عبد الحی حسنی

ہندوستانی عالم، مؤرخ، ادیب، اور ندوۃ العلماء کے ناظم

علامہ حکیم سید عبد الحئ حسنی (1286 - 1341ھ / 1869 - 1923ء)[1] مشہور ہندوستانی عالم، مؤرخ، ادیب اور ندوۃ العلماء کے ناظم تھے۔ مولانا سید ابو الحسن علی ندوی کے والد تھے۔ وہ علمی وروحانی ذوق کے ساتھ ادب و انشا اور شعر و شاعری کا مذاق بھی رکھتے تھے، زندگی کے ضروری کاموں کے ساتھ تصنیفی اشتغال اور علمی انہماک، سلیس و واضح، شیریں اور شگفتہ اردو عربی تحریر پر قدرت تھی، متعدد اہم کتب تصنیف کی جن میں گل رعنا اور نزهة الخواطر وبهجة المسامع والنواظر (الإعلام بمن في تاريخ الهند من الأعلام) زیادہ مشہور ہیں۔

علامہ،سید  ویکی ڈیٹا پر (P511) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عبد الحی حسنی
معلومات شخصیت
پیدائش 21 دسمبر 1869ء  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
رائے بریلی  ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 1 فروری 1923ء (54 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لکھنؤ  ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ فقیہ،  مصنف،  ماہر اسلامیات  ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی،  اردو،  فارسی  ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

نسب ترمیم

عبد الحئ بن فخر الدین بن عبد العلی بن علی محمد بن اکبر شاہ بن محمد شاہ بن محمد تقی بن عبد الرحین بن ہدایت اللہ بن اسحاق بن مُعظَّم بن احمد بن محمود بن علاء الدین بن قطب الدین بن صدر الدین بن زین الدین بن احمد بن علی بن قیام الدین بن صدر الدین بن ركن الدین بن نظام الدین بن قطب الدین محمد بن رشید الدین احمد بن یوسف بن عیسیٰ بن حسن بن حسین بن جعفر بن قاسم بن عبد اللہ بن حسن بن محمد النفس الزكیہ بن عبد اللہ المَحض بن حسن بن حسن بن علی بن ابی طالب۔[2]

ولادت و ابتدائی زندگی ترمیم

مولانا حکیم سید عبد الحئ حسنی 18 رمضان 1286ھ مطابق 22 دسمبر 1868ء ضلع رائے بریلی کے گاؤں "تکیہ کلاں' میں دائرہ شاہ علم اللہ میں پیدا ہوئے۔ پیدائشی نام "سید احمد" رکھا گیا، لیکن عبد الحی نام سے مشہور ہوئے۔ خاندان میں علمی و روحانی ماحول تھا، ان کے والد مولانا سید فخر الدین حسنی اور شاہ ضیاء النبی حسنی جیسے اہل علم اور مشائخ خاندان میں موجود تھے۔[3]

تعلیم ترمیم

ابتدائی تعلیم نانیہال "ہنسوہ ضلع فتح پور" اور "تکیہ ضلع رائے بریلی" میں حاصل کی۔ پھر الہ آباد گئے، وہاں دو سال رہ کر "مولوی شاہ محمد حسین الہ آبادی" اور دوسرے علما سے علم حاصل کیا۔ وہاں سے فتح پور گئے اور "مولانا نور محمد پنجابی" سے فقہ پڑھی۔ جب پندرہ سال کی عمر ہوئی تو بھوپال گئے اور وہاں دو سال رہ رہ کر مشہور علما سے علومِ عالیہ کی تعلیم حاصل کی۔ پھر لکھنؤ گئے اور وہاں "محمد نعیم فرنگی محلی" سے علم حاصل کیا۔ کچھ عرصہ کانپور میں رہ کر "مولانا اشرف علی تھانوی" سے بھی کچھ کتابیں پڑھی۔ اس کے علاوہ مولانا امیر علی، مولانا الطاف حسین، مولوی فتح محمد تائب، مولانا احمد شاہ ولایتی اور مولانا فضل اللہ فرنگی محلی بھی اساتذہ میں شامل ہیں۔[4]

