14 ستمبر، 2015ء کو کیے گئے امواج ثقل کے پہلے مشاہدے کا اعلان لیگو اور ورگو تداخل پیما کے اشتراک سے 11 فروری، 2016ء کو کیا گیا۔[1][2][3] اس سے پہلے امواج ثقل کا صرف بالواسطہ مشاہدہ ہی ثنائی نظام میں موجود دو نابضوں کے دورانیہ اثر کے ذریعہ کیا جا سکا تھا۔ وہ امواج جن کا سراغ لیگو رصدگاہ[4] نے لگایا ہے، عمومی اضافیت کی رو سے ان ثقلی موجوں کی پیش گوئی سے مطابقت رکھتی ہیں جو اندر آتے ہوئے مرغولہ نما بلیک ہول کے جوڑے کے ملنے سے خارج ہوتی ہیں اور بعد میں بننے والے بلیک ہول کا اشارہ ہوتی ہیں، اس اشارے کا نام GW150914 (یعنی "امواج ثقل 2015-09-14"، "Gravitational Wave 2015-09-14") رکھا گیا ہے۔  [1][5] یہ سب سے پہلے ثنائی بلیک ہول کے انضمام کا بھی اوّلین مشاہدہ ہے جس میں نہ صرف ثنائی نجمی کمیت کے بلیک ہول کے نظام کے وجود کا مظاہرہ ہوا ہے بلکہ اس کی بھی تصدیق ہوئی کہ اس طرح کا انضمام صرف کائنات کی حالیہ عمر میں ہی وقوع پزیر ہو سکتے ہیں۔

امواج ثقل کا اولین مشاہدہ
لیونگسٹن میں لیگو (دائیں) اور ہنفورڈ (بائیں) سراغ رساں سے کی گئی امواج ثقل کی پیمائش کا موازنہ نظری تخمینہ جاتی قدروں کے ساتھ
دیگر مراتبGW150914
واقعہ کی قسمgravitational wave event[*]
کھوج
تاریخ14 ستمبر 2015
دورانیہ0.2 سیکنڈ
آلہلیگو
مقام
Redshift0.09±0.03
توانیت
کل توانائی کی پیداوار3.0±0.5 solar masses
مزید دیکھیے
Commons page Related media on Wikimedia Commons

پوری دنیا میں اس اوّلین مشاہدے کی شاندار کامیابی کی خبر پھیلنے کی متعدد وجوہات ہیں۔ اس طرح کی امواج کو ثابت کرنے کے کوششیں پچھلے پچاس برس سے جاری تھیں اور امواج اس قدر ننھی تھیں کہ البرٹ آئن سٹائن کو بذات خود شک تھا کہ ان کا کبھی سراغ لگایا جا سکے گا۔  [6][7] امواج ثقل 150914 کے قیامت خیز انضمام سے نکلنے والی امواج زمین پر زمان و مکان میں لہروں کی صورت میں پہنچیں جس نے 4 کلومیٹر کے لیگو بازو کی لمبائی کو ایک پروٹون کی چوڑائی کے دس ہزارویں حصّے کے بقدر تبدیل کر دیا، یہ تناسب اتنا ہے جس سے قریبی ستارے کا فاصلہ ایک بال برابر تبدیل ہو سکتا ہے۔[8] اس واقعہ کے مختصر عروج پر پہنچنے کے دوران جو توانائی نکلی وہ بہت شاندار تھی، تین شمسی کمیت امواج ثقل میں تبدیل ہوئی اور لگ بھگ  3.6×1049  –واٹس کی بلند ترین شرح سے خارج ہوئی- یہ طاقت قابل مشاہدہ کائنات میں موجود تمام ستاروں کی کل خارج ہونے والی روشنی سے کہیں زیادہ ہے۔[1][2][9][10]

یہ مشاہدہ عمومی اضافیت کی آخری غیر ثابت شدہ پیش گوئی کی تصدیق کا نقیب بن کر آیا اور اس کی بڑے پیمانے کے کونیاتی واقعات کے پس منظر میں (جو مضبوط میدانی جانچ کے نام سے معروف ہیں) زمان و مکان کے بگاڑ سے متعلق پیش گوئی کو نہ صرف درست ثابت کر رہا ہے بلکہ ثقلی موج کی فلکیات کے نئے دریچے بھی وا کر رہا ہے، جس کی مدد سے متشدد فلکی طبیعیاتی واقعات کی کھوج کی جا سکے گی جو اب تک ناقابل مشاہدہ تھے اور اس کے ذریعہ یہ ممکن ہوگا کہ کائنات کی اوّلین تاریخ کا براہ راست مشاہدہ روشنی، ریڈیائی اور دوسری برقی مقناطیسی امواج کے اوپر انحصار کرنے سے پہلے کیا جا سکے۔[1][11][12][13][14]

امواج ثقل

ترمیم
ویڈیو نقل زمان و مکان کے خم اور امواج ثقل کو حتمی چکر کھاتے ہوئے انضمام کے دوران بنتا ہوا اورGW150914ثنائی بلیک ہول نظام سے آتے ہوئے اشارے کو دکھاتی ہے۔

امواج ثقل کی سب سے پہلے پیش گوئی 1916ء [15][16] میں البرٹ آئن سٹائن نے اپنے عمومی نظریہ اضافیت کی بنیاد پر کی تھی۔[17] یہ نظریہ ثقل کو زمان و مکان میں ہونے والے بگاڑ کے طور پر بیان کرتا ہے، لہذا آئن سٹائن نے یہ بھی پیش گوئی کی کہ کائنات میں رونما ہونے والے واقعات زمان و مکان میں 'لہریں ' - مکان میں بذات خود بگاڑ - پیدا کریں گے یہ لہریں باہر کی جانب اتنی ننھی مقدار میں پھیلیں گی کہ اس وقت موجود ٹیکنالوجی کی بدولت ان کا سراغ لگانا لگ بھگ ناممکن ہی ہوگا۔ یہ بھی قیاس کیا گیا کہ مدار میں چکر لگانے والے اجسام اس وجہ سے توانائی کو ضائع کریں گے (جو قانون بقائے توانائی کا نتیجہ ہوگا)، کیونکہ کچھ توانائی امواج ثقل کی صورت میں نکل جائے گی اگرچہ یہ سب سے زیادہ متشدد اور بڑے پیمانے کی صورت میں بھی اس قدر چھوٹی اور ننھی ہوگی کہ اس کا کوئی خاص اثر نہیں ہوگا۔

ایک صورت جہاں پر امواج ثقل کے موجود ہونے کا حساب لگایا گیا ہے وہ دو دبے ہوئے اجسام مثلاً نیوٹران ستارے یا بلیک ہولز کے انضمام سے پہلے کا لمحہ ہے۔ دسیوں لاکھوں برس کے دوران ثنائی نیوٹران ستارے اور ثنائی بلیک ہولز اپنی توانائی کو زیادہ تر امواج ثقل کی صورت میں اور ایک دوسرے کے قریب چکر لگاتے ہوئے کھو دیں گے۔ اس عمل کے ختم ہونے کے عین وقت پر دونوں جسم اپنی زیادہ سے زیادہ سمتی رفتار کو حاصل کر لیں گے اور ان کی کمیت کی خاصی مقدار انضمام کے آخری سیکنڈ کے کچھ حصّے میں امواج ثقل میں تبدیل ہو جائے گی۔ اس سے وہ امواج ثقل پیدا ہوں گی جو سائنسی طور پر سراغ لگانے کی پہنچ میں ہوں گی۔[1][2][11]

مشاہدات

ترمیم
GW150914 ثنائی بلیک ہول نظام کی کمپیوٹر سے کی جانے والی مصنوعی نقل جس میں قریبی شاہد اس کے چکر لگاتے ہوئے انضمام اور اشارہ دینے کے عمل کو آخری لمحات میں دیکھ رہا ہے۔ بلیک ہول کے پیچھے موجود ستارے کا میدان کافی زیادہ بگڑا ہوا ہے اور شدید ثقلی عدسے کی وجہ سے یہ گھومتا اور حرکت کرتا ہوا لگ رہا ہے کیونکہ مکان و زمان بذات خود گھومتے ہوئے بلیک ہول کے گرد بگڑ اور کھینچ رہا ہے۔[18]

مشاہدات کو یا تو بالواسطہ (موجوں کے اثر کا مشاہدہ کرکے اور ان کے قیاسی اثر سے استخراج کرکے) یا بلاواسطہ (موجوں کا خود سے سراغ اور ان کا مشاہدہ کرکے)کیا جا سکتا ہے۔

بالواسطہ مشاہدات

ترمیم

امواج ثقل کا پہلا بالواسطہ مشاہدہ 1974ء میں دہرے نیوٹران ستارے کے نظام PSR B1913+16 میں دیکھا گیا جس میں ایک ستارہ نابض تھا جو انتہائی صحت کے ساتھ ریڈیائی تعدد کے جھماکے خارج کر رہا تھا۔ رسل ہسل اور جوزف ٹیلر جنھوں نے ان ستاروں کو دریافت کیا تھا انھوں نے یہ بھی بتایا کہ وقت گزرنے کے ساتھ جھماکوں کی تعدد ارتعاش چھوٹی ہوئی ہیں اور یہ کہ ستارے بتدریج ایک دوسرے کی طرف چکر کھا کر توانائی کو کھو رہے ہیں اور یہ بات امواج ثقل کی توانائی کو خارج کرنے کی پیش گوئی سے بہت قریبی مطابقت رکھتی ہے۔ اپنے اس کام میں ہسل اور ٹیلر نے 1993ء میں طبیعیات کا نوبل انعام حاصل کیا۔ اس نابض اور کثیر نظاموں میں دوسروں کے مزید مشاہدات بھی عمومی اضافیت سے مطابقت رکھتے ہیں۔

براہ راست مشاہدات (لیگو)

ترمیم
 
لیگو ہنفورڈ رصدگاہ کا شمالی پایہ

براہ راست مشاہدہ اس انتہائی صغیر اثر کی وجہ سے کافی دہائیوں سے مسئلہ بنا ہوا تھا اس کا سراغ لگانے اور زمین پر ہر جگہ موجود پس منظر کی تھرتھراہٹ سے الگ کرنے کی ضرورت تھی۔ 1960ء کے عشرے میں ایک تیکنیک کے استعمال کی تجویز دی گئی جو تداخل پیمائی کہلاتی ہے اور بالآخر فنیات میں ہونے والی ترقی اس قدر آگے بڑھ گئی کہ اس کا استعمال کرنا ممکن ہو سکا۔

اس طریقہ کار میں ایک لیزر کی کرن کو توڑا جاتا ہے اور اس کے دونوں ٹکڑوں کو مختلف راستوں سے گزار کر واپس ملا دیا جاتا ہے۔ دونوں الگ ہوئی کرنوں کو دوبارہ ملنے کی جگہ پر پہنچنے میں فاصلے یا وقت میں کسی قسم کے فرق کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو اس کو 'دھڑکنا' کہتے ہیں اور یہ تیکنیک ننھے سے فاصلاتی فرق یا وقت کی پیمائش کو معلوم کرنے کے لیے انتہائی درجہ حساس ہوتی ہے۔ نظری طور پر ایک تداخل پیما 4 کلومیٹر طویل بازو کے ساتھ اس قابل ہوگا کہ مکان و زمان میں ہونے والی تبدیلی - ایک جوہر کے حجم کے کچھ حصّے کے برابر فرق - کو زمین پر کہیں سے آتی ہوئی ثقلی موج کو ظاہر کر سکے، اگرچہ یہ اثر کسی بھی شخص اور سیارے پر موجود کسی بھی آلے کے لیے غیر محسوس ہوگا (بجز دوسرے اسی حجم کے تداخل پیما کے جیسا کہ ورگو، جیو 600 اور منصوبہ بند انڈیگو سراغ رساں ہیں)۔ عملی طور پر کم از کم دو تداخل پیماؤں کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ کسی بھی ثقلی موج کا سراغ ان دونوں میں لگ سکتا ہے تاہم دوسرے کسی قسم کے شور موجود نہیں ہونے چاہئیں تاکہ تلاش کیے جانے والے اشارے کو دوسری چیزوں سے الگ کر دیا جائے۔ یہ منصوبہ بالآخر 1992ء میں "لیگو" ("Laser Interferometer Gravitational-Wave Observatory"- لیزر تداخل پیما ثقلی موج رصدگاہ) کے نام سے قائم ہو گیا۔ اصل آلات کو 2010ء اور 2015ء میں تبدیل کر دیا گیا جس سے ان کی اصل حساسیت تین گنا بڑھ گئی۔

