
مذہب اسلام
فرقہ اہل سنت
عملی زندگی
نسب الكوفي القرشي الأموي
ابن حجر کی رائے ثقہ
ذہبی کی رائے ثقہ
استاد اسرائیل بن یونس ، سفیان بن عیینہ ، یحییٰ بن معین ، سفیان ثوری ، عبد اللہ بن مبارک ، حماد بن سلمہ ، حماد بن زید ، حسن بن زید بن حسن ، ابو اسحاق سبیعی
نمایاں شاگرد احمد بن حنبل ، ابو کریب ، عثمان بن ابی شیبہ ، اسحاق بن راہویہ ، ابو بکر بن ابی شیبہ ، سفیان بن وکیع
پیشہ محدث
شعبۂ عمل روایت حدیث

نام و نسب

ترمیم

یحییٰ نام، ابوزکریا کنیت، پورا سلسلہ نسب یہ ہے: یحییٰ بن آدم (امام نووی نے آدم اور سلیمان کے درمیان علی کے نام کا ایک اضافہ کیا ہے، جو عام تذکروں کے بیان کے خلاف ہے[5]بن سلیمان الاموی (اموی نسبت دلائی ہے، نسبی نہیں یعنی ان کے والد آدم خالد بن خالد اموی کے غلام تھے، اس وقت یہ عام دستور تھا کہ غلام اپنے آقا کی نسبت کے ساتھ منسوب ہوتے تھے، اس طرح یحییٰ بھی غلامانِ اسلام کی فہرست میں داخل ہیں؛ لیکن خود خالد اور اس کے باپ اور دادا کے متعلق اہلِ تذکرہ خاموش ہیں، خالد کا جدعلی عقبہ بن معیط جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی میں مشہور تھا، بدر کے روز گرفتار ہوا اور قتل کیا گیا؛ البتہ اس کے لڑکے ولید نے فتح مکہ کے روز اسلام قبول کیا، خالد کا مختصر تذکرہ ابن سعد نے کیا ہے، جلد:6، صفحہ نمبر:233) یحییٰ کے دادا سلیمان کا کوئی تذکرہ رجال کی کتابوں میں نہیں ملتا، ان کے والد آدم البتہ حدیث کے ثقہ راویوں میں ہیں، ابن سعد اور تہذیب میں ان کا تذکرہ موجود ہے، صحیح مسلم میں وکیع کی سند سے ان کی ایک روایت بھی موجود ہے۔ [6]

سنہ ولادت

ترمیم

اہلِ تذکرہ نے یحییٰ کے سنِ ولادت کی کوئی تصریح نہیں کی ہے؛ لیکن بعض قوی قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ سنہ140ھ یااس کے کچھ قبل یابعد ان کی ولادت ہوئی وہ قرائین یہ ہیں: (1)تمام اہلِ تذکرہ متفق ہیں کہ ان کی وفات سنہ203ھ میں ہوئی۔ (2)ان کے قدیم شیوخ میں مسعر بن کدام متوفی سنہ155ھ یا سنہ153ھ اور قطر بن خلیفہ متوفی سنہ155ھ ہیں، اس حساب سے ان کے اور یحییٰ کے سنہ وفات میں تقریباً 50/برس کا فرق ہے۔ (3)یہ بھی معلوم ہے کہ اس وقت تک بالکل چھوٹے بچوں کوسماع حدیث (حدیث سنانے) کا دستور نہیں شروع ہوا تھا؛ بلکہ جب وہ سن شعور کوپہنچ جاتے تھے، تب شیوخ انھیں اپنے حلقہ درس میں لیتے تھے، اس لیے ظاہر ہے کہ مسعر بن کدام (سنہ155ھ یاسنہ153ھ) وعیرہ سے سماع کے وقت کم از کم ان کی عمر 15/برس کی رہی ہوگی، اس اعتبار سے اگر مسعر بن کدام کا سنہ وفات 153/ قرار دیا جائے تووفات کے وقت یحییٰ کی عمر 65/سال اور اگرسنہ153ھ قرار دیا جائے تو63/برس کی تھی، اس لیے ظاہر ہے کہ ان کا سنہ ولادت سنہ 138ھ یا سنہ140ھ قرار دینا پڑے گا، واللہ اعلم بالصواب۔

تعلیم و تربیت

ترمیم

تذکروں سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ ان کی تعلیم و تربیت کہاں اور کس کی نگرانی میں ہوئی اور انھوں نے کیا کیا علوم حاصل کیے؛ لیکن ان کے شیوخ کی فہرست اور ان کی کتاب کے دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے خالص دینی علوم کی طرف اپنی توجہ مبذول رکھی تھی اور اس کے حصول کے لیے تقریباً تمام علمی مراکز مثلاً مکہ، مدینہ، کوفہ، حمص وغیرہ میں پہنچے اور خصوصیت سے قرآن وحدیث کسی حد تک فقہ میں بھی دسترس بہم پہنچائی، ان کے شیوخ کی فہرست میں حمزہ بن حبیب الزیات بھی ہیں، جوعلم قرأت کے امام ہیں، ان کے تلمذ کی وجہ سے قیاس ہوتا ہے کہ شاید انھوں نے علم قرأت میں بھی کچھ دستگاہ بہم پہنچائی ہو۔

