یاسر ندیم الواجدی

ہندوستانی نژاد امریکا میں مقیم مفتی

یاسر ندیم الواجدی (پیدائش: 4 مارچ 1982ء) شکاگو میں مقیم ہندوستانی عالم دین، مصنف اور یوٹیوبر ہیں۔ وہ دنیا بھر میں عموماً اور بھارت میں خصوصاً مسلم اقلیتوں کے حقوق کے لیے ایک مضبوط آواز ہیں۔ وہ مفتی ہیں اور معہد تعلیم الاسلام، شکاگو کے مدرس ہیں۔ وہ دار العلوم آن لائن کے بانی اور تجدیدِ دین: شریعت اور تاریخ کی روشنی میں اور گلوبلائزیشن اور اسلام کے مصنف ہیں۔


یاسر ندیم الواجدی
ذاتی
پیدائش (1982-03-04) 4 مارچ 1982 (عمر 42 برس)
دیوبند، بھارت
مذہباسلام
قابل ذکر کاماسلام اینڈ گلوبلائزیشن
یوٹیوب کی معلومات
چینل
سالہائے فعالیت2010ء تا حال
صنف
سبسکرائبر301 ہزار[1]
کل مشاہدات35.8 ملین[1]

آخری تجدید: 2 اگست 2024ء
مرتبہ
ویب سائٹyasirnadeemalwajidi.com

سوانح

ترمیم

ولادت و خاندان

ترمیم

یاسر ندیم الواجدی 4 مارچ 1982ء کو محلہ ابو البرکات، دیوبند، اترپردیش، بھارت میں پیدا ہوئے۔[2]ان کے والد واصف حسین ندیم الواجدی دار الکتاب دیوبند کے ناظم و بانی اور ماہنامہ ترجمان دیوبند کے مدیر ہیں۔ ان کے دادا واجد حسین دیوبندی جامعہ اسلامیہ تعلیم الدین ڈابھیل کے شیخ الحدیث تھے۔[2] دیوبند کے خانوادۂ عثمانی سے ان کا نانیہالی رشتہ ہے۔[3]

تعلیم

ترمیم

یاسر ندیم نے حفظِ قرآن گھر پر ہی اپنے والدین کے پاس مکمل کیا،[4] اردو فارسی اور ابتدائی عربی کی تعلیم بھی گھر پر ہی حاصل کی، سال سوم عربی سے باضابطہ دار العلوم دیوبند میں داخل لیا۔[2][5] 2001ء میں ان کی فراغت ہوئی اور پھر دار العلوم ہی سے عربی ادب اور افتاء کی تعلیم حاصل کی۔[6] ان کے خصوصی اساتذہ میں نصیر احمد خان بلند شہری، سعید احمد پالنپوری اور نعمت اللہ اعظمی جیسے علما شامل ہیں۔[2][3] 2004ء میں یاسر ندیم ریاستہائے متحدہ امریکہ چلے گئے اور امیریکن اوپن یونیورسٹی سے عربی ادب میں ایم اے کی ڈگری حاصل کی۔[7] انھوں نے ابو اللیث خیرآبادی کی زیر نگرانی 2012ء میں بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی ملائیشیا سے حدیث میں ڈاکٹریٹ کی تعلیم حاصل کی۔[6][3]

تدریس

ترمیم

یاسر ندیم نے 2004ء میں معہد تعلیم الاسلام میں تدریس کا آغاز کیا اور 2009ء میں دار العلوم آن لائن قائم کیا۔ سمجھا جاتا ہے کہ دار العلوم آن لائن درس نظامی نصاب کی آن لائن تعلیم کی طرف پہلا اقدام ہے۔[2] وہ اسلامی احیا سے متعلق ایک بین الاقوامی جریدہ اسلامک لٹریچر ریویو کے نائب چیئرمین ہیں۔[2] وہ ایسوسی ایشن آف مسلم اسکالرز شکاگو امریکا کے نائب صدر اور ماہنامہ ترجمان دیوبند کے نائب مدیر ہیں۔[8][3]

