امجد نجمی

ہندوستانی شاعر اور ڈرامہ نگار

امجد نجمی (1899–1974ء) ایک ہندوستانی استاذ شاعر، ڈراما نگار، افسانہ نگار اور نثر نگار تھے۔ وہ کرامت علی کرامت کے استاذِ سخن تھے۔ اڈیشا (اڑیسہ) اور آندھرا پردیش میں اردو زبان کی فروغ و ترقی کے لیے ان کی خدمات ہیں۔

نجم الشعراء، شاعر اڑیسہ
امجد نجمی
معلومات شخصیت
پیدائش 29 اکتوبر 1899ء
بخشی بازار، کٹک، بنگال پریزیڈنسی، برطانوی راج
وفات 1 فروری 1974(1974-20-01) (عمر  74 سال)
کٹک، اڈیشا، بھارت
قومیت  برطانوی ہند
 بھارت
عملی زندگی
تعليم میٹرک
مادر علمی پیاری موہن اکیڈمی، کٹک
پیشہ شاعر، ڈرامہ نگار، مصنف
پیشہ ورانہ زبان اڑیا، اردو، فارسی
دور فعالیت 1916 تا 1974ء
مؤثر محمد اقبال (شاعری میں)
آغا حشر کاشمیری (ڈراما نگاری میں)

ابتدائی و تعلیمی زندگی ترمیم

شیخ محمد امجد امجد نجمی 29 اکتوبر 1899ء کو بخشی بازار، کٹک میں واقع اپنے آبائی مکان میں پیدا ہوئے تھے۔[1] ان کے والد محمد یوسف یوسف (متوفی: 1924ء) اردو کے شاعر تھے اور اردو کے علاوہ اڈیہ، فارسی اور انگریزی میں بھی اچھی استعداد رکھتے تھے۔[1]

امجد نجمی کی رسم بسم اللہ خوانی پانچ برس کی عمر میں ادا کی گئی، انھوں نے ابتدائی تعلیم مدرسہ اسلامیہ بخشی بازار، کٹک میں حاصل کی، جہاں پر شیخ محمد مرتضیٰ سے انھوں نے اردو اور فارسی کی کتابیں پڑھیں، گھر پر ایک آخون جی سے اڈیہ اور ابتدائی ریاضی سیکھی، اڈیہ زبان سیکھنے کے بعد ان کا داخلہ مقامی رومن کیتھولک مڈل انگلش اسکول میں کر دیا گیا، جہاں پر اردو تو نہ تھی اور حساب میں کچے تھے؛ البتہ انگریزی اور اڈیہ ادب میں امتیازی نمبرات لاتے تھے، وہیں کے ہیڈ اور ایک اڈیہ شاعر پنڈت شیام گھن ناراین نے انھیں اڈیہ شاعری میں اصلاح دی، جس وقت ان کی عمر بس تیرہ سے چودہ برس کی تھی اور غزل گوئی کی بجائے نظم گوئی کی طرف توجہ زیادہ رہی۔[2]

1916ء میں دسویں کے امتحان کے لیے پیاری موہن اکیڈمی، کٹک میں وہ داخل ہوئے، جہاں پر انھوں نے باقاعدگی سے اردو اور فارسی پڑھنا شروع کیا، اب غزلیں بھی کہنے لگے تھے۔ اسی زمانے میں پلٹن مسجد، بخشی بازار کے پیش امام حبیب اللہ تسنیم جے پوری سے انھوں مشورۂ سخن لیا، جنھیں نجمی انگریزی پڑھاتے تھے اور ان سے نحو و صرف اور فارسی کی بعض کتابیں پڑھتے تھے، انھوں نے ہی امجد نجمی کو امجد کی بجائے نجمی بہ طور تخلص اختیار کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ یہ سلسلہ پابندی سے ایک سال چلا، پھر تسنیم جے پوری کے کاروبار کی غرض سے رنگون چلے جانے کی بنا پر یہ سلسلہ منقطع ہو گیا۔[3]

