اختر انصاری دہلوی

بھارتی افسانہ نگار

محمد ایوب انصاری المعروف اختر انصاری دہلوی (پیدائش: یکم اکتوبر، 1909ء - وفات: 5 اکتوبر، 1988ء) بھارت سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے نامور شاعر، افسانہ نگار اور نقاد تھے۔

اختر انصاری دہلوی

معلومات شخصیت
پیدائش 1 اکتوبر 1909ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بدایوں ،  اتر پردیش ،  برطانوی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 5 اکتوبر 1988ء (79 سال)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
علی گڑھ ،  بھارت   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند (–14 اگست 1947)
بھارت (26 جنوری 1950–)
ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
مادر علمی سینٹ اسٹیفن کالج، دہلی
علی گڑھ یونیورسٹی   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تعلیمی اسناد ایم اے   ویکی ڈیٹا پر (P512) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ شاعر ،  افسانہ نگار ،  ادبی نقاد   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شعبۂ عمل قطعہ ،  غزل ،  نظم ،  افسانہ ،  ادبی تنقید ،  سوانح   ویکی ڈیٹا پر (P101) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ملازمت علی گڑھ یونیورسٹی   ویکی ڈیٹا پر (P108) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
باب ادب

حالات زندگی و فن ترمیم

اختر انصاری یکم اکتوبر 1909ء کوبدایوں، اتر پردیش، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔[2][3][4] ان کا اصل نام محمد ایوب انصاری تھا۔ پیدائش سے کچھ عرصہ پہلے ان کے والد نے ترکِ وطن کر کے دہلی میں سکونت اختیار کر لی تھی، اس لیے دہلوی مشہور ہوئے۔ عمر کا ابتدائی دور دہلی میں گزارا۔ قدیم اینگلو عربک ہائی اسکول دہلی کے طالبِ علم رہے۔ 1924ء میں ہائی اسکول کا امتحان پاس کر کے دہلی کے سینٹ اسٹیفنز کالج میں داخلہ لے لیا اور وہیں سے 1930ء میں بی اے (آنرز) تاریخ کی ڈگری حاصل کی۔ 1931ء میں انگلستان کے شہر لندن چلے گئے، لیکن والد کے انتقال اور بعض ذاتی مشکلات کے باعث لندن سے کوئی سند حاصل کیے بغیر دہلی واپس آگئے۔ 1932ء میں قانون پڑھنا شروع کیا۔ یہ تعلیم بھی ادھوری چھوڑ دی۔ 1933ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بی ٹی میں داخلہ لے لیا اور 1934ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ہائی اسکول میں ملازمت شروع کی۔ 1947ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے اردو میں ایم اے کیا اور اسی یونیورسٹی کے شعبہ اردو میں لیکچرر ہو گئے۔ 1950ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ اردو سے شعبہ تعلیم میں منتقل ہو گئے اور ریٹائرمنٹ تک وہیں رہے۔ اختر انصاری نے شعر گوئی کا آغاز 1928ء میں کیا۔ چند برس بعد افسانہ، تنقید اور دوسری اصنافِ نثر کی طرف بھی متوجہ ہوئے۔ شاعری کا پہلا مجموعہ نغمہ روح 1932ء میں شائع ہوا۔ ان کی دیگر کتابوں میں اندھی دنیا اور دوسرے افسانے، نازو اور دوسرے افسانے، آبگینے، افادی ادب، خونی اور دوسرے افسانے، خوناب، خندہ سحر، روحِ عصر، لو ایک قصہ سنو، یہ زندگی اور دوسرے افسانے، غزل اور درسِ غزل، حالی اور نیا تنقیدی شعور، ٹیڑیھی زمین، سرورَ جاں، مطالعہ اور تنقید، شعلہ بہ جام، غزل کی تنقید اور دلی کا روڑا شامل ہیں۔ دو کتابیں ایک قدم اور سہی اور اردو افسانہ، بنیادی اور تشکیلی مسائل بعد از مرگ شائع ہوئیں۔ تعلیم سے متعلق دو کتابیں بھی انگریزی میں شائع ہوئیں۔[2]

تصانیف ترمیم

  • نغمہ روح (1932ء )
  • اندھی دنیا اور دوسرے افسانے (1939ء، افسانے )
  • نازو اور دوسرے افسانے (1940ء، افسانے )
  • آبگینے (1940ء، قطعات)
  • افادی ادب (1941ء، تنقید)
  • خونی اور دوسرے افسانے (1943ء، افسانے )
  • خوناب (1943ء، غزلیں)
  • خندہ سحر (1944ء، نظمیں)
  • روحِ عصر (1945ء، قطعات، غزلیں، نظمیں)
  • لو ایک قصہ سنو (1952ء، افسانے )
  • یہ زندگی اور دوسرے افسانے (1958ء، افسانے )
  • غزل اور درسِ غزل (1959ء، تنقید)
  • حالی اور نیا تنقیدی شعور (1962ء، تنقید)
  • ٹیڑھی زمین (1963ء، قطعات)
  • سرورِ جاں (1963ء، غزلیں)
  • مطالعہ اور تنقید (1965ء، تنقید)
  • شعلہ بہ جام (1968ء، قطعات)
  • غزل کی سرگزشت (1975ء، تنقید)
  • دلی کا روڑا (1977ء، سوانح)

نمونۂ کلام ترمیم

غزل

سمجھتا ہوں میں سب کچھ صرف سمجھانا نہیں آتاتڑپتا ہوں مگر اوروں کو تڑپانا نہیں آتا
یہ جمنا کی حسیں امواج کیوں ارگن بجاتی ہیںمجھے گانا نہیں آتا مجھے گانا نہیں آتا
یہ میری زیست خود اک مستقل طوفان ہے اخترؔ مجھے ان غم کے طوفانوں سے گھبرانا نہیں آتا[5]

غزل

اپنی اجڑی ہوئی دنیا کی کہانی ہوں میں ایک بگڑی ہوئی تصویر جوانی ہوں میں
آگ بن کر جو کبھی دل میں نہاں رہتا تھاآج دنیا میں اسی غم کی نشانی ہوں میں
ہائے کیا قہر ہے مرحوم جوانی کی یاددل سے کہتی ہے کہ خنجر کی روانی ہوں میں
عالم افروز تپش تیرے لیے لایا ہوںاے غم عشق ترا عہد جوانی ہوں میں
چرخ ہے نغمہ گر ایام ہیں نغمے اخترؔ داستاں گو ہے غم دہر کہانی ہوں میں[6]

غزل

سینہ خوں سے بھرا ہوا میرا

اف یہ بد مست مے کدہ میرا

نا رسائی پہ ناز ہے جس کو

ہائے وہ شوق نا رسا میرا

دل غم دیدہ پر خدا کی مار

سینہ آہوں سے چھل گیا میرا

یاد کے تند و تیز جھونکے سے

آج ہر داغ جل اٹھا میرا

یاد ماضی عذاب ہے یا رب

چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

منت چرخ سے بری ہوں میں

نہ ہوا جیتے جی بھلا میرا

ہے بڑا شغل زندگی اخترؔ

پوچھتے کیا ہو مشغلہ میرا

وفات ترمیم

اختر انصاری 5 اکتوبر، 1988ء کو علی گڑھ، بھارت میں وفات پا گئے۔[2][3][4]

حوالہ جات ترمیم