تحریک ندوۃ العلماء

علمائے اسلام کی ایک کونسل

ندوۃ العلماء بھارتی علمائے اسلام کی ایک کونسل ہے، جو کانپور میں 1892ء میں تشکیل دی گئی تھی۔ اس کونسل کے پہلے ناظم محمد علی مونگیری تھے اور موجودہ ناظم بلال عبد الحی حسنی ندوی ہیں۔ اس کونسل نے 26 ستمبر 1898ء میں دار العلوم ندوۃ العلماء قائم کیا، جو لکھنؤ میں ایک مشہور اسلامی جامعہ ہے۔

ندوۃ العلماء
بانیمحمد علی مونگیری
مقامِ قیامکانپور، برطانوی ہند
قِسمغیر منافع، این جی او
ہیڈکوارٹرلکھنؤ، بھارت
ناظم
بلال عبد الحی حسنی ندوی

تاریخ

1892ء میں کانپور میں مدرسہ فیض عام کے سالانہ اجتماع کے دوران مسلم علما کی ایک جماعت نے متفقہ طور پر مستقل کونسل تشکیل دی ، جو آئندہ سال کے پہلے اجلاس کی تشکیل کے لیے رضامند ہوا۔ اس میں محمود حسن دیوبندی، اشرف علی تھانوی، خلیل احمد سہارنپوری، محمد علی مونگیری، ثناء اللہ امرتسری، فخر الحسن گنگوہی، احمد حسن کانپوری اور دیگر علما نے شرکت کی۔[1] محمد علی مونگیری اس کے بنیادی بانی سمجھے جاتے ہیں۔[2]

ندوۃ العلماء کی کونسل کا پہلا اجلاس عام 22 تا 24 اپریل 1894 مدرسہ فیض عام میں ہوا۔[3] محمد علی مونگیری نے ندوۃ العلماء کی چھتری تلے دار العلوم شروع کرنے کا خیال پیش کیا اور اس کا مسودہ 12 محرم 1313 ہجری کو "مسودۂ دار العلوم" کے نام سے پیش کیا۔[4] اس مسودے کو 11 اپریل 1896 کو بریلی میں ندوۃ العلماء کے تیسرے اجلاس عام میں منظور کیا گیا تھا۔[5] ندوۃ العلماء کے تحت قائم کردہ دار العلوم دارالعلوم ندوۃ العلماء ہے۔

دار العلوم کی تعمیر

محمد علی مونگیری؛ حبیب الرحمن خان شیروانی اور ظہور الاسلام فتح پوری جیسے علمائے کرام کے ہم راہ دار العلوم ندوۃ العلماء کی تعمیر کے لیے کسی زمین کی تلاش میں لکھنؤ گئے۔[6] منشی احتشام علی نے مدرسہ کے لیے اپنی زمین عطیہ کی۔ مدرسہ کی تعمیر تک کے لیے انھوں نے گولہ گنج میں ایک بڑا مکان خرید کر اسے ندوۃ العلماء کے حوالے کر دیا اور کونسل کا دفتر 2 ستمبر 1898 کو لکھنؤ منتقل ہو گیا۔[6] 26 ستمبر 1898 کو درجہ ابتدائی شروع کر دیا گیا۔[6]

ناظمینِ ندوۃ العلماء

محمد علی مونگیری ندوۃ العلماء کے پہلے اجلاس عام میں اس کے پہلے ناظم مقرر کیے گئے تھے۔ ان کے بعد مسیح الزماں خان تین سال تک قائم مقام ناظم کے عہدہ پر فائز رہے ؛ یہاں تک کہ انھوں نے 19 جولائی 1903 کو استعفٰی دے دیا۔[7][8]

