یوگ مایا نیوپانے (نیپالی: योगमाया न्यौपाने‎؛ 1 اپریل 1867ء – 5 جولائی 1941ء) نیپال کے بھوجپور ضلع میں مقیم مذہبی قائدہ، نسائيت پسند اور شاعرہ تھیں.[1] وہ نیپال کی پہلی شاعرات میں سے ایک مانی جاتی ہیں اور ان کی شاعری کی اکلوتی شائع کتاب سروارتھ یوگ وانی کو ان کی اہم ترین شرکت مانی جاتی ہے.[2]

یوگ مایا نیوپانے
 

معلومات شخصیت
تاریخ پیدائش سنہ 1860ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تاریخ وفات سنہ 1941ء (80–81 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
طرز وفات خود کشی   ویکی ڈیٹا پر (P1196) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت نیپال   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعرہ ،  مصنفہ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

یوگ مایا کی نظمیں نیپال میں رانا راج اور بھارت میں برطانوی راج کا ذکر کرتی ہیں۔ اس وقت کی ثقافتی اور سیاسی زیادتی پر مبنی ان کی طرز تحریر صاف طور پر اصل اور کھری تھی. مذہبی قائدہ ہونے کی وجہ سے ہندو مت پر خاص توجہ دینے کے باوجود ان کی ناظمین خواتین اور مظلوم برادریوں کے حقوق پر مبنی تھیں جس کی وجہ سے انھیں مقبولیت ملی. ان کی زندگی کی آخری گھڑی میں رانا ناظموں کے حکم کے مطابق ان کی تخلیقات پر قدغن لگایا گیا اور ان کے اوپر کڑی نظر رکھی گئی لیکن سو زیادتی کے باوجود انھوں نے نیپال میں ہی رہنے کا فیصلہ کیا. یوگ مایا کو 1918ء میں نیپال کی پہلی برادرئ خواتین کی تاسیس کی آبرو دی جاتی ہے جس کو 1920ء میں نیپال میں ستی رسم پر روک لگوانے کی آبرو دی جاتی ہے.[3]

سنیاس لے کر نیپال لوٹنے کے بعد یوگ مایا کی فعالیت پسندی کی شروعات ہوئی. حکومت کی یوگ مایا اور ان کے مقلدوں کی طرف زیادتی اور اپنے بدعنوان طور طریقوں کو سدھارنے میں ہچکچاہٹ کی وجہ سے یوگ مایا اور ان کے 67 مقلدوں نے 1941ء دریائے ارون میں کود کر تاریخ نیپال کی سب سے بڑی جل سمادھی کی.[4] جنوری 2016ء میں ان کی شراکت کے لیے حکومت نیپال نے ان کے نام پر ایک ڈاک ٹکٹ جاری کی.

سوانح ترمیم

ابتدایی زندگی اور خاندان (1867ء – 1872ء) ترمیم

یوگ مایا 1867ء میں مجھوا بیسی، نیپالے ڈانڑا میں ایک براہمن خاندان میں پیدا ہوئی تھیں. وہ والد شری لال اپادھیائے اور والدہ چندر کلا نیوپانے کے تین اطفال میں سے پہلی اور اکلوتی بیٹی تھیں.[1]

اس وقت میں رائج براہمن رسموں کے مطابق سات سال کی عمر میں یوگ مایا کی منورتھ کوئرالا سے شادی کروائی گئی لیکن انھیں اپنی سسرال میں ہم آہنگ کرنے میں بہت مشکل ہوئی اور مانا جاتا ہے کہ وہ گھریلو تشدد کی شکار تھیں. اپنی نوعمری میں وہ اپنی شدید سسرال کو چھوڑ کر اپنے مائکے رشتے لوٹ گئیں۔ حالانکہ ان کے والد نے انھیں پہلے گھر میں استقبال کرنے سے انکار کر لیا، سسرال نے یوگ مایا کو استقبال نہ کرنے کے بعد انھوں نے اپنی بیٹی کو اپنے گھر میں پھر سے جگہ دی.

