اسد محمد خان
اسد محمد خان ( پیدائش: 26 ستمبر، 1932ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے بقید حیات افسانہ نگار، ڈراما نویس اور شاعر ہیں جو جدید اردو افسانے میں اپنا منفرد مقام رکھتے ہیں۔
اسد محمد خان | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
عملی زندگی | |
مادر علمی | سندھ مسلم گورنمنٹ آرٹس اینڈ کامرس کالج کراچی |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
حالات زندگی
ترمیماسد محمد خان 26 ستمبر 1932ء کو بھوپال، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ 1950ء میں پاکستان آئے اور کراچی میں بس رہے۔ یہیں تعلیم مکمل کی۔ افسانہ نگاری، تراجم اور شاعری کے علاوہ ریڈیو اور بعد ازاں ٹیلی وژن کے لیے گیت، ڈرامے اور فیچر لکھے۔
ادبی خدمات
ترمیماسد محمد خان کے پاس متنوع زندگی کا گہرا تجربہ، فطرتِ انسانی کا شعور اور اظہار کی بے پناہ صلاحیت کے ساتھ ساتھ تاریخ، تخیل اور معاصر زندگی سے لپٹی ہوئی پیچیدہ حقیقت کو بیان کرنے کے لیے نئے نئے فنی وسائل اور تکنیک تلاش کرنے کی والہانہ امنگ ہے۔ افسانوی دنیا میں اُن کی شہرت پہلے مجموعے کھڑکی بھر آسمان سے ہی ہو گئی حالاں کہ اُس میں تیرہ 13 افسانوں کے ساتھ اڑتیس 38 نظمیں بھی شامل تھیں مگر اس مجموعے میں شامل باسودے کی مریم، مئی دادا اور ترلوچن ایسے افسانے تھے جنھوں نے اُردو کے یادگارافسانوں میں جگہ حاصل کرلی۔ یہ تینوں کرداری افسانے ہیں۔ پہلے دو تو گھریلو وفادار ملازموں کی قبیل کے وہ افسانے ہیں جن میں جاگیرداری پس منظر کے حامل کنبے کے افراد (والدین) کو اور زیادہ عظیم المرتبت بنایا گیا ہے اور متکلم کے لیے بھی فخر کا یہ حوالہ موجود ہے کہ اُس کی تربیت میں عظیم قدروں اور رویوں کا دخل ہے مگر باسودے کی مریم اور مئی دادا غیر معمولی کردار ہوں گے، جنہیں یادگار بنانے میں اسدمحمدخان کی کردارنگاری، فضاسازی اور مکالمہ طرازی کا گہرا دخل ہے۔ باسودے کی مریم اُردو کے افسانوی ادب میں بے مثال اضافہ ہے۔ ترلوچن کراچی کی جھگیوں اور کچی آبادیوں کے دکھوں کے تخلیقی مداوے کے لیے ایک مثالی خیال طرازی ہے، اسد محمد خان مذہب کے نام پر منافقت اور استحصال کا مخالف ہے مگر ایک گہرا مذہبی اور متصوفانہ تجربہ اُس کے تخلیقی وجود میں ایسے رنگ بناتا رہتا ہے جو اشفاق احمد، قدرت اللہ شہاب یا ممتاز مفتی کے حکام رس رنگوں سے مختلف ہیں چنانچہ گھس بیٹھیا، چاکر، شہرکوفے کا محض ایک آدمی، غصے کی نئی فصل اور وہ افسانے جن کا پہلے ذکر ہو چکا اسی تجربے کے سبب معنوی گہرائی اور حسیاتی وسعت رکھتے ہیں :
” | تمہاری اَنّا بُوا کی دوسری وصیت بھی پوری کرائی، عذاب ثواب جائے بڑی بی کے سر، میاں ہم نے تو ہرے بھرے گنبد کی طرف منہ کرکے کئی دیا کہ یارسول اللہ باسودے والی مریم فوت ہوگئیں، مرتے وَخت کہہ رئی تھیں کہ نبی جی سرکار میں آتی ضرور مگر میرا ممدو بڑا حرامی نکلا، میرے سب پیسے خرچ کرا دیے[1]۔ | “ |