لیگو دو ثقلی موج رصدگاہ میں ہم آہنگی کے ساتھ چلتا ہے : لیگو لیونگسٹون رصدگاہ (30°33′46.42″N 90°46′27.27″W) لیونگسٹون، لوزیانا میں واقع ہے اور لیگو ہنفورڈ رصدگاہ، ڈی او ای ہنفورڈ (46°27′18.52″N 119°24′27.56″W) نزد رچ لینڈ، واشنگٹن میں واقع ہے۔ یہ جگہیں ایک دوسرے سے 3,002 کلومیٹر (1,865 میل) دور ہیں۔ رصدگاہیں اپنے تداخل پیماؤں سے حاصل کرنے والے اشاروں کا موازنہ کرتی ہیں۔ لیگو کے 2002ء سے لے کر 2010ء کے کام کرنے کے دوران کوئی بھی ایسا اہم شماریاتی واقعات کا سراغ نہیں لگا جس کی تصدیق امواج ثقل کے طور پر کی جا سکتی۔ کچھ برسوں تک بند رہنے کے بعد جب اس کے سراغ رسانوں کو کافی بہتر 'جدید لیگو' کے نسخوں سے بدل دیا گیا تو اس نے دوبارہ کام کرنا شروع کیا۔ فروری، 2015ء میں دونوں جدید سراغ رساں انجینئری طبیعت میں لائے گئے جبکہ رسمی سائنسی مشاہدات کی شروعات 18 ستمبر،2015ء سے ہوئیں۔

لیگو کے مشاہدے کی ابتدا سے لے کر آخر تک نقلی ثقلی موجوں کے کافی سارے اشارے یعنی "اندھے دخول" ڈالے گئے تاکہ محققین اس طرح کے اشاروں کی شناخت کرنے کے قابل ہو سکیں۔ اندھے دخول کی تاثیر کی حفاظت کرنے کے لیے صرف چار لیگو کے سائنس دان جانتے تھے کہ اس طرح کے دخول واقع ہوں گے اور یہ اطلاع صرف اس وقت ظاہر کی جاتی تھی جب اشارے کو اچھی طرح سے محققین جانچ لیتے تھے۔ بہرحال اس طرح کی کوئی جانچ اس وقت نہیں کی گئی جب ستمبر، 2015ء میں GW150914 واقع ہوا۔

GW150914 نامی واقعہ

ترمیم

واقعہ کا سراغ

ترمیم

14 ستمبر، 2015ء میں لیگو کے دونوں سراغ رسانوں نے (جن میں سے ایک امریکی ریاست واشنگٹن میں ہنفورڈ شہر میں اور دوسرا امریکی ریاست لوویزیانامیں لیونگسٹن شہر میں واقع ہے) 9 بج کر 50 منٹ اور 45 سیکنڈ پر کششِ ثقل کی لہر کا اشارہ دریافت کیا – یہ اشارہ غالباً نصف کرہِ جنوبی کے آسمان سے میجیلنی بادلوں کی طرف سے آیا لیکن اس کا منبع ان بادلوں سے بہت زیادہ دور تھا – اس وقت اگرچہ یہ سراغ رساں پوری طرح کام کر رہے تھے لیکن انھوں نے باضابطہ طور پر ریسرچ کا کام شروع نہیں کیا تھا کیونکہ ابھی ان کی جانچ پڑتال کی جا رہی تھی اور ان کے کام کا باقاعدہ آغاز تین دن بعد یعنی 18 ستمبر کو ہونا قرار پایا تھا – چنانچہ اس اشارہ کی صحت کے بارے میں بہت سے سوالات اٹھائے گئے تھے کہ کیا یہ واقعی خلا سے موصول ہونے والا اشارہ ہے یا یہ ایک مصنوعی اشارہ تھا جسے سراغ رساں کی جانچ پڑتال کے لیے استعمال کیا گیا – اس بارے میں حتمی فیصلہ یہ تھا کہ یہ مصنوعی اشارہ نہیں تھا۔

یہ اشارہ تقریباً 0.2 سیکنڈ سے زیادہ دیر تک موجود رہا اور اس عرصے میں نہ صرف اس کے حیطہ (طبیعیات) میں اضافہ ہوا بلکہ اس اشارہ کا تعدد 35 ہرٹز سے 150 ہرٹز ہو گیا تھا (اس اشارہ کو پرندوں کے چہچہانے سے تشبیہ دی گئی ہے اور اس دریافت کے اعلان کے بعد دنیا بھر میں فلکی طبیعیات دان سماجی رابطے کی سائٹ پر اس اشارے کی نقل اتارتے رہے)