یوگ مایا کے شوہر منورتھ کوئرالا کی پیشانی کے بارے میں دو الگ رائے ہیں۔ مقبول رائے کے مطابق 10 سال کی عمر میں منورتھ کی وفات کے بعد یوگ مایا بیوہ بن گئیں اور اپنی بیوگی کی وجہ سے ہی انھیں اپنی سسرال چھوڑنے کی ہمت ملی.[4] جدید ادب میں پائی جانے والی رائے کے مطابق یوگ مایا کے گھر چھوڑنے کے بعد منورتھ نے دوسری شادی کر لی.[5]

آسام کی طرف ہجرت اور دوسری شادی (1872ء – 1917ء) ترمیم

اپنی نوعمری میں اس وقت کے تقلیدی اور جابرانہ براہمن معاشرہ میں ایک مجرد عورت ہونے کے باوجود یوگ مایا اندر ہی اندر پڑوس کے کنڑیل خاندان کے ایک براہمن لڑکے کے ساتھ موحبت کرنے لگیں. ہندو مذہب میں دوسری شادی متنازع ہونے کی وجہ سے انھوں نے بھوجپور میں اپنے گھر چھوڑ کر آسام میں اپنے عاشق سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا. مانا جاتا ہے کہ ایک دہائی ساتھ رہنے کے بعد یوگ مایا نے اپنے دوسرے شوہر سے طلاق کر اپنی بیٹی کے ساتھ چلی گئیں۔ کچھ مصادر میں یوگ مایا کے دوسرے شوہر کی وفات کو شادی ٹوٹنے کی وجہ کہا گیا ہے لیکن دوسرے مصادر کے مطابق آپسی ناچاقی کی وجہ سے رشتہ ٹوٹا تھا۔ کچھ مصادر کے مطابق اپنے دوسرے شوہر کی وفات کے بعد یوگ مایا نے ڈوٹیل خاندان کے آدمی سے شادی کر لی. یہ عیاں نہیں ہے کہ یوگ مایا کی کتنی بیٹیاں تھیں لیکن ان کی بیٹی کے طور پر نینکلا نیوپانے کی ہستی کا اندراج پایا گیا ہے.[6][7]

سنیاس اور نیپال میں واپسی (1917ء) ترمیم

شادی اور دنیاوی امور سے تنگ آ کر یوگ مایا نے دست برداری کی راہ پر چل کر سنیاسی بننے کا فیصلہ کیا. حالانکہ اس وقت میں آدمیوں کو سنیاس لیتے دیکھنا ایک عام بات تھی، زیادہ عورتیں سنیاس نہیں لیتی تھیں. سنیاسی بننے کے بعد یوگ مایا ا نیپال کے مجھوا بیسی میں اپنے گھر لوٹ کر اپنی بیٹی نینکلا کو اپنے بھائی اگنی دھر اور بہو گنگا کو سونپ دیا۔ ایسے انھوں نے اپنی دنیاوی ذمہ داریوں کی دست برداری کر کر سنیاسی زندگی کو اپنا لیا. اسی وقت یوگ مایا نے اپنی مذہبی شاعری کی شروعات کی. یوگ مایا کی پہلی نظموں کی تحلیل سے پتا چلتا ہے کہ ان پر اصلاح پسند ہندو قائد دیانند سرسوتی کا گہرا اثر تھا.[7]

نیپال میں سنیاسی یاترا (1917ء – 1918ء) ترمیم

بعد میں یوگ مایا نے نیپال کے مختلف علاقوں میں اپنی سنیاسی یاترا کی شروعات کی جس کے دوران انھوں سورگ دواری مہا پربھو ابھیانند ثانیہ جیسے مختلف مقبول مذہبی قائدوں سے ملنے کا موقع ملا. یاترا کے بعد یوگ مایا نے اپنے گاؤں لوٹ کر اپنی سادھنا میں مگن ہونے کا فیصلہ کیا.[7]

مجھوا بیسی میں واپسی، مقبولیت اور مقامی جاگیرداروں کی مخالفت (1918ء – 1930ء) ترمیم

یوگ مایا اپنی سادھنا کے دوران گرمی میں آگ کے سامنے دھیان کرنے اور سردی میں غاروں میں پتلے کپڑے پہن کر دھیان کرنے جیسی مشکل تکنیکوں کا عمل کرتی تھیں. کبھی کبھی وہ بنا کھائے صرف پانی پی کر دھیان کرتی تھیں. باقی کے وقت میں وہ اپنے رشتے داروں اور لوگوں کے ساتھ مل کر انھیں اپنی شاعری سناتی تھیں جن سے الہامی ہو کر ان کے مقلدوں کی تعداد تیزی سے بڑھنے لگی. بھیم بہادر بسنیت نام کے ان کے مقلدوں میں سے ایک آدمی نے یوگ مایا کے لیے ایک آشرم کی تعمیر کی اور بعد میں سکم سے ان کی شاعری کی ایک کتاب چھپوائی.