نجمی نے حبیب اللہ تسنیم جے پوری کے رنگون چلے جانے کے بعد؛ اپنا نام صیغۂ راز میں رکھ کر اپنے والد محمد یوسف یوسف سے اصلاح لینا شروع کیا اور اسی زمانے میں کرامت علی کرامت کے والد رحمت علی رحمت (متوفی: 1963ء) سے بھی قدرے استفادہ کیا۔[4] نیز مالک رام کی تحریر کے مطابق؛ نجمی کو شاعر مشرق محمد اقبال سے بڑی عقیدت تھی، جس کی بنا پر وہ بہ ذریعہ خط کتابت اقبال سے اصلاح لینا چاہتے تھے؛ مگر اقبال نے حسب معمول ٹال کر انھیں اساتذہ کے کلام کے مطالعے کا مشورہ دیا۔ بعد میں جب فارسی میں شعر گوئی کا شوق ہوا تو انھوں نے شمس الدین شمس منیری سے مشورۂ سخن لیا، جب منیری راونشا کالج میں قانون کے مدرس کی حیثیت سے کٹک میں مقیم تھے۔[5]

عملی و قلمی زندگی ترمیم

نجمی میٹرک ہی کر رہے تھے کہ خلافت اور ترک موالات کی تحریکیں؛ سارے ہندوستان میں پھیل گئیں، طلبہ اسکول کالج کو خیر باد کہ رہے تھے تو نجمی بھی اسی ریلے میں بہ گئے، جلسوں میں اپنی اور دوسروں کی نظمیں سنایا کرتے تھے، اسی زمانے میں ان کی، مہاتما گاندھی سے بھی ملاقات ہوئی؛ یہاں تک کہ جیل بھی جانا پڑا۔[6] جب رہا ہوئے تو ان کے والد نے اپنے چھوٹے بھائی شیخ محمود شریف کے پاس رانچی بھیج دیا، رانچی میں ایک سال گزارنے کے بعد جب نجمی کٹک واپس آئے، تو انھیں وہیں ریلوے میں ملازمت مل گئی، پھر انھوں نے 1922ء کے اواخر میں بعض بیرونی اور مقامی شعرا کو لے کر ”بزمِ ادب“، کٹک کی بنیاد رکھی، جس کا پہلا مشاعرہ یکم جولائی 1923ء کو مدرسہ سلطانیہ، کٹک میں منعقد ہوا تھا۔[7]

ریلوے کی ملازمت کے سلسلے میں 1924ء میں ان کا قیام گرو جٹیا (موجودہ گُروڈی جھاٹیا)، ضلع کٹک میں اور 1926ء میں راج آٹھ گڑھ، ضلع کٹک میں رہا، اسی زمانے میں 1928ء میں انھوں نے جٹنی، خودرہ میں ”ینگ مسلم کلب“ کی بنا ڈالی، جس کے تحت ڈرامے پیش کیے جاتے تھے۔ 1938ء میں ان کی منتقلی والٹیر، وشاکھاپٹنم میں ہوئی، تو نجمی نے وہاں پر بعض احباب کے تعاون سے ”بزم ادب“ قائم کی، 1941ء تا 1954ء جس کے وہ صدر بھی رہے اور جس کا نام بدل کر بعد میں ”آل آندھرا اردو مجلس“ ہو گیا، جس سے وہاں کے اردو داں طبقوں میں اب بھی شعر و ادب کا سلسلہ جاری ہے اور نئی آب و تاب کے ساتھ پروان چڑھتا جا رہا ہے۔[8]

اکتوبر 1954ء میں جب ملازمت سے سبکدوش ہو کر نجمی کی کٹک واپسی ہوئی تو ان سے بزم ادب، کٹک کی صدارت کی درخواست کی گئی، جس کو قبول کرکے اس کے فرائض دیتے رہے، پھر بعد میں مجلس انتظامیہ سے اختلاف کی بہ دولت اس سے مستعفی ہو گئے۔[9] شاعری میں محمد اقبال اور ڈرامے میں آغا حشر کاشمیری کے وہ گرویدہ تھے۔[10]

1954ء میں پنشن پر ملازمت سے سبکدوشی ہوئی، پنشن قلیل تھی؛ اس لیے اڈیشا سرکار نے ان کے لیے 50 روپے ماہانہ ادبی وظیفہ جاری کیا تھا۔ اسی زمانے میں انھوں نے ٹائپ اور اسٹینو گرافی سکھانے کے لیے سٹی کمرشل اسکول کے نام سے ایک اسکول بھی قائم کیا تھا، اس سے بھی کچھ آمدنی ہو جاتی تھی اور سنگ تراشی سے بھی بسر کرتے تھے۔[11]

