ابراہیم ڈیسائی
ابراہیم ڈیسائی (1963ء – 2021ء) ایک بھارتی جنوبی افریقی مفتی اور عالمِ دین تھے، جنھوں نے دار الافتا محمودیہ، آسک امام فتوی پورٹل قائم کیا تھا۔ اس سے قبل وہ دار الافتا مدرسہ انعامیہ کے صدر مفتی تھے۔ ان کی تعلیم جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل میں ہوئی تھی۔ رائل اسلامک اسٹریٹجک اسٹڈیز سینٹر کے ذریعہ تیار کردہ 500 انتہائی بااثر مسلم شخصیات میں ان کا نام درج کیا گیا تھا۔ انھیں اسلامی مالیات اور معاشیات کے ایک بااثر عالم کی حیثیت سے دیکھا جاتا تھا۔ انھوں نے ”حدیث کا تعارف: حدیث اور اس کے علوم کا ایک عام تعارف“ اور ”اسلامی تجارت کا تعارف“ جیسی کتابیں تصنیف کیں۔
مفتی ابراہیم ڈیسائی | |
---|---|
ذاتی | |
پیدائش | 16 جنوری 1963 رچمنڈ، کوازولو ناتال، جنوبی افریقہ |
وفات | 15 جولائی 2021 | (عمر 58 سال)
مذہب | اسلام |
شہریت | جنوبی افریقا |
دور | جدید دور |
فرقہ | سنی |
فقہی مسلک | حنفی |
تحریک | دیوبندی |
بنیادی دلچسپی | فقہ |
وجہ شہرت | آسک امام |
بانئ | دار الافتا محمودیہ |
مرتبہ | |
استاذ | محمود حسن گنگوہی[1]، مفتی احمد خان پوری |
سوانح
ترمیمابراہیم ڈیسائی 16 جنوری 1963ء کو رچمنڈ، کوازولو ناتال میں پیدا ہوئے تھے۔[2] انھوں نے "واٹر وال اسلامک انسٹی ٹیوٹ" میں قرآن حفظ کیا اور گجرات (بھارت) کی جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل میں روایتی درس نظامی نصاب کی تعلیم حاصل کی۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ انھوں نے حضرت اقدس مولانا مفتی احمد صاحب خان پوری دامت برکاتہم العالیہ کی زیر نگرانی اسلامی فقہ میں مہارت حاصل کی۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ انھوں نے دار العلوم دیوبند کے سابق صدر مفتی، حضرت اقدس مولانا مفتی محمود حسن صاحب گنگوہی رحمۃ اللّٰہ علیہ سے بھی تعلیم حاصل کی ، جو کثیر الجلد فتاوٰی محمودیہ کے مصنف ہیں۔لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ وہ تصوف میں محمود حسن گنگوہی کے مجاز بھی تھے۔[3]
ڈیسائی دس سال تک مدرسہ تعلیم الدین، اسپنگو بیچ میں پڑھاتے رہے اور جمعیت علما کوازولو ناتال کے شعبہ فتوی کی صدارت بھی کرتے رہے۔[4][5] انھوں نے مزید دس سال مدرسہ انعامیہ کے سینئر استاذ حدیث کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔[4] مارچ 2008ء میں اسلامک کاسم ٹوئٹ میموریل کالج (IKTMC) میں طلبہ کو لیکچر دینے کے لیے ہانگ کانگ کا سفر کیا۔[6] 2011ء میں وہ ڈربن منتقل ہو گئے اور "شیرووڈ"، ڈربن میں دار الافتا محمودیہ قائم کیا۔[4] انھوں نے دار العلوم نعمانیہ اور دار العلوم حمیدیہ میں صحیح بخاری کی تعلیم دی اور دار الافتا محمودیہ کی صدارت کی، جو انھوں نے شیرووڈ میں قائم کیا تھا۔[7][5] 2000ء میں انھوں نے ایک آن لائن اسلامی سوالات اور جوابات کا ڈیٹا بیس آسک امام فتوی پورٹل شروع کیا، جس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس سے انھیں ایک بین الاقوامی شہرت ملی۔