1309ھ میں ماموں "مولانا سید عبد العزیز ہنسوی" کی صاحبزادی سے نکاح ہوا۔

نکاح کے بعد پھر بھوپال گئے، وہاں بقیہ درسی کتابیں مکمل کی، "شیخ محمد عرب" اور "شیخ حسین بن محسن یمانی" سے حدیث کی تحصیل کی۔ 1311ھ میں لکھنؤ کے مشہور طبیب "حکیم عبد العلی" اور "حکیم عبد العزیز" سے طب پڑھی۔

1312ھ میں دہلی اور اس کے اطراف کا سفر کیا، مولانا سید نذیر حسین دہلوی کے درسِ حدیث میں شرکت کی اور اجازتِ حدیث حاصل کی۔ اسی سفر میں گنگوہ بھی گئے اور مولانا رشید احمد گنگوہی سے "حدیث مسلسل بالاولیہ" کی اجازت لی۔[5]

ازدواجی زندگی ترمیم

مولانا نے پہلا نکاح 1309ھ میں کیا تھا، اس کے ایک لڑکے عبد العلی حسنی ندوی پیدا ہوئے۔ پہلی بیوی کے انتقال کے تقریباً 13 سال بعد والد ماجد کے اصرار پر شاہ ضیاء النبی حسنی کی صاحبزادی سیدہ خیر النساء سے دوسرا عقد کیا، جن سے ایک صاحبزادے سید ابو الحسن علی ندوی اور دو صاحبزادیاں محترمہ سیدہ امۃ العزیز اور محترمہ سیدہ امۃ اللہ تسنیم ہوئیں۔[6]

بیعت و ارشاد ترمیم

کئی مشائخ سے ملاقات اور بیعت کی، جن میں:

ندوۃ العلما میں ترمیم

مولانا حکیم عبد الحئ حسنی، تحریک ندوۃ العلماء کے پہلے اجلاس (منقعدہ 1894، کانپور) میں شریک تھے، اس وقت ان کی عمر تقریباً 25 سال تھی۔ اس کے بعد ندوۃ العلماء کی سرگرمیوں میں شریک رہے۔ تحریک کے تئیں ان کی دلچسپی اور محنت کو دیکھ کر 8 رجب 1313ھ / دسمبر 1895 میں جلسہ انتظامیہ نے انھیں "مددگار ناظم" مقرر کیا۔[7]

تحریک کے ناظم محمد علی مونگیری کی علالت اور اجلاس میں عدم موجودگی پر ان کا سارا کام انھوں نے کیا۔ آغاز میں اپنے مطب سے اپنی ضروریات پوری کرتے تھے، ندوہ سے کوئی مشاہرہ نہ لیتے تھے۔ لیکن بعد میں ارکان ندوہ نے 30 روپئے مشاہرہ کی منظوری دے دی۔ معاوضہ کا یہ سلسلہ 1905ء تک چلتا رہا، پھر انھوں نے مشاہرہ لینے سے معذرت کر دی تھی اور مطب کو کسب معاش کا ذریعہ بنایا۔[8]

بعض حالات کی وجہ سے 1903ء میں ناظم محمد علی مونگیری کے استعفی کے بعد بھی مولانا بدستور بحیثیت "مددگار ناظم" کے ندوہ کا کام کرتے رہے اور تحریک کا کوئی باقاعدہ ناظم نہیں بن سکا۔ تحریک کے دار العلوم ندوۃ العلماء کے لیے علامہ شبلی نعمانی کو بحیثیت معتمد تعلیم منتخب کیا گیا اور اسی طرح چلتا۔

پھر 3 اپریل 1915ء کے جلسہ انتظامیہ نے اکثر آرا سے آئندہ عربی سال سے انھیں ناظم مقرر کیا۔[9]

