انصار الہ آبادی
سید شاہ انصار حسین رحمانی الہٰ آبادی المعروف انصار الہٰ آبادی (پیدائش: 16 مارچ 1915ء - 18 دسمبر 2007ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے نامور نعت گو شاعر اور صوفی بزرگ تھے۔ ان کا شمار جید اور ثقہ نعت گو شعرا میں ہوتا ہے۔ انھیں شیخ النعت بھی کہا جاتا ہے۔ان کے نعتیہ شاعری کے 16 مجموعے شائع ہو چکے ہیں۔ ان کا مکمل نعتیہ کلام کلیات انصار الہ آبادی کے نام سے 2014ء میں شائع ہو چکا ہے۔شاعری میں ان کے شاگردوں کی کثیر تعداد موجود ہے، جن میں سید صبیح الدین رحمانی، پیرزادہ خالد رضوی امروہوی اور دیگر شامل ہیں۔
انصار الہ آبادی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | (اردو میں: سید انصار حسین) |
پیدائش | 15 مارچ 1915ء الہ آباد ، اتر پردیش |
وفات | 18 دسمبر 2007ء (92 سال) کراچی ، پاکستان |
شہریت | برطانوی ہند پاکستان |
عملی زندگی | |
استاذ | جلیل مانک پوری |
تلمیذ خاص | خالد رضوی امروہوی ، صبیح الدین رحمانی |
پیشہ | شاعر |
پیشہ ورانہ زبان | اردو |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
حالات زندگی
ترمیمانصار الہٰ آبادی بروز منگل 29 ربیع الثانی 1333ھ بمطابق 16 مارچ 1915ء کو درگاہ سید شاہ الہ آباد، اتر پردیش میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید انصار حسین ہے، انصار تخلص جبکہ انصار الہٰ آبادی کے قلمی نام سے معروف ہوئے۔ والد گرامی کا نام سید میر مشرف حسین تھا، جو شیخ العالم حضرت سیدنا میر سکندر علی رحمانی الہٰ آبادی المعروف سید صاحب کے سجادہ نشین تھے۔ شاہ انصار کی تمام تعلیم و تربیت درگاہ سید صاحب الہٰ آباد میں ہوئی۔گیارہ سال کی عمر سے شعر کہنا شروع کر دیے تھے۔ ابتدا میں مولانا ابو نصر خلیق گجراتی سے استفادہ کیا۔ بعد ازاں بالترتیب فصاحت جنگ، جلیل مانک پوری اور علامہ شفق عماد پوری (شاگرد امیر مینائی) سے شرفِ تلمذ حاصل کیا۔ انصار الہٰ آبادی کا شمار نعت کہنے والے بہترین شعرا میں ہوتا تھا۔ نوح ناروی، حسرت موہانی، اصغر گونڈوی، جگر مراد آبادی، ریاض خیر آبادی اور فراق گورکھپوری جیسے شعرا کا نہ صرف زمانہ دیکھا بلکہ ان کے سامنے اپنے کلام کو پیش کر کے خوب دادِ سخن حاصل کی تھی۔ تقسیم ہند کے بعد دسمبر 1947ء میں والدہ ماجدہ کے ساتھ پاکستان منتقل ہو گئے اور کراچی میں مستقل سکونت اختیار کی۔[1][2] 1942ء میں ان کا ایک ضخیم غیر مطبوعہ دیوان کسی حادثے کی تلف ہو گیا، جس کی وجہ سے شعر کہنا بند کر دیے تھے۔ کئی سال گزرنے کے بعد رشید سلطان پوری کے مسلسل اصرار کے بعد شعر کہنا شروع کر دیے۔ اصنافِ شاعری میں غزل کو بہت پسند کرتے تھے۔ غالب ان کے پسندیدہ شاعر تھے، یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام میں مرزا غالب کی تقلید نمایاں رہی۔ حمد و نعت، سلام و مناقب سبھی میں رنگِ غزل مترشح ہے۔ اپنے بہاریہ کلام کے ایک بڑا حصہ کو تلف کر دیا تھا۔ اس کے بعد سے وفات تک حمد، نعت، مناقب اور سلام کو ہی مشقِ سخن بنایا۔ شاہ انصاربلا کا حافظہ رکھتے تھے۔ بہت زود گو شاعر تھے یہی وجہ ہے کہ ان کے کلام کا کافی بڑا حصہ مختلف اخبارات، رسائل و جرائد میں شائع ہونے کے بعد بھی تشنہ اشاعت رہ گیا تھا، جو بعد میں ان کی وفات کے بعد مرتب کر کے شائع کیا گیا۔ تحفۂ نظامی شاہ انصار کا پہلا مجموعہ کلام ہے جو بہت مختصر تھا۔ یہ مجموعہ کلام امین نظامی اور معین نظامی نے مرتب کر کے اکتوبر 1992ء میں شائع کروایا تھا۔ دوسرا مجموعہ کلام ھل اتیٰ کے نام سے شائع ہوا جس میں مناقب اہلِ بیت شامل ہیں۔ اشک تبسم سلام و مناقب ایل بہت مشتمل مجموعہ کلام ہے جو 10 محرم الحرام 1414ھ (جولائی 1993) میں انجمن عاشقانِ مصطفیٰ خداداد کالونی کراچی کے تعاون سے شائع ہوا۔ صلوٰۃ و سلام شاہ انصار کا دوسرا مجموعہ نعت ہے۔ 12 ربیع الاول 1414ھ (اگست 1993ء) میں شائع ہونے والے اس مجموعہ نعت کے صفحات 128 ہیں۔ سراج السالکین شاہ انصار کا تیسرا مجموعہ نعت ہے۔ جس میں حمد، نعتیں، سلام اور مناقب شامل ہیں۔ دیگر تصانیف میں سبحٰن الذی اسریٰ، آفتاب چشت، مرقع غوثیہ (مناقب غوث الاعظم)،مرقع محبوبیت،فردِ فرید، صبغت اللہ، کلامِ لا کلام، الحمد اللہ الذی، مدینۃ العلم، مظہر العلوم (اوّل و دوم) اور فیض العظیم شامل ہیں۔ پیرزادہ خالد حسن رضوی امروہوی نے ان کا مکمل مجموعہ کلام کلیات شاہ انصار الہٰ آبادی کے نام سے ترتیب دے کر ادبستانِ انصار کراچی کے زیرِ اہتمام 2014ء میں شائع کرایا، جس میں شاہ انصار کے 16 مجموعہ ہائے حمد و نعت شامل ہیں۔
تصانیف
ترمیم- تحفۂ نظامی (اکتوبر 1992ء)
- ھل اتیٰ (جنوری 1993ء)
- سبحٰن الذی اسریٰ (نومبر 1998ء)
- صلوٰۃ و سلام (محرم الحرام 1414ھ)
- اشکِ متبسم (نومبر 1998ء)
- آفتاب چشت
- سراج السالکین (1993ء)
- مرقع غوثیہ (مناقب غوث الاعظم، اپریل 1994ء)
- مرقع محبوبیت
- فردِ فرید
- صبغت اللہ
- کلامِ لا کلام
- الحمد اللہ الذی
- مدینۃ العلم
- مظہر العلوم (اوّل و دوم، 1417ھ)
- فیض العظیم (2014ء)
- کلیاتِ شاہ انصار الہٰ آبادی (ترتیب و تدوین پیرزادہ خالد حسن رضوی امروہوی، 2014ء)
نمونۂ کلام
ترمیمنعت
ذکر مجھ سے ہوگیا مدینے کا | قدرداں ہے خدا مدینے کا | |
دفعتاً کام ہوگیا خوش کام | نام کس نے لیا مدینے کا | |
حشر میں حشر ہوگیا واللہ | جب چھڑا تذکرہ مدینے کا | |
حسرتیں بن گئیں چراغِ حرم | دل میں تھا مدعا مدینے کا | |
خود نظر آئے گا وہ جانِ جہاں | جہاں پردہ اٹھا مدینے کا | |
پار بیڑا نہ کیسے ہو اپنا | ناخدا ہے خدا مدینے کا | |
دل سے جس کو ہو حسرتِ معراج | دیکھتے عرشِ علا مدینے کا | |
فرض تھا حج اکبری مجھ پر | طوف کرنے لگا مدینے کا | |
مجھے واللہ یہ بھی علم نہیں | دل ہے کعبہ کا یا مدینے کا |
وفات
ترمیمشاہ انصار الہٰ آبادی 18 دسمبر 2007ء کو کراچی، پاکستان میں انتقال کر گئے۔ وہ کراچی کے پاپوش نگر قبرستان میں مدفون ہیں۔[3]