تحریکی خدمات

ترمیم

فروری 2017ء میں یاسر ندیم نے پاکستانی- کینیڈائی مصنف طارق فتح کو، جو فتح کا فتوی (en:Fatah Ka Fatwa) کی میزبانی کر رہے تھے، یہچیلنج کیا کہ "اگر فتح کو واقعی اسلام پر بحث کرنا پسند ہے تو وہ ندیم سے دنیا میں کہیں بھی بحث کر لیں، آزاد ججوں کی موجودگی یا کسی وی اسٹوڈیو میں نہیں؛ بلک حالات کے پیش نظر عوامی جگہ پر۔"[7] یاسر ندیم نے یہ بھی اظہار کیا تھا کہ "سوالات اور دعوے طارق فتح کے ہوں گے جب کہ جوابات یاسر ندیم کے ہوں گے۔"[7] تاہم طارق فتح نے یاسر ندیم کی علمی بحث کی پیش کش کو قبول نہیں کیا۔[7] طارق فتح کے فتح کا فتوی کے آغاز کے بعد؛ یاسر ندیم نے اسلام کے خلاف دعووں کا دفاع کرنے کے لیے ٹاک شو "سرجیکل اسٹرائیک" شروع کیا۔[9] اس ٹاک شو میں 72 قسطیں جاری ہوئیں، جن میں عارف محمد خاں، محمود مدنی، اوریا مقبول جان، رام پونیانی اور روی شنکر شامل تھے اور دو کامیاب سالوں کے بعد اس شو کو بند کر دیا گیا۔[3]

مئی 2017ء میں یاسر ندیم نے ان مسلم لڑکیوں کے بارے میں کہا جو ہندو لڑکوں سے بھاگ کر اسلام چھوڑتی ہیں کہ "ارتداد کے ایسے واقعات کا ذمہ دار مذہبی علما سے زیادہ کوئی نہیں ہے جو ان کے پاس اسلام سیکھنے کے لیے ادارے قائم کرتے ہیں لیکن وہ باقی 97 فی صد نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں جو کسی مدرسے میں نہیں جاتے۔"[10] جنوری 2019ء میں یاسر ندیم نے یہ بیان دیا تھا، جس پر زبانی تنازع کھڑا ہو گیا تھا کہ جن گن من شرک سے وابستہ نہیں تھا، جیسا کہ عام طور پر بہت سارے مسلمان مانتے ہیں۔ انھوں نے اظہار کیا کہ رابندر ناتھ ٹیگور نے خدا کی حمد میں نظم لکھی ہے۔[11] انھوں نے کہا کہ اگر ٹیگور مشرک تھا تو یہ بات قابل فہم ہے کہ نظم شرک سے متاثر ہے؛ لیکن ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے، جو ٹیگور کو ایک مشرک کے طور پر پیش کرے۔[12] انھوں نے جان بی واٹسن کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ٹیگور کا مذہب خدا اور فطرت سے پیار تھا۔[12] مارچ 2021ء میں یاسر ندیم نے اسلام میں ذات پات کی موجودگی کی تردید کی اور کہا کہ یہ ایک معاشرتی برائی ہے۔[13]

فروری 2023ء میں، سوارا بھاسکر اور فہد احمد کی شادی پر یاسر کی ٹویٹ ”قانونی؛ مگر غیر اسلامی، سوارا بھاسکر کی شادی ہمارے لیے ایک موقع ہے ہمارے مسلمان بھائی بہنوں کو یہ یاد دلانے کے لیے کہ اللہ کی طرف سے حرام کردہ چیزوں کو معمول بنانا بند کریں۔ قرآن واضح ہے، مسلمان مرد کے لیے بت پرست عورت سے شادی کرنا جائز نہیں۔ پسند کی آزادی کا مطلب اتنی آزادی نہیں ہے۔“ سے ایک اور تنازع کھڑا ہو گیا۔[14] اور ان کے اور آر جے صائمہ کے درمیان ٹویٹر پر جنگ چھڑ گئی اور ناقدین نے ان کے طرز عمل کو مائسوجنسٹک یعنی خواتین سے نفرت پر مبنی قرار دے دیا۔[15][16]

طلبۂ مدارس سے ان کی ایک گزارش ہے کہ وہ مطالعہ کرتے وقت اسلام کی وسعت اور آفاقیت کو ملحوظ رکھیں اور جدید دور کے تقاضوں کے مطابق دین کی عقلی تشریح پر توجہ دیں۔ اگر وہ ”ٹرینڈ“ کرتے موضوعات پر مثبت اور مختصر تحریر بھی لکھیں گے، تو قارئین کی فوری پزیرائی سے ان کا حوصلہ مہمیز ہوگا۔ ان میں زیادہ سے زیادہ لکھنے کا شوق پیدا ہو گا اور وہ لاکھوں لوگوں کی اصلاح کا فریضہ انجام دے سکیں گے؛ لیکن شرط یہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو مسلکی تنازعات اور تنقیص پر مبنی مضامین سے دور رکھیں۔[4]

