2015ء بڈھ بیر چھاؤنی حملہ
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا میں بڈھ بیر چھاؤنی پر جمعہ 18 اگست 2015ء کو صبح کے وقت 13 عسکریت پسندوں نے حملہ کیا، جسے پاکستانی فوج کے جوانوں نے ناکام بنا دیا اور سارے عسکریت پسند مارے گئے، کل 43 افراد ہلاگ ہوئے، جن میں 26 فوجی اہلکار اور 4 عام شہریوں کے علاوہ 13 حملہ آور بھی شامل ہیں۔ حملہ آوروں نے خودکش جاکٹ بھی پہنے ہوئے تھے لیکن وہ پاکستانی فوجیوں کے فائرنگ سے ہلاک ہوئے۔ پاک فوج کے ادارے بین الخدماتی تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق دہشت گرد افغانستان سے پاکستان میں داخل ہوئے اور ان کی تربیت بھی افغان سرزمین پر ہوئی۔ دہشت گردوں نے پشاور کے علاقے بڈھ بیر پر یہ حملہ کیا جو افغان سرحد سے 48 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔
2015ء بڈھ بیر چھاؤنی حملہ | |||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|
سلسلہ سلسلہ پاکستان میں باغیانہ حملے | |||||||
| |||||||
مُحارِب | |||||||
| تحریک طالبان پاکستان (خوراسانی گروہ) | ||||||
ہلاکتیں اور نقصانات | |||||||
29 جاں بحق |
کارروائی میں مارے جانیوالوں: 13 دہشت گرد | ||||||
پس منظر
ترمیمپاکستان مسلح افواج نے شمال مغرب پاکستان میں شمالی وزیرستان کے علاقے میں کہیں کالعدم تنظیموں کیخلاف آپریشن ضرب عضب شروع کیا ہے۔ 2009ء کے بعد تحریک طالبان نے سوات اور دیر کے کچھ علاقوں پر قبضہ کیا تھا جس کے بعد ان علاقوں کا کنٹرول طالبان کے ہاتھوں میں تھا۔ اس کے بعد پاکستان مسلح افواج نے تین چار آپریشن (آپریشن راہ راست، آپریشن راہ نجات،آپریشن راہ حق وغیرہ) کیے جس کے بعد متاثرہ علاقوں میں واپس ریاستِ پاکستان کی رڈ بحال ہوئی۔ 8 جون 2014 کو کراچی ایئرپورٹ پر حملہ ہوا جس میں 21 نہتے شہری جاں بحق ہوئے، حملے کے بعد تحریک طالبان پاکستان نے حملے کی ذمہ داری قبول کرلی۔ اس حملے کے بعد ملک کے بیشتر حصوں میں ریاستی اداروں نے چھوٹے بڑے آپریشنز کیے لیکن شمالی وزیرستان جو بہت سے دہشت یا کالعدم گروپوں کا گڑھ سمجھا جاتا تھا، کو دہشت گردی سے پاک کرنے کیلے آپریشن ضرب عضب شروع کیا گیا۔ طالبان نے کہیں حملوں کو آپریشن ضرب عضب کا رد عمل قرار دیا ہے۔
بیس
ترمیمیہ بیس (چھاؤنی) پشاور مرکزی شہر سے 6 کلومیڑ کے فاصلے پر نواحی علاقے بڈھ بیر میں واقع ہے،فی الحال یہ بیس پاک فضائیہ کے لیے بطور تربیت گاہ (ٹریننگ سنٹر) استعمال ہوتا ہے۔
حملہ اور بعد کے حالات
ترمیمڈی جی آئی ایس پی آر عاصم سلیم باجوہ کا کہنا ہے کہ
” | دہشت گردوں نے دو گیٹ استعمال کیے۔ دہشت گرد ایک گاڑی میں آئے اور انہوں نے راکٹ لانچر،گرنیٹ وغیرہ استعمال کیے۔ جیسے ہی حملہ آور پہلے گیٹ سے داخل ہوئے سیکیورٹی گارڈز نے دلیری سے ان کا مقابلہ کیا۔ اس کے بات یہ حملہ آور گروہ دو حصوں میں تقسیم ہوا۔ بیس کے ایک طرف مسجد واقع تھا جس میں نمازیوں نے سنت ادا کیے تھے اور جماعت پڑھنے میں کچھ وقت تھا۔ اسی وقت حملہ آوروں نے گرنیٹ سے حملہ کیا جس سے بہت سے لوگ شہید ہوئے۔ کوئیک رسپانس فورس نے دہشت گردوں کو 50 میٹر کے اند محدود رکھا اور ان کو اس سے باہر کارروائی نہیں کرنے دی۔ اطلاعات کے مطابق اس حملے کی منصوبہ بندی افغانستان کی سرزمین پر ہوئی، دہشت گرد افغانستان سے ہی پاکستان میں داخل ہوئے | “ |
سانحے کے بعد پاک فوج کے سپہ سالار جنرل راحیل شریف اور پاک فضائیہ کے سربراہ سہیل امان پشاور پہنچ گئے اور انھوں نے زخمیوں کا حال احوال پوچھا اس کے بعد دونوں سربراہان نے ملاقات کی جس میں اس سانحے پر تبادلۂ خیال کیا گیا۔ وزیر اعظم پاکستان بھی زخمیوں کی عیادت کرنے سی ایم ایچ پشاور پہنچے۔
ذمہ داری
ترمیممیڈیا کے مطابق حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان کے خراسانی گروپ نے قبول کرلی ہے ۔[1]ڈی جی آئی ایس پی آر عاصم سلیم باجوہ کا کہنا ہے کہ حملہ آور افغانستان سے آئے تھے۔