کرامت علی کرامت

ہندوستانی ریاست اڈیشا کے اردو شاعر، ریاضی داں، مصنف اور نقاد

کرامت علی کرامت (1936–2022ء) سرزمین اڈیشا، بھارت سے تعلق رکھنے والے ایک مشہور شاعر، مصنف، ادبی نقاد، منظوم مترجم، تبصرہ نگار اور ماہر ریاضیات تھے۔ ان کی کتابوں میں ”اضافی تنقید“، ”آب خضر“، ”شعاعوں کی صلیب“، ”لفظوں کا آسمان“ اور ”لفظوں کا آکاش“ قابل ذکر ہیں۔ اڈیشا کی اردو ادب کو ہند و بیرون ہند کی اردو دنیا سے منسلک و متعارف کرانے والوں میں ان کا نام سر فہرست اور نمایاں ہے۔

پروفیسر، ڈاکٹر
کرامت علی کرامت

معلومات شخصیت
پیدائش 23 ستمبر 1936ء
اڑیا بازار، کٹک، صوبہ اڑیسہ، برطانوی راج (موجودہ اڈیشا، بھارت)
وفات 5 اگست 2022(2022-80-05) (عمر  85 سال)
کٹک، اڈیشا، بھارت
شہریت  برطانوی راج
 بھارت
قومیت بھارتی
عرفیت ڈاکٹر پروفیسر کرامت علی کرامت
زوجہ زبیدہ علی (شادی. 1959; وفات. 2020)
اولاد
  • قطب کامران
  • صنوبر سلطانہ
  • در شہوار
  • رفیعہ رباب
عملی زندگی
تعليم بی ایس سی
ایم ایس سی
پی ایچ ڈی
مادر علمی راونشا کالجیٹ اسکول
راونشا کالج
سمبل پور یونیورسٹی
پیشہ شاعر، نقاد، مصنف، مترجم، ریاضی داں، استاد
پیشہ ورانہ زبان اڑیا، اردو، انگریزی
دور فعالیت 1953ء تا 2022ء
کارہائے نمایاں آبِ خضر (تذکرۂ شعرائے اڑیسہ)، لفظوں کا آکاش، اضافی تنقید، نئے تنقیدی مسائل اور امکانات
تحریک اضافی تنقید، صالح اور صحت مند جدیدیت
اعزازات
  • یوپی اکادمی اعزاز (1973ء، 1978ء، 2007ء)
  • میر اکادمی اعزاز ”امتیازِ میر“ (1985ء)
  • اڈیشا اردو اکادمی اعزاز برائے مجموعی خدمات (1989ء)
  • ساہتیہ اکادمی انعام برائے ترجمہ (2004ء)
  • بہار اردو اکادمی اعزاز (2005ء)
  • نجمی اکادمی اعزاز (2012ء)

ابتدائی و تعلیمی زندگی ترمیم

ولادت و خاندان ترمیم

کرامت علی کرامت کی پیدائش 23 ستمبر 1936ء کو بدھ کے دن؛ اڑیا بازار، کٹک، اڈیشا میں ہوئی تھی۔[1][2] ان کے والد رحمت علی رحمت ریاضی داں، اردو کے انشاپرداز اور شاعر تھے۔[3] آبائی وطن قصبۂ سونگڑہ (رسول پور) ہے۔[4]

تعلیمی لیاقت ترمیم

ابتدائی تعلیم ترمیم

کرامت کی رسم بسم اللّٰہ 11 جنوری 1941ء کو ہوئی تھی۔[5] انھوں نے قرآن کریم اور اردو و فارسی کی ابتدائی تعلیم محمد کاظم سونگڑوی سے اور فارسی اپنے والد رحمت علی رحمت سے پڑھی، اس کے بعد جدومنی رتھ نامی ٹیوٹر سے اڑیا علم و ادب اور ریاضی و ہندسہ میں پختگی و مہارت پیدا کی اور اس سلسلے میں اپنے والد سے بھی استفادہ کیا۔[6][5] ابتدائی تعلیم کے بعد انھوں نے کھلی کوٹ کالجیٹ اسکول، برہم پور سے نویں کلاس کی تعلیم حاصل کی، مقامی زبان کے طور پر اڑیا اور کلاسیکی زبان کے طور پر فارسی منتخب کیا،[6] پھر 1952ء میں راونشا کالجیٹ اسکول، کٹک سے درجۂ اول کے ساتھ دسویں (میٹرک) پاس کیا،[1] جہاں انھوں نے اڑیا اور فارسی کی بجائے اردو اور فارسی کا انتخاب کر لیا تھا۔[6]

اعلیٰ تعلیم ترمیم

1954ء میں کرامت نے راونشا کالج (موجودہ راونشا یونیورسٹی)، کٹک سے درجۂ اول کے ساتھ آئی ایس سی (انٹرمیڈیٹ) کا امتحان پاس کیا۔[7][8] 1956ء میں راونشا کالج سے بیچلر آف سائنس کیا۔[9] 1958ء میں راونشا کالج سے ریاضیات میں درجۂ اول کے ساتھ ماسٹر آف سائنس کیا اور درجۂ اول آنے کی بنا پر انھیں طلائی تمغا حاصل ہوا۔[10][11]