تصانیف

ترمیم

یاسر ندیم الواجدی کی تین کتابیں منظر عام پر آ چکی ہیں:[2]

  • القاموس العصری، جو ایک سہ لسانی لغت ہے جس میں عربی، انگریزی اور اردو زبان کے پچھتر ہزار الفاظ شامل ہیں۔
  • گلوبلائزیشن اور اسلام (انگریزی میں اسلام اینڈ گلوبلائزیشن کے نام سے ترجمہ ہو چکا ہے، نیز گجراتی زبان میں بھی اس کا ترجمہ ہو چکا ہے۔)
  • تجدیدِ دین: شریعت اور تاریخ کی روشنی میں

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب "About"۔ YouTube 
  2. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج راشد امین (2 جون 2021ء)۔ "ڈاکٹر مفتی یاسر ندیم الواجدی پر ایک طائرانہ نظر"۔ بصیرت آن لائن۔ 28 اکتوبر 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 جون 2021 
  3. ^ ا ب پ ت ٹ عبد الرحمن صدیقی (3 جون 2021ء)۔ "ڈاکٹر مفتی یاسر ندیم الواجدی اور سرجیکل اسٹرائک"۔ اردو لیکس۔ 03 جون 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 جون 2021 
  4. ^ ا ب یاسر ندیم الواجدی (27 اکتوبر 2020ء)۔ "میرے مطالعے کا مختصر سفر"۔ theopinionworld.com۔ 10 فروری 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 فروری 2022ء 
  5. مولانا ندیم الواجدی۔ "عزیزم مولانا مفتی ڈاکٹر یاسر ندیم الواجدی"۔ بے مثال شخصیت باکمال استاذ (2017ء ایڈیشن)۔ دیوبند: دار الکتاب۔ صفحہ: 68–70 
  6. ^ ا ب اکرم ندوی (20 اگست 2018ء)۔ "Hajj Journey (16)"۔ islamsyria.com (بزبان عربی)۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 جون 2021 
  7. ^ ا ب پ ت ایم غزالی خان (16 فروری 2017ء)۔ "With His Challenge Being Rejected Mufti Wajidi Takes on Tarek Fatah on Twitter"۔ اردو میڈیا مونیٹر۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 جون 2021 
  8. ابن الحسن عباسی۔ یادگار زمانہ شخصیات کا احوال مطالعہ (ستمبر 2020 ایڈیشن)۔ دیوبند: مکتبۃ النور، مکتبۃ الانور۔ صفحہ: 713 
  9. عبید اقبال عاصم (2019ء)۔ دیوبند تاریخ و تہذیب کے آئینے میں۔ دیوبند: کتب خانہ نعیمیہ۔ صفحہ: 157, 165–166 
  10. "The "Reverse Love Jihad" Alarms Muslim Intellectuals"۔ کلیرین انڈیا۔ 7 مئی 2017ء۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 جون 2021 
  11. عزیز احمد (20 اگست 2017ء)۔ "یاسر ندیم الواجدی صاحب کا مضمون مفروضات پر مبنی"۔ ملت ٹائمز۔ 03 جون 2021 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 جون 2021 
  12. ^ ا ب ""بھارت بھاگیہ ودھاتا" جو لوگ ترانہ ہندی کو ابھی بھی شرکیہ سمجھتے ہیں.."۔ Waraquetaza۔ 27 جنوری 2019ء۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 جون 2021 
  13. ایم غزالی خان (17 مارچ 2021ء)۔ "Casteism Among Indian Muslims"۔ دی ملی گیزیٹ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 جون 2021 
  14. پولومی گھوش (19 فروری 2023)۔ "On Swara Bhasker's 'bhai' tweet row, Fahad says, 'Sanghis have accepted...'"۔ ہندوستان ٹائمز۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 مارچ 2023 
  15. "Not Islamically valid…: Swara Bhasker's marriage hits new controversy"۔ Mint۔ 18 فروری 2023۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 مارچ 2023 
  16. "سوارا بھاسکر کی شادی قانونی ہے اسلامی نہیں، اسلامی اسکالر کے ٹویٹ نے تنازعہ کھڑا دیا"۔ نیوز 360۔ 19فروری 2023ء۔ اخذ شدہ بتاریخ 22مارچ 2023ء