اس اشارے کے موصول ہونے کے تین منٹ کے اندر اندر ایک تیز رفتار الگورتھم استعمال کر کے اس اشارہ کی پہچان کر لی گئی – یہ الگورتھم سراغ رساں سے اکٹھا کی گئی معلومات کا فوراً تجزیہ کر کے مطلوبہ اشارہ موجود ہونے یا نہ ہونے کی خبر دے دیتا ہے – جس پائپ لائن سے اس اشارے کا سراغ لگایا گیا اسے لیگو/ ورگو کی ٹیم میں موجود ایک جماعت نے بنایا جسے coherent waveburst analysis group کا نام دیا گیا – اس خودکار دریافت کے فوراً بعد اس گروپ نے بہت سے برقی خطوط کا تبادلہ کیا جن کی رو سے یہ ثابت ہوا کے اس وقت کوئی مصنوعی اشارہ استعمال نہیں ہو رہا تھا اور سراغ رساں سے حاصل کردہ اطلاعات درست ہیں – اس کے بعد تمام ساتھی اداروں کو یہ خبر کر دی گئی کہ ایک اشارے کا سراغ لگایا جا چکا ہے۔

بعد میں اس اشارہ کا تفصیلی تجزیہ کیا گیا اور 12 ستمبر سے 20 اکتوبر 2015ء تک کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا گیا جس سے یہ ثابت ہوا کہ سائنس دان 99.99994% وثوق سے یہ بات کہہ سکتے ہیں کہ GW150914 ایک حقیقی آفاقی واقعہ تھا - ان لہروں کو لیونگسٹن کے سراغ رساں میں ہنفورڈ کے سراغ رساں کی نسبت .007 سیکنڈ پہلے دریافت کیا گیا جو ان دو شہروں کے درمیان روشنی کی رفتار سے سفر کرنے کا دورانیہ ہے – یہ لہریں ایک ارب سال سے خلا میں روشنی کی رفتار سے سفر کر رہی تھیں۔

اس واقعہ کے وقت اتفاق سے اٹلی میں پیسا کے مقام پر نصب ورگو امواج ثقل سراغ رساں مرمت اور تجدید کے لیے بند تھا – اگر یہ سراغ رساں کام کر رہا ہوتا تو یہ بھی یقیناً اس اشارے کا سراغ لگاتا جس کی وجہ سے اس اشارہ کے منبع کی شناخت آسان ہو جاتی - جرمنی کے شہر ہنوور میں نصب GEO600 نامی سراغ رساں اس وقت کام کر رہا تھا لیکن اس کی حساسیت اتنی نہیں تھی کہ اتنے خفیف اشارے کا سراغ لگا سکے چنانچہ ان دونوں میں سے کوئی سراغ رساں بھی لیگو کے دریافت شدہ اشارے کی تصدیق نہیں کر پایا۔

اشارے کا فلکی طبیعی منبع

ترمیم
 
ضم ہوتے ہوئے بلیک ہولزکی نقل جس میں وہ امواج ثقل کو چھوڑ رہے ہیں۔

اس اشارہ کی قوت یعنی حیطہ کے تجزیہ سے اندازہ لگایا گیا ہے کہ یہ واقعہ تقریباً 410 میگا پارسیکس یعنی تقریباً 1.3 ارب نوری سال فاصلے پر پیش آیا جس کی سرخ منتقلی تقریباً 0.09 ہے – اس ضمن میں سائنس دانوں کو 90فیصد یقین ہے – اس اشارہ کے تجزیہ اور سرخ منتقلی سے یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ دو ایسے بلیک ہولز کے ٹکرانے سے پیش آیا جن کی کمیت سورج سے بالترتیب 36 اور 29 گنا زیادہ تھی – ٹکرانے کے بعد نئے بلیک ہول کی کمیت سورج سے 62 گنا زیادہ تھی – اس ٹکراؤ کی وجہ سے سورج کی کمیت سے تین گنا زیادہ کمیت کا مادہ کششِ ثقل کی لہروں کی توانائی میں تبدیل ہو گیا۔

دونوں بلیک ہولز کے ضم ہونے کے آخری 20 ملی سیکنڈ کے دوران کششِ ثقل کی لہروں کی صورت میں خارج ہونے والی توانائی 3.6 X 10^49 واٹس تھی جو قابلِ مشاہدہ کائنات میں موجود تمام ستاروں کی مجموعی روشنی کی توانائی سے 50 گنا زیادہ تھی۔ بلیک ہولز کے ضم ہونے کے آخری 0.2 سیکنڈ کے اشارہ میں بلیک ہولز کی رفتار روشنی کی رفتار کے 30 فیصد سے بڑھ کر روشنی کی رفتار کے 60فیصد تک پہنچ گئی – ضم ہونے سے پہلے یہ ایک دوسرے کے گرد ایک سیکنڈ میں 75 دفعہ گردش کر رہے تھے (جیسا کہ کششِ ثقل کہ لہروں کے تعدد سے ظاہر ہے) جس کا مطلب یہ ہوا کہ ضم ہونے سے پہلے کی گردش کے دوران دونوں بلیک ہولز ایک دوسرے سے صرف 350 کلومیٹر کے فاصلے پر تھے – ان کے گردش کے تعدد اور انتہائی تیز رفتار کی وجہ سے ان بلیک ہولز کی کمیت اور ان کا آپس کا فاصلہ معلوم کرنا نسبتاً آسان ہے – دونوں اجسام یقیناً بلیک ہولز ہی ہیں کیونکہ اگر یہ بلیک ہول کے برعکس کوئی عمومی ستارے ہوتے تو اس کمیت کے ستاروں کا حجم بہت زیادہ ہونا چاہیے تھا اور انھیں بہت پہلے ہی ضم ہو جانا چاہیے تھا – صرف بلیک ہول ہی ایسے اجسام ہیں جن کی کمیت بہت زیادہ لیکن جسامت انتہائی کم ہوتی ہے اس لیے وہ ایک دوسرے کے اتنا نزدیک آنے کے باوجود ایک دوسرے کے گرد اتنی تیزی سے گردش کر پاتے ہیں اور اتنی زیادہ رفتار اپنا پاتے ہیں – یہ نیوٹران ستارے نہیں ہو سکتے تھے کیونکہ نیوٹران ستاروں کی زیادہ سے زیادہ کمیت سورج کی کمیت سے دگنا یا تین گنا زیادہ ہی ہو سکتی ہے اس سے زیادہ نہیں - دو نیوٹران ستاروں کے ضم ہونے کے دوران نہ تو اتنی رفتار ممکن ہے اور نہ ہی ضم ہونے کے بعد نئے جسم کی کمیت اتنی زیادہ ہو سکتی ہے جتنی اس اشارہ کے منبع کی ہے – اگر ایک نیوٹران ستارہ اور ایک بلیک ہول ضم ہوئے ہوں تو ان کی گردش کی رفتار بہت کم ہوگی۔