علم ریاضی میں پی ایچ ڈی ترمیم

1978 میں، کرامت نے پروفیسر مہندر ناتھ مشرا کے زیر نگرانی سمبل پور یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کے لیے اندراج کرایا اور ریاضی میں نظریۂ امکانات کے موضوع پر "”سَم پروپرٹیز آف رینڈم ایکویشنز“" [Some Properties of Random Equations] کے عنوان سے اپنا مقالہ مکمل کیا، جس پر انھیں 13 نومبر 1982ء کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل ہوئی۔[1][12] ان کا مقالۂ پی ایچ ڈی معروف امریکی ریاضی داں البرٹ ٹرنر بھاروچہ ریڈ کو اس قدر پسند آیا کہ انھوں نے کرامت کے تحقیقی نتائج کو اپنی کتاب ”رینڈم پولینومیلز“ [Rendom Polynomials] میں شامل کیا۔[13][14]

ذاتی زندگی ترمیم

23 مئی 1959ء کو قصبۂ تلپاٹک کے عبد الرفیق خاں کی دوسری صاحب زادی زبیدہ خاتون سے ان کا نکاح ہوا تھا،[13] جن سے ایک صاحب زادے قطب کامران اور تین صاحب زادیاں صنوبر سلطانہ، در شہوار اور رفیعہ رباب ہیں۔[7] جنوری 2005ء میں کرامت نے اپنی اہلیہ کے ساتھ حج بیت اللہ کا شرف حاصل کیا اور 26 جنوری 2020ء کو ان کی اہلیہ کا انتقال ہو گیا۔[7]

تدریسی و انتظامی زندگی ترمیم

8 ستمبر 1958ء ہی سے کرامت نے اڑیسہ ایجوکیشنل سروس کے تحت علم ریاضی کے لکچرر کی حیثیت سے ملازمت شروع کی[1][8] اور شری کرشن چندر گج پتی کالج، پارلہ کھمنڈی، ضلع گج پتی، اڈیشا میں شعبۂ ریاضیات کے لکچرر رہے۔[1][13] 13 جولائی 1959ء میں راونشا کالج، کٹک میں شعبۂ ریاضیات کے مستقل لیکچرر مقرر ہوئے۔[9][13] 1959ء تا 1961ء راونشا کالج، کٹک میں لکچرر رہے، 1961ء تا 1963ء شری کرشن چندر گج پتی کالج، پارلہ کھمنڈی، ضلع گج پتی میں لکچرر رہے، 1963ء تا 1966ء سائنس کالج، انگول، ضلع ڈھینکانال میں لکچرر رہے، 1966ء تا 1969ء پھر سے راونشا کالج کے لکچرر رہے۔[15] 1969ء تا 1979ء سندر گڑھ کالج، سندر گڑھ میں شعبۂ ریاضیات کے ریڈر و صدر رہے۔[16] 10 جولائی 1979ء تا 10 نومبر 1979ء کھلی کوٹ کالج، برہم پور کے ریڈر رہے،[15] 1979ء تا 1980ء کیندرا پاڑہ کالج، کیندرا پاڑہ کے پرنسپل رہے۔[16] فروری 1981ء تا مئی 1982ء بخشی جگ بندھو بدھیادھر کالج، بھوبنیشور اور جون 1982ء تا اکتوبر 1982ء شیلابالا ویمنز کالج، کٹک کے ریڈر رہے۔[1] اکتوبر 1982ء تا 1986ء راونشا کالج، کٹک کے وائس پرنسپل رہے، فروری 1986ء تا 1989ء کھلی کوٹ آٹونومس کالج، برہم پور میں ریاضیات کے پروفیسر و صدر شعبۂ ریاضیات رہے اور 1989ء تا 1990ء اسی کالج کے پرنسپل رہے۔[15] 1990ء تا 30 جون 1995ء سروس سلیکشن بورڈ، بھوبنیشور کے پریسیڈنٹ رہے۔[15] 30 جون 1995ء کو سرکاری ملازمت سے سبکدوش ہوئے۔[17]

ادبی و دستاویزی خدمات ترمیم

کرامت کے والد رحمت علی رحمت ایک ریاضی داں اور شاعر تھے، جس کی وجہ سے کہا جا سکتا ہے کہ ادب و ریاضی کا ذوق انھیں ورثہ میں ملا، ان کے والد بچپن میں ہی انھیں بزم ادب کٹک کے مشاعروں میں شرکت کے لیے لے جایا کرتے تھے، ان کی ادبی زندگی کا آغاز زمانۂ طالب علمی ہی سے ہو چکا تھا، ان کے شعر و سخن کے استاذ ان کے والد رحمت علی رحمت اور امجد نجمی تھے۔[18][19][20] عروضی نکات راونشا کالج کے زمانۂ تعلیم میں منظر حسن دسنوی (1914ء–1991ء) سے سیکھے تھے۔[21][8] مظہر امام کے آل انڈیا ریڈیو کے ٹرانس میشن ایگزیکیوٹِو کی حیثیت سے کٹک کے زمانۂ قیام (1958ء تا 1962ء) میں کرامت کو ان کے بصیرت افروز مشوروں سے اردو نثری ادب میں خوب فائدہ ہوا۔[22][23] مظہر امام ہی کی تحریک پر کرامت نے 1963ء میں ”آب خضر“ کے نام سے شعرائے اڑیسہ کے انتخاباتِ کلام کو ان کے مختصر تذکرہ کے ساتھ مرتب و جمع کرکے انھیں عالم کے سامنے روشناس کرنے کا کام کیا۔[22][23][24]

