احسن فاروقی
ڈاکٹر محمد احسن فاروقی (پیدائش: 22 نومبر، 1913ء - وفات: 26 فروری، 1978ء) پاکستان کے اردو نقاد، ماہرِ تعلیم، ناول نگار اور افسانہ نگار تھے جو اپنے ناول شامِ اودھ کی وجہ سے دنیائے اردو میں شہرت رکھتے ہیں۔ احسن فاروقی کراچی یونیورسٹی اور سندھ یونیورسٹی میں انگریزی کے استاد اور بلوچستان یونیورسٹی میں پروفیسر و صدر شعبۂ انگریزی اور کلیۂ فنون کے صدر بھی رہے۔
احسن فاروقی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 22 نومبر 1913ء لکھنؤ ، برطانوی ہند |
وفات | 26 فروری 1978ء (65 سال) کوئٹہ ، پاکستان |
شہریت | برطانوی ہند پاکستان |
عملی زندگی | |
مادر علمی | لکھنؤ یونیورسٹی لکھنؤ کرسچین کالج |
پیشہ | مترجم ، ناول نگار ، افسانہ نگار ، ادبی نقاد |
پیشہ ورانہ زبان | اردو ، انگریزی |
ملازمت | جامعہ کراچی ، جامعہ بلوچستان ، جامعہ سندھ |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
حالات زندگی
ترمیمڈاکٹر محمدا حسن فاروقی 22 نومبر، 1913ء کو لکھنؤ، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔[1][2] ان کے والد کا نام نواب محمد حسن خاں تھا۔ ابتدائی تعلیم ایک انگریز (Jacob)کی نگرانی میں ہوئی۔ 1929ء میں کوئنس اینگلو سنسکرت ہائی اسکول لکھنؤ سے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ لکھنؤ کے کر سچین کالج سے ایف اے کیا اور 1933ء میں جامعہ لکھنؤ سے بی اے پاس کیا اور پھر 1946ء کو انگریزی میں ایم اے کیا۔ اس کے بعد 1942ء میں اسی یونیورسٹی سے فلسفے میں بھی ایم اے اور 1946ء میں انگریزی ادب میں پی ایچ ڈی کیا۔ ان کے تحقیقی مقالے کا عنوان رومانوی شاعری پر ملٹن کے اثرات (The Influence of Milton on the Romantic Poets) تھا۔ 1956ء میں وہ ہجرت کرکے پاکستان آ گئے اور کراچی میں مستقل سکونت اختیار کی۔ یہاں وہ پہلے کراچی یونیورسٹی سے اور پھر سندھ یونیورسٹی سے وابستہ رہے۔ اس کے بعد اسلامیہ کالج سکھر کے شعبۂ انگریزی کے صدر مقرر ہوئے۔ ڈاکٹر صاحب بلوچستان یونیورسٹی میں پروفیسرو صد ر شعبۂ انگریزی اور کلیۂ فنون کے ڈین بھی رہے۔[3]
ادبی خدمات
ترمیماحسن فاروقی صاحب برصغیر کے تعلیمی اور ادبی حلقوں کی ایک مشہور و معروف شخصیت کی حیثیت رکھتے تھے۔ وہ انگریزی ادب کے ایک مستند استاد ہونے کے علاوہ اردو اور انگریزی زبانوں کے بلند پایہ ادیب اور نقاد بھی تھے۔ انگریزی، جرمن اور فرانسیسی زبانوں پرپورا عبور رکھتے تھے اور فارسی اور عربی سے بھی وہ بہت اچھی طرح واقف تھے۔ اسی لیے ان کی تحریر وں میں مختلف ادبیات کے رجحانات اور میلانات کا سراغ ملتا ہے۔ انھوں نے اردو اور انگریزی میں پچاس کے قریب کتابیں لکھیں جن میں ان کے فکر کے تنوع اور گہرائی کا پتہ چلتا ہے۔ ڈاکٹر احسن فاروقی سہ ماہی نیا دور کراچی کے شعبۂ ادارت میں بھی کئی برس تک شامل رہے۔[3]
1948ء کا سال ان کی زندگی کا ایک اہم ترین سال ہے۔ اس لیے کہ اسی سال انھوں نے میر انیس کی مرثیہ نگاری پر مقالہ لکھا جو نگار میں شائع ہوا۔ اس کا شائع ہونا تھا کہ ادبی دنیا میں ایک ہنگامہ برپا ہو گیا اور ایک نقاد کی حیثیت سے ان کی بڑی شہرت ہوئی۔ اسی سال ان کا مشہور و معروف ناول شام اودھ شائع ہوا جو علمی حلقوں میں بہت مقبول ہوا۔ اس ناول میں اودھ کے مٹتے ہوئے تمدن کی نہایت واضع اور کامیاب تصویر پیش کی گئی ہے۔ ایک جگہ وہ لکھتے ہیں :
” | نواب صاحب مذہب پرست، غریب پرور، وضع دار اور بلند ہمت ہیں۔ انہیں اپنی گرتی ہوئی صحت کا احساس ہے اور اس سبب وہ ہر وقت فکر مندبھی رہتے ہیں۔ وہ ہر ایک سے محبت اور شفقت سے پیش آتے ہیں اس کے باوجود انہیں کوئی اپنا ہمدرد نظر نہیں آتا۔ وہ مطلق العنان حکمران زمانے سے شکست کھا جاتا ہے۔[3] | “ |
احسن فاروقی صاحب کی دیگر تصانیف میں آبلہ دل کا، رخصت اے زنداں، سنگ گراں اور سنگم، شام اودھ، تھریسی کوئین (ترجمہ)، رہ رسم آشنائی (افسانے)، اردو ناول کی تنقیدی تاریخ، فانی اور ان کی شاعری، مرثیہ نگاری اور میر انیس اور تاریخ ادب انگریزی وغیرہ شامل ہیں۔ تاریخ ادب انگریزی ایسا ادبی کارنامہ ہے جسے ڈاکٹر احسن فاروقی کے علاوہ شاید ہی کوئی دوسرا انجام دے سکتا تھا۔ یہ کتاب انگریزی و اردو ادب کے استادوں، طلبہ اور عام قارئین کے لیے یکساں مفید اور دلچسپ ہے۔[3]
تصانیف
ترمیم- تاریخ ادب انگریزی
- آبلہ دل کا (ناول)
- رخصت اے زنداں (ناول)
- سنگ گراں اور سنگم (ناول)
- شام اودھ (ناول)
- تھریسی کوئین (ترجمہ)
- رہ رسم آشنائی (افسانے)
- اردو ناول کی تنقیدی تاریخ (تنقید)
- فانی اور ان کی شاعری (تنقید)
- مرثیہ نگاری اور میر انیس (تنقید)
وفات
ترمیمڈاکٹر احسن فاروقی نے 26 فروری، 1978ء کو کوئٹہ میں وفات پائی اور خراسان باغ کراچی میں مدفون ہوئے۔[1][3]
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب وفیات، رپورٹ وقار زیدی، عالمی اخبار آن لائن، لندن
- ↑ صابر براری، تاریخ رفتگاں، ادارہ فکر نو کراچی، فروری 1986ء، ص 168
- ^ ا ب پ ت ٹ "ڈاکٹر محمد احسن فاروقی، پاکستانی کنیکشنز، برمنگھم برطانیہ"۔ 23 مارچ 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 دسمبر 2015