بیکل اتساہی
محمد شفیع خاں بیکل اتساہی اردو ہندی کے مشہور شاعر تھے۔ آپ کی پیدائش 1 جون1928ء کو گور ،رمواں پور چوکی سری دت گنج ،تھانہ کوتوالی اترولہ ضلع بلرامپور میں ہوئی تھی۔ آپ کے والد کا نام محمد جعفر خاں تھا۔ بیکل اتساہی ایک شاعر، مصنف اور سیاست دان تھے۔ وہ ایک کانگریسی تھے جو اندرا گاندھی سے قریبی روابط رکھتے تھے اور بھارت کے پارلیمان کے ایوان بالا راجیہ سبھا کے رکن بھی رہے تھے۔ وہ کئی قومی انعامات حاصل کر چکے تھے، جن میں پدم شری اعزاز اور یش بھارتی شامل ہیں۔ وہ اردو، ہندی اور اودھی میں شاعری کے لیے شہرت رکھتے تھے۔ ان کے کلام میں کہیں حمد و نعت کو نمایاں مقام حاصل ہے تو کہیں ہندی لب و لہجے کا چلن زیادہ ہے۔
بیکل اتساہی | |
---|---|
بیکل اتساہی 2013ء میں
| |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 1 جون 1928ء بلرام پور، اترپردیش، بھارت |
وفات | 3 دسمبر 2016ء (بہ عمر 88 سال)[1] نئی دہلی، بھارت |
رہائش | نئی دہلی، بلرامپور |
شہریت | بھارتی |
قومیت | بھارت |
جماعت | انڈین نیشنل کانگریس |
زوجہ | بیگم صغرٰی روز |
عملی زندگی | |
پیشہ | شاعر، مصنف، سیاست دان |
تنظیم | انڈین نیشنل کانگریس |
وجہ شہرت | قومی یکجہتی، گنگاجمنی تہذیب |
اعزازات | |
ویب سائٹ | |
ویب سائٹ | http://bekalutsahi.webs.com |
درستی - ترمیم |
ابتدائی زندگی
ترمیمبیکل اتساہی راجیہ سبھا کے سابقہ رکن رہے تھے۔ وہ 1976ء میں ادب میں پدم شری اعزاز حاصل کیے تھے۔دیوا شریف کے حضرت وارث علی شاہ کے مزار پر زیارت کے دوران 1945ء شاہ حافظ پیارے میاں کا ایک مقولہ ہے: بے دم گیا، بیکل آیا۔ اس واقعے سے متاثر ہو کر محمد شفیع خان لودی[2] نے اپنا نام "بے کل وارثی" رکھا۔ جواہر لعل نہرو کے دور حکومت میں ایک دلچسپ واقعہ رونما ہوا جس کی وجہ سے نام وارثی سے بدل کر اتساہی ہو گیا۔ اس وقت گونڈا میں کانگریس کی ایک انتخابی تقریب ہوئی۔ بے کل وارثی نے نہرو کا خیرمقدم ایک اپنی ایک نظم "کسان بھارت کا" سے کی۔ نہرو اس سے بے متاثر ہوئے اور بولے: "یہ ہمارا اُتساہی شاعر ہے"۔ اس کے بعد سے وہ بالآخر دنیا کے آگے اپنی پہچان بیکل اتساہی سے ہی کرتے رہے۔
ادبی خدمات
ترمیمبیکل اتساہی نے اپنے شعری سفر کا آغاز 1944ء میں کیا تھا۔ جبکہ شاعرانہ زندگی کا آغاز بہرائچ[3] میںسید سالار مسعود غازی کی درگاہ کے ایک نعتیہ مشاعرہ سے کیا تھا۔ بیکل اتساہی نے اپنی پہلی غزل اصغر گونڈوی کے ایک مصرع پر کہی تھی جس کا مطلع ’نظاروں کے لیے ویرانہ جب آباد ہوتا ہے ،جنوں میں اشتیاق دیدبے بنیاد ہوتا ہے‘ تھا۔ آپ نے اودھی ،اردو،ہندی میں کئی کتابیں لکھی تھی۔1950ء میں آپ کی پہلی کتاب ’باپو کا سپنا‘ کے نام سے منظر عام پر آئی تھی۔1976ء میں اردو غزل پر مبنی کتاب ’پرویا ‘ کافی مقبول کتاب ہے۔1977ء میں اپنی دھرتی چاند کا درپن ،غزل ساوری،رنگ ہزار خشبو ایک،انجری بھرا جور وغیرہ نظموں کے مجموعہ کافی مقبول ہوئے۔2005ء میں غزل گنگا، دھرتی صدا سہاگن، غزلوں کا مجموعہ شائع ہوا۔ بیکل اتساہی کا آخری مشاعرہ سرزمین اجمیر میں ہوا جمعتہ علما ہند کے زیر انتظام ہونے والا عالمی نعتیہ مشاعرہ 2016ء تھا۔
سیاست
ترمیماُتساہی فعال طریقے سے انڈین نیشنل کانگریس سے جڑ گئے اور اندرا گاندھی سے بہت قریب ہو گئے۔ وہ کانگریس کی جانب سے راجیہ سبھا کے رکن نامزد ہوئے، جو بھارتی پارلیمان کا ایوان بالا ہے۔ اس کا سبب قومی یکجہتی کے لیے ان کی خدمات تھیں۔[4] وہ قومی یکجہتی کونسل کے بھی رکن تھے جس کی صدارت بھارت کا وزیر اعظم کرتا ہے۔[5]
انعامات
ترمیماُتساہی کو پدم شری اعزاز 1976ء میں حاصل ہوا۔ انھیں اترپردیش حکومت کی جانب سے یش بھارتی اعزاز سے بھی نوازا گیا تھا۔[6]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ Baikal Utsahi, poet, writer and politician, is no more. etemaaddaily.com (3 December 2016)
- ↑ ہماری زبان،ہفتہ روزہ، انجمن ترقی اردو (ہند)،15 تا 21 دسمبر2016، جلد،75شمارہ47، ص5۔
- ↑ روزنامہ انقلاب
- ↑ List of Former Members of Rajya Sabha (Term Wise) آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ 164.100.47.5 (Error: unknown archive URL). Rajya Sabha Secretariat.
- ↑ Re-constitution of the National Integration Council آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ mha.nic.in (Error: unknown archive URL). Government of India, Ministry of Home Affairs (5 April 2010) . Retrieved on 3 December 2016.
- ↑ Akhilesh honours 56 achievers with Yash Bharti. Times of India (10 February 2015). Retrieved on 2016-12-03.
ویکی ذخائر پر بیکل اتساہی سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |