تفضل حسین کشمیری
علامہ تفضل حسین کشمیری (1727تا 1801) ، جنہیں خانِ علامہ کا لقب دیا گیا، ایک شیعہ عالم ، طبیعیات دان اور متکلم تھے۔ [1]وہ علمی دنیا میں آئزک نیوٹن کی کتاب ” فلسفہ طبیعت کے ریاضیاتی اصول “اور کئی دوسرے علمی رسالوں کا عربی ترجمہ کرنے کے لیے مشہور ہیں۔
تفضل حسین کشمیری | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1727ء سیالکوٹ |
تاریخ وفات | سنہ 1801ء (73–74 سال) |
درستی - ترمیم |
ابتدائی زندگی اور تعلیم
ترمیمعلامہ تفضل حسین کشمیری 1727 میں سیالکوٹ میں ایک بااثر کشمیری خاندان میں پیدا ہوئے۔ ان کے دادا ،کرم اللہ، اپنے وقت کے ایک بہت بڑے عالم تھے اور انھوں نے لاہور کے گورنر معین الملک (میر منو) کے دربار میں وزیر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔13 سال کی عمر میں تھے کہ علامہ تفضل کا خاندان دہلی منتقل ہو گیا جہاں انھوں نے ممتاز سنی عالم دین ملا نظام الدین سہالوی کے شاگردملا وجیہ سے بنیادی منطق اورفلسفہ کی تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے میرزا محمد علی سے قدیم ریاضی کی تعلیم حاصل کی۔ 18 سال کی عمر میں اس کا کنبہ لکھنؤ چلا گیا جہاں وہ فرنگی محل کے مدرسے میں داخل ہو گئے۔ جلد ہی ان کے ذہن میں سنی مسلک اورروایتی فلسفہ کی تعلیمات کے بارے میں شکوک و شبہات پیداہو گئے اور انھوں نے خودسے تحقیق شروع کردی۔ اس کے بعد انھوں نے شیعہ مسلک اختیار کیا اورمعقولات میں بطلیموسی فلکیات کی طرف متوجہ ہو گئے۔ [2] انھوں نے فرنگی محل میں معروف شیعہ صوفی ملا صدرا کا فلسفہ سیکھا تھا [3] ، لیکن جلد ہی اس خیالی شبہ علم کو ترک کر کے حقیقی تعقل میں مشغول ہو گئے۔ سائنس کے تاریخ دان سائمن شیفر لکھتے ہیں:
”نیوٹن کی وفات کے سال میں شمالی سیالکوٹ میں پیدا ہونے والے تفضل حسین کا تعلق ایک نامور گھرانے سے تھا جو مغل دربار کے قریب تھے اور انھوں نے شیعہ مسلک اختیار کر لیا تھا ۔ انھوں نے شاہی دار الحکومت دہلی میں منطق ، ریاضی اور فلسفہ طبیعت کی تعلیم حاصل کی ۔ 1745 میں ان کے والد اودھ منتقل ہو گئے اور نواب شجاع الدولہ کے دربار میں جلد ہی بلند مقام حاصل کر لیا۔تفضل نے لکھنؤ کے مشہور مدرسہ دار العلوم فرنگی محل میں داخلہ لیا جو ولندیزی تجارتی کمپنی کی متروک عمارت میں قائم ہوا تھا جسے 1693 میں بادشاہ اورنگ زیب نے قبضے میں لے کر ملا نظام الدین سہالوی کے حوالے کر دیا تھا۔ ملا نظام الدین سہالوی کے تیار کردہ درس نظامی میں طلبہ کو امور مملکت چلانے کے لیے یونانی عربی معقولات اور اسلامی فقہ کی تعلیم دی جاتی تھی۔ دار العلوم کا تعلیمی معیار مغل دربار کے ساتھ ساتھ برطانوی دربار میں بھی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔نوجوان تفضل کے گھرانے کا تعلق شرفا کے طبقے سے تھا اور ان کی ہندی فارسی روایت میں عقلی علوم اور زبان و ادب میں مہارت سیاسی طاقت حاصل کرنے کی ایک لازمی شرط تھی، جو انھوں نے دہلی اور لکھنؤ میں تعلیم کے دوران حاصل کی۔ انھوں نے ارسطوئی منطق اور اقلیدس و بطلیموس کی ریاضی کی عربی شروحات میں مہارت کے ساتھ ساتھ فقہ اور مدیریت کا علم حاصل کیا۔ “[4]