دو ماہی شاخسار کا اجرا ترمیم

جون 1965ء میں،[25] شب خون کی اشاعت سے سال بھر قبل کرامت نے ”صالح اور صحت مند جدیدیت“ کے ترجمان کے طور پر کٹک سے ”شاخسار“ کے نام سے ایک دو ماہی رسالہ جاری کرکے زمام ادارت اپنے استاذ امجد نجمی کے حوالے کر دیا تھا،[22][26] جس کا پہلا شمارہ جون - جولائی 1965ء کو اور آخری شمارہ مئی 1973ء کو شائع ہوا تھا۔[25] اردو ادب میں شاخسار کی خدمات پر ”Contribution of Shakhsar to Urdu Literature“ کے موضوع پر سلمان راغب نے مقالہ لکھ کر اتکل یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ہے۔[27] اس رسالے نے ابتدائی طور پر اپنے مختصر عرصے میں ہی اڈیشا کی ادبی دنیا کو ہند و بیرون ہند کی اردو دنیا سے منسلک و متعارف کرانے میں مرکزی رول ادا کیا ہے۔[7]

ادبی تنقید ترمیم

1969ء تا 1979ء کرامت کی ادبی و تخلیقی سرگرمیوں کا سنہرا دور سمجھا جاتا ہے۔[28] اس زمانے میں کرامت نے خوب تنقیدی مضامین لکھے اور صبحِ نو پٹنہ، شاعر ممبئی، نگار لکھنؤ، نیا دور، لکھنؤ اور شاخسار، کٹک جیسے کئی مقتدر ادبی رسائل میں موضوعِ بحث بنے رہے۔[28] ان کا پہلا تنقیدی مضمون بہ عنوان ”مجاز کی غنائیت “ صبحِ نو، پٹنہ کے جنوری 1959ء کے شمارہ میں شائع ہوا تھا۔[29] 1977ء میں ان کا پہلا تنقیدی مجموعہ ”اضافی تنقید“ کے نام سے شائع ہوا اور دوسرا تنقیدی مجموعہ 2009ء میں ”نئے تنقیدی مسائل اور امکانات“ کے نام سے شائع ہوا۔[28][30][31] کرامت علی کرامت اور شمس الرحمن فاروقی کے درمیان عرصۂ دراز تک شعریات اور بوطیقا سے متعلق ادبی تنقیدی معرکہ جاری رہا ہے، جو اوراق لاہور سے شروع ہو کر تحریک دہلی کے متعدد شماروں سے ہوکر شاخسار کٹک کے ایک شمارے پر ختم ہوا۔[27] یہاں ایک قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ باہمی فکری اختلافات کے باوجود کرامت و فاروقی میں تعلقات و مراسم خاصے اچھے تھے اور دونوں ایک دوسرے کی قدر کرتے تھے۔[7]

کرامت کی اضافی تنقید کا جائزہ ترمیم

کرامت کی تحریروں میں سائنسی علوم، نفسیات، تحلیل نفسی، تقابلی ادبیات و لسانیات، صوتیات، اسلوبیات، شعریات اور رد تشکیل وغیرہ کی تکنیک استعمال ہوتی ہے اور ان کے اخذ کردہ نتائج معروضی ہوتے ہیں،[32] اس وجہ سے وزیر آغا نے ان کی تنقید کو ”امتزاجی تنقید“ کے ذیل میں رکھا،[33] سلام سندیلوی (متوفی: 2000ء) انھیں ”نفسیاتی نقاد“ قرار دیتے تھے اور ابن فرید نے ان کی تنقید کو ”بین علومی مطالعہ“ سے منسوب کیا۔[32] مگر بقول امجد نجمی کرامت شعری تنقید میں ”نظریۂ اضافیات“ کے بانی ہیں۔[34] حفیظ اللہ نیولپوری کے مطابق؛ شعریات، تخلیقی عوامل اور ترسیل وابلاغ کے مسائل پر مبنی کرامت کا مضمون ”شعری تنقید میں اضافیات“ اساسی اور کلیدی مضمون کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس مضمون میں انھوں نے ریاضیات، شماریات، سائنس، علم النفس، جدید علم فلسفہ اور فنون لطیفہ کے اصول کو پیش نظر رکھتے ہوئے ادب میں ایک ایسا نظریۂ اضافیات پیش کیا ہے، جس سے فریڈرک اے پوٹل [Frederick Albert Pottle] (متوفی:1987ء) کی کتاب دی ایڈیم آف پویٹری [The Idiom of Peotry] (مطبوعہ:1946ء) میں موجود Relative Criticism کے نظریہ کو توسیع ملتی ہے؛ لیکن دونوں کے نظریوں میں فرق یہ ہے کہ پوٹل نے شاعری کو مطلق اور تنقید کو اضافی قرار دیا تھا اور کرامت نے شاعری اور تنقید دونوں کو اضافی قرار دیا ہے۔[35][36][7] سعید رحمانی فن تنقید پر کرامت کا نظریہ نقل کرتے ہیں:[37]

’’زمانے کے ساتھ ساتھ انسان کے علوم میں اضافہ ہوتا جارہا ہے اور ان علوم کا اثر ناقدین کے تنقیدی شعور پر بھی پڑتا ہے۔ جس وقت شاعری اپنے فن کی قبا میں زندگی کے نئے مسائل کو جذب کرلینے کی کوشش کرتی ہے، اس وقت فنِ تنقید کو بھی اپنا پیمانہ بدلنا ضروری ہوجاتا ہے۔ ایک ناقد کا فرض تنقید کو روکنا نہیں؛ بلکہ پرانی قدروں کی جگہ نئی قدروں کو پیش کرنا ہے۔ چونکہ انسان کا ذہن و شعور ارتقا پسند ہے اس لیے کسی بھی تنقیدی اصول کو حرفِ آخر تسلیم نہیں کیا جاسکتا۔‘‘[37][38]