شیوخ کی فہرست

ترمیم

اُن کے شیوخ کے جونام مل سکے ہیں، ان کی تعداد 90/ہے جن میں سے 73/سے انھوں نے کتاب الحراج میں اور باقی 17/سے دوسری کتابوں میں روایت کی ہے ان کے نام ذیل میں درج کیے جاتے ہیں: ابراہیم بن حمید بن عبد الرحمن الرؤاسی، ابراہیم بن حمید الزبرقانی التیمی، ابراہیم بن محمد بن ابی یحییٰ الاسلمی، اسرائیل بن یونس بن ابی اسحاق السبیعی، اسماعیل بن ابراہیم بن مقسم بن علیہ، اسماعیل بن عیاش ابن سلم العنصی الحمصی، ابوایاس (عبد الملک بن جویہ)، ایوب بن جابر بن سیار الحنفی السحیمی الیمامی، ابوبکر ابن عیاش بن سالم الاسدی، ابوبکر بن النہشلی الکوفی، جریر بن عبالدحمید الضبی، جعفر بن زیاد الاحمر، حاتم بن اسماعیل المدنی الحارثی، حیان بن علی الغزی الکوفی، حسن بن ثابت الثعلبی الاحول، الحسن ابن صالح بن صالح بن حی، ابو عبد اللہ الثوری الکوفی، الحسن بن عیاش بن سالم الاسدی الکوفی، حسین بن زید بن علی بن الحسین، حفص بن غیاث بن طلق القاضی، حماد بن زید بن درہم، حماد بن سلمہ بن دینار، ابوسلمہ، حمید بن عبد الرحمنٰ بن حمید الرواسی، زہیر بن معاویۃ الجعفی الکوفی، زیاد بن عبد اللہ بن الطفیل ابلکائی، سعید بن سالم بن ابی الہیفاء، سعد بن عبد الجبار الزبیدی الحمصی، سفیان بن سعید بن مسروق الثوری، الامام سفیان بن عیینہ، ابن ابی عمران الہلالی، سلابن سلیم ابوالاحوص الحنفی الکوفی، ستان بن ہارون البرجمی، شریک بن عبد اللہ ابن ابی شریک القاضی النخعی، الصلت بن عبد الرحمن الزبیدی، عباد بن العوام بن عمر، عثربن القاسم الزبیدی، ، ابوزبید، عبد اللہ بن ادریس بن یزید الادوی، عبد اللہ بن المبارک، عبدر بہ بن نافع الکنانی ابوشہاب الحتاط الاصغر، عبد الرحمن بن حمید بن عبد الرحمٰن الرواسی، عبد الرحمن بن ابی الزناد، عبد الرحمن القاری، عبد الرحیم بن سلیمان المروزی الاشل، عبد السلام بن حرب بن سلم الکوفی، عبد الملک بن جویتہ ابوایاس، عبدۃ بن سلیمان الکالابی، عبد اللہ بن عبیدالرحمن الاشجعی، عتاب بن بشیر الجزری، عثمان بن مقسم البری، علی بن ہاشم بن البرید، عمار بن رزیق الضبی ابوالاحوص الکوفی، عمربن ہارون الخراسانی البلغی، عمربن ثابت ابن ہرمز بن ابی المقدام، فضیل بن عیاض بن مسعود بن بشرالتمیمی، قران بن تمام الاسدی ابوالبی، قیس بن الربیع الاسدی، مبارک بن فضالہ، محمد بن الحسن بن فرقد الشیبانی صاحب ابی حنیفہ، محمد بن خازم التمیمی، ابومعاویۃ الضریر، محمد بن طلحہ بن طلحہ بن مصرالیامی، محمد بن فضیل بن غزوان الضبی، مسعود بن سعد الجعفی الکوفی، مفضل بن صدقہ الکوفی، ابوحماد الحنفی، مفضل بن مہلہل السعدی، ابوعبدالرحمن، مندل ابن علی العنزی الکوفی، ہیشم بن بشر بن القاسم السلمی ابومعاویہ، ابن واقد المدنی، ورقاء بن عمر بن کلیب الیشکری، ابن مبارک کے شیخ ہیں، وضاح بن عبد اللہ الشیکری ابوعوانہ، وکیع بن الجراح ابن ملیح الرواسی، وہب بن خالد بن عجلان الباہلی، یحییٰ بن زکریا بن ابی زائدہ، یزید بن ابراہیم التشری ابوسعید، یزید بن عبد العزیز بن سیاہ الاسدی الحمانی، یونس بن یزید بن ابی النجاد الاہلی۔ یہ ان شیوخ کی فہرست تھی، جن سے انھوں نے کتاب الخراج میں روایت کی ہے، کتاب الخراج کے علاوہ جن شیوخ سے روایت کی ہے، ان کے نام یہ ہیں: ابراہیم بن سعد بن ابراہیم الزہری، بشر بن السری ابوعمروالافوہ، جریر بن حازم بن عبد اللہ الازدی، حسین بن علی بن الولیدالجعفی، حمزہ بن حبیب الزیات، سعید بن سالم القداح ابوعثمان المکی، عبد اللہ ابن عثمان البصری، عبد العزیز بن سیاہ الاسدی الحمانی، عیسیٰ بن طہمان، فضیل بن مرزوق الاغر، قطر بن خلیفہ المخزومی الحناظ، قطبہ بن عبد العزیز بن سیارہ، مالک بن مغول بن عاصم البجلی، محمد بن اسماعیل بن رجاء الزبیدی الکوفی، مسعر بن الکدام بن ظہیرالعامری، موسیٰ بن قیس الحضرمی الفراء عصفورالجنۃ، یونس بن ابی اسحاق السبیعی۔ ان شیوخ میں بعض ایسے لوگوں کے نام بھی ہیں جو ان کے اصحاب واحباب میں شمار ہوتے ہیں، مثلاً حسن بن صالح جن سے انھوں نے تقریباً پچاس سے زائد جگہ روایت کی ہے؛ لیکن ابن حزم نے ان کویحییٰ کے اصحاب میں شمار کیا ہے۔ محدثین کے دستور کے مطابق انھوں نے اپنے ہمعصروں (محدثین کواگراپنے اصاغر سے بھی روایتیں مل جاتی تھیں تووہ روایت کرلیتے تھے) اور چھوٹوں سے بھی روایتیں کی ہیں اور بعض جگہ توباپ اور بیٹے دونوں سے روایت کرتے ہیں، مثلاً عبد الرحمن بن الرواسی سے بھی روایت کی ہے اور ان کے لڑکے حمید سے بھی؛ اسی طرح عبد العزیز بن سیارہ اور ان کے دونوں لڑکے یزید اور قطبہ سے روایتیں کی ہیں۔