اس اشارے کی لہروں کے خاتمے کا انداز بھی وہی تھا جو طبیعیات کے نظریات کے مطابق ضم ہونے کے بعد بننے والے بلیک ہول سے پیدا شدہ لہروں کا ہونا چاہیے – اگرچہ اس گردش اور ضم ہونے کی حرکات کو نیوٹن کے قوانین کے تحت (یعنی نظریہ اضافت کی جگہ نیوٹن کے قوانین کو استعمال کرتے ہوئے) بھی معلوم کیا جا سکتا ہے لیکن انتہائی طاقتور کششِ ثقل کے میدانوں کے آپس میں ضم ہونے کے مرحلے کے حساب کو صرف بڑے پیمانے پر عددی اضافیت کی نقل کے ذریعے ہی لگایا جا سکتا ہے۔ ضم ہونے کے بعد بننے والے بلیک ہول کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ تیزی سے گھومتا ہوا 'کر'( Kerr )قسم کا بلیک ہول ہے جس کے گھومنے کی مقدار معلوم 0.67 ہے یعنی اس کمیت کے جسم کے زیادہ سے زیادہ ممکن زاویائی معیار حرکت کا دو تہائی –

آسمان میں اس واقعہ کا مقام

ترمیم

کششِ ثقل کی لہروں کا سراغ لگانے والے آلات تمام آسمان کا مشاہدہ کرتے ہیں لیکن یہ بتلانے سے قاصر ہیں کہ یہ اشارے کس مخصوص جگہ سے آ رہے ہیں – اس جگہ کا تعین کرنے کے لیے اس قسم کے بہت سے آلات کی ضرورت ہے تاکہ ان کے مجموعی اشارہ سے مُثَلثی تَقسیم کی تکنیک استعمال کر کے جگہ کی تخصیص کی جا سکے – چونکہ اس واقعہ کی پیمائش کے دوران صرف دو لیگو آلات پیمائش کرنے کے قابل تھے اس لیے GW150914 کے منبع کے مقام کی تخصیص ممکن نہیں – زیادہ سے زیادہ آسمان کے ایک بڑے حصے کی تخصیص کی جا سکتی ہے – دونوں آلات میں اشارہ کی آمد کے وقت کے فرق (جو 6.9 ملی سیکنڈ تھا) اور اشارہ کی قوت اور phase کے فرق کے تجزیے سے یہ نتیجہ نکالا گیا کہ یہ واقعہ کرہ آسمانی جنوبی کے 140 ڈگری (مربع) اور 590 ڈگری (مربع) کے علاقے میں پیش آیا۔

مزید مشاہدات

ترمیم

اس واقعہ کے مقام کا اندازہ لگانے کے بعد اس علاقے کا مزید تجزیہ کرنے کے لیے ریڈیو، بصری، زیریں سرخ، ایکس رے اور گاما ریز کے تعدد ارتعاش کا مشاہدہ کیا گیا اور ساتھ ہی ساتھ اس علاقے سے آنے والے نیوٹرینوز کا مشاہدہ بھی کیا گیا – نیوٹرینوز کی تلاش کے لیے انٹاریز نامی دوربین اور آئس کیوب نیوٹرینو رصدگاہ کو استعمال کیا گیا – انٹاریز دوربین نے اس واقعہ کے 500 سیکنڈ پہلے یا 500 سیکنڈ بعد تک کوئی نیوٹرینو نہیں پایا جبکہ آئس کیوب رصدگاہ میں اس دوران تین نیوٹرینو دریافت کیے جن میں سے ایک جنوبی آسمان سے اور دو شمالی آسمان سے آئے تھے – اتنے کم نیوٹرینوں کی دریافت کوئی غیر معمولی بات نہیں – ان میں سے کوئی بھی نیوٹرینو 90 فیصد اعتماد کے ساتھ اس واقعہ کے ساتھ منسلک نہیں کیا جا سکتا – اگرچہ اس واقعہ سے منسلک کوئی نیوٹرینو دریافت نہیں ہوا لیکن اس سے آئندہ ہونے والے واقعات کے لیے نیوٹرینو کی تعداد کے بارے میں ایک اندازہ قائم کرنے میں ضرور مدد مل گئی۔ اس واقعہ کے دو دن بعد سوئفٹ گاما رے برسٹ مشن (Swift Gamma-Ray Burst Mission) کے مشاہدات کے مطابق آس پاس کی کہکشاؤں میں کوئی نیا ایکس رے، بصری یا بالائی بنفشی اشعاع کا منبع دریافت نہیں ہوا۔

اعلان

ترمیم
 
GW150914 کے اعلان کی دستاویز

اس سراغ کا اعلان 11 فروری، 2016ء کو واشنگٹن ڈی سی میں ہونے والی نیوز کانفرنس میں لیگو کے عاملہ ناظم ڈیوڈ ریٹزی نے لیگو کے گبریلا گونزالیز، رینر ویس اور کپ تھورن اور این ایس ایف کے منتظم فرانس اے کورڈووا پر مشتمل وفد کے ساتھ کیا۔

ابتدائی اعلان ایک مقالہ کی صورت میں نیوز کانفرنس کے دوران فزیکل ریویو لیٹرز میں شایع ہوا اس کے ساتھ ہی مزید کچھ مقالاجات یا تو اس کے تھوڑی دیر بعد شایع ہوئے یا فوری طور پر پہلے سے تیار شکل میں دستیاب تھے۔