شاعری ترمیم

کرامت کی شاعری غزل اور نظم دونوں صنف کو محیط ہے۔ انھوں نے پہلی غزل 15 فروری 1953ء میں اور پہلی نظم 31 دسمبر 1954ء میں کہی تھی۔[39] پروفیسر عنوان چشتی کے مطابق کرامت نے شاعری کی صالح روایات کی توسیع کی راہ اختیار کی ہے، ان کی ذہنی تربیت اگرچہ روایتی نہج پر ہوتی ہے؛ مگر وہ روایتوں کے اسیر نہیں ہیں، ان کی شاعری میں ”عصری آگہی“ کا رنگ و آہنگ بھی ہے اور یہ رنگ و آہنگ دو طرح سے ظاہر ہوا ہے، ایک سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کو شعور کا حصہ بنا کر پیش کرنے کی صورت میں، دوسرے خوابوں اور حقیقتوں کے تصادم کے اثرات کی شکل میں، نیز انھوں نے سائنس کی فتوحات کا رزمیہ نہیں لکھا ہے، ان پر منظوم بیان بھی نہیں دیا ہے؛ بلکہ انھوں نے سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کو شعور کا جزو بناکر اس کا تخلیقی اظہار کیا ہے۔[40] ان کا پہلا شعری مجموعہ 1972ء میں ”شعاعوں کی صلیب“ کے نام سے شائع ہوا،[30] دوسرا شعری مجموعہ 2006ء میں ”شاخ صنوبر“ کے نام سے اور تیسرا شعری مجموعہ 2016ء میں ”گل کدۂ صبح و شام“ کے نام سے شائع ہوا۔[41][7] ایس سجاد بخاری کے مطابق؛ کرامت آزاد غزل گو فنکاروں کے پہلے طبقہ سے تعلق رکھتے ہیں اور انھوں نے ابتدائی دور میں آزاد غزل کو بھی استحکام بخشا۔[42] علیم صبا نویدی کے مطابق کرامت نے ہندوستان میں آزاد غزل گوئی کی ایک پوری تحریک چلائی تھی۔[43] وہاب اشرفی تاریخ ادب اردو جلد دوم میں لکھتے ہیں:[44]

”بحیثیت شاعر اور نقاد کرامت علی کرامت کی ادب میں ایک مخصوص جگہ ہے۔ علم ریاضی سے ان کی وابستگی نے ان کی تنقید کو ایک نیا ڈائمنشن بخشا ہے۔“

ترجمہ نگاری ترمیم

انھوں نے مختلف اڑیا مضمون نگاروں اور شاعروں کی اڑیا مضامین یا شاعری کا اردو میں ترجمہ کرکے اردو و اڑیا زبان و ادب کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنے اور انھیں باہم قریب لانے کی جدوجہد کی۔[45] اسی سلسلے میں انھوں نے سب سے پہلے پروفیسر بِدو بھوشن داس کے مضمون کا اردو ترجمہ کیا، جسے نیاز فتح پوری نے اوائل 1962ء میں نگار، لکھنؤ میں شائع کیا تھا۔[46] گیان پیٹھ اعزاز یافتہ اڑیا شاعر سیتا کانت مہاپاتر کی نظموں کا ”لفظوں کا آسمان“ کے نام سے منظوم اردو ترجمہ کیا، جسے 1984ء میں مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، جامعہ نگر، نئی دہلی نے مالک رام کے تعارف اور وزیر آغا کے پیش لفظ کے ساتھ شائع کیا،[47] وزیر آغا نے مذکورۂ بالا کتاب پر پیش لفظ لکھتے ہوئے یہ الفاظ رقم کیے ہیں:

اردو والوں کو ڈاکٹر کرامت علی کرامت کا ممنون ہونا چاہیے کہ انھوں نے سیتا کانت مہاپاتر کی نظموں کو اردو میں منتقل کرکے اردو زبان کو ایک نئے ذائقے سے آشنا کردیا۔[48]

سیتا کانت ہی کی اڑیا نظموں کے مجموعہ ”شبدر آکاش“ کا؛ ”لفظوں کا آکاش“ کے نام سے منظوم اردو ترجمہ کیا، جسے ساہتیہ اکیڈمی، نئی دہلی نے 2000ء میں شائع کیا اور اسی کتاب کے لیے ساہتیہ اکیڈمی ہی کی طرف سے 23 اگست 2005ء کو گوپی چند نارنگ کے ہاتھوں حیدرآباد کی ایک تقریب میں ساہتیہ اکادمی ٹرانسلیشن پرائز برائے 2004ء سے نوازا گیا، انھوں نے سیتا کانت مہاپاتر کے علاوہ سچی راؤت رائے، چنتا منی بہرا، رماکانت رتھ، سوریندر باریک، برہموتری مہانتی، پرتیبھا شت پتی، نرنجن پاڑھی، لکشمی نارائن مہاپاتر جیسے شاعروں کی شاعری اور سریندر مہانتی، منوج داس، گوپی ناتھ مہانتی، رام چندر بہرا جیسے بلند پایہ افسانہ نگاروں کے افسانوں کا بھی اردو میں ترجمہ کیا۔[45][49] انھوں نے اڑیا زبان و ادب کے موضوع پر ”اڑیا زبان و ادب - ایک مطالعہ“ کے نام سے ایک کتاب لکھی، جسے 2020ء میں اڈیشا اردو اکادمی نے شائع کیا۔[7]

شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں:

