اعظم طارق (سپاہ صحابہ پاکستان)

اعظم طارق (28 مارچ، 1962ء تا (6 اکتوبر، 2003ء) مذہبی و سیاسی تنظیم سپاہ صحابہ پاکستان کے سربراہ تھے اور پاکستان میں اپنے وقت کے طاقتور ترین راہنماؤں میں سے ایک تھے۔ اس کے علاوہ ایک متنازع شخصیت کے طور پر بھی جانے جاتے تھے۔ فرقہ واریت پھیلانے اور فرقہ وارانہ دہشت گردی کے الزامات کی زد میں بھی رہے۔ شیعہ ذرائع اعظم طارق کو 1997ء تا 2003ء سینکڑوں اہل تشیع مسلمانوں کی ہلاکت کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں۔

علامہ اعظم طارق
فائل:Azam tariq.jpg
پیدائش10 جولائی 1962(1962-07-10)
چیچہ وطنی، پاکستان
وفاتاکتوبر 6، 2003(2003-10-06) (عمر  41 سال)
نزد اسلام آباد
وفاداریسپاہ صحابہ پاکستان

ابتدائی زندگی

اعظم طارق تحصیل چیچہ وطنی میں واقع گاؤں ایک سو گیارہ/ سات آر میں پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ایک راجپوت منج خاندان سے بتایا جاتا ہے۔ اپنی ابتدائی مذہبی تعلیم ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ میں واقع دار العلوم ربانیہ سے حاصل کی۔ تحصیل علم کے لیے وہ مدرسہ تجوید القرآن چیچہ وطنی اور جامعہ عربیہ نعمانیہ چنیوٹ سے بھی مسلک رہے۔ انھوں نے 1984ء میں جامعہ علوم اسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی سے دورہ حدیث کا کورس مکمل کیا۔[1] انھوں نے وفاق المدارس سے عربی اور اسلامیات کے مضامین میں ایم اے کی ڈگریاں بھی حاصل کی ہوئی تھیں۔ تعلیمی سلسلے کی تکمیل کے بعد وہ جامعہ محمودیہ کراچی میں صدر مدرس اور ناظم اعلیٰ مقرر ہوئے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ جامع مسجد صدیق اکبر نارتھ کراچی کے خطیب بھی تھے۔

سپاہ صحابہ میں شمولیت

جھنگ میں سپاہ صحابہ (اس وقت انجمن سپاہ صحابہ) کے قیام کو ابھی سات ماہ ہی کا عرصہ گذرا تھا وہ اس میں شامل ہو گئے اور کراچی میں اس کی تشکیل شروع کر دی۔ وہ پہلے کراچی سنٹرل اور بعد میں کراچی ڈویژن کے سیکریٹری جنرل مقرر ہوئے۔ 1989ء میں جماعت کے بانی قائد حق نواز جھنگوی نے انھیں صوبہ سندھ کا سیکریٹری جنرل نامزد کر دیا۔ حق نواز جھنگوی کی ہلاکت کے بعد وہ پہلے سپاہ صحابہ کے ڈپٹی سیکریٹری بنے۔ جنوری 1991ء میں وہ جماعت کے نائب سرپرست اعلیٰ بنے۔ اس مرحلے پر انھوں نے کراچی سے سکونت ترک کر دی اور جھنگ میں قیام پزیر ہو گئے۔ یہاں انھیں مسجد حق نواز جھنگوی کا خطیب مقرر کیا گیا۔ ملکی سیاست میں ان کا نام اس وقت منظر عام پر آیا جب انھوں نے سپاہ صحابہ کے پلیٹ فارم سے جھنگ شہر کی قومی اسمبلی کی سیٹ جیتی۔ ایثار القاسمی کے قتل کی وجہ سے ہونے والے ضمنی انتخابات میں انھوں نے سپاہ صحابہ کے روایتی حریف شیخ خاندان سے تعلق رکھنے والے شیخ یوسف کو شکست دی۔