ان کے نیپالی ہندو معاشرہ میں موجود نا انصافی کو دیکھنے کے نظریہ پر سنیاس سے پہلے بھوگی گئی زیادتی کا بھاری اثر تھا۔ ہندو روحانیات کی مقلدہ ہونے کے باوجود وہ مانتی تھیں کہ اس دور میں رائج پدر شاہی معاشرہ میں خواتین، دلت اور نیپال کی پاس منظر میں غریبوں پر امتیازی سلوک کیا جاتا تھا۔ اپنی شاعری کے ذریعے وہ انھوں نے بھوجپور کی عوام میں عقل پھیلانے کی کوشش کی اور کچھ حد تک اپنی کوشش میں کامیاب بھی رہیں. ان کی شاعری کی چھپائی کے بعد دارجلنگ اور کاٹھمانڈو جیسی دور رہی جگہوں سے بھی لوگ ان کے مقلد بننے پہنچے.

حالانکہ یوگ مایا کی تعلیمات سے کئی مظلوم گرہیں الحانی ہوئے، بسنیت گھرانے کے جاگیرداروں اور کاٹھمانڈو میں مرکزی حکومت کے نزدیک رہنے والے لوگوں نے انھیں پدر شاہی حکومت کا دشمن ماں کر ان کی مخالفت کرنا شروع کیا. آخر کار ان کی مقبولیت کی وجہ سے انھوں نے رانا خاندان کا بھی توجہ حاصل کی.[4][7]

ریاست سے رابطہ (1930ء – 1936ء) ترمیم

یوگ مایا مانتی تھیں کہ عام عوام کو ہندو مت کے تعاقب پر زور دینے کے باوجود حکومت خود دھرم کی راہ میں چلنے میں ہچکچا رہی تھی جس کی وجہ سے بدعنوانی کی افزائش کے ساتھ ہی عوام کی کیفیت حیات کی تخفیف ہو رہی تھی. انھوں نے اپنی نظموں میں بدعنوانی پر ٹکی حکومت کی تنقید کی تھی جو اپنے ہی ملک کی عوام کو بنیادی حقوق انسان دینے سے انکار کر رہی تھی. اپنی رائے کے فروغ کرنے کے ساتھ ہی کاٹھمانڈو میں رہے ناظموں کو حقوق کی مانگ کرنے کے لیے یوگ مایا نے 1931ء میں اپنے مقلد پریم ناراین بھنڈاری، جو بعد میں ہرے رام پربھو کے نام سے جانے جانے لگے، کو کاٹھمانڈو بھیجا. ہم عصر وزیر اعظم جدھ شمشیر رانا نے بھنڈاری سے ملنے کا فیصلہ کر کر یوگ مایا کو اپنے طور طریقے بلدلنے کا قول کیا لیکن پیش آئند چار سالوں میں بھی نظاموں نے بدعنوانی پر روک لگانے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا. کاٹھمانڈو میں رہے نظاموں کے رویے سے اداس یوگ مایا نے 1936ء میں پھر سے بھنڈاری کو کاٹھمانڈو بھیجا اور اس کے بعد خود اپنی بیٹی کے ساتھ کاٹھمانڈو گئیں۔ اپنے سفر کے دوران جدھ شمشیر نے خود ان کا استقبال کر کر پوچھا کی انھیں کیا چاہیے، جس کے جواب کے طور پر انھوں نے سچے دھرم کی بھیکہ مانگی. وزیر اعظم نے پھر سے یوگ مایا کو تسلی دی لیکن بدعنوانی پر روک لگانے کے لیے کچھ نہیں کیا. وادئ کاٹھمانڈو سے واپس جانے کے بعد یوگ مایا نے وزیر اعزم کو 24 چیزوں کی فہرست دی جس میں وہ اصلاح دیکھنا چاہتی تھیں. اس فہرست کی وجہ سے جدھ شمشیر اور ان کے مقلد یوگ مایا کو اپنی سیاسی تنظیم کے لیے خطرہ ماننے لگے اور انھوں نے اسی سال یوگ مایا کو بھوجپور بھجوانے کی تیاری کروائی.[1][7]

