البرٹ آئنسٹائن
البرٹ آئنسٹائن (Albert Einstein)، بیسویں صدی کا سب سے بڑا طبیعیات دان سمجھا جاتا ہے۔ [45] جرمنی کے شہر اولم میں 14 مارچ 1879ء کو پیدا ہوا۔ باپ کا نام ہرمین (Hermann Einstein) اور ماں کا نام پالین (Pauline Koch) تھا۔
ابتدائی زندگی
ترمیمآئنسٹائن کا خاندان جرمنی کے خوش حال یہودی النسل خاندانوں میں شمار ہوتا تھا۔ باپ کاروباری تھا مگر زیادہ کامیاب نہیں تھا۔ جب آئنسٹائن چھ برس کا تھا، یہ لوگ میونخ آ گئے۔ ابتدائی تعلیم ایک کاتھولک مدرسہ میں پائی۔ یہاں کا سخت ماحول اس بچے کو ناگوار گزرتا تھا۔ سن 1894ء میں آئنسٹائن کو بورڈنگ مدرسہ میں پیچھے چھوڑ کر، اس کا باپ کاروباری وجوہات کی بنا پر خاندان سمیت اٹلی منتقل ہو گیا۔ دسمبر 1894ء میں سولہ سال کی عمر میں تعلیم ادھوری چھوڑ کر آئنسٹائن (غالباً جرمن کی لازمی فوجی سروس کے خوف سے ) خود بھی اٹلی پہنچ گیا۔ وہاں پہنچ کر سن 1896ء میں اس نے جرمن شہریت چھوڑ دی۔ اکتوبر 1895ء میں سویٹزرلینڈ کے شہر زیورخ میں واقعہ یونیوسٹی ETH کے داخلہ کا امتحان دیا مگر ناکام رہا۔ استاد نے مشورہ دیا کہ وہ اسکول کی تعلیم مکمل کرے، چنانچہ سویٹزرلینڈ کے شہر آراو Aarau کے ایک اسکول میں پڑھائی کی۔ یہاں جس گھر میں قیام تھا، اس کے مالک کی بیٹی میری Marie سے شناسائی ہوئی۔ اگلے سال ETH کا داخلہ امتحان پاس کر لیا۔ اب اس نے ETH میں پڑھائی شروع کردی۔ وہ اسکول استاد بننے کی پڑھائی کرنے لگا۔ اگست 1900ء میں امتحان ہوا، پانچ طالب علموں کے امتحان میں آئنسٹائن چوتھے نمبر پر آیا۔ پہلے تین کو ETH نے نوکری دے دی، مگر اسے اور پانچویں نمبر پر آنے والی ملیوا مارِک (Mileva Maric) کو نہیں۔ ملیوا کے ساتھ اس کا میل جول تھا اور وہ بعد میں آئنسٹائن کی پہلی بیوی بنی۔ ملیوا مسیحی تھی اور اس کا تعلق سربیا سے تھا۔ ملیوا اور آئنسٹائن کے درمیان میں 1897ء سے 1903ء تک کے خطوط کے تبادلہ سے تاریخ دانوں کو اس بارے معلومات ملی ہیں۔ ان خطوط میں ذاتی معاملات کے علاوہ فزکس کے مسائل پر بھی گفتگو ملتی ہے۔ فکرِ معاش کی وجہ سے آئنسٹائن شادی نہیں کر پا رہا تھا، مگر ملیوا حاملہ ہو گئی۔ سن 1902ء میں ایک لڑکی کو جنم دیا، مگر پالا نہیں۔ 1902ء میں ہی آئنسٹائن کے والد کا انتقال ہو گیا۔ آئنسٹائن عارضی استاد کے طور پر مختلف جگہ کام کرتا رہا، حتٰی کہ جون 1902ء میں سوئٹزرلینڈ کے شہر برن کے پیٹینٹ دفتر میں نوکری مل گئی۔ سن 1901ء میں آئنسٹائن سویٹزرلینڈ کا شہری بن گیا۔ جنوری 1903ء میں ملیوا سے شادی ہو گئی۔ پیٹنٹ دفتر میں کام کے دوران میں آئنسٹائن فزکس کے مسائل پر بھی تحقیق کرتا رہا اور اسی دوران میں اس نے اپنی زندگی کے عظیم ترین مقالات شائع کیے۔ کچھ محققین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ آئنسٹائن کی تحقیق میں ملیوا مارِک بھی شریک تھی۔ یہ شبہات آئنسٹائن اور ملیوا کے خطوط سے پیدا ہوئے جن میں آئنسٹائن "ہمارے نظریے " کا ذکر کرتا ہے۔ اس کے علاوہ روسی سائنس دان ابراہیم یوفے Abraham Joffe نے مبینہ طور پر یہ بتایا کہ جب آئنسٹائن نے اپنے مقالے جریدہ Annalen der Physik کو بھیجے تو ان پر پیٹنٹ دفتر میں کام کرنے والے Einstien-Maric نامی کسی شخص کے دستخط تھے۔[46]