تلامذہ

ترمیم

یحییٰ کی روایت اور ان تلامذہ کی کثرت سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا حلقہ درس وسیع رہا ہوگا؛ لیکن اہل تذکرہ میں سے کسی نے بھی ان کے درس وتدریس کے متعلق کوئی تصریح نہیں کی ہے، ان کے تلامذہ کی فہرست میں بعض بڑے بڑے ائمہ حدیث مثلاً اسحاق بن راہویہ، یحییٰ بن معین بھی شامل ہیں، تلامذہ کی فہرست بہت لمبی ہے، ان میں چند نام درج کیے جاتے ہیں، جن سے صحاحِ ستہ میں روایت موجود ہے۔ احمد بن ابی رجا عبد اللہ الہردی، احمد بن سلیمان الرہادی، احمد بن عمرالواقدی، احمد بن محمد بن حنبل، اسحاق بن ابراہیم البخاری، اسحاق بن راہویہ مشہور امام حدیث، بشربن خالد العسکری، حسن بن علی بن عفان العامری، الحسن بن علی الخلال حافظ حدیث، الحسین بن علی بن الاسود العجلی، حقص ابن عمر المہرقانی یہ ابوحاتم اور ابوزرعہ کے شیخ ہیں، سفیان بن وکیع بن الجراح، عباس بن حسین القنطری، ابوبکر عبد اللہ بن شیبہ، عبد اللہ بن محمدالمسندی، عبد الاعلیٰ بن واصل الاسدی، عبد الرحمن ابن صالح الازوی، عبد بن حمید، عبدہ بن عبد اللہ الخزاعی الصفار، عبید بن بعیش المحاملی، عثمان بن ابی شیبہ، عصمۃ ابن الفضل النیشاپوری، علی بن عبد اللہ بن المدینی، علی بن محمدالطنافسی، محمد بن اسماعیل، ابوبکر بن علیہ، محمد بن عبد اللہ بن المبارک المخرمی، محمدبن رافع النیشاپوری، ابوکریب محمد بن العلا الہمدانی، محمد بن عمر بن الولید الکندی، محمد بن الولید بن ابی ولید الفحام، محمود بن غیلان المروزی، موسیٰ بن خرام مشہور فقیہ تھے، موسیٰ بن عبد الرحمن المسروتی، ہارون بن عبد اللہ الحمال حافظ حدیث تھے، واصل بن عبد الاعلی ابن ہلال الاسدی، یحییٰ بن معین رحمہم اللہ جرح و تعدیل کے امام تھے۔

دربار سے بے تعلقی

ترمیم

یحییٰ نے تقریباً 6/خلفاء منصور، ہادی، مہدی، ہارون، امین، مامون کا زمانہ پایا؛ لیکن ان میں سے کسی خلیفہ کے دربار سے انھوں نے اپنا تعلق نہیں قائم کیا اور نہ حکومت کا کوئی عہدہ قبول کیا۔

علم و فضل

ترمیم

علم و فضل کے لحاظ سے یحییٰ ممتاز حیثیت رکھتے تھے، امام ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ میں ان کوطبقہ سابعہ میں شمار کیا ہے، جس میں امام شافعی، عبد الرحمن بن مہدی، ابوداؤد طیالسی وغیرہ ہیں۔ امام ذہبی نے علی بن المدینی سے جوائمہ حدیث میں سے ہیں، روایت کی ہے کہ حدیث کی سند کا مدار زیادہ ترچھ آدمیوں پ رہے، اہلِ مدینہ میں ابن شہاب زہری، اہل مکہ میں عمروبن دینار، اہل بصرہ میں قتادہ اور یحییٰ بن ابی کثیر، اہل کوفہ میں ابواسحاق اور اعمش؛ پھران چھ کا علم ان بارہ آدمیوں میں پھیلا، اہلِ مدینہ میں امام مالک اور ابن اسحاق اور اہلِ مکہ میں ابن جریج اور ابن عیینہ اور اہلِ بصرہ میں سعید بن ابی عروبہ وحماد بن سلمہ وابوعوانہ وشعبہ ومعمر اور اہلِ کوفہ میں سفیان ثوری اور اہلِ شام میں امام اوزاعی اور واسط میں ہیشم، پھران ائمہ کا علم تین آدمیوں یحییٰ القطان، یحییٰ بن زکریا اور وکیع بن جراح میں سمٹ آیا اور پھران تینوں سے یہ امانت عبد اللہ بن مبارک، عبد الرحمن بن مہدی اور یحییٰ بن آدم کی طرف منتقل ہوئی۔ [7] یعقوب بن شیبہ فرماتے ہیں کہ وہ ثقہ، کثیر الحدیث اور بہت بڑے فقیہ تھے؛ حالانکہ ان کا سن بہت زیادہ نہیں تھا، علی بن مدینی فرمایا کرتے تھے کہ ان کے پاس علم تھا ابواسامہ فرماتے ہیں کہ میں جب یحییٰ بن آدم کودیکھتا ہوں توامام شعبی یاد آجاتے ہیں، یعنی وہ امام شعبی کی طرح جامع العلوم تھے، ابن سعد، یحییٰ بن معین، ابوحاتم، ابن حبان وغیرہ نے ان کی توثیق کی ہے، یحییٰ بن ابی شیبہ کے الفاظ یہ ہیں کہ: ثقہ، صدوق، ثبت، حجۃ، یحییٰ قابل اعتماد اور حجۃ تھے، ان کے علم و فضل کے متعلق ان ائمہ کی رائے سب سے بڑی سند ہے۔

