آقچہ
آقچہ یا آقچہ سلطانی (عثمانی ترک: آقچہ، موجودہ ترکی: Akçe) سلطنت عثمانیہ میں دولت کے شمار یعنی مال گزاری کے لیے بطور سکہ رائج تھا۔ یہ سلطنت عثمانیہ کی سرکاری کرنسی کہلاتی تھی جو چاندی یا نقرئی سکہ ہوتا تھا۔ مختلف ادوار میں اِس کا وزن اور حجم گھٹتا بڑھتا رہا ہے۔ 1687ء تک آقچہ ہی سرکاری کرنسی رہا اور پھر اِس کی جگہ قرش نے لے لی۔
ابتدائی تاریخ
ترمیمعثمانی ترک زبان میں آقچہ کے معنی ہیں: ’’چھوٹا سفید‘‘۔ آق بمعنی سفید اور ’’چہ‘‘ بمعنی تصغیر یعنی چھوٹے ہونے کے معنی میں آتا ہے۔ سلطنت عثمانیہ کے چاندی کے اِس سکے کا نام یورپی مصنفین نے اکثر آسپرے (Aspre) یا آسپیر (Asper) لکھا ہے جبکہ یونانی مصنفین نے اِس کا نام آسپیرون (Aspron) بمعنی ’’سفید‘‘ لکھا ہے۔ اِسی نام کا ایک سکہ بارہویں صدی عیسوی میں اصفہان کے سلطنت سلجوقی میں بھی رائج تھا۔[1]
حجم اور وزن
ترمیمسلاطین عثمانیہ نے سابقہ سلطنتوں اور اپنے ہم عصر اِسلامی سلطنتوں کے دستور کے مطابق اپنی کرنسی کا نام درہم یا دینار نہیں رکھا بلکہ اِس کے برعکس پہلی بار جب سلطان اورخان اول نے 727ھ مطابق 1327ء میں جو سکہ ضرب کروایا، اُس کا نام آقچۂ عثمانی رکھا۔ اِس سکے کا وزن چوتھائی مثقال یا 6 قیراط تھا۔سلطان اورخان کے اِس متعین کردہ وزن میں بعد میں رو و بدل دیکھنے میں آیا اور آقچہ کا وزن ہمیشہ یکساں نہیں رہا اور وقت گزرنے پر اِس کی قیمت گرتی چلی گئی۔سلطان اورخان اول کے مقرر کردہ آقچہ میں 90 چاندی فیصد تھی اور اِس سکے کا قطر 18 ملی میٹر تھا۔ سلطان مراد ثانی کے عہدِ حکومت تک آقچہ کا حجم تو کسی قدر کم ہو گیا لیکن اِس کے کُھردرے پن کا معیار اور صحیح وزن بہت حد تک قائم رکھا جاتا رہا۔ سلطان محمد فاتح، سلطان بایزید ثانی اور سلطان سلیم اول کے عہدہائے حکومت تک اِس سکہ میں چاندی کی مقدار میں پانچ فیصد کمی کردی گئی اور اِس حساب سے سکے کا وزن بھی 6 قیراط کی بجائے صرف پونے چار قیراط باقی رہ گیا۔سلطان سلیمان اول اور سلطان سلیم ثانی کے اَدوارِ حکومت میں اِس بڑھتی ہوئی کمی پر کچھ روک تھام کرلی گئی لیکن یہ سلسلۂ انحطاط سلطان مراد ثالث اور اُس کے جانشین سلاطین کے اَدوارِ حکومت میں بالخصوص سلطان عثمان ثانی کے عہدِ حکومت تک رک رک کر جاری رہا۔ یہاں تک کہ آقچہ عثمانی کا وزن گھٹتے گھٹتے ڈیڑھ قیراط باقی رہ گیا اور آقچہ روز بہ روز موٹائی سے پتلا ہوتا چلا گیا۔ علاوہ ازیں سلطان مراد رابع، سلطان ابراہیم اول اور سلطان محمد رابع کے عہدِ حکومت میں چاندی کی مقدار پہلے 70 فیصد اور پھر 50 فیصد کم ہو کر رہ گئی۔ اگرچہ اِس کا وزن اور حجم تقریباً وہی رہا جو اِس سے قبل تھا۔ اِس کمی سے یہ نتیجہ نکلا کہ جہاں سلطان محمد فاتح کے عہدِ حکومت میں عثمانی اَشرفی میں 40 آقچے ہوتے تھے، وہیں اب سلطان مصطفی ثانی کے عہد میں اشرفی کی قیمت 300 آقچے ہو گئی۔[2][3] 1687ء میں اِس کی جگہ قرش نے لے لی اور پھر قرش کو ہی بطور سرکاری سکہ (سرکاری کرنسی) جاری رکھا گیا۔
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ راوندی: راحۃ الصدور، صفحہ 300۔
- ↑ اسمٰعیل غالب: تقویم مسکوکات عثمانیہ، جلد 2۔ مطبوعہ 1307ھ
- ↑ اردو دائرہ معارف اسلامیہ: جلد 1، صفحہ 111۔