ریاست سے عدم اطمینان اور چتا پر خودکشی کی دھمکی (1936ء – 1939ء) ترمیم

خاص طور پر تحریک آزادی ہند سے الہامی نیپالی اوم 1930ء کی دہائی میں رانا راج کے خلاف آواز اٹھانے لگے تھے۔ جواب کے طور پر حکومت نے نقیض کے لیے کڑی سزا کا بندوبست کیا. یوگ مایا اور ان کے مقلدوں کی اصلاح کی مانگوں کو بار بار ان دیکھا کر کر یوگ مایا کے گروہ کی حرکات پر بھی کڑی نظر لگائی گئی۔ 1935ء میں یوگ مایا نے کھلے عام بدنوں اور ظالم  نظاموں کی مخالفت کرنا شروع کیا. انھوں نے نیپالی معاشرہ میں موجود نا انصافی، خرافات اور بدعنوانی کو ختم کر کر ایک نئے عہد کی شروعات کرنے کی اہمیت کا اعلان کیا. انھوں نے اپنے موکش کی طرف کی نزدیکی کے بارے میں بتاتے ہوئے خود کو ایشور کے حوالے کرنے کے فیصلہ کا اعلان کیا.

جدھ شمشیر کی جھوٹھی تسلیوں کو وجہ بتا کر یوگ مایا نے اپنے 240 خواہش مند مقلدوں کے ساتھ چتا میں جل کر اگنی سمادھی کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنے مقلدوں کو کارتک شکل پورنما تک عوام سے بخشش قبول کرنے کی اجازت دی. انھوں نے دھنکٹا ضلع کے ہم عصر نظام مادھو شمشیر اور جدھ شمشیر سے بھی بخشش کی مانگ کی.

ایک بار پھر حکومت کی زیادتی سہنے کے بعد یوگ مایا نے 12 نومبر 1938ء کو خود کی بلی دینے کا فیصلہ کر کر اسی کے مطابق تیاری کرنے لگیں.[1][8]

ریاست کی طرف سے مداخلت اور یوگ مایا کے مقلدوں کی گرفتاری (1939ء – 1941ء) ترمیم

اجتماعی خودکشی ہونے کے بعد ہونے والی اجتماعی تنقید کے حول سے جدھ شمشیر نے 11 نومبر کو 500 سپاہیوں کو بھیج کر سمادھی روکنے کا حکم دیا جس کے بعد 11 مرد مقلدوں کو دھنکٹا میں قید خانے میں رکھا گیا جبکہ یوگ مایا اور نینکلا کے ساتھ خواتین کو بھوجپور میں رادھا کرشن مندر میں رکھا گیا۔ نظاموں نے خواتین کو تین مہینے بعد قید سے رہا کر دیا جبکہ زیادہ تر مردوں کو تین سال بعد اپریل 1941ء میں رہا کیا گیا.[1]

جل سمادھی (1941ء) ترمیم

رہائی کے بعد یوگ مایا نے پھر سے خود کی بلی دینے کا منصوبہ بنایا لیکن اس بار انھوں نے اپنے منصبوں کو پوشیدہ رکھنے کا حکم دیا۔ انھوں نے دیو شینی اکادشی کے دن 5 جولائی 1941ء کو سمادھی میں جانے کا فیصلہ کیا اور اپنے ساتھ خود چنے لوگوں کو آنے کی اجازت دی. جل سمادھی کے لیے مذہبی رسم 4 جولائی 1941ء میں شروع ہوئیں. 5 جولائی کو صبح 5 بجے یوگ مایا نے اپنے سر پر جلتے دیے رکھ کر دریائے ارون میں کود کر اجتماعی خودکشی کی شروعات کی. ان کے بعد اس دن ان کے 65 مقالی اور دوسرے دن دو اور مقلد ندی میں کود کر سمادھی ختم ہوئی. آخر کار جل سمادھی میں کل 68 لوگوں کی موت ہوئی.[1][4][9]

ورثہ ترمیم

یوگ مایا اور ان کی بیٹی نینکلا ان پڑھ تھیں. ان کی نظموں تالیف اور چھپائی ان کے پڑھے لکھے مقلدوں نے کیا تھا.[10] در حقیقت یوگ وانی کو ان کی شاعری کا ایک چھوٹا حصہ مانا جاتا ہے جو انھوں نے اپنی جل سمادھی کے سال تک لکھنا جاری رکھا.

1951ء میں رانا راج کے خاتمہ تک یوگ مایا اور ان کی جل سمادھی متعلقہ خبروں پر قدغن لگوایا گیا تھا لیکن کثیر جماعتی جمہوری دور اور نیپالی پنچایت دور میں بھی یوگ مایا کی تخلیقات کی چرچا کو بد دل کیا جاتا تھا۔ پھر بھی بھوجپور، کھوٹانگ اور سنکھوا سبھا میں پھیلے مقلدوں نے ان کی تخلیقات کے پھیلاؤ کو نہیں چھوڑا. یوگ مایا کی کچھ مقلد خواتین ٹملنگ ٹار کے منکامنا مندر میں بھی رہتی تھیں.