”My indefatigable friend Karamat Ali Karamat, in addition to being a fine Urdu poet and critic, is also a tireless translator.“[49]
(ترجمہ: میرے بے حد محنتی دوست کرامت علی کرامت اردو کے بہترین شاعر اور نقاد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک انتھک مترجم بھی ہیں۔)

کرامت کی اردو شاعری کے انگریزی و اڑیا ترجمے ترمیم

1990ء میں اے رسل نے خود کرامت کے ساتھ مل کر ”The Story of The Way And Other Poems“ کے نام سے کرامت کی اردو شاعری کا انگریزی میں ترجمہ کیا۔ جینت مہاپاتر اور دوسروں نے 2012ء میں ”Selected poems of Karamat Ali Karamat“ کے نام سے چند اور اردو نظموں کا انگریزی ترجمہ مرتب کیا، جسے ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی نے کتابی شکل میں شائع کیا۔[7] اسی طرح ایلزبتھ کورین مونا نے ”God Particle and Other Poems“ کے نام سے کرامت کی اردو شاعری کا انگریزی میں ترجمہ کیا، جو 2021ء میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی سے شائع ہوا۔[7] ان انگریزی ترجموں کو ملک راج آنند، جاوید اقبال، تارا چرن رستوگی، شیو کے کمار، پانس ڈی بارڈس، آزاد گلاٹی، نریندر پال سنگھ، سکریتا پال کمار، یو اَتریا شرما وغیرہ نے بے حد سراہا ہے۔[7] اسی طرح انور بھدرکی نے ”اکانت رو سورو“ (تنہائی کی چیخ) کے نام سے ان کی اردو نظموں کا اڑیا ترجمہ کیا ہے، جس کا پیش لفظ گیان پیٹھ اعزاز یافتہ اڑیا فکشن نگار پرتیبھا رائے نے لکھا ہے۔[7]

کتابوں کی ترتیب و تدوین ترمیم

انھوں نے انفرادی یا مشترکہ طور پر بہت سے اردو شعرا کے شعری مجموعوں کو بھی مرتب کیا،[7] جیسے: امجد نجمی کے شعری مجموعوں کو ”طلوع سحر“، ”جوئے کہکشاں“[50] اور ”کلیاتِ امجد نجمی“ کے نام سے، عبد المتین جامی کے شعری مجموعہ کو ”نشاطِ آگہی“ کے نام سے اور علیم صبا نویدی کی نعتیہ شاعری اور اس پر تجزیاتی مضامین کو ”نعت نبی میں نئی جہتیں“ اور ”علیم صبا نویدی کی نعتیہ شاعری“[ا] کے نام سے مرتب کیا۔[7] نیز خاور نقیب نے ”آوازِ جارا سؤرا“ کے نام سے سیتا کانت مہاپاتر کی فارسی و اردو ترجموں پر مشتمل ایک کتاب مرتب کی، جس میں کرامت علی کرامت کے منظوم ترجمے بھی شامل ہیں۔[7] ظفر ہاشمی (متوفی: 1999ء) کی غیر مطبوعہ کتاب ”آزاد غزل - ایک تجربہ“ کے ناقابل استفادہ نسخہ کی تصحیح و نظر ثانی کی، جسے 2016ء میں ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، دہلی نے شائع کیا۔[51]

ادبی تلامذہ ترمیم

کرامت علی کرامت سے استفادہ کرنے والوں میں اڈیشا و بیرون اڈیشا کے بہت سے شعرا و ادبا شامل ہیں، جن میں عبد المتین جامی، خاور نقیب، اولاد رسول قدسی، قطب کامران (ابن کرامت علی کرامت)، قدرت علی قدرت، شمس الحق شمس، عاجز سونگڑوی، ہما رونق، ناصر فراز، مطلوبہ نشاط، نسرین نکہت، مطیع اللہ نازش، منیزہ آفریں، مجیب پرواز، خنجر غازی پوری، جعفر دانش وغیرہ شامل ہیں۔[16]

اعزازات و ذمہ داریاں ترمیم

پی ایچ ڈی اسکالروں کی نگرانی ترمیم

اتکل یونیورسٹی کی طرف سے اردو اور ریاضی کے شعبوں میں پی ایچ ڈی ڈگری کے لیے ریسرچ اسکالروں کی نگرانی بھی فرماتے تھے، کئی حضرات ان کے زیر نگرانی مندرجۂ بالا موضوعات پر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر چکے ہیں، ریاضیات میں پی ایچ ڈی کرنے والوں میں باسنتی راؤت، سلمیٰ خان، دانش علی خاں اور آنجہانی سنیہہ لتابہورا شامل ہیں۔[17] اردو ادب میں پی ایچ ڈی حاصل کرنے والوں کے نام اور ان کے موضوعات یہ ہیں: (1) ”اردو اور اڑیا کے ترقی پسند فکشن کا تقابلی مطالعہ“: شیخ مبین اللّٰہ، (2) ”اردو اور اڑیا کی جدید شاعری کا تقابلی مطالعہ (1960ء - 1980ء)“: کشور جہاں، (3) ”نذیر احمد کے اردو ترجمۂ قرآن کا تجزیاتی مطالعہ“ : نسیمہ آرا نکہت۔[17] انھیں کی تحریک پر حفیظ اللہ نیولپوری نے 1984ء میں جواہر لال نہرو یونیورسٹی سے ڈاکٹر محمد حسن (متوفی: 2010ء) کے زیر نگرانی ”اڑیسہ میں اردو“ کے موضوع پر تحقیقی مقالہ پیش کرکے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی۔[52]

