عاصم سلیم باجوہ
لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ ایک تھری اسٹار پاکستانی فوجی جنرل ہیں جو جنرل ہونے کے ساتھ ساتھ پاک فوج کے جنرل ہیڈ کوارٹر میں بطور انسپکٹر جنرل آرمزبھی قومی و عسکری خدمات سر انجام دے رہے ہیں ۔
عاصم سلیم باجوہ | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
مقام پیدائش | صادق آباد |
عملی زندگی | |
مادر علمی | اسٹاف کالج، کیمبرلی کنگز کالج لندن پاکستان ملٹری اکیڈمی |
پیشہ | فوجی افسر |
عسکری خدمات | |
شاخ | پاک فوج |
عہدہ | لیفٹیننٹ جنرل |
اعزازات | |
درستی - ترمیم |
حالات زندگی
ترمیمابتدائی حالات
ترمیم5 ستمبر 1959ء کو مظفر گڑھ میں پیدا ہوئے، "لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) عاصم سلیم باجوہ"، ان کے پانچ بھائی اور تین بہنیں جنوبی پنجاب کے ایک چھوٹے سی مڈل کلاس فیملی میں پیدا ہوئے۔
خاندان
ترمیمان کے والد "محمد سلیم باجوہ" پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر تھے جنھوں نے 1950ء میں ایک سرکاری ہسپتال میں نوکری شروع کی اور بعد ازاں 1960ء میں صادق آباد، پنجاب کے ایک چھوٹے سے پرائیویٹ ہسپتال "ملت ہسپتال" میں ملازمت اختیار کی۔ 26 ستمبر، 1976ء کو "کراچی ایکسپریس ٹرین" میں سفر کر دوران ان کو گولی مار کر قتل کر دیا گیا۔ موت کے بعد انھوں نے اپنے اثاثہ جات میں چند ایکڑ زرعی زمین، صادق آباد میں ایک گھر، چند دکانیں اور ایک فارماسوٹیکل کمپنی میں کچھ شیئرز چھوڑے تھے۔ "لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) عاصم سلیم باجوہ" اور ان کے باقی بہن بھائی اس وقت چھوٹے بھی تھے اور اپنے پیروں پر کھڑے بھی نہیں ہوئے تھے، لہذا ان کی کفالت کی ذمہ داری ان کے چچا نے اٹھائی۔ دو بڑے بھائیوں "تنویر سلیم باجوہ" اور "طالوت سلیم باجوہ" نے اپنے مرحوم والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے میڈیکل کی تعلیم مکمل کی اور ڈاکٹر بننے کے بعد پنجاب کے مختلف شہروں میں اپنے فرائض سر انجام دیتے رہے۔ تیسرے بھائی "عاصم سلیم باجوہ" نے 1984ء میں بطور "سکینڈ لیفٹیننٹ" فوج میں شمولیت اختیار کی جبکہ دو چھوٹے بھائی "ندیم سلیم باجوہ" اور "فیصل سلیم باجوہ" 1990ء کے اوائل میں پنجاب یونیورسٹی سے اپنی تعلیم مکمل کرنے کے بعد روزگار کی تلاش میں امریکا منتقل ہو گئے۔ آخر میں سب سے چھوٹے بھائی "عبد الملک سلیم باجوہ" بھی 2002ء میں بسلسلہ روزگار امریکا منتقل ہو گئے۔[1]
عسکری ملازمت
ترمیمباجوہ نے 1984میں فوج میں کمیشن حاصل کیا۔ آپ کمانڈ اینڈ سٹاف کالج، کوئٹہ اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی، اسلام آباد سے فارغ التحصیل ہیں۔ آپ نے نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی، اسلام آباد سے وار سٹڈیز میں اور کنگز کالج لندن سے ڈیفنس سٹڈیز میں ایم کی ڈگریاں حاصل کیں۔
جنرل عاصم سلیم باجوہ جون 2012 سے دسمبر 2016 تک ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر (بین الخدماتی تعلقات عامہ) خدمات سر انجام دے رہے تھے۔ آپ فوج کے وہ واحد افسر ہیں جو ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر کے عہدہ سے ریٹائرڈ ہونے سے پہلے جنرل ہیڈ کوارٹر میں پوسٹ ہوئے ہیں۔
جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ ڈائیریکٹر جنرل آئی ایس پی آر اور پھر کمانڈر سدرن کمانڈ بلوچستان تھے
جنرل (ر) عاصم باجوہ چین کے تعاون سے چلنے والے بہت بڑے انفراسٹرکچر کے منصوبے چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) کے چئیرمین اور وزیر اعظم عمران خان کے معاون خصوصی رہے ہیں۔[8] فردوس عاشق اعوان کی جگہ 27 اپریل 2020 کولیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ معاون خصوصی برائے اطلاعات تعینات کیے گئے،