پنچایت دور میں پردیسیوں کو نیپال میں آنے کی اجازت ملنے کے بعد انھوں نے یوگ مایا کی باز پرس کی شروعات کی. 1980ء کی دہائی میں باربرہ نمری عزیز اور مائکل ہٹ جیسے مغربی عالموں نے یوگ مایا پر مبنی اپنی تخلیقات شائع کی.[8][9][11]

یوگ مایا متعلقہ موضوعات کو نیپال کی مختالف جامعات میں عمرانیات، بشریات اور مطالعہ نسواں جیسی صنیفات میں شامل کیا گیا ہے۔

یوگ مایا کی تخلیقات کی فروغ اور ان کی سنیاسی زندگی متعلقہ نیپالے ڈانڑا اور دنگلا جیسی جگہوں کے تحفظ کے لیے ان کے رشتے داروں اور مقامی عوام نے مل کر یوگ مایا شکتی پیٹھ تپو بھومی ترقیاتی تنظیم کی تاسیس کی ہے.[12]

16 نومبر 2016ء کو حکومت نیپال نے تاریخ نیپال میں یوگ مایا کی شراکت کے لیے ایک ڈاک ٹکٹ جاری کی.[13]

مصنفہ نیلم کارکی نہارکا کو یوگ مایا کی زندگی پر مبنی ناول لکھنے کے لیے 2018ء میں مدن اعزاز ملا. بعد میں نیپالی ناٹک نگار ٹنک چولاگائیں نے اس ناول پر مبنی ایک ناٹک لکھا جسے جن 2019ء میں کاٹھمانڈو کی شلپی تھئیٹر میں پیش کیا گیا تھا.

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب پ ت ٹ ث لیکھ ناتھ بھنڈاری (13 جولائی 2013ء)۔ "Courageous Reformer"۔ ای کانتیپور۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 مارچ 2016ء – کانتیپور ڈیلی سے  [مردہ ربط]
  2. کیتھلین ایم نادو، سنگیتا رایماجھی (11 جون 2013ء)۔ Women's Roles in Asia (بزبان انگریزی)۔ ای بی سی۔ ISBN 9780313397493 
  3. "In focus: Yogmaya, who gave her life fighting Rana atrocities"۔ کاٹھمانڈو پوسٹ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 مارچ 2016ء 
  4. ^ ا ب پ ت بندا پانڈے (2011ء)۔ Women Participation In Nepali Labour Movement۔ نیپال: زی فانٹ نیپال۔ صفحہ: 21۔ ISBN 99933-329-2-5 
  5. "योगमाया बाल विधवा थिइनन् !"۔ بارہ کھری (بزبان نیپالی)۔ 28 جنوری 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 7 مئی 2020ء 
  6. "NEPAL: Yogmaya Neupane: Nepal's First Female Revolutionary"۔ پیس ومین (بزبان انگریزی)۔ 3 فروری 2015ء۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 فروری 2019ء 
  7. ^ ا ب پ ت ٹ دکتور کیدار نیوپانے (2014)۔ ओजस्वी नारी योगमाया न्यौपाने र उनको सम्बन्धका आयामहरू (जीवनवृत्त र योगदानका प्रसङ्गहरू)۔ کاٹھمانڈو: नेपाल स्रष्टा समाज۔ صفحہ: 15–21۔ ISBN 9937-2-6977-6 
  8. ^ ا ب باربرہ نمری عزیز (2001ء)۔ Heir to a Silent Song: Two Rebel Women of Nepal۔ کاٹھمانڈو: سی این اے ایس۔ صفحہ: 33–72۔ ISBN 99933-52-13-6 
  9. ^ ا ب "Lecture Series XLIX—Michael Hutt: 'The Iconisation of Yogmaya Neupane'"۔ ساکس باہہ۔ 15 اپریل 2016ء میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 مارچ 2016ء 
  10. "Women Writers of Nepal"۔ جگدیش رانا۔ 3 مئی 2016ء میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 مارچ 2016ء 
  11. باربرہ نمری عزیز (1993)۔ Shakti Yogmaya: A tradition of dissent in Nepal۔ زیورخ: جامعہ زیورخ لوک عجائب خانہ۔ صفحہ: 19–29 
  12. "Yogamaya"۔ فیس بک۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 مارچ 2016ء 
  13. "योगमाया - हुलाक सेवा विभागले योगमायाको नाममा यस वर्ष..."۔ فیس بک۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 مارچ 2016ء