انعامات و اعزازات ترمیم

ان کی کتاب ”لفظوں کا آکاش“ کے لیے انھیں 23 اگست 2005ء کو گوپی چند نارنگ، سابق صدر ساہتیہ اکادمی کے ہاتھوں حیدرآباد کی ایک تقریب میں ساہتیہ اکادمی ٹرانسلیشن پرائز برائے 2004ء سے نوازا گیا اور اسی کتاب کے لیے 2005ء میں بہار اردو اکیڈمی نے بھی انعام سے نوازا۔[53][54][55][56] 1973ء میں شعاعوں کی صلیب کے لیے، 1978ء میں اضافی تنقید کے لیے اور 2007ء میں شاخ صنوبر کے لیے انھیں یوپی اردو اکادمی اعزاز سے نوازا گیا، 1989ء میں ان کی مجموعی خدمات کے لیے اڈیشا اردو اکادمی اعزاز سے نوازا گیا، نیز 2012ء میں نجمی اکادمی اعزاز سے بھی نوازا گیا۔[57] 1985ء میں انھیں آل انڈیا میر اکادمی، لکھنؤ کی طرف سے میر اکادمی اعزاز ”امتیازِ میر“ سے نوازا گیا۔[58][59] اڈیشا میں علم ریاضی کی تدریس اور تصنیف و تالیف کے سلسلے میں مجموعی خدمات کے لیے 2009ء میں اڈیشا متھمیٹکل سوسائٹی نے اعزازت سے نوازا۔[60] ان سب کے علاوہ اردو اور اڑیا کے بہت سے نجی اداروں کی طرف سے انھیں اعزازات سے نوازا گیا۔[60]

ادارتی وابستگی اور ذمہ داریاں ترمیم

اڈیشا اردو اکیڈمی، اردو لائبریری آف اڈیشا اور نجمی اکیڈمی، اڈیشا کے بانی مبانیوں میں سے تھے۔[30][41] شاخسار کٹک، نئی شناخت کٹک، ترویج سونگڑہ، نورِ جنوب چنئی اور فروغِ ادب، بھوبنیشور سے ادارتی وابستگی تھی اور اڈیشا میں ابتدائی سطح سے ثانوی سطح کے لیے اردو کی نصابی کتابوں کی تالیفی کمیٹیوں کے رکن تھے۔ اڈیشا متھمیٹکل سوسائٹی کے تاعمر رکن ہیں، نیز مختلف یونیورسٹیوں، +2 کاؤنسلوں اور سکنڈری بورڈوں کی مختلف کمیٹیوں سے وابستہ تھے۔[30][41]

فکر و فنِ کرامت پر پی ایچ ڈی ترمیم

رانچی یونیورسٹی کی طرف سے وہاب اشرفی کے زیر نگرانی ”کرامت علی کرامت کا فکر و فن“ کے موضوع پر تحقیقی مقالہ لکھنے پر شیخ عزیز الرحمن عزیز کو پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض کی گئی۔[61]

قلمی خدمات ترمیم

کرامت کی تصانیف، ترجموں، نیز شعری و ادبی، تنقیدی و تجزیاتی مجموعوں اور ان کی اردو شاعری کے انگریزی و اڑیا ترجموں میں مندرجۂ ذیل کتابیں شامل ہیں:[30][62][63]

تصانیف
  • آبِ خضر - شعرائے اڑیسہ کا انتخابِ کلام مع تذکرہ (1963ء)
  • کلیاتِ امجد نجمی (2017ء)
  • ماہرِ اقبالیات: شیخ حبیب اللّٰہ (2019ء)
  • اڑیا زبان و ادب - ایک مطالعہ (2020ء)
تنقیدی/تجزیاتی مجموعے
  • اضافی تنقید (1977ء)
  • نئے تنقیدی مسائل اور امکانات (2009ء)
  • میرے منتخب پیش لفظ (تنقید و تجزیہ) (2021ء)
شعری مجموعے
  • شعاعوں کی صلیب (1972ء)
  • شاخ صنوبر (2006ء)
  • گل کدۂ صبح و شام (2016ء)
منظوم ترجمے
  • لفظوں کا آسمان (1984ء)
  • لفظوں کا آکاش (2000ء)
کرامت پر کتابیں
  • کرامت علی کرامت: ایک مطالعہ (2012ء؛ افتخار امام صدیقی)
  • اردو ادب کا کوہ نور کرامت علی کرامت (2022ء؛ عزیز الرحمن عزیز و عبد المتین جامی)
کرامت کی اردو شاعری کے انگریزی ترجمے
  • The Story of The Way And Other Poems (1990ء؛ مترجم: اے رسل)
  • Selected poems of Karamat Ali Karamat (2012ء؛ مترجمین: جینت مہاپاتر و دیگر)
  • God Particle and Other Poems (2021ء؛ مترجم: ایلزبتھ کورین مونا)
کرامت کی شاعری کا اڑیا ترجمہ
  • ”اکانت رو سورو“ (تنہائی کی چیخ) (انور بھدرکی)

وفات ترمیم

کرامت کا انتقال 5 اگست 2022ء بہ روز جمعہ کٹک میں ہوا اور 6 اگست کو قدم رسول قبرستان، درگاہ بازار، کٹک میں نماز جنازہ و تدفین عمل میں آئی۔[64][65][66][67][68][69]