1965ء میں ماہنامہ شاخسار کے اجرا کے وقت سے لے کر 1973ء تک نجمی اس رسالے کے مدیرِ اعلیٰ رہے۔[12] نیز انھوں نے اپنے والد محمد یوسف یوسف کا شعری مجموعہ ”نکہتِ باغِ یوسف“ کے نام سے مرتب کیا تھا، جو تا ہَنوز غیر مطبوعہ ہے۔[13]

شاعری و ڈراما نگاری ترمیم

نجمی نے اسکول کے زمانے میں سب سے پہلے رادھاناتھ رائے (متوفی: 1908ء) اور مدھو سودن راؤ (متوفی: 1912ء) سے متاثر ہو کر اڈیہ زبان میں شاعری شروع کی تھی۔[2] 1916ء میں پابندی سے غزل گوئی شروع کر دی تھی اور 1920ء تک اردو، اڈیہ، فارسی اور انگریزی؛ ان چاروں زبانوں پر ان کی مضبوط گرفت ہو چکی تھی اور فارسی میں شعر گوئی پر مہارت حاصل کر چکے تھے؛ البتہ بہ قول کرامت علی کرامت 1916ء سے 1920ء تک کہی ہوئی غزلوں کو نجمی نے اپنے بیاض سے خارج کر دیا تھا؛ اس لیے محفوظ نہیں رہیں۔[14] 1961ء میں ”طلوعِ سحر“ اور 1969ء میں ”جُوئے کہکشاں“ کے نام سے ان کے دو شعری مجموعے شائع ہوئے،[15] جن کے مرتب کرامت علی کرامت تھے۔[16] 2017ء میں کرامت علی کرامت ہی نے بیس سالوں کی انتھک محنتوں اور کوششوں کے بعد؛ نجمی کی مطبوعہ اور غیر مطبوعہ شاعری کو ”کلیاتِ امجد نجمی“ کے نام سے شائع کیا۔[17][18]

نجمی نے 1916–17ء میں بمبئی پارسی تھیٹریکل کمپنی سے متاثر ہو کر آغا حشر کے طرز پر سے متاثر ہو کر اداکاری اور ڈراما نگاری کی طرف مائل ہوئے،[19][20][21] 1921ء میں باضابطہ اسٹیج پر نمودار ہوئے اور 1928ء تک ڈراموں کی ہدایت کاری بھی شروع کر دی۔[20]

1928ء سے 1938ء تک وہ ڈراموں میں اس قدر مشغول رہے کہ شعر گوئی کے سلسلے میں ایک حد تک غفلت برتنے لگے تھے۔ اڈیشا میں اردو اسٹیج کو سنوارنے، نکھارنے اور اسے مقبول عام کرنے میں ان کا سب سے بڑا حصہ رہا ہے۔[20] انھوں نے چار ڈرامے لکھے: بد نصیب بادشاہ، کامیاب تلوار، کشور کانتا اور انصاف کا کوڑا؛ یہ ڈرامے اب تک غیر مطبوعہ ہیں۔[22]

خطوط نگاری ترمیم

حفیظ اللہ نیولپوری کی صراحت کے مطابق؛ نجمی کی نثر نگاری اور ادبی اہمیت کا دوسرا پہلو ان کی خطوط نگاری ہے، مختلف موضوعات پر لکھے گئے اپنے خطوط کو 1966ء میں ”صریرِ قلم“ کے نام سے خود انھوں نے مرتب کیا تھا، جو تا ہَنوز شائع تو نہ ہو سکا؛ البتہ ان کے بہت سے خطوط ماہنامہ شاخسار، کٹک اور رہنمائے تعلیم، دہلی میں شائع ہوتے رہے ہیں۔[23]

اعزازات و مناصب ترمیم

امجد نجمی کی یاد میں ”نجمی اکیڈمی“ کے نام سے اڈیشا میں ایک ادبی و فلاحی رجسٹرڈ ادارہ قائم ہے، جس کی طرف سے ہر سال اردو کے علاوہ دوسری زبانوں کے شعرا و ادبا کو بھی ”نجمی ایوارڈ“ سے نوازا جاتا ہے۔[24][25]