سپاہ صحابہ کی سربراہی

فائل:Azam tariq2.JPG

جنوری 1996ء میں لاہور کے سیشن کورٹ میں ہونے والے بم دھماکا میں سپاہ صحابہ کے قائد ضیاء الرحمٰن فاروقی کی ہلاکت کے بعد وہ سپاہ صحابہ کے سرپرست اعلیٰ بن گئے۔ انھیں گوجرانولہ کے ایس ایس پی اشرف مارتھ کے قتل کے مقدمے میں گرفتار کیا گیا اور کچھ عرصہ جیل میں گزارا۔ 1997ء میں ہونے والے عام انتخابات میں وہ قومی اسمبلی کی سیٹ تو نواب امان اللہ سیال کے ہاتھوں ہار گئے تھے لیکن وہ صوبائی اسمبلی کی نشست صرف چند ووٹوں کی فرق سے جیتنے میں کامیاب رہے تھے۔ صوبائی اسمبلی کی نشست پر ان کا مقابلہ ڈاکٹر ابو الحسن انصاری سے تھا۔ گذشتہ انتخابات کے موقع پر بھی وہ میانوالی جیل میں بند تھے لیکن اس کے باوجود وہ جھنگ شہر پر مشتمل سپاہ صحابہ کی قومی اسمبلی کی روایتی نشست جیتنے میں کامیاب رہے۔ جھنگ سے ایم این اے منتخب ہونے کے چند ماہ بعد ان کو عدالت نے رہا کرنے کاحکم جاری کیا۔ رہائی کے بعد انھوں نے ایک نئی جماعت ملت اسلامیہ کی بنیاد رکھی۔ اس جماعت کے پلیٹ فارم سے انھوں نے جنرل پرویز مشرف کی حمایت کی اور وزیراعظم ظفراللہ جمالی کا ساتھ دیا۔

اعظم طارق کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ کے کارکنوں کے درمیان میں جتنے زیادہ مقبول تھے شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد ان کے اتنے ہی مخالف تھے۔ مخالف فرقے کے لوگوں میں ان کے خلاف پائی جانے والی نفرت کا بنیادی وجہ 1993ء میں جھنگ کے ایک عوامی اجتماع ان کی وہ تقریر تھی جس میں انھوں نے شیعہ مسلک کے بارہویں امام مہدی کے بارے میں سخت الفاظ استعمال کیے تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کا تعلق سپاہ صحابہ کے ایک انتہا پسند دہشت گرد ریاض بسرا کی تنظیم لشکر جھنگوی سے بھی رہا جس نے کیے بڑے بڑے شیعہ علما کو قتل کیا۔ خود اس بات کر تردید کرتے رہے۔ ان کے خلاف 65 مقدمے درج ہوئے جن میں 28 کا تعلق دہشت گردی کے قانون سے رہا۔

ان پر کئی قاتلانہ حملے ہوئے۔ پہلا حملہ ضلع سرگودھا کی تحصیل شاہ پور میں اس وقت ہوا جب وہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لیے اسلام آباد جا رہے تھے۔ اس حملے میں ان پر راکٹ بھی فائر کیے گئے لیکن وہ بال بال بچ گئے۔

17 جنوری 1986ء میں لاہور کے سیشن کورٹ پر ہونے والے حملے کا بھی اصل نشانہ اعظم طارق ہی تھے۔ حملے میں سپاہ صحابہ کے قائد ضیا الرحمٰن فاروقی، دو درجن سے زائد پولیس ملازمین، ایک پریس فوٹوگرافر ہلاک ہوئے جبکہ خود اعظم طارق زخمی ہو ئے۔

قتل

اعظم طارق کو 4 اکتوبر 2003ء کو ایم 2 موٹروے سے اسلام آباد داخل ہونے کے بعد گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ ساتھ ہی ایک اور راہنما قاری ضیاء الرحمن کی ہلاکت بھی ہوئی۔ ایک اخبار کے مطابق ایک سفید پجیرو اعظم طارق کی گاڑی کا پیچھا کرتے ہوئے اس سے آگے بڑھی اور سڑک پر کسی ایکشن فلم کے منظر کی طرح گھومتے ہوئے اس کا راستہ روک کر کھڑی ہو گئی۔ پجیرو میں سے تین افرد اچھل کر باہر نکلے۔ اور خودکار ہتھیاروں سے اعظم طارق کی گاڑی پر تین اطراف سے گولیوں کی بوچھاڑ کر دی۔ دو سے تین منٹ کے اندر 200 گولیاں برسائی گئیں۔ صرف اعظم طارق کو 40 گولیاں لگیں۔ اپ کا جنازہ عبدالرشید غازی نے پڑھایا- اپ کے قتل کا الزام اعظم طارق کے لوگزں نے اس وقت کے پرویز مشرف کے حمایتیوں پر لگایا تھا۔[1]

حوالہ جات

  1. ^ ا ب "In Death, as in Life"۔ Newsline۔ 15 اکتوبر 2003۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 ستمبر 2014 

بیرونی روابط