مضمرات

ترمیم

برائے فلکی طبیعیات اور علم کائنات

ترمیم

مستقبل میں ثنائی انضمامی واقعات کے سراغ لگانے کی امیدیں

ترمیم

جدید لیگو کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ اپنی اگلی مشاہداتی مہم کے دوران وہ GW150914 کی طرح کے مزید پانچ بلیک ہول کے انضمام کا سراغ لگائے گی، اس طرح سے وہ ہر سال 40 ثنائی انضمام کا سراغ لگا سکے گی، یہ ان نامعلوم مزید اجنبی امواج ثقل کے ماخذ کے علاوہ ہوگا جس میں سے کچھ کے بارے میں تو سر دست موجود نظریے کے ذریعہ پیش گوئی بھی نہیں کی جا سکتی۔

منصوبہ بند بہتری سے امید کی جا رہی ہے کہ اشاروں اور شور کی نسبت کی شرح دگنی ہو جائے گی اس طرح سے خلاء کی وسعت میں اضافہ ہوگا جس میں GW150914 جیسے واقعات کا سراغ دس گنا زیادہ بہتر طور پر لگایا جا سکے گا۔ مزید براں جدید ورگو، کے اے جی آر اے اور ہندوستان میں ممکنہ تیسرا لیگو سراغ رساں اس جال میں اضافہ کرے گا اور کافی حد تک مقام کی تعمیر نو اور ماخذات کے عدد صحیح کے تخمینہ جات کو بہتر کرے گا۔

ترقی یافتہ لیزر تداخل پیما خلائی اینٹینا (ای لیزا - Evolved Laser Interferometer Space Antenna) امواج ثقل کا سراغ لگانے کے لیے خلائی رصدگاہ مہم بنانے کی مجوزہ تجویز ہے۔ ای لیزا کی تجویز کردہ حساسیت کی حد کے ساتھ GW150914 کی طرح کے ثنائی انضمام کا سراغ ان کے ضم ہونے سے 1,000 برس پہلے تک لگایا جا سکتا ہے جس سے اس رصدگاہ کو اس جماعت کے ماخذات مل جائیں گے جو پہلے نامعلوم تھے بشرطیکہ وہ 10 میگا پارسیک کے اندر موجود ہوں۔ لیزا خضر راہ، ای لیزا کی تکنیکی پیش رفت مہم کا آغاز دسمبر 2015ء میں کیا گیا تھا۔

نجمی ارتقا اور فلکی طبیعیات کی استعداد

ترمیم

انضمام سے پہلے دونوں بلیک ہول کی کمیت نجمی ارتقا کے بارے میں معلومات فراہم کرے گی۔ دونوں بلیک ہول پچھلے دریافت کردہ نجمی کمیت کے بلیک ہول سے کافی زیادہ ضخیم ہیں اس بارے میں استخراج ایکس رے سے کیے جانے والے ثنائی مشاہدات سے کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اپنے جدی ستاروں سے نکلنے والی نجمی ہوائیں لازمی طور پر کمزور ہوں گی اور لہذا دھاتی پن (ہائیڈروجن اور ہیلیئم سے بھاری کیمیائی عناصر کی کمیت کا حصّہ) لازمی طور پر شمسی قدر سے لگ بھگ نصف ہوگا۔

یہ حقیقت کہ انضمام سے پہلے کے بلیک ہول ثنائی نظام میں موجود ہوتے ہیں اور نظام اس قدر دبا ہوا ہوتا ہے کہ کائنات کی عمر کے دوران ہی انضمام واقع ہو سکتا ہے، ثنائی نظام کا ارتقا یا سرگرم تخلیقی منظرنامے میں رکاوٹ ڈالتی ہے جس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ آیا کس طرح سے ثنائی بلیک ہول بنے ہیں۔ بلیک ہول کی اچھی خاصی تعداد لازمی طور پر مولودی جھٹکے (دیوہیکل بلیک ہول کی سپرنووا کے دوران قلب منہدم ہو کر بنتے وقت سمتی رفتار) لیتی ہے، ورنہ ثنائی جس میں بلیک ہول بنانے والے سپرنووا وقوع پزیر ہو رہے ہیں منتشر ہو سکتے ہیں اور آفاقی جھرمٹ میں موجود بلیک ہولز کی جھرمٹ سے فرار کی سمتی رفتار بڑھ جائے گی اور وہ متحرک تعاملات کے ذریعہ ثنائی بنانے سے پہلے ہی نکال دیے جائیں گے۔ ضخیم مورث ستاروں میں عمومی ملفوف بلند گھماؤ کے مراحل سے گذر کر باقی رہنا لازمی ہے۔ تازہ ترین بلیک ہول نمونوں کی اکثریت ان اضافی رکاوٹوں کو پورا کرتی ہیں۔

انضمامی واقعے کی دریافت بذات خود سے اس طرح کے واقعات کی نچلی حد کی شرح کو بڑھاتی ہے اور کچھ نظریاتی نمونوں کو رد کرتی ہے جو 1 Gpc−3yr−1 (فی برس ایک مکعب گیگا پارسیک میں ایک واقعہ) سے بھی بہت ہی کم شرح کی پیش گوئی کرتے ہیں۔ تجزیے سے GW150914 کی طرح کے واقعات میں پچھلی اوپری حد کی شرح میں ~140 Gpc−3yr−1 سے لے کر ~140 Gpc−3yr−1 کی کمی ہوئی ہے۔

