مہارشی دیانند سرسوتی audio speaker iconتلفظ  (12 فروری 1824ء – 30 اکتوبر 1883ء) ایک ہندوستانی مذہبی رہنما اور ویدک دھرم کی ایک ہندو اصلاحی تحریک، آریہ سماج کے بانی تھے۔ وہ ویدی روایات کے علم اور سنسکرت زبان کے ممتاز اسکالر تھے۔ وہ پہلے شخص تھے جنھوں نے کہا کہ ”ہندوستان ہندوستانیوں کے لیے“ ہے اور 1876ء میں ہندوستان میں سوراج (حکومت خود اختیاری) کے لیے آواز بلند کی، بعد میں ”سوراج“ کے لیے لوکمنیہ تلک نے کام کیا۔[2][3] اس وقت ہندو مت میں رائج بت پرستی اور رسمی عبادتوں (پوجا) کی مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ انھوں نے ویدک نظریات کو بحال کرنے کی کوشش کی۔ فلسفی اور صدر بھارت، سروپلی رادھا کرشنن نے ان کو ”بھارت کے بنانے والوں“ میں سے ایک کہا، اس سے پہلے اروند گھوش بھی ان کو یہی کہہ چکے تھے۔[4][5][6]

دیانند سرسوتی
دیانند سرسوتی
ذاتی
پیدائش
مُل شنکر تیواری یا مل شنکر کرسنداس تیواری /شدھ چیتنیہ بطور برہماچاری

12 فروری 1824(1824-02-12)
وفات30 اکتوبر 1883(1883-10-30) (عمر  59 سال)[1]
مذہبہندومت
قومیتہندوستانی
بانئآریہ سماج
فلسفہویدانت
مرتبہ
گروسوامی ورجانند
ادبی کامستیارتھ پرکاش (1875)

وہ جو دیانند کے پیروکاروں اور ان سے متاثر ہوئے ان میں بیکھاجی کاما، پنڈت لیکھ رام، سوامی شردھانند، پنڈت گرو دت دیارتی،[7] شیام جی کرشنا ورما، ونایک دامودر ساورکر، لالہ ہردیال، مدن لال ڈھینگرا، رام پرساد بسمل، مہادیو گوند رانڈے، اشفاق اللہ خان[8] مہاتما ہنس راج، لالہ لاجپت رائے،[9][10] اور دیگر شامل ہیں۔ ان کی ایک تحریر کردہ ذی اثر کتاب ستیارتھ پرکاش نے تحریک آزادی ہند میں مدد کی۔

وہ لڑکپن سے سنیاسی اور اسکالر تھے۔ ان کا عقیدہ تھا کہ وید خطاؤں سے پاک ہیں۔ مہارشی دیانند نے نیوگ, کرم اور تناسخ کے نظریہ کی حمایت کی۔ انھوں نے برہماچاریہ کے ساتھ ساتھ تجرد اور خدا سے عقیدت رکھنے کے ویدک تصورات پر زور دیا۔

مہارشی دیانند کے اہم کاموں میں سے ایک خواتین کے برابر حقوق (مثلاً تعلیم حاصل کرنے کا حق) کی ترغیب دینا ہے۔

سنہ 1833ء میں جودھ پور کے مہاراجا سوامی جسونت سنگھ دوم نے دیانند کو اس کے محل آ کر رہنے کی دعوت دی۔ مہاراجا دیانند کا شاگرد بننے اور ان کی تعلیمات سیکھنے کے لیے بے قرار تھا۔ محل میں رہنے کے دوران میں دیانند مہاراجا کے آرام کے کمرے میں گئے اور اس کے ساتھ ایک ناچنے والی لڑکی ”ننھی جان“ کو دیکھا۔ دیانند نے مہاراجا کو لڑکی کو اور تمام غیر اخلاقی کاموں کو چھوڑنے اور ایک سچے آریہ کی طرح دھرم پر عمل کرنے کو کہا۔ دیانند کی تجویز ننھی کو بہت بری لگی اور اس نے بدلہ لینے کا فیصلہ کیا۔[1]

29 ستمبر 1883ء کو ”ننھی جان“ نامی ناچنے والی نے دیانند کے باورچی کو رشوت دے کر اس کے رات کے دودھ کے گلاس میں نہایت چھوٹے چھوٹے شیشے کے حصے ملوا دیا۔[11] جس سے ان کے پیٹ میں زخم ہو گئے اور وہ وفات پا گئے۔خواجہ غلام حسنین نے سوامی دیانند کی موت سے متعلق تین کہانیوں پرتفصیلی دلائل سے بات کرتے ہوئے لکھا کی ان کی موت زہر سے نہیں ہوئی تھی۔[12]

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب Dr.Krant'M.L.Verma Swadhinta Sangram Ke Krantikari Sahitya Ka Itihas (Volume-2) Page-347
  2. Aurobindo Ghosh, Bankim Tilak Dayanand (Calcutta 1947 p1)"Lokmanya Tilak also said that Swami Dayanand was the first who proclaimed Swarajya for Bharatpita i.e.India."
  3. Dayanand Saraswati Commentary on Yajurved (Lazarus Press Banaras 1876)
  4. Radhakrishnan، S. (2005). Living with a Purpose. Orient Paperbacks. ص. 34. ISBN:81-222-0031-1.تصنيف:صيانة الاستشهاد: استشهادات بمسارات غير مؤرشفة
  5. Kumar، Raj (2003). "5. Swami Dayananda Saraswati: Life and Works". Essays on modern Indian Abuse. Discovery Publishing House. ص. 62. ISBN:81-7141-690-X.تصنيف:صيانة الاستشهاد: استشهادات بمسارات غير مؤرشفة
  6. Salmond، Noel Anthony (2004). "3. Dayananda Saraswati". Hindu iconoclasts: Rammohun Roy, Dayananda Sarasvati and nineteenth-century polemics against idolatry. Wilfrid Laurier Univ. Press. ص. 65. ISBN:0-88920-419-5.تصنيف:صيانة الاستشهاد: استشهادات بمسارات غير مؤرشفة
  7. "Gurudatta Vidyarthi"۔ Aryasamaj۔ 06 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 19 دسمبر 2012 
  8. "Mahadev Govind Ranade: Emancipation of women"۔ Isrj.net۔ 17 May 1996۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 ستمبر 2012 
  9. "Lala Lajpat Rai"۔ culturalindia.net۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 14 جنوری 2016 
  10. Lala Lajpat Rai (Indian writer, politician and Escort) - دائرۃ المعارف بریٹانیکا
  11. World Perspectives on Swami Dayananda Saraswati By Gaṅgā Rām Garg :pp 96-98
  12. "خواجہ غلام حسنین ،سوامی جی کا مرض الموت اور انتقال ، کتاب -سوامی دیانند اور ان کی تعلیم(موسوم باسم تاریخی ، تاریخ اہل زمانہ ، صفحہ ٢٦٣"۔ www.archive.org 

مزید پڑھیے

ترمیم

بیرونی روابط

ترمیم