امۃ اللطیف بنت ناصح، عالمہ، مصنفہ اور حنبلی مذہب کی فقیہہ ہیں، انصاری صحابی سعد بن عبادہ کی نسل سے ہیں، صلاح الدین ایوبی کی بہن ربیعہ خاتون کی خدمت میں رہی ہیں، ربیعہ خاتون کی وفات کے بعد حمص اور تل باشر کے حاکم اشرف موسی بن ابراہیم کی عقد نکاح میں آ گئیں، امۃ اللطیف کا خاندان علم، دیانت اور جہاد میں معروف تھا، سیاسی حیثیت سے بھی اچھا خاندان تھا، انھوں نے بہت سے مدارس اور درسگاہیں بنوائی ہیں، حنبلی مذہب اور دیگر شرعی فنون میں بہت سی کتابیں تصنیف کی ہیں۔[1]

امۃ اللطیف بنت ناصح
معلومات شخصیت
تاریخ وفات سنہ 1255ء   ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن دمشق   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رہائش دمشق
حمص   ویکی ڈیٹا پر (P551) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت ایوبی خاندان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
فرقہ اہل سنت
فقہی مسلک حنبلی
شریک حیات اشرف موسیٰ بن ابراہیم   ویکی ڈیٹا پر (P26) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ فقیہہ ،  مصنفہ ،  عالمہ   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح

ترمیم

امۃ اللطیف بنت ناصح الدین ابو الفرج عبد الرحمن بن نجم بن شرف الاسلام ابو البرکات عبد الوہاب بن ابو الفرج عبد الواحد بن محمد بن علی بن احمد بن ابراہیم بن یعیش بن عبد العزیز بن سعید بن سعد بن عبادہ بن دلیم بن حارثہ بن نعمان بن ابو حزیمہ بن ثعلبہ بن طریف بن خزرج بن ساعدہ بن کعب خزرج بن حارثہ بن ثعلبہ بن عمرو بن عامر بن حارثہ بن ثعلبہ بن غسان بن ازد بن غوث بن نبت بن مالک بن زید بن کہلان بن سبا بن یشحب بن یعرب بن قحطان سعدیہ عبادیہ ساعدیہ خزرجیہ انصاریہ۔[2]

خاندان

ترمیم

امۃ اللطیف کا خاندان صحابی رسول سعد بن عبادہ سے جا ملتا ہے، ان کی اصل مدینہ منورہ میں رہا کرتی تھی، پھر یہ لوگ شیراز منتقل ہوئے اور وہاں رہنے لگے، پھر شیراز سے شام منتقل ہو گئے اور وہاں خوب شہرت حاصل کی، ان کے دادا کے جد امجد ابو الفرج عبد الواحد بن محمد شیرازی (متوفی 486ھ) بڑے عالم، حنبلی فقیہ، واعظ، مصنف اور مفتی تھے، پہلے بیت المقدس میں رہا کرتے تھے وہاں حنبلی مذہب کو خوب عام کیا، پھر دمشق منتقل ہو گئے وہاں بھی حنبلی مذہب کی خوب اشاعت کی، اپنے زمانہ میں شام کے شیخ مانے جاتے تھے، بادشاہوں اور سلاطین کے یہاں ان کا بڑا مقام و مرتبہ تھا، خاص طور سے سلجوقی سلطان تتش بن الپ ارسلان ان کی خوب تعظیم و تکریم کرتا تھا، عبد الواحد ہی نے اس خاندان کو "بیت ابن الحنبلی" کا نام دیا تھا۔[3]

امۃ اللطیف کے دادا کے والد (پر دادا) عبد الوہاب بن عبد الواحد بھی بڑے حنبلی فقیہ، واعظ، مفسر، مصنف اور مفتی تھے، دمشق کے سلاطین کے یہاں ان کا مقام مقام و مرتبہ تھا، جب سنہ 523 ھ-1129ء میں فرنگی صلیبیوں نے دمشق کا محاصرہ کیا اس وقت عبد الوہاب اس وفد کے رئیس تھے جسے دمشق کے سلطان تاج الملوک بوری نے خلیفہ مسترشد باللہ کی خدمت میں مدد طلب کرنے کے لیے بھیجا تھا، انھوں نے بھی بہت سے مدارس اور درسگاہیں تعمیر کروائی۔[4][5]

امۃ اللطیف کے دادا نجم بن عبد الوہاب بھی بڑے فقیہ اور مفتی تھے، اپنے زمانہ میں حنبلی مذہب کے شیخ مانے جاتے تھے، سلطان صلاح الدین ایوبی کے خاص دوست اور ہمنشین تھے، ان کے سارے بھائی (عبد الوہاب کے لڑکے) عبد الکافی، عبد الحق، محمد اور عبد الہادی سب کے سب حنبلی مذہب کے فقیہ، محدث، واعظ، مفتی، مفسر، قاری، عالم اور مجاہد تھے، صلیبیوں سے جہاد کیا ہے، زنگی اور ایوبی خاندان سے گہرا تعلق تھا۔[6]