حوالہ جات ترمیم

مآخذ ترمیم

  1. ^ ا ب پ ت ٹ ث کرامت 2016, p. 07.
  2. کارتک چندر دت (1999ء)۔ Who's Who Of Indian Writers (بزبان انگریزی)۔ نئی دہلی: ساہتیہ اکادمی۔ صفحہ: 283 
  3. نیولپوری 2001, p. 161.
  4. الرحمن & جامی 2022, pp. 28.
  5. ^ ا ب الرحمن & جامی 2022, pp. 34.
  6. ^ ا ب پ نقیب 2014, p. 12-33.
  7. ^ ا ب پ ت ٹ ث ج چ ح خ د ڈ ذ ر​ ڑ​ محمد روح الامین میُوربھنجی (28 جولائی 2022ء)۔ "کرامت علی کرامت: حیات و خدمات"۔ قندیل آن لائن۔ اخذ شدہ بتاریخ 28 جولائی 2022ء 
  8. ^ ا ب پ الرحمن & جامی 2022, pp. 35.
  9. ^ ا ب صدیقی 2012, p. 13.
  10. کرامت 1963, p. 178.
  11. نیولپوری 2001, p. 298.
  12. الرحمن & جامی 2022, pp. 35–36.
  13. ^ ا ب پ ت الرحمن & جامی 2022, pp. 36.
  14. البرٹ ٹی. بھاروچہ ریڈ، ایم. سمبندھم (1986)۔ "D. The Number of Real Zeroes: Coefficients Have a Symmetric Stable Distribution"۔ Rendom Polynomials [رینڈم پولینومیلز] (بزبان انگریزی) (پہلا ایڈیشن)۔ London NW1 اوول روڈ،: اکیڈمک پریس انکارپوریشن. (لندن) لمٹیڈ۔ صفحہ: 74 – 77, 100 
  15. ^ ا ب پ ت الرحمن & جامی 2022, pp. 37.
  16. ^ ا ب پ صدیقی 2012, p. 44.
  17. ^ ا ب پ کرامت 2016, p. 08.
  18. کرامت 2006, p. 09-10.
  19. کرامت 1963, p. 173.
  20. نقیب 2014, p. 38.
  21. صدیقی 2012, p. 41.
  22. ^ ا ب پ کرامت 2006, p. 11.
  23. ^ ا ب نیولپوری 2001, p. 299.
  24. گوپی ناتھ مہانتی و دیگر (2002ء)۔ Cultural Heritage of [Orissa] (بزبان انگریزی)۔ بھوبنیشور: State Level Vyasakabi Fakir Mohan Smruti Samsad۔ صفحہ: 32 
  25. ^ ا ب نیولپوری 2001, p. 294.
  26. صدیقی 2012, p. 45.
  27. ^ ا ب صدیقی 2012, p. 46.
  28. ^ ا ب پ کرامت 2006, p. 10.
  29. الرحمن & جامی 2022, pp. 40.
  30. ^ ا ب پ ت ٹ صدیقی 2012, p. 14.
  31. ڈاکٹر مجاہد الاسلام (8 ستمبر 2018ء)۔ "اردو تنقید: اکیسویں صدی میں"۔ ovadhnama.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 اگست 2022ء 
  32. ^ ا ب صدیقی 2012, p. 48.
  33. وزیر آغا (1989ء)۔ "جدید اردو تنقید کا امتزاجی اسلوب"۔ تنقید اور جدید اردو تنقید (پہلا ایڈیشن)۔ کراچی، پاکستان: انجمن ترقی اردو۔ صفحہ: 243 
  34. امجد نجمی (1966ء)۔ "نقش اول"۔ دو ماہی شاخسار (جلد 2 - شمارہ 4)۔ کٹک: بخشی بازار۔ صفحہ: 2 
  35. ڈاکٹر سلیم اختر۔ "اضافی تنقید (Relative Criticism)"۔ تنقیدی دبستان (1997ء ایڈیشن)۔ لاہور: سنگ میل پبلیکیشنز۔ صفحہ: 32-33 
  36. نیولپوری 2001, p. 300.
  37. ^ ا ب شیخ عقیل احمد، مدیر (ستمبر 2021ء)۔ "اکیسویں صدی میں اردو تنقید نگاری کی پیش رفت ریاست اڈیشا کے حوالے سے: سعید رحمانی"۔ ماہنامہ اردو دنیا۔ نئی دہلی: قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان۔ 23 (9): 14 
  38. کرامت علی کرامت (1977ء)۔ "شعری تنقید میں اضافیات"۔ اضافی تنقید (پہلا ایڈیشن)۔ الہ آباد: اردو رائٹرس گلڈ۔ صفحہ: 7 
  39. صدیقی 2012, p. 34-35.
  40. پروفیسر عنوان چشتی۔ "شعاعوں کی صلیب"۔ حرف برہنہ (مارچ 1989ء ایڈیشن)۔ انصاری روڈ، مظفر نگر: رنگ محل پبلیکیشنز۔ صفحہ: 157-156 
  41. ^ ا ب پ کرامت 2016, p. 09.
  42. ایس سجاد بخاری۔ ""آزاد غزل کے فنکاروں کا تنوع"، "کرامت علی کرامت"آزاد غزل کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ (2006ء ایڈیشن)۔ نئی دہلی 2: ایم آر آفسیٹ پرنٹرز۔ صفحہ: 68 و 78 
  43. پروفیسر علیم صبا نویدی۔ "آزاد غزل"۔ اردو شاعری میں نئے تجربے (2013ء ایڈیشن)۔ چینائی: تمل ناڈو اردو پبلیکیشنز۔ صفحہ: 96 