علمی خدمات
ترمیمالہ آباد میں نواب شجاع الدولہ نے انھیں اپنے بیٹے سعادت علی خان دوم کا اتالیق مقرر کیا۔ وہاں کچھ اور طلبہ بھی ان کے شاگرد بنے جن میں ایک نوجوان سید دلدار علی نقوی تھے، جو بعد میں نجف اشرف چلے گئے اور لکھنؤ واپس آ کر اہل تشیع کے مجتہد اعلم بنے اور غفران مآب کے لقب سے مشہور ہوۂے۔ نواب آصف الدولہ کے زمانے میں علامہ کشمیری، کلکتہ میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے دربار میں اودھ کے سفیر مقرر ہوۂے۔ وہاں انھوں نے یونانی، لاطینی اور انگریزی زبانیں سیکھیں اور مغرب میں برپا ہونے والے سائنسی انقلاب سے آشنا ہوۂے۔ انھوں نے بروقت مسلم اور ہندوستانی تعلیمی اداروں کی علمی پسماندگی کو ختم کرنے کے لیے مغربی سائنسدانوں کی کتابوں کو عربی میں ترجمہ کرنا شروع کیا۔ [2] اٹھارویں صدی عیسوی کے یورپ میں سائنس نے تعلیمی درسگاہوں کے علاوہ کافی ہاؤسز، ہوٹلوں، دکانوں، میلوں اور دیگر عوامی مقامات پر مختلف علمی موضوعات پرہونے والے عوامی مباحثے کی وجہ سے ترقی کی۔ اٹھارہویں صدی عیسوی کے اختتام تک کلکتہ اسی قسم کے ثقافتی تبادلے کا ایک اہم مرکز بن گیا تھا جہاں جیمز فرگوسن کی کتاب ” بجلی کی مبادیات “ ، ٹائیبیریس کیالو کی کتاب ”بجلی پر ایک مکمل رسالہ“ اور انہی کی ”بجلی کے طبی استعمال کا عملی اور نظری مطالعہ “، جارج ایڈمز کے”مضامین بجلی “، تھامس بیڈڈوس کی”مصنوعی گیسیں “، جین انٹوئن چیپل کی کتاب ” کیمسٹری“ اور ”فلسفیانہ میگزین“ جیسے علمی جرائد کی گردش جاری تھی، جن کی زبان انگریزی تھی۔ ایشیاٹک سوسائٹی، جو 1784 میں ولیم جونز نے قائم کی تھی ، فلسفیانہ مباحثوں کا اہتمام کرتی تھی۔ [5]
ایسے ماحول میں علامہ تفضل حسین کشمیری نے علم کی ترقی یافتہ شکل کو عربی زبان میں منتقل کرنے کی کوشش کی۔ سائمن شیفر ان کے ذوق و شوق کو بیان کرتے ہیں:
”تفضل صاحب صبح کے وقت اسلامی روایت اور فلسفہ کی تشریحات اور ریاضی کا درس دیتے تھے۔ دوپہر کا کھانا اپنے برطانوی دوستوں کے ساتھ کھاتے۔ پھر سہ پہر اور شام کو اسلامی فقہ کے مختلف مسالک کا درس دیتے۔ کمپنی کی زبان پر تسلط حاصل کرنے کے لیے پہلے تو انھوں نے ’انگلینڈ کی تاریخ‘نامی کتابپڑھنا شروع کی لیکن جلد ہی اسے چھوڑ دیا۔ان کے سابق دوست ولیم بلین صاحب ، جوبعد میں لکھنؤ میں معالج تعینات ہوئے ، نے ان کے لیے مترجم کا کردار ادا کیا۔ بلین نے اینڈرسن کے نام خط میں لکھا کہ
’عام طور پر تفضل صاحب روزانہ میری مدد سے انگریزی کتابیں پڑھنے میں ایک یا دو گھنٹے صرف کرتے ہیں … جدید فلکیات ان کو بہت پسند ہے… کیا آپ ان کے لیے سائنس یا ریاضی کی عالی شاخوںکی کچھ کتابیں بھیج سکتے ہیں؟‘