امۃ اللطیف کے والد ناصح الدین عبد الرحمن بن نجم جو "ناصح ابن حنبلی" کے نام سے مشہور ہیں، یہ بھی مؤرخ، فقیہ، واعظ، محدث، مصنف اور مجاہد تھے، اپنے زمانہ میں حنابلہ کے شیخ مانے جاتے تھے، سلطان صلاح الدین ایوبی کے ساتھ جنگ حطین میں شریک رہے ہیں، سلطان کے مقرب خاص تھے، سلطان عام طور سے انھیں سے مسائل دریافت کرتا تھا، اس کے علاوہ دیگر سلاطین اور حکمرانوں کے یہاں بھی ان کا خاص مقام و مرتبہ تھا، انھوں نے بھی بہت سے مدارس قائم کیا،[7] ان کے چچا عبد الکریم اور احمد دونوں عالم، فقیہ، محدث، مفتی اور مناظر تھے۔[8]

امۃ اللطیف کے بھائی سیف الدین یحییٰ بھی اپنے زمانہ کے محدث اور مرجع خلائق تھے، اسی طرح ان کے بھتیجے شمس الدین یوسف بن یحییٰ بھی محدث اور عالم تھے۔[9]

حالاتِ زندگی

ترمیم

امۃ اللطیف کا سنہ ولادت اور آغاز زندگی کی تفصیلات موجود نہیں ہیں، البتہ فضل و کمال، علم و سخاوت اور دینداری میں کافی مشہور تھیں، ابن کثیر نے لکھا ہے کہ: «شیخہ صالحہ عالمہ اور فاضلہ تھیں»۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کی بہن ربیعہ خاتون کی خدمت میں رہا کرتی تھیں، ربیعہ ان سے ان کے علم کی وجہ سے خوب محبت کرتی ہیں، ان کی نصیحتوں اور باتوں کو بغور سنتی اور ان پر عمل کیا کرتی تھیں، امۃ اللطیف ہی وجہ سے ربیعہ خاتون نے قاسیون میں حنبلی مدرسہ سفح وقف قائم کیا تھا جسے انھوں نے اپنے والد ناصح الدین اور حنابلہ کو وقف کر دیا، اس کے علاوہ ربیعہ انھیں مال و دولت بھی دیا کرتی تھیں جس سے وہ مدارس تعمیر کرواتی تھیں، جن میں سے: دمشق کا مدرسۃ الحدیث، مدرسۃ الصاحبہ اور دوسرے بہت سے مدارس ہیں۔[10][11][12][13]

سنہ 643 عیسوی میں ربیعہ خاتون وفات پا گئیں، اس کے بعد امۃ اللطیف کو کچھ آزمائشوں کا سامنا کرنا پڑا، تین سال تک ایک قلعہ میں قید رہیں، پھر 646 ہجری میں رہا کی گئیں، اس کے بعد حاکم حمص اور تل باشر موسیٰ بن ابراہیم کی عقد زوجیت میں آگئیں، اس کے ساتھ حمص، تل باشر اور رحبہ چلی گئیں۔[14]

وفات

ترمیم

امۃ اللطیف رحبہ میں اپنے شوہر کے ساتھ چند سال تک رہیں، پھر وہیں سنہ 653 ہجری میں اپنے گھر اور خاندان سے دور وفات پا گئیں اور بنو شیرازی تربت میں جو مدرسہ دار الحدیث کے قریب واقع ہے مدفون ہوئیں، جہاں ان کے اجداد مدفون ہیں۔

معلوم ہوتا ہے کہ شادی کے بعد پھر سے ان کے مال و دولت میں اضافہ ہو گیا تھا، اس لیے کہ ان کی وفات کے بعد دمشق میں تقریباً 60 ہزار درہم کے برابر جواہر و یاقوت اور دیگر اموال برآمد ہوئے، جو اوقاف اور ذاتی املاک کے علاوہ تھے۔

ان سب کے باوجود وہ نہایت فاضلہ، نیک، دیندار اور پاکدامن خاتون تھیں،[15] ان کی عمر، سنہ ولادت معلوم نہ ہونے کی وجہ سے پتہ نہ چل سکی۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. الأعلام للزركلي، ج 2، ص 13.
  2. ذيل طبقات الحنابلة، ج 1، ص 154.
  3. ذيل طبقات الحنابلة، ج 1، ص 153-157-158-159-160-161.
  4. ذيل طبقات الحنابلة، ج 1، ص 446-447-448.
  5. البداية والنهاية، ج 16، ص 283.
  6. ذيل طبقات الحنابلة، ج 2، ص 373-374-375-376-377-378-379.
  7. ذيل طبقات الحنابلة، ج 3، ص 423 إلى صفحة 438.
  8. ذيل طبقات الحنابلة، ج 3، ص 275 و369.
  9. ذيل طبقات الحنابلة، ج 4، ص 117-118.
  10. البداية والنهاية، ج 17، ص 286.
  11. "أمة اللطيف - الموسوعة"۔ 22 اگست 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 ستمبر 2021 
  12. منادمة الأطلال ومسامرة الخيال، ج 1، ص 237.
  13. المؤلفات من النساء ومؤلفاتهن، ص 25-26.
  14. منادمة الأطلال، ج 1، ص 238.
  15. السابق، (22/392)