1905ء، کارناموں کا سال
ترمیماس سال آئنسٹائن نے چار مشہور مقالے شائع کیے :
- پہلا مقالہ جو مارچ، 1905ء میں شائع ہوا وہ ضیاء برقی اثر اور روشنی کی ہیئت کے بارے تھا۔ اس وقت تجرباتی ثبوتوں کی بنیاد پر روشنی کو موج سمجھا جاتا تھا، مگر اس سے ضیاء برقی اثر کی تشریح کرنا ممکن نہ تھا۔ آئنسٹائن نے اس نظریے کو تقویت دی کہ روشنی کو توانائی کے چھوٹے چھوٹے کوانٹم نوریہ زرات (photons) پر مشتمل بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ کوانٹم نوریہ کا نظریہ سب سے پہلے میکس پلینک نے پیش کیا تھا۔
- دوسرا مقالہ جو مئی، 1905ء میں شائع ہوا وہ براؤنین حرکت (Brownian motion) کے ریاضی ماڈل پر مشتمل تھا۔ جس میں احصاء کا استعمال کرتے ہوئے سالمہ کی مائع میں حرکت کی تشریح کی گئی تھی۔ اس سے اس نظریہ کو عام کرنے میں مدد ملی کہ جوہر اور سالمہ کا وجود حقیقی ہوتا ہے۔
- تیسرامقالہ جو جون، 1905ء میں شائع ہوا، اضافیت کے خصوصی نظریے (special theory of relativity) پر تھا۔ اس سے وقت اور فضاء (زمان و مکاں) کو علاحدہ علاحدہ تصور کرنے کی بجائے "وقت۔فضاء" یا "زمان و مکاں" (space-time) کا نظریہ سامنے آیا۔ پتہ چلا کہ اگر کوئی چیز زیادہ (مگر یکساں) سمتار velocity سے حرکت کر رہی ہو، تو جس مشاہد کے حوالے سے حرکت ہو رہی ہوگی، اس مشاہد کو اس چیز کی کمیت زیادہ، لمبائی کم اور وقت آہستہ گزرتا، نظر آئے گا۔ البتہ روشنی کی رفتار ہر کسی کو ایک ہی (تقریباً ) نظر آئے گی۔ اور یہ بھی کہ کسی مادی چیز کو تیز رفتار کرتے ہوئے روشنی کی رفتار تک نہیں پہنچایا جا سکتا۔ اور یکساں سمتار uniform velocity سے سفر کرنے والے جمودی حوالہ جاتی قالب (inertial frame of reference) میں کوئی ایسا تجربہ ممکن نہیں جس سے جمودی حوالہ جاتی قالب میں موجود مشاہد یہ معلوم کر سکے کہ وہ یکساں سمتار سے سفر کر رہا ہے یا "ساکن" ہے۔ واضح رہے کہ اضافیت کا نظریہ اس سے پہلے ہنڈرک لورنٹز اور ہینری پوائنکیرے پیش کرچکے تھے۔ آئنسٹائن نے یہ اضافہ کیا کہ ایسا تجربہ ناممکن ہونے کا اطلاق میکسویل کی برقناطیسی موجوں پر بھی ہوتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں طیبیعات کے قوانین تمام غیر اسراعی (non-accelerated) جمودی حوالہ جاتی قالب میں یکساں لاگو ہوتے ہیں۔
- چوتھا مقالہ جو ستمبر، 1905ء میں شائع ہوا۔ اور یہ طبیعیات کی مشہور ترین مساوات پر مشتمل تھا، جس میں مادہ اور توانائی کی آپس میں تبدیل ممکن ہونے کا بتایا گیا تھا۔ حال میں ایک محقق نے رائے دی ہے کہ یہ مساوات ایک اطالوی سائندان نے آئنسٹائن سے کچھ سال پہلے شائع کی تھی، اگرچہ نظریہ اضافیت کے سیاق و سباق میں نہیں۔[47]
پروفیسری اور واپس جرمنی میں