ریوبن بورو صاحب اور ان کے دوستوں کے توسط سے تفضل صاحب نے زیادہ مشکل علوم پر کام شروع کیا۔ان میں اٹھارہویں صدی کی ریاضی اور نظری طبیعیات کی کتب اور رسالے شامل تھے ، ان میں ویرسائیڈ کے علاقے سے تعلق رکھنے والے ماہر ریاضی دان ولیم ایمرسن کی کتاب مکینکس (چھاپ 1769) بھی شامل تھی ، ایک ایسا کام جو طلبہ کوگلیلیو کے نظریۂ حرکت اورریاضیاتی تعقل سکھانے کے سلسلے میں قابل اعتماد منبع تھی۔تفضل صاحب نے وولویچ میں رائل ملٹری اکیڈمی میں ریاضی کے پروفیسر تھامس سمپسن کے رسالہ الجبرا (چھاپ 1745) اور فرانسیسی ریاضی کے تجزیہ کار گیلوم ڈی ایل ہاپیٹل کے رسالہ تکونی قطعات (چھاپ 1707) کو بھی حل کیا۔“[6]
آثار
ترمیمانھوں نے مندرجہ ذیل کتب تصنیف کیں: [2]
- اپولونس کی تکونی قطعات کی شرح
- الجبرا پر دو مقالے
- دیوفانت کی تکونی قطعات کی شرح
- سر آئزک نیوٹن کی فلسفہ طبیعت کے ریاضیاتی اصول کا ترجمہ
- طبیعیات پر ایک کتاب
- مغربی فلکیات سے متعلق ایک کتاب
سائمن شیفر لکھتے ہیں:
”نیوٹن کا ترجمہ کرنے کی امنگ یقیناًقابل تحسین ہے۔تفضل صاحب کے کلکتہ آمد کے وقت نیوٹن کی لاطینی زبان میں لکھی گئی کتاب کا انگریزی (اینڈریو موٹ ، 1729) اور فرانسیسی (مارکس دی شاتلے، 1759)زبانوں میں ترجمہ ہو چکا تھا۔ بظاہر عربی ترجمے کا کام 1789 کے وسط میں شروع ہوا اورریوبن بوروصاحب کی حوصلہ افزائی کے ساتھ جاری رہا۔ ستمبر 1789 میں ولیم جونز نے مرہٹہ سردار سندیا کے دربار میں اس وقت کے برطانوی نمائندے کے ذریعہ ولیم پامر کو بتایا تھا کہ ،’ان کے دوست ‘ تفضل صاحب نیوٹن کے عربی ترجمے کی تیاری کر رہے تھے۔ کام کی پیشرفت کی اطلاعات تفضل صاحب اینڈرسن کو اور ریوبن بوروصاحب شور کو لکھ بھیجا کرتے تھے۔ ریوبن بورو کے آثار سے اندازہ ہوتا ہے کہ انھوں نے علامہ تفضل کو اس کتاب پر لکھے گئے اپنے حاشیے کا ترجمہ کرنے کا مشورہ بھی دیا۔انھوں نے نومبر 1790 میں ایشیاٹک سوسائٹی میں کہا کہ
’ تھوڑا بہت وقت جو میں نکال پایا ہوں … وہ نیوٹن کے آثار پر حاشیہ لگانے اور ایک بہت ہی باصلاحیت مقامی (یعنی تفضل صاحب) کو سمجھانے میں صرف ہوتا رہا ہے، جو ان کا عربی زبان میں ترجمہ کر رہے ہیں۔‘
تفضل صاحب کے لیے یہ برطانوی عقلی فلکیات میں مہارت حاصل کرنے اور انھیں اپنی علمی روایت میں شامل کرنے کا موقع تھا۔ ان کے شیعہ ساتھیوں نے اس فلکیات میں پیشرفت، سیاسی طاقت اور درباری سرپرستی میں تعلق کی اہمیت کو سمجھ لیا تھا۔“[7]
ان میں سے کچھ کتابیں انیسویں صدی کے لکھنؤ میں شیعہ حلقوں میں پڑھائی گئیں۔ [2] ان کے جانشین سعادت علی خان دوم نے لکھنؤ میں ایک رصد گاہ کی بنیاد رکھی۔ نواب غازی الدین حیدر اور نواب نصیرالدین حیدر نے بھی ان علوم کو سیکھنے والوں کی حوصلہ افزائی کی۔ [8]
جیمز ڈِن وِڈی کی شاگردی میں
ترمیم1792 میں سکاٹ لینڈ سے تعلق رکھنے والے سائنس دان ڈاکٹر جیمز ڈِن وِڈی نے چین میں اپنی قسمت آزمائی لیکن وہ شہنشاہ کو متاثر کرنے میں ناکام رہے۔ 1794 میں وہ بہتر امکانات کی امید میں کلکتہ آ گئے اور قدرتی سائنس کے سلسلے میں عوامی دروس کا ایک سلسلہ شروع کیا اور سائنسی مظاہر کے تجربے منعقد کیے، جن میں شریک ہونے والوں کو ٹکٹ خریدنا ہوتے تھے۔ انھوں نے ریاضی ، فلکیات اور جیومیٹری کے نسبتاًمشکل موضوعات پر خصوصی درس کا بھی اہتمام کیا۔ [5] ان کا خیال تھا کہ ریاضی کی زبان استعمال کیے بغیر علم کی گہرائی میں نہیں اترا جا سکتا۔ انھوں نے کہا:
”علم کے صرف ان شعبوں میں جن پر ریاضی کا اطلاق کیا گیا ہے ، فلسفہ طبیعت اپنی تحقیقات کو یقین ، کامیابی اور افادیت کے ساتھ انجام دینے پر فخر کرسکتا ہے۔“
ان کا ماننا تھا کہ ریاضی سیکھے بغیر کوئی شخص علمی طور پر اسکول کے بچوں کی سطح سے آگے نہیں بڑھ سکتا۔ [5] علامہ تفضل حسین کشمیری 1789 میں ہی جناب آئزک نیوٹن کی فلسفہ طبیعت کے ریاضیاتی اصول کا عربی میں ترجمہ کر چکے تھے۔ 24 دسمبر 1794 میں جب ڈِن وِڈی صاحب کو کلکتہ میں تدریس کا آغاز کیے ایک ماہ ہو چکا تھا، بوڑھے علامہ تفضل نے ان کے خصوصی درس میں داخلہ لے لیا۔ ڈِن وِڈی صاحب نے پہلے انھیں روشنی کے قواعد اور پھر جیومیٹری کی تعلیم دی۔ علامہ تفضل کو ترقی یافتہ ریاضی سیکھنے میں بہت محنت کرنا پڑتی تھی۔ ڈِن وِڈی صاحب نے اپنی ڈائری میں لکھا ہے:
”بڑی عجیب بات ہے کہ جو آدمی اتنی نظریہ پردازی کرتا ہے وہ اطلاقی ریاضی سے اس قدر لاعلم کیوں ہے؟“ [9]
علامہ پر اودھ کی سفارت کی ذمہ داریوں کا بوجھ بھی تھا ، چنانچہ انھیں کچھ عرصہ کے لیے درس کا سلسلہ منقطع کرنا پڑا۔ لکھنؤ میں نواب جدید ان کے سائنسی علم کے سیکھنے اور ترجمہ کرنے میں بہت زیادہ مشغول ہونے پر ناراض ہو گئے تھے ۔ [10] نومبر 1795 میں درس کا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا اور اس بار ڈِن وِڈی صاحب نے انھیں تجرباتی فلکیات کی تعلیم دی۔ درس میں دو طرفہ تبادلے کا پہلو بھی تھا ، علامہ تفضل نے بھی ڈِن وِڈی صاحب کو قدیم ہندوستانی اور عربی فلکیات کے متعلق آگاہ کیا تھا۔ [5]
قدامت پرستوں کی مخالفت
ترمیممشہور عالم شاہ عبد العزیز دہلوی ولد شاہ ولی اللہ دہلوی نے انھیں ’ ملحد کامل‘ قرار دے رکھا تھا۔ [11][12]
شاگرد
ترمیموفات
ترمیم1799 میں ان پر ذہنی دباؤ کی وجہ سے فالج کا حملہ ہوا جس کے نتیجے میں جسم کے بیشتر حصے نے کام کرنا چھوڑ دیا۔ وہ 3 مارچ 1801 کو بنارس سے لکھنؤ جاتے ہوئے انتقال کر گئے۔ شیعہ سیاح میرزا ابو طالب خان نے لندن میں ان کی وفات کی اطلاع ملنے پر اپنے سفرنامے میں یہ مرثیہ لکھا۔[12]
افسوس! علم کا جام تمام ہو گیا
کان گہرے مطالب سننے کی لذت سے محروم ہو گئے
وہ جس کا ذائقہ ابھی تالو سے لگا ہوا ہے
خوش ذائقہ مشروب، جو عقل کی پیاس کو اور بھڑکاتا ہے
یہ زندگی تو عاریتاًلیے ہوئے لباس کی مانند ہے
شب کی زلفیں پریشان ہیں
ستارے شبنم کے آنسوبہا رہے ہیں
تر آنکھیں لیے ،غم میں ڈوبے ہوئے ہیں
چونکہ وہ ، ان کا محبوب فلسفی ، مر گیا ہے
بھلا کون؟
جس نے اسلام کے پیروکاروں کے لیے ان کے قوانین بیان کیے
ان کے فاصلے ، ان کے مدار اور اوقات ،
جن کا ایک حصہ عظیم کوپرنیکس نے کشف کیا
اوراس سے بیشتر عظیم نیوٹن نے مقام ثبوت کو پہنچایا
لیکن ، اب رونا بیکار ہے
اب ہم بے جان ہاتھوں اور خالی آنکھوں سے
ان کے آثار کو دیکھتے ہیں
ہمارا معلم اول چلا گیا ہے
مزید دیکھیے
ترمیم- ریوبن بورو
- جیمس ڈن وڈی