[8]لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔ ویٹ سیسلر کے مطابق "ابراہیم ڈیسائی ایک ایسے عالم کی مثال قائم کی ہے کہ اگرچہ وہ عرب دنیا سے باہر غیر ازہری ادارہ سے فارغ تھے؛ لیکن انھوں نے بنیادی طور پر انفارمیشن اور مواصلاتی ٹکنالوجی کے ذریعہ جمع ہونے والی بڑے پیمانے پر حمایت کے ذریعہ عالمی سطح پر پہچان حاصل کی۔"[8]
ڈیسائی کو اسلامی مالیات اور معاشیات کے ایک بااثر عالم کی حیثیت سے دیکھا جاتا تھا۔[9] انھوں نے ایف این بی اسلامک فنانس کے چیئرمین کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔[10] دار الافتا محمودیہ کی ویب گاہ کے مطابق؛ انھوں نے "اسلامی تجارت اور مالیات میں عصری کاروباری امور سے نمٹنے کے لیے ایک کانفرنس" کے لیے 2002ء میں شریعت کمپلینٹ بزنس مہم کا آغاز کیا۔[11] ان کا نام رائل اسلامک اسٹریٹجک اسٹڈیز سینٹر کے مرتب کردہ 500 انتہائی بااثر مسلم شخصیات میں شامل کیا گیا تھا۔[12] نمیرا نہوزہ نے انھیں "ہندوستانی نژاد جنوبی افریقی مفتی اعظم" کہا۔[13] ان کے تلامذہ میں ابرار مرزا اور فیصل المحمودی شامل ہیں۔[14] فرحانہ نے اپنے تحقیقی مطالعہ میں اشارہ کیا ہے کہ "ڈیسائی خود دار الافتا محمودیہ کے طلبہ کے لیے مباحثہ میں ایک ماسٹر ٹیچر تھے، جہاں وہ تعلیم دیتے تھے اور جہاں ان کے تمام فتوے تیار کیے جاتے تھے۔ 2011ء میں Askimam.org پر فتووں کی ساخت کے ایک سروے میں انکشاف ہوا ہے کہ ڈیسائی کے طلبہ مختلف جغرافیائی مقامات سے تعلق رکھتے ہیں تو وہ فتوے لکھتے ہیں اور ڈیسائی ماسٹر استاذ کی حیثیت س آخری اختیار تھے، جیسا کہ فتاوٰی کے اختتامی سطور میں واضح ہے۔ ہر فتویٰ کا اختتام: "مفتی ابراہیم ڈیسائی کا معائنہ کردہ و نظر فرمودہ"۔ "لوا خطا ماڈیول:Footnotes میں 80 سطر پر: bad argument #1 to 'ipairs' (table expected, got nil)۔
مفتی ابراہیم ڈیسائی کا انتقال 15 جولائی 2021ء کو ڈربن میں ہوا۔[14] عبد الرحمن بن یوسف مانگیرا، محمد ابن آدم الکوثری، عمر سلیمان اور یاسر ندیم الواجدی نے ان کی وفات پر غم کا اظہار کیا۔[14]
ادبی خدمات
ترمیمڈیسائی کے مجموعۂ فتاوٰی کو Contemporary Fatawa (عصری فتاوی ) کے نام سے چار جلدوں میں شائع کیا گیا ہے۔[4] ان کی دیگر کاوشوں میں شامل ہیں:[14][11]
- المحمود (ان کا مجموعۂ فتاوٰی)
- Imam Bukhari and his famous Al-Jāmi Al-Sahīh (امام بخاری اور ان کی مشہور الجامع الصحیح)
- Introduction to Hadīth (حدیث کا تعارف)
- Introduction to Islamic Commerce (اسلامی تجارت کا تعارف)
- Commentary on Qaseedah Burdah (شرح قصیدہ بردہ)
حوالہ جات
ترمیم- ↑ Hadhrat Mufti Mahmood HasanGangohi - His Life And Works۔ Talimi Board۔ ص 67۔ اخذ شدہ بتاریخ 2020-04-16