1984 – 2001
ترمیمعاصم باجوہ: فوج میں سیکنڈ لیفٹیننٹ سے لیفٹیننٹ کرنل بنے-[8]
2002 — 2008
ترمیمعاصم باجوہپرویز مشرف کے ساتھ ان کے اسٹاف آفیسر اور پھر کمانڈر ٹرپل ون بریگیڈ بنے۔[8]
2009 — 2011
ترمیمعاصم باجوہ: مشرف کے کام کرنے کے بعد بطور برگیڈئیر ایک کور کمانڈر کے اسٹاف آفیسر اور پھر میجر جنرنل کے عہدے پر ترقی کے بعد جی او سی ڈیرہ اسماعیل ڈسٹرکٹ کمانڈر تعینات رہے۔[8]
2012 — 2016
ترمیمعاصم باجوہ، ڈائیریکٹر جنرل آئی ایس پی آر کے عہدے پر تعینات [8]
2017 — 2020
ترمیمعاصم باجوہ، پہلے آئی جی آرمز اور پھر کمانڈر سدرن کمانڈ تعینات ہوئے۔[8]
عاصم باجوہ ستمبر ٢٠١٩ سے فوج سے ریٹائرڈ [8]
اعزازات
ترمیمجنرل عاصم سلیم باجوہ نے تمغا بسالت اور ہلال امتیاز جیسے اہم اعزازات حاصل کیے ہیں۔
تنازعات
ترمیمپاکستانی صحافی احمد نورانی نے جنرل عاصم سلیم باجوہ کے آمدنی سے زائد اثاثوں کا انکشاف کیا ۔ 27 اگست، 2020ء کو "فیکٹ فوکس" نامی ویب گاہ پر "احمد نورانی" کی ایک رپورٹ شائع ہوئی۔ ("فیکٹ فوکس" انویسٹیگیشن نیوز کی ایک ویب گاہ ہے جس کے تخلیق کار "احمد نورانی" خود ہیں)۔ یہ رپورٹ پاکستان کے سابق فوجی جنرل "لیفٹینینٹ جنرل (ریٹائرڈ) عاصم سلیم باجوہ" کے متعلق تھی جس میں "احمد نورانی" نے ان کے امریکا، کینڈا، متحدہ عرب امارات اور پاکستان میں موجود بزنس ایمپائر اور دیگر قیمتی اثاثوں کے بارے میں ہوش ربا انکشافات کیے۔ اس رپورٹ نے پاکستان کے حکومتی ایوانوں، سیاسی حلقوں، اسٹیبلشمنٹ، الیکٹرونک، پرنٹ اور سوشل میڈیا میں تہلکہ مچا دیا۔
باجکو گروپ
ترمیمرپورٹ کے مطابق "لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) عاصم سلیم باجوہ" کے دو بڑے بھائی "تنویر سلیم باجوہ" اور "طالوت سلیم باجوہ"، تین چھوٹے بھائی "ندیم سلیم باجوہ"، "فیصل سلیم باجوہ" اور "عبد الملک سلیم باجوہ"، ان کی بیگم "فرخ زیبا" اور ان کے تین بیٹے "محمد عاصم باجوہ"، "یوشا عاصم باجوہ" اور "عازب عاصم باجوہ" امریکا، کینڈا، متحدہ عرب امارات اور پاکستان میں ایک بہت بڑے بزنس ایمپائر کے مشترکہ مالکان ہیں۔ باجوہ فیملی کے اس مشترکہ بزنس ایمپائر کا نام "باجکو گروپ" ہے۔ یہ گروپ مجموعی طور پر 99 کمپنیوں کا مالک ہے، جن میں سے 76 کمپنیاں امریکا، 14 کمپنیاں پاکستان، 4 کمپنیاں کینیڈا اور 5 کمپنیاں متحدہ عرب امارات میں واقع ہیں۔ یہ تمام کمپنیاں "باجکو گروپ" کی ایک بڑی کمپنی "باجکو گلوبل مینیجمنٹ ایل سی سی" کی چھتری تلے کام کر رہی ہیں، جو 2007ء میں امریکا میں رجسٹرڈ کروائی گئی اور اس کا ایک "لائیزون آفس" بھی پاکستان میں رجسٹرڈ کروایا گیا۔
پاپا جونز اسکینڈل
ترمیمعلاوہ ازیں، امریکا میں پیزا کی چوتھی بڑی فرینچائز "پاپا جونز پیزا" اور مشہور آئس کریم، ڈیسرٹ اینڈ فاسٹ فوڈ "ڈیری کوئین" کی مجموعی طور پر 174 فرینچائزز (جن میں سے 133 فرینچائزز اس وقت آپریشنل ہیں) بھی "باجکو گروپ" کی ملکیت ہیں۔ آپریشنل 133 فرینچائزز کی کل مالیت تقریباً 39.9 ملین امریکی ڈالرز ہے۔ مزید براں، "باجکو گروپ" نے پچھلے 10 سال کے عرصے میں امریکا میں 13 کمرشل اور 5 ریڈینشل پراپرٹیز بھی خریدی ہیں، جن کی مجموعی مالیت تقریباً 14.5 ملین امریکی ڈالرز ہے۔ اس رقم میں سے 12.8 ملین امریکی ڈالرز "باجکو گروپ" نے صرف کمرشل پراپرٹیز خریدنے پر لگائی ہے، جن میں 2 شاپنگ مالز بھی شامل ہیں۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ "لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) عاصم سلیم باجوہ" کی اہلیہ اور ان کے تین بیٹے اب تک تقریباً 52.2 ملین امریکی ڈالرز اپنا بزنس ایمپائر بنانے اور تقریباً 14.5 ملین امریکی ڈالرز پراپرٹیز خریدنے پر خرچ کر چکے ہیں۔ سب سے زیادہ قابل ذکر ان کی اہلیہ "فرخ زیبا" ہیں، جو محض ایک عام سی گھریلو خاتون ہیں اور ان کا بزنس میں کوئی خاص تجربہ بھی نہیں ہے لیکن یہ شروع دن سے ہی "باجکو گروپ" سے وابستہ ہیں اور "باجکو گروپ" کی 99 کمپنیوں میں سے 85 کمپنیوں (جن میں سے 74 کمپنیاں امریکا، 4 کمپنیاں کینیڈا اور 4 کمپنیاں متحدہ عرب امارات میں واقع ہیں) کی شیئر ہولڈر ہیں۔ موجودہ وقت میں "باجکو گروپ" میں "فرخ زیبا" کا شیئر تقریباً 52.7 ملین امریکی ڈالرز بنتا ہے جو بلاشبہ ایک بہت بڑی انویسٹمنٹ ہے۔[1]
باجکو گروپ کی ویب گاہ پردی جانے والی کاروباری تفصیلات میں پاپا جونز پیزا ریسٹورنٹ کی امریکا اور کینیڈا میں صرف (اٹھاون) شاخوں کی تفصیلات دی گئی تھیں۔ [8]
ظاہر جائداد
ترمیماس حوالے سے قابل ذکر بات یہ ہے کہ 22 جون، 2020ء کو "لیفٹیننٹ جنرل (ریٹائرڈ) عاصم سلیم باجوہ" نے حکومت پاکستان کو بطور "سپیشل اسسٹنٹ ٹو پرائم منسٹر آن انفارمیشن اینڈ براڈ کاسٹنگ" اپنی جو "سٹیٹمینٹ آف ایسٹس اینڈ لائیبیلیٹیز" جمع کروائی تھی، اس میں انھوں نے اپنے یا اپنی بیوی اور بچوں کے نام بیرون ملک کسی بھی جائداد یا انویسٹمنٹ کی موجودگی کا ذکر نہیں کیا ہے، ۔[1]اس رپورٹ میں کیے گئے تمام دعوؤں کے تحریری ثبوت بھی فوکس کی ویب گاہ پر اپ لوڈ کیے گئے .
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب پ وقار احمد خان (23 اکتوبر 2020)۔ "پاپا جونز"۔ اردو کالمز ڈاٹ پی کے۔ اردو کالمز۔ اخذ شدہ بتاریخ 01-جون2023
- ↑ "South Asia :: Pakistan — The World Factbook"۔ un.org۔ CIA
- ↑ International Institute for Strategic Studies (14 فروری 2018)۔ The Military Balance 2018۔ Routledge۔ صفحہ: 291۔ ISBN 978-1-85743-955-7
- ↑ "Troops already in Saudi Arabia, says minister"۔ Dawn۔ 11 اپریل 2015۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 جون 2017۔
Our troops are already present in Tabuk and some other cities of Saudi Arabia.
- ↑ Baqir Sajjad Syed (22 اپریل 2017)۔ "Raheel leaves for Riyadh to command military alliance"۔ Dawn۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 جون 2017۔
Pakistan already has 1,180 troops in Saudi Arabia under a 1982 bilateral agreement. The deployed troops are mostly serving there in training and advisory capacity.
- ↑ Shamil Shams (30 اگست 2016)۔ "Examining Saudi-Pakistani ties in changing geopolitics"۔ Deutsche Welle۔ اخذ شدہ بتاریخ 8 جون 2017۔
However, security experts say that being an ally of Saudi Arabia, Pakistan is part of a security cooperation agreement under which about 1,000 Pakistani troops are performing an "advisory" role to Riyadh and are stationed in Saudi Arabia and other Gulf countries.
- ^ ا ب Nan Tian، Aude Fleurant، Alexandra Kuimova، Pieter D. Wezeman، Siemon T. Wezeman (27 اپریل 2020)۔ "Trends in World Military Expenditure, 2019" (PDF)۔ Stockholm International Peace Research Institute۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 اپریل 2020
- ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ عابدحسین۔ "احمد نورانی کے انکشافات پر مجرمانہ خاموشی"۔ متبادل-آئینہ-بلاگز۔ mutabadil۔ 01 جون 2023 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 01-Jun-2023