- شجاع الدولہ
- شاہ ولی اللہ دہلوی
- مرزا ابو طالب خان
- سرسید احمد خان
- پرویز ہود بھائی
حوالہ جات
ترمیم- ↑ شیخ محمد اکرام، ”رودِ کوثر“، صفحہ 639 تا 640، ادارہ ثقافت اسلامیہ، جون (2005)۔
- ^ ا ب پ ت Rizvi, "A Socio-Intellectual History of Isna Ashari Shi'is in India", Vol. 2, pp. 227–228, Ma’rifat Publishing House, Canberra, Australia (1986).
- ↑ Syed Ali Nadeem Rezavi, "Philosophy of Mulla Sadra and its Influence on India", Religion in Indian History, pp.177–186, New Delhi (2007).
- ↑ Simon Schaffer, "The Asiatic Enlightenments of British Astronomy", in: "The Brokered World: Go-Betweens and Global Intelligence, 1770–1820", p. 53, Watson Publishing International LLC, (2009).
- ^ ا ب پ ت Savithri Preetha Nair, “Bungallee House set on fire by Galvanism: Natural and Experimental Philosophy as Public Science in a Colonial Metropolis (1794–1806) آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ brill.com (Error: unknown archive URL)”; In: The Circulation of Knowledge Between Britain, India and China; pp. 45–74, Brill, (2013).
- ↑ Simon Schaffer, "The Asiatic Enlightenments of British Astronomy", in: "The Brokered World: Go-Betweens and Global Intelligence, 1770–1820", p. 57, Watson Publishing International LLC, (2009).
- ↑ Simon Schaffer, "The Asiatic Enlightenments of British Astronomy", in: "The Brokered World: Go-Betweens and Global Intelligence, 1770–1820", pp. 60-61, Watson Publishing International LLC, (2009).
- ↑ Mushirul Hasan, "Resistance and Acquiescence in North India: Muslim Response to the West", Rivista Degli Studi Orientali, Vol. 67, Fasc. 1/2, pp. 83-105, (1993).
- ↑ Savithri Preetha Nair, “Bungallee House set on fire by Galvanism: Natural and Experimental Philosophy as Public Science in a Colonial Metropolis (1794–1806) آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ brill.com (Error: unknown archive URL)”; In: The Circulation of Knowledge Between Britain, India and China; p. 67, Brill, (2013).
- ↑ Savithri Preetha Nair, “Bungallee House set on fire by Galvanism: Natural and Experimental Philosophy as Public Science in a Colonial Metropolis (1794–1806) آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ brill.com (Error: unknown archive URL)”; In: The Circulation of Knowledge Between Britain, India and China; p. 69, Brill, (2013).
- ↑ شاه عبد العزیز، "ملفوظات شاه عبد العزیز“، ص 117، مطبع مجتبائی، میرٹھ۔
- ^ ا ب Rizvi, "A Socio-Intellectual History of Isna Ashari Shi'is in India", Vol. 2, pp. 229, Ma’rifat Publishing House, Canberra, Australia (1986).