کاربن ڈائی آکسائڈ
کاربن ڈائی آکسائڈ (carbon dioxide) ایک ایسا کیمیائی مرکب (سالمہ) ہوتا ہے جو فحم (carbon) کے ایک اور آکسیجن کے دو عدد جواہر (atoms) سے ملکر تشکیل پاتا ہے؛ اس کو علم کیمیا میں علامتی طور پر CO2 لکھ کر ظاہر کیا جاتا ہے۔
| |||
نام | |||
---|---|---|---|
IUPAC name
Carbon dioxide
| |||
دیگر نام
Carbonic acid gas; carbonic anhydride; dry ice (solid)
| |||
شناخت | |||
رقم CAS | 124-38-9 | ||
بوب کیم (PubChem) | 280 | ||
مواصفات الإدخال النصي المبسط للجزيئات
|
|||
خواص | |||
مالیکیولر فارمولا | سانچہ:Co2 | ||
مولر کمیت | 44.0095(14) g/mol | ||
ظہور | colorless gas | ||
کثافت | 1,600 g/L, solid; 1.98 g/L, gas | ||
نقطة الانصهار | −57 °C (216 K) (under pressure) | ||
نقطة الغليان | سانچہ:Chembox BoilingPt1 | ||
الذوبانية في الماء | 1.45 g/L | ||
حموضة (pKa) | 6.35 and 10.33 | ||
اللزوجة | 0.07 cP at −78 °C | ||
عزم جزيئي ثنائي القطب | zero | ||
ساخت | |||
مالیکولی جیومیٹری | linear | ||
مركبات متعلقة | |||
آکسائڈs ذات علاقة | کاربن مونو آکسائیڈ; carbon suboxide; dicarbon monoxide; کاربن ٹرائی آکسائڈ | ||
یہ ایک بے رنگ اور بے بو گیس ہے جو جلنے میں مدد نہیں دیتی۔ یہ ہوا سے ڈیڑھ گنا بھاری ہے۔ یہ گیس جلنے اور سانس لینے کے عمل میں پیدا ہوتی ہے۔ ہر آدمی روزانہ لگ بھگ ایک کلو گرام کاربن ڈائی آکسائڈ سانس کے ذریعے خارج کرتا ہے۔ اس طرح دنیا کی آبادی سالانہ تین ارب ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ فضا میں چھوڑتی ہے۔[1][2] پودے ضیائ تالیف photosynthesis سے کاربن ڈائی آکسائڈ استعمال کر کے آکسیجن پیدا کرتے ہیں۔
یہ گیس پانی میں بہت حل پزیر ہے۔ آبی پودے پانی میں حل شدہ کاربن ڈائی آکسائڈ کو جذب کر کے زندہ رہتے ہیں۔
کاربن ڈائی آکسائڈ کے سالمے (مالیکیول) میں آکسیجن کے دو اور کاربن کا ایک ایٹم ہوتا ہے۔ ایسے تین ایٹمی سالمے سورج کی توانائ جذب کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کاربن ڈائی آکسائڈ گرین ہاؤس ایفکٹ green house effect پیدا کرتی ہے جو دنیا کو گرم کرنے global warming کی بڑی وجہ ہے۔ fossil fuel مثلا کوئلہ تیل اور گیس جلانے سے ہر سال 25 بیلین ٹن کاربن ڈائی آکسائڈ پیدا ہوتی ہے۔ خیال رہے کہ ہوا میں موجود آبی بخارات بھی کاربن ڈائی آکسائڈ کی طرح سورج کی روشنی جذب کر کے کرہ ہوائی کو گرم کرتے ہیں اور کرہ ہوائی میں آبی بخارات کی مقدار کاربن ڈائی آکسائیڈ سے کہیں زیادہ ہوتی ہے۔
اگر کاربن ڈائی آکسائڈ کو سرد کیا جائے تو یہ مائع نہیں بنتی بلکہ منفی C° 78.51 پر براہ راست ٹھوس میں تبدیل ہو جاتی ہے جسے خشک برف dry ice کہتے ہیں کیونکہ گرم ہونے پر یہ برف نہ گیلی ہوتی ہے اور نہ پگھلتی ہے بلکہ دوبارہ گیس بن کر اڑ جاتی ہے۔ اس عمل کو عمل تصعید sublimation کہتے ہیں۔ ہاں اگر دباؤ 5.1 atm سے زیادہ ہو تو خشک برف بھی گیلی ہو جاتی ہے کیونکہ اس دباؤ پر کاربن ڈائی آکسائڈ مائع حالت اختیار کر سکتی ہے۔
کاربن ڈائی آکسائڈ پانی میں حل ہو کر ایک کمزور تیزاب بناتی ہے جسے کاربونک ایسڈ carbonic acid کہتے ہیں یہ تیزاب انسانی خون میں بھی موجود ہوتا ہے۔ اگر پیا جائے تو یہ تیزاب منہ میں ہلکی سی خوشگوار جلن پیدا کرتا ہے اس لیے پیپسی (pepsi) کوکا کولا (coca cola) اور بہت سارے دیگر مشروبات میں کاربن ڈائی آکسائڈ گیس دباؤ کے تحت حل کر دی جاتی ہے۔ اس کی حل پذیری کم درجہ حرارت پر بڑھ جاتی ہے۔ اگر ایسی بوتلوں کو ٹھنڈا کیے بغیر کھول دیا جائے تو بیشتر گیس ضائع ہو جاتی ہے اور مشروب کا مزہ پھیکا پڑ جاتا ہے جبکہ ٹھنڈی بوتل میں گیس پانی میں حل ہو جاتی ہے اور بوتل کھولنے پر بہت کم گیس ضائع ہوتی ہے جس سے مشروب خوش مزہ ہو جاتا ہے۔
کاربن ڈائی آکسائیڈ برف میں حل نہیں ہوتی۔ اگر پیپسی، کوکا کولا وغیرہ کا کین (can) فرج میں جم جائے تو ساری کاربن ڈائی آکسائڈ پانی سے باہر نکل آتی ہے اور اس طرح کین کے اندر مائع کے اوپر کی جگہ میں دباؤ (پریشر) اتنا بڑھ جاتا ہے کہ کین یا بوتل لیک ہو جاتی ہیں اور گیس ضائع ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پگھلنے کے بعد بھی ایسا مشروب بے مزہ ہوتا ہے۔
پتے (gall bladder) کی جراحی (surgery) کا ایک طریقہ ایسا بھی ہوتا ہے جس میں پیٹ پر چار سوراخ بنا کر ان میں کیمرا (camera) اور دوسرے اوزار داخل کیے جاتے ہیں اور TV پر اندرونی منظر دیکھتے ہوئے پتا (gall bladder) باہر نکال لیا جاتا ہے۔ یہ طریقہ علاج پرانے طریقہ سے کم تکلیف دہ ہوتا ہے۔ اس جراحی کے دوران پیٹ میں کاربن ڈائی آکسائڈ بھری جاتی ہے تاکہ جراح کو کام کرنے میں سہولت ہو۔ اس طریقہ کو laparoscopic cholecystectomy یا lap choly کہتے ہیں۔