مستقبل کے کائناتی مشاہدات پر اثرات

ترمیم

یہ مشاہدہ ثقلی موجی فلکیات کے ایک نئے دور کی ابتدا کو شروع کرنے والا پیام بر ہے۔ اس سراغ لگانے سے پہلے فلکی طبیعیات دان اور ماہرین تکوینیات برقی مقناطیسی اشعاع (بشمول بصری روشنی، ایکس ریز، خرد امواج، ریڈیائی امواج) اور زرّات جیسی ہستیوں (کائناتی اشعاع، نجمی ہواؤں، نیوٹرینو وغیرہ)پر انحصار کرکے مشاہدات کرنے کے قابل تھے۔ ان کی ایک حد تھی - روشنی اور دوسری اشعاع کئی قسم کے اجسام یا ہستیوں سے خارج نہیں ہو سکتی اور دوسری چیزوں کے پیچھے مخفی یا چھپ سکتی ہیں۔ کہکشاؤں اور سحابیوں جیسے اجسام ان کو اپنی پیدا کی ہوئی روشنی یا پیچھے کی طرف سے آنے والی روشنی کے ساتھ جذب، دوبارہ خارج یا تبدیل بھی کر سکتے ہیں اور ٹھوس ستاروں یا اجنبی ستاروں میں ایسا مادّہ شامل ہو سکتا ہے جو تاریک یا ریڈیائی طور پر خاموش ہو، نتیجتاً ہمارے پاس ثقلی تعاملات کے علاوہ ان کی موجودگی کے کم ثبوت ہوتے ہیں۔

اس "تاریک کائنات" کا پیمانہ کافی عظیم ہے - مثال کے طور پر آج بھی سمجھا جاتا ہے کہ کائنات میں موجود کل مادّے کا لگ بھگ پانچ بٹا چھ (83 فیصد) "تاریک مادّہ" ہے اور اس مادّے کا ٹھیک سے مشاہدہ نہیں کیا جا سکتا یا فی الوقت اس کی ماہیت کی شناخت نہیں ہو سکتی، کیونکہ یہ برقی مقناطیسی اشعاع سے تعامل نہیں کرتا نہ ہی کوئی دوسرے معلوم زرّات بناتا ہے۔ ماہرین تکوینیات ان کے وجود کو صرف ایک ہی طرح سے جان سکتے ہیں اور وہ ہے ثقلی تعاملات - آسان زبان میں زیادہ تر کہکشاؤں میں بہت کم بصری مادّہ موجود ہے جو ان کو آپس میں باندھ کر رکھ سکے، لہٰذا وہاں پر لازمی طور پر بڑی مقدار میں "تاریک" مادّہ ہونا چاہیے جس کا ہم سراغ لگانے سے قاصر ہیں۔

جیسا کہ موجودہ کائنات ہے اس کے برعکس پوری کائنات اپنے ابتدائی دور میں غیر شفاف تھی کیونکہ ایک ایسا دور بھی تھا جب کائنات اس قدر توانا تھی کہ وہ اب جیسی "شفاف" نہیں ہو سکتی تھی۔

امواج ثقل کا سراغ لگانے کی قابلیت بذات خود سے مشاہدے میں ایک نئی جہت کا اضافہ کرے گی۔ روشنی کے برعکس ثقل نہ صرف نسبتاً مخفی چیزوں سے گذر سکتی ہے بلکہ طویل وقت اور فاصلوں کا سفر بھی کر سکتی ہے اور وہ مادّہ جو روشنی نہیں خارج کرتا وہ بھی امواج ثقل پیدا کر سکتا ہے۔ ابتدائی کائنات کی غیر شفافیت اس وقت سے امواج ثقل پر اثر انداز ہوتی نظر نہیں آتی (اگر وہ سراغ لگانے کے قابل ہیں) جس سے مشاہدین کے لیے اس ابتدائی وقت سے پہلے کی کائنات کا مشاہدہ کرنے کا دریچہ کھلتا ہے جو ہم فی الوقت دیکھ سکتے ہیں۔ وہ کائناتی واقعات جو کسی قسم کی روشنی یا دوسری مقناطیسی اشعاع پیدا نہیں کر سکتے یا جہاں پر روشنی میں بہت زیادہ بگاڑ ہو - جس کی ایک مثال ضم ہوتے ہوئے بلیک ہول ہیں، ان میں بھی امواج ثقل پیدا ہو سکتی ہیں۔ لہٰذا ثقلی فلکیات کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ یہ نہ صرف ان متشدد فلکی طبیعیاتی واقعات کی کھوج کرنے کی اجازت دیں گی جو ابھی تک ناقابل مشاہدہ ہیں بلکہ تاریک کائنات کا براہ راست اور روشنی، ریڈیائی اور دوسرے برقی مقناطیسی اشعاع سے مشاہدہ کرنے سے پہلے کی کائنات کی اولین تاریخ کا مشاہدہ ممکن ہو سکے گا۔

برائے بنیادی طبیعیات

ترمیم

عمومی اضافیت کی جانچ

ترمیم

مابعد بلیک ہول کے انضمام کی قیاسی بنیادی خصوصیات، کمیت اور گھماؤ ان دونوں بلیک ہول کے قبل از وقت انضمام سے عمومی اضافیت کی پیش گوئی سے مطابقت رکھتی ہیں۔ عمومی اضافیت کا بہت ہی مضبوط میدان میں یہ پہلا امتحان ہے۔ عمومی اضافیت کی پیش گوئی کے خلاف کوئی بھی ثبوت نہیں مل سکا۔

اس اشارے میں مزید عمومی اضافی تعاملات جیسا کہ ثقلی موج اور خم دار زمان و مکان پس منظر کے درمیان تعاملات میں پیدا ہونے والا دنبالہ کی جانچ کرنے کا موقع محدود تھا۔ اگرچہ یہ اعتدالی طور پر کافی مضبوط اشارہ تھا تاہم یہ اس سے کہیں زیادہ چھوٹا تھا جو ثنائی نابض نظام پیدا کرتے ہیں۔ یہ امید کی جاتی ہے کہ مستقبل میں مزید حساس سراغ رسانوں کی مدد سے نہ صرف مضبوط اشاروں کو امواج ثقل کے نازک تعاملات کی تلاش کے لیے استعمال کیا جا سکے گا بلکہ عمومی اضافیت سے روگردانی کرنے والی رکاوٹوں پر بھی قابو پا لیا جائے گا۔

