امیلہ یا بونا یا ابیونا یا لیوسا پیغمبر ابراہیم علیہ السلام کی والدہ کا نام ہے، مؤرخین کا ان کے نام کے سلسلے میں اختلاف ہے، قرآن و حدیث اور اسلامی روایات میں ان کا نام مذکور نہیں ہے، البتہ عہد قدیم میں "امیلہ" نام ہی مذکور ہے، اسی طرح اناجیل اربعہ متی، یوحنا، مرقس اور لوقا کے عہد قدیم اور جدید میں بھی یہی نام ملتا ہے۔ اسلامی روایات میں چونکہ اصل مرکزی شخصیت ابراہیم علیہ السلام ہیں، اس لیے ان کی والدہ کا تذکرہ موجود نہیں ہے بلکہ ان کے والد کے نام میں بھی اختلاف ہے۔ البتہ مسلمان مؤرخین مثلاً: ابن جریر طبری، ابن کثیر، بیہقی اور ابن عساکر نے ابراہیم علیہ السلام کی والدہ کا تذکرہ کیا ہے۔[1].

{{{نام}}}
محترم در اسلام، مسیحیت، یہودیت
نسب شوہر: تارح
بیٹا: ابراہیم خلیل

نسب و احوال ترمیم

امیلہ یا بونا (اور جو دوسرے نام مذکور ہیں) بنت کربنا بن کرفی، بنو ارفخشد بن سام بن نوح علیہ السلام سے نسب جا ملتا ہے۔

ان کی شادی تارح (بعض روایات میں تارخ نام آتا ہے)سے ہوئی، ایک لمبے عرصہ تک کہا جاتا ہے کہ پچہتر سال تک بے اولاد رہیں، اس کے بعد جناب ابراہیم علیہ السلام کی ولادت ہوئی۔ بلکہ ان کے بعد دو اور اولاد ناحور اور ہاران پیدا ہوئے، ہاران ہی کے بیٹے پیغمبر لوط علیہ السلام ہیں۔ بابل میں رہتے تھے وہیں ابراہیم علیہ السلام کی ولادت ہوئی، اس وقت وہ پورا خطہ "کلدانین" کہلاتا تھا جو کنعان بیت المقدس کی سرزمین تھی۔ بعد میں وہاں سے ابراہیم علیہ السلام اپنی بیوی سارہ اور بھتیجے لوط بن ہاران کے ساتھ ہجرت کر گئے اور حران میں مقیم ہو گئے تھے جو اس وقت کشدانیین کی سرزمین کہلاتی تھی، وہیں کے لوگ ستاروں کی عبادت کرتے تھے۔

تاریخ میں تذکرہ ترمیم

اموی عہد کے نامور مؤرخ ابن کثیر نے اپنی شہرہ آفاق کتاب البدایہ والنہایہ میں لکھا ہے کہ: «ان کا نام بونا بنت کربنا بن کرثی بتایا جاتا ہے، آل ارفخشد بن سام بن نوح کے نسب سے تھیں، عہد قدیم میں ان کا نام امیلہ بھی بتایا گیا ہے اور عہد جدید میں بھی یہی نام مذکور ہے»۔

ابن عساکر اپنی کتاب "تاریخ دمشق" میں روایت ذکر کرتے ہیں: «ابراہیم علیہ السلام کی والدہ نے اپنے بیٹے سے کہا: میں بھی تیرے ساتھ آگ میں جانا چاہتی ہوں، ابراہیم اپنے رب سے دعا کر کہ مجھے آگ نہ لگے۔ انھوں نے دعا کی، وہ بھی ان کے ساتھ آگ میں گئی اور اس میں رکی، پھر سالم نکل آئی»۔ ابن عساکر کی اس روایت سے بعض مؤرخین اتفاق کرتے ہیں اور بعض اسے صحیح نہیں مانتے ہیں۔

تاریخ طبری میں منہال ابن عمر کی ایک روایت ہے کہ: «ابراہیم علیہ السلام کی والدہ نے بھی ان کے ساتھ آگ میں چالیس پچاس دن گزارا تھا اور کہا کہ یہ ان کی زندگی کے سب سے بہترین دن تھے، اللہ تعالیٰ نے اس آگ ٹھندی اور آرام دہ بنا دیا تھا»۔

حوالہ جات ترمیم