تقی عابدی
سید تقی عابدی (انگریزی: Taqi Abedi) کی پیدائش حیدرآباد، دکن، بھارت میں پیدا ہوئے۔ وہ ایک بھارتی کینیڈائی ڈاکٹر ہیں اور متصلًا اردو زبان کے ماہر ہیں۔
تقی عابدی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | فروری1952ء (72 سال) حیدر آباد |
شہریت | کینیڈا |
عملی زندگی | |
مادر علمی | جامعہ عثمانیہ، حیدرآباد جامعہ گلاسگو |
تعلیمی اسناد | ایم بی بی ایس ، ماسٹر آف سائنس |
پیشہ | شاعر ، مصنف |
درستی - ترمیم |
فارسی ادب میں تالیف
ترمیمعابدی نے دو جلدوں میں کلیات غالب فارسی کو جمع کیا، جس میں مغلیہ دور کی مرزا غالب کی فارسی شاعری کو جمع کیا گیا، جسے دہلی میں واقع غالب انسٹی ٹیوٹ نے شائع کیا۔ عابدی کی رائے میں مرزا غالب کو جہاں ان کی اردو شاعری کی وجہ سے غیر معمولی شہرت ملی، وہیں وہ خود فارسی زبان کی جانب سے زیادہ مائل تھے اور اس زبان میں نمایاں شاعری انجام دے چکے ہیں۔ [1]
ایران کی وزارت فنون و ثقافت، بھارت اور پاکستان کے سفیروں کے اشتراک سے ستمبر 2010ء میں عابدی کے کلیات غالب کا تہران میں رسم اجرا ہوا تھا۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ غالب کے مجموعے کا ایران میں جاری ہونا بھارت اور ایران کے ادبی حلقوں میں قریبی تعلقات کے نئے مواقع فراہم کرتا ہے۔ مرزا دبیر اور میر انیس کی فارسی شاعری پر روشنی ڈالتے ہوئے انھوں نے کہا کہ غالب کی شاعری کا نامعلوم پہلو یہ ہے کہ فارسی شاعری اپنی ضخامت میں اردو سے زیادہ ہے۔[2]
مذہبی شاعری کے زمرے میں ہندو شعرا کے تعاون پر تحقیق
ترمیمعابدی نے پیغمبر اسلام اور اہل بیت پر مختلف ہندو شعرا کے کام پر تحقیق کی اور کچھ کتابچوں کی تالیف کی جن میں نعت، مرثیے، سوز اور سلام تھے۔ ان میں قابل ذکر گوپی ناتھ امن، کالی داس گپتا رضا، دلو رام کوثری شامل تھے۔ انھوں نے خصوصًا ایک خاتون ہندو شاعرہ روپ کمار کماری پر کام کیا اور پیغمبر اسلام ان کے والہانہ لگاؤ کو دکھایا۔ مذکورہ کتاب ملتان، پاکستان سے شائع ہوئی۔ اس میں شاعرہ کے اہل بیت کے لیے محبب کا بھی تذکرہ ہے۔[3]
اس کے علاوہ تقی نے میر انیس، مرزا دبیر، حتی کہ فیض احمد فیض پر بھی کافی تحقیقی کام کیا اور ان کے مقالہ جات بھارت، پاکستان اور کینیڈا میں شائع ہو چکے ہیں۔
مزید دیکھیے
ترمیمحوالہ جات
ترمیم- ↑ "The Tribune, Chandigarh, India – The Tribune Lifestyle"۔ Tribuneindia.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 جولائی 2014
- ↑ The Milli Gazette۔ "Dr Taqi Aabdi's Kulliyat-e-Ghalib Faarsi released in Tehran"۔ Milligazette.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 31 جولائی 2014
- ↑ "COLUMN: Lament for a marsiya writer"۔ Dawn.com۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 نومبر 2014