- ↑ "جنوبی افریقہ کے مشہور مفتی ابراھیم ڈیسائی صاحب کا 15 جولائی کو ڈربن میں انتقال ہوا"۔ Sadaye Haq News۔ 16 جولائی 2021۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-07-16
- ↑ حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی - ان کی حیات و خدمات۔ تعلیمی بورڈ۔ ص 67۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-07-16
- ^ ا ب پ ت "جنوبی افریقہ کے مشہور مفتی ابراھیم ڈیسائی صاحب کا 15 جولائی کو انتقال ہواـ پچھلے کئی روز سے ان کی طبیعت خراب چل رہی تھی." [South Afrian Mufti Ebrahim Desai passes away]۔ Baseerat Online۔ 16 جولائی 2021۔ مورخہ 2021-07-16 کو اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-07-16
- ^ ا ب Mohiuddin، Afshan؛ Suleman، Mehrunisha؛ Rasheed، Shoaib؛ Padela، Aasim I. (2020)۔ "When can Muslims withdraw or withhold life support? A narrative review of Islamic juridical rulings"۔ Global Bioethics۔ ج 31 شمارہ 1: 29–46۔ DOI:10.1080/11287462.2020.1736243۔ ISSN:1128-7462۔ PMC:7144300۔ PMID:32284707
- ↑ "Talk by Islamic Scholar from South Africa"۔ IKTMC۔ 26 مارچ 2008۔ اصل سے آرکائیو شدہ بتاریخ 2011-06-25۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-07-15
{{حوالہ خبر}}
: صيانة الاستشهاد: BOT: original URL status unknown (link) - ↑ Mohiuddin، Afshan؛ Suleman، Mehrunisha؛ Rasheed، Shoaib؛ Padela، Aasim I. (2020)۔ "When can Muslims withdraw or withhold life support? A narrative review of Islamic juridical rulings"۔ Global Bioethics۔ ج 31: 29–46۔ DOI:10.1080/11287462.2020.1736243۔ PMID:32284707
- ^ ا ب VÍT ŠISLER (مارچ 2010)۔ "EUROPEAN COURTS ́ AUTHORITY CONTESTED? THE CASE OF MARRIAGE AND DIVORCE FATWAS ON-LINE"۔ Masaryk University Journal of Law and Technology۔ ج 3 شمارہ 1: 65, 67
- ↑ "Malawi approves Islamic Banking, Sharia-compliant services"۔ Malawi Nyasa Times۔ 3 اکتوبر 2017۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-07-15
- ↑ "Entire FNB Islamic Finance board quits"۔ 7 جولائی 2012۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-07-15
- ^ ا ب "About Mufti Ebrahim Desai"۔ Darul Iftaa۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-07-15
- ↑ "Ebrahim Desai"۔ themuslim500.com۔ رائل اسلامک اسٹریٹجک اسٹڈیز سنٹر۔ اخذ شدہ بتاریخ 2021-07-16
- ↑ نہوزا، نمیرہ (2018)۔ Wahhabism and the Rise of the New Salafists: Theology, Power and Sunni Islam۔ Bloomsbury Publishing۔ ص 119۔ ISBN:978-1-83860-983-2
- ^ ا ب پ ت
بیرونی روابط
ترمیمکتابیات
ترمیم- اسماعیل فرحانہ (2015)۔ An analysis of the discursive representations of women's sexual agency in online fatwas: a case study of askimam.org (مقالہ)۔ کوازولو ناتال یونیورسٹی۔ اخذ شدہ بتاریخ 25 مئی 2020