  44. وہاب اشرفی (2007)۔ "کرامت علی کرامت"۔ تاریخ ادب اردو (جلد دوم)۔ دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس۔ صفحہ: 1100-1101 
  45. ^ ا ب صدیقی 2012, p. 40-41.
  46. صدیقی 2012, p. 36.
  47. کرامت 2006, p. 13.
  48. کرامت علی کرامت۔ "پیش لفظ از ڈاکٹر وزیر آغالفظوں کا آسمان (1984ء ایڈیشن)۔ جامعہ نگر، نئی دہلی: نئی آواز۔ صفحہ: 32 
  49. ^ ا ب شمس الرحمٰن فاروقی۔ "The Truth of Fictions By Shamsur Rehman Farooqi" (PDF)۔ 14 جون 2018 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 جولا‎ئی 2022 
  50. نور الدین احمد (1988ء)۔ The Brightest Heaven (بزبان انگریزی)۔ سوتا ہاٹ، کٹک: حُسنِ جہاں پبلیکیشنز۔ صفحہ: iii 
  51. ظفر ہاشمی (1993ء)۔ "مقدمہ از کرامت علی کرامت"۔ آزاد غزل- ایک تجربہ (تنقید و تاریخِ ادب) (پہلا ایڈیشن)۔ دہلی: ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس۔ صفحہ: 9-24 
  52. کرامت علی کرامت (اکتوبر 2006ء)۔ "مقدمہ از حفیظ اللہ نیولپوریشاخ صنوبر (پہلا ایڈیشن)۔ کٹک: ودیا ساگر پرنٹرز۔ صفحہ: 10 
  53. صدیقی 2012, p. 14-15.
  54. "ساہتیہ اکادمی اردو ٹرانسلیشن پرائز وصول کنندگان کی فہرست"۔ 30 جولا‎ئی 2022 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 30 جولا‎ئی 2022 
  55. ڈی. ایس. راؤ (2004ء)۔ Five Decades: The National Academy of Letters, India : a Short History of Sahitya Akademi [پانچ دہائیاں: قومی اکادمیِ، بھارت: ساہتیہ اکادمی کی مختصر تاریخ] (بزبان انگریزی)۔ نئی دہلی: ساہتیہ اکادمی۔ صفحہ: 167 
  56. نند کشور وکرم (نومبر 2009ء)۔ "ساہتیہ اکادمی کے اردو تراجم پر انعامات کی دستیاب تفصیل"۔ عالمی اردو ادب (جلد 29)۔ دہلی: عالمی اردو ادب۔ صفحہ: 290۔ اخذ شدہ بتاریخ 27 نومبر 2022ء 
  57. صدیقی 2016, p. 10.
  58. نیاز قومی (1993ء)۔ آل انڈیا میر اکادمی لکھنؤ: اردو زبان و ادب کی ترویج و بقا کے لیے تین دہائیوں پر محیط کارگزاریوں کا اجمالی جائزہ (پہلا ایڈیشن)۔ لکھنؤ: آل انڈیا میر اکادمی۔ صفحہ: 56-58 
  59. گوپی چند نارنگ و عبد اللطیف اعظمی۔ ہندوستان کے اردو مصنفین اور شعرا (1996ء ایڈیشن)۔ دہلی: اردو اکادمی۔ صفحہ: 433 
  60. ^ ا ب صدیقی 2012, p. 15.
  61. کرامت 2006, p. 07.
  62. کرامت 2016, p. 8-9.
  63. الرحمن & جامی 2022, p. 41-42.
  64. "مشہور شاعر و ادبی نقاد کرامت علی کرامت کا انتقال"۔ baseeratonline.com۔ بصیرت نیوز سروس۔ 6 اگست 2022ء۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 اگست 2022ء 
  65. "مشہور شاعر، ادیب و ناقد کرامت علی کرامت کا انتقال"۔ qindeelonline.com۔ قندیل آن لائن۔ 6 اگست 2022ء۔ اخذ شدہ بتاریخ 6 اگست 2022ء 
  66. "پروفیسر کرامت علی کرامت کی رحلت سے پورا ادبی حلقہ سوگوار"۔ روزنامہ قومی تنظیم (جلد: 62، شمارہ: 112)۔ پٹنہ: قومی تنظیم۔ 8 محرم الحرام 1444ھ م 7 اگست 2022ء بہ روز اتوار۔ صفحہ: 8 
  67. "پروفیسر کرامت علی کرامت کی رحلت سے پورا ادبی حلقہ سوگوار: آج (6 اگست کو) نمناک آنکھوں سے کٹک کے قدم رسول قبرستان میں سپردِ خاک"۔ روزنامہ آگ (جلد: 17، شمارہ: 36)۔ لکھنؤ: روزنامہ آگ۔ 8 محرم الحرام 1444ھ م 7 اگست 2022ء بہ روز اتوار۔ صفحہ: 8 
  68. "پروفیسر کرامت علی کرامت داغ مفارقت دے گئے"۔ روزنامہ اخبار مشرق (جلد: 43، شمارہ: 213)۔ کلکتہ: اخبارِ مشرق۔ 7 محرم الحرام 1444ھ م 6 اگست 2022ء بہ روز سنیچر۔ صفحہ: 8 
  69. "ପ୍ରଫେସର କରାମତ୍ ଅଲ୍ଲୀଙ୍କ ପରଲୋକ (پروفیسر کرامت علی کی وفات)"۔ ସମ୍ବାଦ (سمباد) (بزبان اڑیابھوبنیشور: سمباد۔ 6 اگست 2022ء۔ صفحہ: 13 

نوٹ ترمیم

  1. علیم صبا نویدی کی نعتیہ شاعری نامی کتاب کرامت علی کرامت نے مشترکہ طور پر ترتیب دی تھی۔

کتابیات ترمیم