مسلک

ترمیم

ان کے زمانہ تک تخرب اور عامیانہ تقلید کا دور شروع نہیں ہوا تھا اور نہ اس وقت محدثین اور فقہا اپنے لیے اس لقب کوپسند کرتے تھے؛ بلکہ علما قرآن وحدیث وآثار کی روشنی میں اپنی بصیرت کے مطابق فتویٰ دیتے تھے؛ اگرکسی مسئلہ میں وہ خود رائے قائم نہیں کرپاتے تھے توائمہ میں سے جن کی رائے انھیں پسند ہوتی اس کواختیار کرلیتے تھے، اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ اس زمانہ میں تشنگانِ علم بغیر کسی عصبیت اور تخرب وتعصب کے مختلف شیوخ سے سماع حدیث اور مختلف الخیال فقہا کی حدمت میں جاکر تحصیل فقہ کرتے تھے، اس لیے ان میں کورانہ تقلید اور تنگ نظری پیدا نہیں ہونے پاتی تھی، امام محمد حدیث میں امام مالک کے شاگرد تھے، اسد بن فرات اور امام شافعی نے امام محمد سے فقہ کی تحصیل کی تھی، خود امام ابوحنیفہ اور امام مالک کے درمیان علمی مذاکرے ہوتے رہتے تھے (اس وقت تک دومسلک حنفی اور مالکی رواج پاچکے تھے، یحییٰ اپنی کتاب میں دونوں میں سے ہرایک کی کسی جگہ موافقت اور کسی جگہ مخالفت کرتے ہیں) امام احمد بن حنبل، امام ابویوسف کے شاگرد تھے، ایسی بہت مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ یحییٰ بن آدم نے بھی مختلف الخیال محدثین اور فقہا سے تحصیلِ علم کی تھی، ایک طرف وہ امام محمد سے روایت کرتے ہیں، دوسری طرف سے حسن بن صالح کے جن کوامام محمد سے شدید اختلاف تھا، خاص تلامذہ میں تھے، شاید یہی وجہ تھی کہ وہ کسی خاص امام کے مسلک کے پابند نہیں ہو سکے۔ [8] اور نہ انہووں نے اپنی کتاب کوکسی خاص مسلک تک محدود رکھا، ان کے مسلک کے متعلق یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ ان کا تعلق محدثین کی جماعت سے تھا؛ چنانچہ کتاب میں جہاں جہاں عندنا یاعند اصحابنا یاجماعۃ عن اصحابنا وغیرہ کے الفاظ استعمال کیے ہیں اس سے بھی پتہ چلتا ہے کہ مسائل میں ان کا نقطہ نظر محدثانہ تھا۔