قوت ثقل اور اس کے کائنات کے دوسرے بنیادی اجزاء سے تعلق کی بہتر تفہیم

ترمیم

فی الوقت قوت ثقل کو عمومی اضافیت جیسے نظریوں سے سمجھا جاتا ہے یہ طبیعی کائنات کے دوسرے گوشوں سے الگ ہے جس کو عام طور پر معیاری نمونے (جس کی بنیاد کوانٹم میدان پر ہے) کے استعمال سے سمجھا جاتا ہے۔ امواج ثقل کے مشاہدات ہو سکتا ہے کہ اس قابل ہوں کہ بتا سکیں کہ آیا کس طرح سے کائنات سے متعلق ہماری تفہیم میں یہ بنیادی خلاء پر ہو سکتا ہے۔

گریویٹون کی ممکنہ کمیت پر سخت حد

ترمیم

گریویٹون ایک قیاسی بنیادی ذرّہ ہے جس کا تعلق ثقل سے ہے اور یہ بغیر کمیت کا ہوگا کیونکہ لگتا ہے کہ گریویٹون کی لامتناہی حد ہوگی (جتنا زیادہ ضخیم مقیاسی بوسون ہوتا ہے اس سے نسبت رکھنے والی قوّت کی حد اتنی ہی کم ہوتی ہے، لہٰذا روشنی کی لامتناہی حد کی وجہ فوٹون کا بغیر کمیت کے ہونا ہے، فرض کریں کہ حقیقت میں مستقبل کی قوت ثقل کے کوانٹم کے نظریے کا گریویٹون مقیاسی بوسون ہے تو ثقل کی لامتناہی حد کا مطلب یہ ہوگا کہ ایک قیاسی گریویٹون کے بارے میں بھی یہی امید کی جا سکتی ہے کہ وہ بغیر کمیت کا ہی ہوگا)۔ اندرونی چکر کے مشاہدے نے گریویٹون کی کمیت کی اوپری حد کو ہلکا سا بہتر (نیچے کی طرف) 2.16x10−58 کلوگرام کیا ہے۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب پ ت ٹ Benjamin P. Abbott، وغیرہ (LIGO Scientific Collaboration and Virgo Collaboration) (2016)۔ "Observation of Gravitational Waves from a Binary Black Hole Merger"۔ Phys. Rev. Lett.۔ 116 (6): 061102۔ ISSN 0031-9007۔ arXiv:1602.03837 ۔ doi:10.1103/PhysRevLett.116.061102۔ ایک خلاصہ لکھیں (PDF) 
  2. ^ ا ب پ Davide Castelvecchi، Alexandra Witze (11 February 2016)۔ "Einstein's gravitational waves found at last"۔ Nature News۔ doi:10.1038/nature.2016.19361۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 فروری 2016 
  3. The Editorial Board (16 February 2016)۔ "The Chirp Heard Across the Universe"۔ نیو یارک ٹائمز۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 فروری 2016 
  4. "Einstein's gravitational waves 'seen' from black holes".
  5. Robert Naeye (11 February 2016)۔ "Gravitational Wave Detection Heralds New Era of Science"۔ Sky and Telescope۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 فروری 2016 
  6. Abraham Pais (1982)، "The New Dynamics, section 15d: Gravitational Waves"، Subtle is the Lord: The science and the life of Albert Einstein، Oxford University Press، صفحہ: 278-281، ISBN 978-0-19-853907-0 
  7. "The long road towards evidence"۔ Alexander Blum, Roberto Lalli and Jürgen Renn۔ Max Planck Society۔ 2016-02-12۔ اخذ شدہ بتاریخ 15 فروری 2016 
  8. LIGO press conference 11 February 2016
  9. W. Harwood (11 February 2016)۔ "Einstein was right: Scientists detect gravitational waves in breakthrough"۔ CBS News۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 فروری 2016 
  10. Nadia Drake (11 February 2016)۔ "Found! Gravitational Waves, or a Wrinkle in Spacetime"۔ نیشنل جیوگرافک سوسائٹی۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 فروری 2016 
  11. ^ ا ب Benjamin P. Abbott، وغیرہ (LIGO Scientific Collaboration and Virgo Collaboration) (11 February 2016)۔ "Tests of general relativity with GW150914"۔ لیگو۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 12 فروری 2016 
  12. Benjamin P. Abbott، وغیرہ (LIGO Scientific Collaboration and Virgo Collaboration) (20 February 2016)۔ "Astrophysical implications of the binary black-hole merger GW150914"۔ The Astrophysical Journal۔ The Astrophysical Journal۔ 818 (2): L22۔ doi:10.3847/2041-8205/818/2/L22۔ اخذ شدہ بتاریخ 11 فروری 2016 
  13. CNN quoting Prof. Martin Hendry (University of Glasgow, LIGO)) - "Detecting gravitational waves will help us to probe the most extreme corners of the cosmos -- the event horizon of a black hole, the innermost heart of a supernova, the internal structure of a neutron star: regions that are completely inaccessible to electromagnetic telescopes."
  14. [1] - "With gravitational waves, we do expect eventually to see the Big Bang itself"
  15. Einstein, A (June 1916)۔ "Näherungsweise Integration der Feldgleichungen der Gravitation"۔ سائنس کی پروشیائی اکیڈمی۔ part 1: 688–696۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 فروری 2016 
  16. Einstein, A (1918)۔ "Über Gravitationswellen"۔ Sitzungsberichte der Königlich Preussischen Akademie der Wissenschaften Berlin۔ part 1: 154–167۔ 24 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 16 فروری 2016 
  17. Albert Einstein (1916)، "Die Grundlage der allgemeinen Relativitätstheorie"، Annalen der Physik، 49: 769–822، Bibcode:1916AnP...354..769E، doi:10.1002/andp.19163540702، 29 اگست 2006 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ، اخذ شدہ بتاریخ 14 فروری 2016 
  18. SXS (Simulating eXtreme Spacetimes) project