چنانچہ ان کی نظامت میں دار العلوم ندوۃ العلماء میں بڑی خوش آئند تبدیلیاں ہوئیں، ندوہ نے علمی اور تعمیراتی ہر اعتبار سے ترقی کی۔ الغرض مولانا وفات تک ربع صدی سے زائد مختلف حیثیتوں سے ندوۃ العلماء سے وابستہ رہے، اس کے سرد وگرم، تنزلی وترقی اور انتشار ویکجہتی ہر حالت میں اس کے ساتھ رہے۔[10]

وفات ترمیم

مولانا حکیم سید عبد الحئ حسنی صاحب کی وفات 15 جمادی الثانی 1341ھ مطابق 2 فروری 1923ء کو جمعہ کے دن لکھنؤ میں ہوا، رات ہی رات نعش کو ان کی آبائی گاؤں تکیہ رائے بریلی لے جایا گیا، وہاں دائرہ شاہ علم اللہ میں طلبہ و اساتذہ اور عوام کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ جنازہ پڑھا گیا اور شاہ علم اللہ کے پائیں دفن کیا گیا۔[11]

تصانیف ترمیم

مشہور تصانیف کے نام درج ذیل ہیں:

  • نزہۃ الخاطر (تاریخ و تراجم، 8 جلدیں)
  • یاد ایام (تاریخ گجرات)
  • تہذیب الاخلاق (احادیث کا مجموعہ)
  • منتہی الافکار فی شرح تلخیص الاخبار
  • تذکرۃ الابرار
  • کتاب الغناء
  • قرابادین
  • شرح سبع معلقہ
  • ریحانۃ الادب و شمامۃ الطرب
  • رسالہ در بیان سلاسل خانوادہ نقشبندیہ
  • تعلیقات علی سنن ابی داؤد
  • القانون فی انتفاع المرتہن بالمرہون
  • الثقافۃ الاسلامیۃ فی الہند
  • الہند فی العہد الاسلامی
  • جنۃ المشرق
  • گل رعنا۔۔۔۔۔ وغیرہ

بیرونی روابط (کتابیں) ترمیم

حوالہ جات ترمیم

  1. خير الدين الزركلي (1980)۔ "الشَّريف عَبْد الحَيّ النَّدوي"۔ موسوعة الأعلام۔ موسوعة شبكة المعرفة الريفية۔ 31 دسمبر 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 تشرين الأول 2011 
  2. عبد العلي الحسني (1999)۔ الإعلام بمن في تاريخ الهند من الأعلام المسمى بـ«نزهة الخواطر وبهجة المسامع والنواظر» (الأولى ایڈیشن)۔ بيروت، لبنان: دار ابن حزم۔ صفحہ: 23-28 
  3. کتاب؛ حیات عبد الحی، مطبوعہ؛ سید احمد اکیڈمی رائے بریلی۔
  4. کتاب؛ "سوانح مولانا سید محمد الحسنی"، از؛ مولانا سید محمد ثانی حسنی ندوی، صفحہ: 39-40۔
  5. ملاحظہ ہو کتاب؛ "دہلی اور اس کے اطراف" از؛ مولانا سید عبد الحی حسنی، مطبوعہ؛ اردو اکاڈمی دہلی (م)۔
  6. کتاب؛ "سوانح مولانا سید محمد الحسنی"، از؛ مولانا سید محمد ثانی حسنی ندوی، صفحہ: 41۔
  7. کتاب؛ حیات عبد الحی، از؛ سید ابو الحسن ندوی مطبوعہ؛ سید احمد اکیڈمی رائے بریلی، صفحہ؛ 155 تا 157۔
  8. کتاب؛ حیات عبد الحی، صفحہ؛ 161-62۔
  9. کتاب؛ حیات عبد الحی، صفحہ؛ 202۔
  10. کتاب؛ حیات عبد الحی، صفحہ؛ 161-62۔
  11. کتاب؛ حیات عبد الحی، صفحہ؛ 248 تا 253۔