تصانیف

ترمیم

امام نووی نے یحییٰ کی تصنیفات میں صرف کتاب الخراج کا تذکرہ کیا ہے، امام ذہبی نے لکھا ہے کہ ھوصاحب التصانیف وہ صاحب تصانیف ہیں؛ لیکن انھوں نے بھی کتاب الخراج کے علاوہ کسی دوسری کتاب کا تذکرہ نہیں کیا ہے۔ [9] ابن ندیم نے کتاب الخراج کے علاوہ دواور کتابوں کا بھی تذکرہ کیا ہے (ڈاکٹر جیونیول اور ابوالاشبال دونوں مصمحین میں سے کسی کی نظر ابن ندیم پرنہیں تھی؛ اسی لیے انھوں نے تصنیفات میں صرف کتاب الخراج کا تذکرہ کیا ہے) کتاب الزوال اور کتاب الفرائض (ابن ندیم میں کتاب الفرائض کے بعد ڈیش ہے، اس کے بعد کبیر الگ، ڈیش کے ساتھ لکھا ہوا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دوکتابیں ہیں؛ لیکن میں نے اس کوطابعت کی غلطی سمجھ کرکبیر کوکتاب الفرائض کی صفت قرار دے دیا ہے) اس کے متلق لکھا ہے کہ یہ بہت بڑی کتاب ہے؛ مگران میں کتاب الخراج کے علاوہ کسی اور کتاب کے موجود ہونے کا کوئی علم نہیں ہے۔ کتاب الخراج بھی اب تک ناپید تھی؛ لیکن ایک فرانسیسی مستشرق ڈاکٹر جانیبول کے ذریعہ چند سال ہوئے کہ سامنے آئی ہے۔ ڈاکٹر جانیبول کوکتاب الخراج کا ایک قدیم نسخہ ایم، شارل سیفر کے یہاں جوپیرس میں علوم مشرقیہ کے صدر ہیں ملا؛ انھوں نے بڑی دیدہ ریزی سے اس کی تصحیح کی اور اس پرفرنچ میں ایک مقدمہ لکھ کر سنہ1898ء میں مطبعہ بریل، لیڈن سے شائع کیا، یہ نسخہ پانچویں صدی کے آخ رکا لکھا ہوا ہے اور اس کی ضخامت 95/صفحات ہے، کتاب سے صاحب نسخہ کے نام کا پتہ نہیں چلتا؛ لیکن کتاب کی پشت پرانہوں نے اپنے شیخ اوراپنے معاصرین کے سماع کی جویادداشت لکھی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صاحب نسخہ نے ابوعبدالرحمن بن علی اللبری سے جوکتاب کے مرتب اور جن پراس کتاب کی تمام سندیں منتہی ہوتی ہیں، براہِ راست سماع کیا ہے، شیخ بسری کے سماع کی یادداشت یہ ہے: ابو القاسم علی بن حمد بن البسری النبد ارورلدہ ابو عبد اللہ الحسین ونوفل بن علی محمد بن علی الاسائی فی المحرم سنۃ ست عشرۃ و ادبعمائۃ۔ ترجمہ: شیخ بسری کے پوتے اور ان کے لڑکے ابو عبد اللہ اور نوفل وغیرہ نے بھی سماع کیا ہے اور یہ سماع محرم سنہ416ء میں ہو۔ (الاسائی، اصل میں اس طرح لکھا ہوا ہے، کسی مصحح نے اس کے متعلق کچھ کہا بھی نہیں ہے؛ لیکن میرا ذاتی خیال یہ ہے کہ یہ اسنانی ہے)۔ دوسری یاددشات میں کچھ اپنے ہم عصرسامعین کے نام بھی لکھے ہیں، ان کے نام کے ذکر کے بعد لکھتے ہیں کہ ان لوگوں نے جمادی الاولیٰ سنہ484ھ میں سماع کیا ہے، غالباً یہ اختتام سماع کی تاریخ ہے؛ لیکن کہیں بھی اپنے سماع کی تاریخ نہیں لکھی ہے، کتاب کے ہرحصہ کے شروع میں: أخبرنا الشيخ أبو عبد الله الحسين بن علي بن أحمد بن البسري۔ [10] ترجمہ:شیخ بسری نے ہم سے بیان کیا۔ کے الفاظ سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا سماع شیخ بسری سے براہِ راست ہے اور چونکہ سنہ484ھ سے پہلے انھوں نے اپنے یاکسی دوسرے کے سماع کی تاریخ نہیں لکھی ہے، اس لیے قیاس ہوتا ہے کہ سنہ484ھ ہی ان کے سماع کی تاریخ ہوگی۔ بسری (بسری بغداد کے مشہور محدثین میں ہیں، سنہ409ھ یا سنہ410ھ میں ان کی ولادت ہوئی تھی اور سنہ497ھ میں وفات پائی، سمعانی نے ان کا تذکرہ کیا ہے، صفحہ نمبر:81) نے اس کتاب کا سماع اپنے شیخ ابو عبد اللہ بن یحییٰ السکری سے سنہ416ھ میں کیا تھا، سماع کے وقت ان کی عمر7،8/برس سے زائد نہیں تھی، ظاہر ہے کہ اس عمر کے روایات پرپورے طور پراعتماد نہیں کیا جا سکتا؛ لیکن بسرتی کی مرویات کواس درجہ قبولیت حاصل ہوئی کہ ان کی کم عمری اعتماد واعتبار کے لیے مانع نہیں رہی۔ ڈاکٹر جانیبول نے کتاب کی تصحیح وتحشیہ میں کافی محنت کی تھی؛ لیکن پھربھی اس میں کچھ نہ کچھ خامیاں رہ گئی تھیں، اس لیے قاضی ابوالاشیال احمد شاکر مصری نے دوبارہ اس کی تصحیح کی جہاں جہاں ڈاکٹر صاحب کی تصحیح میں غلطی تھی، اس کی نشان دہی کی (مثلاً صفحہ نمبر:63،122،123، میں اس کی تفصیل موجود ہے) اور دوسرے ماخذوں سے ہرمسئلہ کی مراجعت کرکے اس کی تخریج کی اور یحییٰ بن آدم کے سوانح حیات اور ان کے شیوخ تلامذہ کی فہرست کے ساتھ سنہ1347ھ مطابق سنہ1928ء میں دوبارہ مطبعہ سلفیہ قاہرہ سے شائع کیا، فجزاہ اللہ احسن الجزاء۔ قاضی صاحب نے اس سلسلہ میں سب سے بڑا کام یہ کیا ہے کہ کتاب کے رجال کی پوری تحقیق کی ہے اور ان کی تعدیل وجرح کے سلسلہ میں جوکچھ کہا گیا ہے، اس کی نقل کر دیا ہے، علاوہ بریں جومسائل امام ابویوسف اور یحییٰ کی کتابوں میں مشترک ہیں حاشیہ میں ان کی بھی تصریح کردی ہے، یہ حاشیہ اپنی افادیت کے لحاظ سے کتاب کی ایک مختصرشرح ہے؛ لیکن انھوں نے یہ نہیں لکھا کہ اس کتاب کا کیا درجہ ہے؟ اس کی خصوصیات کیا ہیں اور امام ابویوسف اور یحییٰ کی کتابوں میں جوایک ہی موضوع سے متعلق ہیں کیا فرق ہے، آئندہ سطور میں اسی کے متعلق کچھ عرض کرنا ہے۔ پوری کتاب چار حصوں میں ہے، جن میں 23/ابواب اور 640/مسئلے ہیں، مؤلف نے صرف دوآخری حصوں تبویب کی تھی، باقی دوحصوں کی تبویب مصح نے کی ہے اور اوپر حاشیہ میں عنوانات کی سرخیال قائم کردی ہیں۔ یحییٰ کی روایات اور ان کے اقوال عام طور سے مشہور ہیں اور تمام متقدم اور متاخر محدثین نے اپنی اپنی کتابوں میں ان کوجگہ دی ہے؛ لیکن بعض قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ قرونِ اولیٰ میں ان کی کتاب الخراج کے ساتھ زیادہ اعتنا نہیں کیا گیا اور اس کے نسخے زیادہ مروج تھے؛ چنانچہ امام مسلم، ابوداؤد، ابن ماجہ، امام نووی، حافظ ابن حجر، بلاذری وغیرہ نے متعدد جگہ ان کی رویات اور ان کے اقوال اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیے ہیں؛ لیکن ان میں سے کسی نے بھی کتاب الخراج کا ذکر نہیں کیا ہے اور نہ کہیں اس کا حوالہ دیا ہے۔ کتاب کی خصوصیت اور امام ابویوسف اور اُن کی کتاب میں فرق (1)اسلامی مالیات کے جن شعبوں کے متعلق قرآن پاک کی آیات میں اشارات موجود ہیں، یحییٰ بن آدم نے ہرعنوان کے تحت ان آیات کا تذکرہ کیا ہے، اس کے بعد حدیث وآثار سے استدلال کیا ہے، مثلاً فئی، غنیمت، تجارت، زراعت، صدقات، مایکرہ فی الصدقہ جذا، ذوحصار وغیرہ کے سلسلہ میں اس کی تفصیل مل سکتی ہے۔ (2)طریقہ تصنیف محدثانہ ہے، یعنی ہرمسئلہ میں انھوں نے اپنے شیوخ یاتابعین کے اقوال یاپھرصحابہ کے آثار یااحادیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کیا ہے اور خود اپنی رائے پوری کتاب میں مشکل سے دوچار جگہ دی ہے۔ (3)فقہ میں کسی خاص مسلک کے پابند نہیں تھے؛ لیکن پھربھی انھوں نے متعدد جگہ امام ابوحنیفہ اور امام مالک کی رائے سے اختلاف کیا ہے اور اس کے بعد محدثین کی رائے کوپیش کرکے اس کوترجیح دی ہے؛ مگرجہاں بھی اختلاف کیا ہے وہاں امام صاحب کا نام نہیں لیا ہے؛ بلکہ بعض وغیرہ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ مثلاً اس مسئلہ میں کہ اگرکوئی پرتی زمین کوآباد کرنا چاہے تووہ کرسکتا ہے یانہیں؟ دوسرے ائمہ کی رائے ہے کہ اس کواختیار ہے وہ آباد کرلے اور وہ اس زمین کا مالک ہوگا؛ خود امام ابویوسف اور امام محمد کی رائے بھی یہی ہے؛ لیکن امام صاحب کے نزدیک اس میں امام کی اجازت کی ضرورت ہے، طرفین کے اقوال ذکر کرنے کے بعد یحییٰ نے دوسرے ائمہ کے اقوال کی تائید میں یہ حدیث ذکر کی ہے۔ مَنْ أَحْيَا أَرْضًا مَیْتَۃً، فِي غَيْرِ حَقِّ مُسْلِمٍ، وَلَامَعَاھِد فَهِيَ لَهُ۔ [11] ترجمہ: جوکسی ایسی پرتی زمین کوآباد کرے جوکسی مسلم یامجاہد کی نہ ہوتو وہ زمین اس کی ہے۔ اس کے بعد لکھا ہ کہ حدیث میں امام سے اجازت کا ذکر نہیں ہے، جس سے معلوم ہوا کہ امام صاحب کی رائے ان کے نزدیک صحیح نہیں ہے، بعض جگہ وہ دوسرے ائمہ کی بھی مخالفت کرتے ہیں، مثلاً اس مسئلہ میں کہ خراج کی زمین پردوسرے محاصل عائد کیے جا سکتے ہیں یانہیں، ائمہ کی رائے ہے کہ دوسرے محاصل عشروغیرہ اس میں لیے جا سکتے ہیں، امام صاحب کی رائے ہے کہ خراجی زمین میں خراج کے علاوہ اور کوئی چیز نہیں لی جا سکتی، اس مسئلہ میں یحییٰ امام صاحب کے ساتھ ہیں اور فریقین کے استدلالات ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: وقد قال جماعة من أصحابنا: ليس على ماأخرجت أرض الخراج عشر، وإنما على الأرض الخراج، وليس في زرعها ولافي ثمارها شيء لمسلم كان، أولغيره۔ [12] ترجمہ:ہمارے صحاب میں سے بعض لوگوں نے کہا ہے کہ خراجی زمین پرعشر نہیں ہے اس پرصرف حراج ہے اور اس زمین کی زراعت اور اس کے پھل میں کوئی محصول نہیں ہے وہ زمین مسلمان کی ہو یاغیر مسلم کی۔ دوسری جگہ اس مسلک کی تائید کرتے ہوئے فرمات ہیں کہ میرے بعض بصری اصحاب کی بھی یہی رائے ہے۔ [13] زکوٰۃ کے سلسلہ میں یہ مسئلہ مختلف فیہ ہے کہ اگرمختلف قسم کے غلے اتنی تھوڑی مقدار میں پیدا ہوں کہ نصاب زکوٰۃ تک نہ پہنچتے ہوں؛ لیکن اگران سب کویاان کی قیمت کوملادیا جائے تووہ نصاب تک پہنچ جاتے ہوں توایسا کرنا چاہیے یانہیں، امام صاحب توغلہ میں سرے سے نصاب کے قائل ہی نہیں ہیں، ان کے نزدیک غلہ کی جتنی مقدار بھی ہو اس میں عشر یانصف عشر دینا چاہیے، بقیہ ائمہ غلہ کا نصاب پانچ وسق مقرر کرتے ہیں اس لیے ان کے یہاں یہ سوال اہمیت رکھتا ہے، امام شافعی ایک غلہ کودوسرے غلہ سے یااس کی قیمت کوملا کرعشر ادا کرنے کوجائز نہیں سمجھتے، امام احمد کا خیال ہے کہ ایک دوسے ر کوملاکرزکوٰۃ ادا کرنی چاہیے، امام مالک صرف جَو اور گیہوں کوایک دوسرے سے ملانے کے قائل ہیں، یحییٰ چونکہ مطلق ایک دوسے ر کے ساتھ ملانے کے قائل نہیں ہیں، اس لیے انھوں نے امام مالک رحمہ اللہ کے مسلک کوبھی پسند نہیں کیا؛ چنانچہ وہ فرماتے ہیں کہ اصحاب امام مالک نے جَواور گیہوں کویکساں سمجھا ہے؛ لیکن یہ بھی ناجائز نہیں ہے؛ یہی مسلک امام شافعی رحمہ اللہ نے اختیار کیا اور بعد میں یہ انہی کی طرف منسوب ہو گیا۔ (4)کتاب میں بعض ایسی روایتیں بھی ہیں، جن میں مصنف رحمہ اللہ منفرد ہیں، مثلاً یہ روایت: مَنْ أَحْيَا أَرْضًا مَيْتَةً فَهِىَ لَهُ وَلَيْسَ لِعرْقٍ ظَالِمٍ حَقٌّ۔ [14] ترجمہ:جوپرتی زمین کوآباد کرے، وہ اس کی ہے۔ الفاظ کے ساتھ کسی نے بھی یہ روایت نہیں کی ہے، ابن حجر نے فتح الباری جلد:5/ صفحہ نمبر:13/ میں یحییٰ کی اس روایت کونقل کیا ہے؛ لیکن انھوں نے بھی یحییٰ کے علاوہ کسی دوسرے سلسلہ سند کا ذکر نہیں کیا ہے؛ اسی طرح بعل والعشری والغدری والی حدیث میں بھی غالباً صاحب کتاب منفرد ہیں، ابن ماجہ نے اس روایت کواپنی کتاب میں نقل کیا ہے؛ لیکن ان کا سلسلہ سند بھی یحییٰ ہی پرختم ہوتا ہے۔ [15] امام ابویوسف رحمہ اللہ اوریحییٰ کی کتاب میں چند ظاہری اور معنوی فروق یہ ہیں: (1)اوپر لکھا جاچکا ہے کہ یحییٰ کی کتاب الخراج کی طرف علما نے بہت کم اعتنا کیا ہے، بخلاف اس کے ابویوسف کی کتاب الخراج کوتمام متقدمین ومتاخرین ائمہ کے نزدیک ایک خاص درجہ حاصل رہا ہے اور مشکل سے حدیث وفقہ کی کوئی کتاب کے ذکر سے خالی ہوگی۔ (2)امام ابویوسف کی کتاب میں 37/ابواب اور یحییٰ کی کتاب میں کل 33/ابواب ہیں اس ظاہری فرق کے علاوہ معنوی حیثیت سے بھی امام ابویوسف کی کتاب بہت بلند ہے، اس میں ہرعنوان کے تحت جزئیات اور بہت سے مجتہدانہ نکات اور متنوع مسائل ملتے ہیں۔ (3)امام ابویوسف کی کتاب میں بعض مباحث ضمناً آگئے ہیں؛ لیکن یحییٰ نے ان کی مستقل ابواب قائم کیے ہیں، مثلاً تحیر، شراب کی تجارت پرذمیوں سے ٹیکس لینے جذاذوحصاد یاسبزی میں زکوٰۃ وغیرہ کے مباحث کوامام ابویوسف نے ضمناً ذکر کیا ہے؛ لیکن یحییٰ نے ان کے لیے الگ الگ باب قائم کیے ہیں۔ (4)امام ابویوسف کی کتاب میں گوجزئیات اور متنوع مسائل زیادہ ہیں؛ لیکن پوری کتاب تقریباً تمام ترحنفی مسلک کے مسائل تک محدود ہے، اس کے مقابلہ میں یحییٰ کا طریقہ تصنیف محدثانہ ہے اور وہ ہرعنوان کے تحت مختلف احادیث، آثار واقوال نقل کردیتے ہیں اور خود اس کا فیصلہ بہت کم کرتے ہیں، اس سے یہ فائدہ ہے کہ پڑھنے والے کوہرموضوع پرخود سوچ کرکسی امام کی رائے کوراجح یامرجوع قرار دینے کا موقع ملتا ہے، علمی حیثیت سے کتاب میں بعض تسامحات بھی ہیں، مثلاً:زکوٰۃ پربحث کی ہے؛ لیکن زکوٰۃ کے مصرف کے بارے میں کچھ نہیں لکاھ ہے، یادریا سے حاصل کی ہوئی اشیاء کے بارے میں کوئی بحث نہیں ہے۔ (2)ان کے شیوخ اور سلسلۂ سند کے رواۃ میں بہت سے ضعیف اور بعض مجہول اشخاص بھی ہیں، مثلاً شیوخ میں محمد بن ابی یحییٰ الاسلمی، ایوب بن جابر بن سیار، عبد الجبار بن زبیدی کوکاذب تک کہا گیا ہے، سنان بن ہارون، الصلت بن عبد الرحمن، عثمان بن مقسم، عمر بن ہارون، عمروبن ثابت بن ہرمز، قیس بن الربیع، مفصل بن صدقہ وغیرہ، عام رواۃ میں مغلس۔ [16] جن کا تذکرہ رجال کی کسی کتاب میں نہیں ملتا، عبد الرحمن القاری کا تذکرہ بھی کسی کتاب میں نہیں ملتا۔ [17] اسی طرح محمد بن مسادر، عبادہ بن نعمان، ابوعلی الصفار وغیرہ کا تذکرہ بھی متداول کتابوں میں موجود نہیں ہے؛ اسی طرح محمد بن مسادر، عبادہ بن نعمان، ابوعلی الصفّار وغیرہ کا تذکرہ بھی متداول کتابوں میں موجود نہیں ہے؛ اسی طرح ابراہیم بن محمد۔ [18] عبد الرحمن بن معاویہ۔ [19] اسماعیل بن ابی سعیر۔ [20] ابوحماد۔ [21] وغیرہ کوعلماء نے ضعیف اور اُن میں سے بعض کووضّاعِ حدیث تک لکھا ہے، پوری کتاب میں سیکڑوں لغات اور فقرے ایسے ہیں، جن کی مکمل تشریح کی ضرورت تھی، ان کے حل کیے بغیر عبارت کا مفہوم واضح نہیں ہوتا، ضرورت تھی کہ کتاب کے ساتھ ایسے الفاظ کی ایک فہرست بھی منسلک ہوتی، مثلاً اس اثر: لَيْسَ عَلَى عَرَبِىٍّ مِلْكٌ۔ [22] ترجمہ: یعنی عربی النسل پرکسی کی ملکیت نہیں ہے۔ کے نقل کرنے کے بعد یہ جملہ ہے: وَلَكِنَّا نُقَوِّمُهُمُ أَنَّمْلَۃِ خَمْسَیْنِ مِنَ الإِبِلِ کا مطلب بالکل واضح نہیں ہوتا، مصنف سے اس آیت قری ظاہرہ کی تشریح کے سلسلہ میں بھی فروگذاشت ہو گئی ہے؛ گوعام ائمہ تفسیر کی طرح انھوں نے بھی اس کی تشریح قری عربیہ کے لفظ سے کی ہے؛ مگرانہوں نے اس سے ایک خاص سرزمین مراد کی ہے، جوصحیح نہیں ہے، تفسیر ابن کثیر میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کی یہ روایت موجود ہے کہ: هِيَ قُرَىٰ عَرَبيَّةٌ بَيْنَ الْمَدِينَةِ وَالشَّامِ ﴿ قُرًىٰ ظَاهِرَةً﴾ أَي: بَيْنة وَاضحة، يَعْرِفُهَا الْمُسَافِرُوْنَ۔ [23] ترجمہ: مدینہ اور شام کے درمیان جوآبادیاں ہیں وہی قری عربیۃ ہیں، اس کوظاہرہ اس لیے کہا گیا ہے کہ ان کومسافرین عام طور پرجانتے ہیں۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کسی مخصوص خطہ کا نام نہیں ہے؛ بلکہ مدینہ وشام کے درمیان کی آبادیوں کوقری ظاہرہ کہتے ہیں؛ پھرمعجم البلدان اور کتب لغت تاریخ وغیرہ میں کوئی مقام اس نام کا نہیں ملتا، اس لیے ظاہر ہے کہ مصنف کواس میں سہو ہو گیا ہے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب http://d-nb.info/gnd/103208526 — اخذ شدہ بتاریخ: 23 فروری 2021
  2. ^ ا ب http://data.bibliotheken.nl/doc/thes/p074273949 — اخذ شدہ بتاریخ: 23 فروری 2021
  3. مصنف: کتب خانہ کانگریسhttps://id.loc.gov/authorities/names/nr90007509.html — اخذ شدہ بتاریخ: 23 فروری 2021
  4. Identifiants et Référentiels — اخذ شدہ بتاریخ: 23 فروری 2021
  5. (تہذیب التہذیب:11/175))
  6. (تہذیب التہذیب:1/196)
  7. (تذکرۃ الحفاظ:1/230)
  8. (صفحہ:16، صفحہ:145 اور صفحہ:147، میں اس کی تصریح موجود ہے)
  9. (تذکرۃ الحفاظ:1/327)
  10. (الخراج ليحيى بن آدم:1/2، شاملہ، موقع جامع الحديث)
  11. (الخراج ليحيى بن آدم:1/252، شاملہ، موقع جامع الحديث۔ دیگرمطبوعہ:86)
  12. (الخراج ليحيى بن آدم:2/56، شاملہ، موقع جامع الحديث۔ دیگرمطبوعہ:167)
  13. (الخراج ليحيى بن آدم:167)
  14. (الخراج ليحيى بن آدم:1/238، شاملہ، موقع جامع الحديث۔ دیگرمطبوعہ:58)
  15. (الخراج ليحيى بن آدم:123)
  16. (الخراج ليحيى بن آدم:25)
  17. (الخراج ليحيى بن آدم:51)
  18. (الخراج ليحيى بن آدم:73)
  19. (الخراج ليحيى بن آدم:73)
  20. (الخراج ليحيى بن آدم:104)
  21. (الخراج ليحيى بن آدم:105)
  22. (الخراج ليحيى بن آدم:1/40، شاملہ، موقع جامع الحديث)
  23. (تفسیرابن کثیر:6/509، شاملہ،المؤلف:أبوالفداء إسماعيل بن عمر بن كثير القرشي الدمشقي،المحقق:سامي بن محمد سلامة،الناشر:دارطيبة للنشروالتوزيع)