خلیل الرحمن سہارنپوری 1905 میں ناظم مقرر کیے گئے تھے۔ انھوں نے جولائی 1915 تک اس عہدہ پر کام کیا؛ یہاں تک کہ عبد الحی حسنی کو ناظم مقرر کیا گیا تھا۔[9] مولانا حسنی کی وفات کے بعد علی حسن خان کو ناظم مقرر کیا گیا تھا۔ ندوۃ العلماء کے آخری چار اجلاسہائے عام انھیں کے دور میں ہوئے۔[10] 9 جون 1931ء کو عبد العلی حسنی ندوی کو ناظم مقرر کیا گیا۔ وہ تیس سال تک اس عہدہ پر فائز رہے۔[11] ڈاکٹر عبد العلی کے بعد ابو الحسن علی حسنی ندوی 1961ء میں ناظم منتخب ہوئے۔[12] محمد رابع حسنی ندوی سنہ 2000ء میں ندوۃ العلماء کے ناظم بنائے گئے۔[13] سید محمد رابع حسنی ندوی کے سانحۂ ارتحال کے بعد 14 اپریل 2023 کو بلال عبد الحی حسنی ندوی ندوۃ العلماء کے ناظم بنائے گئے[14]

حوالہ جات

  1. سید محمد الحسنی۔ سیرت حضرت مولانا محمد علی مونگیری: بانی ندوۃ العلماء۔ ص 107–108
  2. سید محمد الحسنی۔ سیرت حضرت مولانا محمد علی مونگیری: بانی ندوۃ العلماء۔ ص 109
  3. سید محمد الحسنی۔ سیرت حضرت مولانا محمد علی مونگیری: بانی ندوۃ العلماء۔ ص 114
  4. سید محمد الحسنی۔ سیرت حضرت مولانا محمد علی مونگیری: بانی ندوۃ العلماء۔ ص 130
  5. سید محمد الحسنی۔ سیرت حضرت مولانا محمد علی مونگیری: بانی ندوۃ العلماء۔ ص 146
  6. ^ ا ب پ سید محمد الحسنی۔ سیرت حضرت مولانا محمد علی مونگیری: بانی ندوۃ العلماء۔ ص 169–170
  7. شمس تبریز خان۔ تاریخ ندوۃ العلماء۔ ج 2۔ ص 31
  8. سید محمد الحسنی (مئی 2016)۔ سیرت حضرت مولانا محمد علی مونگیری: بانی ندوۃ العلماء (ط. 4)۔ لکھنؤ: مجلس صحافت و نشریات ، ندوۃ العلماء۔ ص 238
  9. شمس تبریز خان۔ تاریخ ندوۃ العلماء۔ ج 2۔ ص 42
  10. شمس تبریز خان۔ تاریخ ندوۃ العلماء۔ ج 2۔ ص 242
  11. شمس تبریز خان۔ تاریخ ندوۃ العلماء۔ ج 2۔ ص 402
  12. "Nadwi on Maududi: a traditionalist maulvi's critique of Islamism"۔ ٹو سرکلز۔ 18 May 2008۔ اخذ شدہ بتاریخ 06 جولا‎ئی 2021 
  13. اے ایف ایم سلیمان (2011)۔ Indian contributions to Arabic literature - a study on Mohd Rabe Hasani Nadwi۔ ص 82۔ اطلع عليه بتاريخ 2021-07-06
  14. "مولانا بلال عبد الحی حسنی ندوی ندوۃ العلماء کے ناظم منتخب"۔ 26 ستمبر 2023 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 ستمبر 2023 

کتابیات

  • سید محمد الحسنی (مئی 2016)۔ سیرت حضرت مولانا محمد علی مونگیری: بانی ندوۃ العلماء (ط. 4)۔ لکھنؤ: مجلس صحافت و نشریات ، ندوۃ العلماء
  • شمس تبریز خان (2015)۔ تاریخ ندوۃ العلماء۔ لکھنؤ: مجلس صحافت و نشریات ، ندوۃ العلماء۔ ج 2

بیرونی روابط

مزید دیکھیے