1988ء میں نجمی کے ایک قدردان نور الدین احمد نے نجمی کے فکر و فن پر انگریزی میں ایک کتاب دَ برائٹیسٹ ہیوین (The Brightest Heaven) کے نام سے لکھی تھی[18][26] اور اس کے علاوہ نور الدین احمد نے محمد قمر الدین خان کے زیر نگرانی Western influence on the poetry of Iqbal and Najmi کے عنوان سے انگریزی میں مقالہ لکھ کر اتکل یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی۔ اسی طرح مسیح اللہ مسیح نے پروفیسر سمیع الحق کے زیر نگرانی ”امجد نجمی: حیات و کارنامہ“ کے موضوع پر مقالہ لکھ کر ڈاکٹریٹ کیا۔[26][18] شیخ قریش نے اپنے جریدے ”صدائے اڑیسہ “ کا خصوصی شمارہ نجمی نمبر شائع کیا تھا۔[18] نیز نجمی کا شعری مجموعہ جُوئے کہکشاں اڈیشا کے جامعات کے ایم اے (اردو) اور اڈیشا مدرسہ ایجوکیشن بورڈ کے فاضل اردو کے نصاب میں داخل ہے۔[18]

نجمی کو 1954ء میں آل آندھرا اردو مجلس کی جانب سے مچھلی پٹنم میں منعقد سالانہ کانفرنس میں، ان کی شاعرانہ عظمت اور ان کی ادبی خدمات کے اعتراف میں ”نجم الشعراء“ کے خطاب سے نوازا گیا تھا۔[19] نجمی کے استاذِ سخن شمس الدین شمس منیری نے اپنے شعری مجموعہ ”گلبانگ“ میں نجمی کے ایک مصرعے پر تضمین کرتے ہوئے حاشیے میں انھیں ”شاعرِ اڑیسہ“ کے لقب سے یاد کیا تھا۔[14][27]

وفات ترمیم

امجد نجمی کا انتقال یکم فروری 1974ء کو بہ روز جمعہ ہوا اور نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد؛ درگاہ بازار، کٹک کے قدم رسول قبرستان میں انھیں سپردِ خاک کیا گیا۔[15][28]

حوالہ جات ترمیم

مآخذ ترمیم

  1. ^ ا ب کرامت 2017, p. 29.
  2. ^ ا ب کرامت 2017, pp. 94–95.
  3. کرامت 2017, pp. 95–95.
  4. کرامت 2017, pp. 29–30، 96–97.
  5. کرامت 2017, pp. 29–30.
  6. کرامت 2017, pp. 29–30، 98.
  7. کرامت 2017, pp. 30، 98.
  8. کرامت 2017, pp. 30، 38، 100.
  9. نیولپوری 2001, p. 423.
  10. کرامت 2017, p. 100.
  11. کرامت 2017, pp. 30–31.
  12. نیولپوری 2001, pp. 281–284.
  13. نیولپوری 2001, p. 119.
  14. ^ ا ب کرامت 2017, p. 42.
  15. ^ ا ب کرامت 2017, p. 31.
  16. نیولپوری 2001, p. 447.
  17. الرحمن & جامی 2022, p. 42.
  18. ^ ا ب پ ت ٹ کرامت 2017, p. 41.
  19. ^ ا ب کرامت 1963, p. 168.
  20. ^ ا ب پ کرامت 2017, p. 68.
  21. نیولپوری 2001, p. 238.
  22. کرامت 2017, p. 30.
  23. نیولپوری 2001, p. 209.
  24. نیولپوری 2001, p. 440.
  25. کرامت 2017, p. 40.
  26. ^ ا ب گوپی ناتھ مہانتی و دیگر (2002ء)۔ Cultural Heritage of [Orissa] (بزبان انگریزی)۔ بھوبنیشور: State Level Vyasakabi Fakir Mohan Smruti Samsad۔ صفحہ: 31 
  27. مظہر امام (2004ء)۔ تنقید نما۔ دہلی: اردو اکادمی۔ صفحہ: 141 
  28. مالک رام (اکتوبر–دسمبر 1974ء)۔ "وفیات: امجد نجمی، محمد امجد، شیخ"۔ تحریر۔ دہلی: ظل عباس عباسی: دفتر علمی مجلس۔ 8 (4): 58–62 

کتابیات ترمیم