” | خجالت کے آنسوؤں میں بھیگتے ہوئے اُس نے گہوارے کا پایا تھام لیا اور ساتھ ساتھ چلنے لگا اور ہولے ہولے اپنی صفائی میں کہتا چلا کہ بی بی میں بھول گیا تھا، بٹیا میں بھول گیا تھا، اماں میں بھول گیا تھا اور آٹھ نمبر بلاک کی حد پر اُس نے گہوارے کا پایا چھوڑ دیا پھر عین الحق نے ایک چیخ کی بازگشت میں بلاک نمبردو کی طرف سعی کی اور پکارتا چلا کہ میں بھول گیا تھا۔ ایک ایک مکان پر سے گزرتے ہوئے اُس نے اپنے حافظے میں سب چیزوں اور سب لوگوں کی حاجت مندیاں اور تمام چھوٹے بڑے دکھ محفوظ کیے اور طے کیا کہ مرغ کی بانگ سے پہلے اُنہیں فہرست میں درج کرے گا اور جب مرغ بانگ دے رہے ہوں گے تو عمل درآمد کرے گا[2]۔ | “ |
مگر اسدمحمدخان کا یہ گہرا داخلی تجربہ اُسے ملّائیت کی معنوی دنیا کو لایعنی قراردینے سے نہیں روک سکتا۔ اُس کے افسانے مناجات میں سے چند فقرے دیکھیے :
” | مولا اب تو کچھ ایسا ہو کہ ایک فِزی سسٹ ہماری ہی صفوں سے اُٹھے جو کھڑے ہو کر سلام پڑھتا ہو کہ جیبوں میں ڈھیلے لے کر چلتا ہو، جو اسٹاک ہوم کے چورستوں میں قینچیاں مارے، کہ مشرکین بیرونی اور کفّارِ مقامی کا پِتّا پانی ہووے۔ ہم آرام سے تیرے نام کا بھنگڑا ڈال سکیں اور ملحدوں کافروں مشرکوں کی بستیوں کی جانب مُنہ پر کلائیاں رکھ کر آرام سے بکرا بُلا سکیں۔ اے صاحب الکلام! ہمارے قوالوں کے حلق کشادہ کر، ہمارے ڈوم ڈھاڑیوں کو زمین پر پھیل جانے کا اِذن دے__ ہمارے کھلاڑیوں ہی کو ہرنوع کی سربلندی عطا کر، کہ اب تو وہی ہمارا اثاث البیت ہیں۔ ہمارے دشمنوں کو اب اندر سے سنگسار فرما، ان کی میانیوں میں برف باری کر، دھماکے فرما[3]۔ | “ |
” | میں وکیل عون محمد ہوں، اس وقت وکالت نامے پہ پندرہ سالہ موکل کے دستخط لے کر اپنے دفتر جارہا ہوں۔۔’اصل میں پولیس نے کاکے کے خلاف Blasphemy کا کیس درج کیا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ لوگ اُسے جان سے نہ مار دیں __ ہوا یہ تھا کہ کاکے نے محلے کے پیش امام کی جلتی ہوئی لالٹین پہ غلیل میں پتھر رکھ کے مار دیا تھا تو حجرے میں آگ پھیل گئی تھی جس سے پیش امام کی نئی واسکٹ، ایک پیلا رومال اور کچھ برکتوں والے کاغذ ضائع ہوگئے تھے ۔ جن پر رحمتوں والا پاک کلام چھپا ہوا تھا۔ اسی وجہ سے وہ لوگ بے حرمتی کا پرچہ کٹوانے میں کامیاب ہوگئے۔ مگر مجھے یقین ہے کہ آخر کو سچ سامنے آئے گا اور کاکا بری ہو جائے گا[4]۔ | “ |
اسد محمد خان کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ تاریخ سے انسانی بصیرت کے لیے ایسے معنی کشید کرتے ہیں جو ایک طرف انسانی فطرت کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں اور دوسری طرف تاجداروں، غرض مندوں، سازشیوں اورجلسے جلوسوں کی زینت بننے والوں کی ظاہری اغراض کے پس پردہ یامتوازی، دُھندلکے میں چھپی تمناؤں کو ایک وجدانی انکشاف بنا دیتے ہیں۔ اسدمحمدخان نے ایک سنجیدہ ڈی ٹیکٹو اسٹوری، گھڑی بھر کی رفاقت، نربدا، رگھوبا اور تاریخ فرشتہ اور ندی اور آدمی جیسے بہت اہم افسانے لکھے ہیں۔ اول الذکر کا عنوان کافی غیر سنجیدہ ہے مگر یہ عمل اسد محمد خان کی جانب سے نستعلیقیت اور سنجیدگی پر ہرآن لعنت بھیجنے کے تصورِحیات سے مطابقت رکھتا ہے، تاہم یہ اقتدار کے کھیل کے اندر آرزو، فریب، سازش، بے رحمی، باخبری اور لاعلمی کے سبھی عناصر کی ڈرامائیت پر مبنی ایسا افسانہ ہے جو عزیزاحمد کے جب آنکھیں آہن پوش ہوئیں اور خدنگِ جستہ کے پائے کا ہے کہ اس میں تاریخ، تخیل اور عصری شعور سے بصیرت افروزی کا کام لیا گیا ہے۔ اسی طرح گھڑی بھر کی رفاقت (برجِ خموشاں) میں ایک طبع زاد کہاوت مسافرت میں ایک وقت ایسا بھی آتا ہے جب گھوڑا اپنے سوار کی راسیں سنبھال لیتا ہے کی معنویت کو تاریخ کے پردے پر پھیلا کے ایک ڈرامائی منظر تشکیل دیا ہے، جس میں اِس نکتے کو اُجاگر کیا گیا ہے کہ سازشی کے تحفے سے قربت بھی آپ کو اپنے رنگ میں رنگ سکتی ہے۔ رگھوبا اور تاریخِ فرشتہ تو اس حوالے سے ایک حیرت انگیز افسانہ ہے، جس میں تاریخ، تہذیب، تصوف اور علم البشر افسانہ نگار کے تخلیقی تخیل سے ہم آہنگ ہو کر اُردو کا ایک یادگار افسانہ تخلیق ہوا ہے جس کی فضا سازی اور تخلیقی زبان اسد محمد خان کی انفرادیت کو ظاہر کرتی ہے۔ اسد محمد خان میں ڈراما بنانے اور ڈراما لکھنے کی بے پناہ صلاحیت ہے، یوپی، خطۂ پنجاب، سرحد اور کراچی میں آباد متنوع انسانوں کے ہر لہجے کی بازیافت تخلیقی سطح پر کر سکتا ہے، پھر اُس کے مشاہدے، تجربے، مطالعے اور تخلیقیت نے اُسے اتنا رنگارنگ مواد دیا ہے جو اُس کے بہت کم معاصرین کو نصیب ہوا ہے مگر دوتین چیزیں ایسی بھی ہیں جو ناقدین کو معائب کے طور پر دکھائی دیں گی جن سے اسد محمد خان اجتناب برتیں تو پھر وہ اسد محمد خان نہ رہیں۔ اسد محمد خان اُن لوگوں میں سے ہیں جنہیں انہدام یا ردِ تشکیل سے تخلیقی دلچسپی ہے اس لیے وہ اچانک اس طرح کے فقرے بھی لکھ جاتے ہیں جو افسانے کی فضا کی کبھی ضرورت ہوتے ہیں اور کبھی نہیں ہوتے۔ پاکستانی معاشرہ جس طرح تشدد ،تفتیش اور خودکشی کی لپیٹ میں آیا ہے اورساتھ ہی ساتھ جو پاکستان کے خود ساختہ محافظوں نے، اپنے حقِ شناخت کے طلب گاروں کو جس طرح لاپتہ کرنا شروع کیا ہے، اس سے سبھی واقف ہیں،یہ گم شدہ لوگ یا ان کے تفتیش خانوں میں ہیں یا ان کے آقاؤں نے خرید لیے ہیں،جو باقی بچے ہیں، وہ جرائم کی زیرِ زمین دنیا میں ہیں، انھیں بردہ فروشوں نے ماں باپ سے جدا کر دیا ہے،اب انھیں کوئی لوری اور کہانی سنانے والا نہیں،اب اگر کسی کی آنکھ میں ہمدردی نظر آتی ہے تو وہ لیاری کا کالا شیر اللہ بخش ہے یا پھر قبروں میں لیٹے وہ لوگ جنھوں نے ان کی امیدوں کا قاتل بننے کے لیے خود کش جیکٹ پہن رکھی تھی۔ اسد محمد خان شاید اردو کا وہ واحد افسانہ نگار ہے جس نے ان لاپتہ ہونے والے خصوصاً بلوچوں کے بارے میں لکھا ہے اور جو کراچی میں رزق کے لیے ریزہ چینی کرنے والی ہر قوم کی زبان ہی نہیں سمجھتا بلکہ ان کے احساس کو بھی سمجھتا ہے۔[5]
تصانیف
ترمیم- 1982ء - کھڑکی بھر آسمان (کہانیاں اور نظمیں)
- 1990ء - برجِ خموشاں (کہانیاں)
- 1997ء - رُکے ہوئے ساون (گیت )
- 1997ء - غصے کی نئی فصل (کہانیاں)
- 2002ء - The Harvest of Anger and Other Stories (اکیس کہانیوں کا انگریزی ترجمہ)
- 2003ء - نربدا اور دوسری کہانیاں (کہانیاں)
- 2005ء - جو کہانیاں لکھیں (کلیات)
- 2006ء - تیسرے پہر کی کہانیاں (کہانیاں)
- 2010ء - ایک ٹکڑا دھوپ کا (12 افسانے)
- 2016ء - ٹکڑوں میں کہی گئی کہانیاں (افسانے)
اعزازات
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ باسودے کی مریم، کھڑکی بھرا آسماں، اسد محمد خان، ص50
- ↑ ترلوچن، کھڑکی بھر آسماں،اسد محمد خان، ص148
- ↑ مناجات، برجِ خموشاں،اسد محمد خان، ص86
- ↑ تیسرے پہر کی کہانیاں،اسد محمد خان، ص69
- ↑ اس ماہ کے منتخب مصنفین، ڈاکٹرانواراحمد، اخبارِ اردو، مئی 2012ء، ادارہ فروغ قومی زبان، اسلام آباد