ترمیم1906ء میں زیورخ یونیوسٹی نے پی ایچ ڈی کی سند عطا کی، جس کے لیے آئنسٹائن نے تحقیقی مقالہ 1905ء میں جمع کرایا تھا۔ مقالات کی وجہ سے آئنسٹائن کی شہرت جو پھیلی، تو زیورخ یونیوسٹی نے نظریاتی طیبعیات میں اکتوبر 1909ء میں ایسوسی ایٹ پروفیسر بنا دیا۔ 1910ء میں پراگ یونیوسٹی سے پوری پروفیسر کی پیشکش ہوئی، تو 1911ء میں پراگ چلا گیا۔ یہاں جرمن اور چیک افراد میں لسانی و قومیاتی چپقلش کی وجہ سے کشیدگی تھی، اس لیے ایک سال ہی یہاں گزارنے کے بعد 1912ء میں زیورخ یونیوسٹی میں مکمل پروفیسر کی حیثیت سے واپس آ گیا۔ 1911ء میں برسلز میں اس کی میکس پلانک اور لورینز جیسے بڑے بڑے سائنسدانوں سے ملاقات ہوئی۔ سن 1911ء میں اس نے عمومی اضافیت پر اپنا مقالہ شائع کیا۔ شہرت اور بڑھی، تو برلن یونیوسٹی، جو اس وقت علم کا گڑھ تھا، سے پروفیسر اور نئے انسٹیٹوٹ کے ڈائریکٹر اور اچھی تنخواہ کی پیشکش ہوئی، جو قبول کر کے آئنسٹائن سن 1914ء میں جرمنی چلا آیا اور جرمن شہریت دوبارہ حاصل کر لی۔ یہاں آنے کے چار ماہ بعد ہی پہلی جنگ عظیم چھڑ گئی۔ چار سالہ جنگ کے دوران میں آئنسٹائن زیادہ تر جرمنی میں ہی مقیم رہا۔ سن 1918ء میں جنگ جرمنی کی شکست پر ختم ہوئی۔ جرمنی پر سخت شرائط تھیں اور اسے فاتح ممالک کو بھاری رقم جرمانے کے طور پر دینا پڑ رہی تھی۔ اس سے جرمنی کی معیشت تباہ ہونا شروع ہوئی تو جرمن سیاست میں دائیں بازو کی قوم پرست جماعتوں نے زور پکڑ لیا۔ فرانس جرمنی کے کچھ علاقہ پر غاصبانہ قابض تھا، اس کے باوجود آئنسٹائن فرانس کی تنظیموں کے ساتھ تعلقات قائم کر رہا تھا۔ دائیں بازو کی جماعتیں یہودیوں کو بھی جرمنی کی تباہ شدہ معیشت کا ذمہ دار سمجھتی تھیں۔ اس کے باوجود آئنسٹائن جرمنی میں مقبول تھا (سوائے کچھ دائیں بازو کے انتہا پسندوں کے )۔ آئنسٹائن نے عمومی اضافیت کے نظریہ سے مشہوری پانے کے بعد دنیا بھر کے دورے کیے جس میں جاپان، جنوبی امریکا، امریکا اور فلسطین شامل تھے۔ وہ کئی بار امریکا گیا۔ ان دوروں میں سائنسی لیکچر کے علاوہ آئنسٹائن صیہونیت کا بھی پرچار کرتا۔ سن 1922ء میں آئنسٹائن کو نوبل انعام دیا گیا۔ سن 1929ء میں جرمنی کے ایک شہر نے ایک جھیل پر آئنسٹائن کو جھونپڑی تحفے میں دی (بعد میں آئنسٹائن کو اس کی کچھ قیمت بھی دینا پڑی)۔ آئنسٹائن کشتی رانی کا شوقین تھا۔ سن 1933ء میں آئنسٹائن امریکا کے دورے پر تھا کہ جرمنی میں ہٹلر نے اقتدار سنبھال لیا۔ آئنسٹائن یورپ واپس پلٹ رہا تھا، تو بحری جہاز میں خبر ملی کہ جرمن پولیس نے اس کی جھونپڑی پر چھاپہ مار کر ملک دشمن مواد تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ آئنسٹائن نے جرمنی کی بجائے بیلجیم پہنچ کر ڈیرے ڈالے۔ یہاں اس نے جرمنی کے خلاف جنگی تیاریوں کی حمایت کی۔[48] سنہ 1933ء میں ہی آئنسٹائن امریکا منتقل ہو گیا۔
اولاد
ترمیمپہلی بیٹی شادی سے پہلے سن 1902ء میں سربیا میں بیوی ملیوا کے آبائی گھر پیدا ہوئی، مگر اسے ماں باپ نے پالا نہیں۔ اس کا انجام معلوم نہیں۔ سن 1903ء میں پہلا بیٹا ہینز (Hans)، شادی کے چھ ماہ بعد پیدا ہوا، جس نے سویٹزرلینڈ سے پی۔ ایچ۔ ڈی۔ کی تعلیم مکمل کی اور بعد میں برکلے یونیوسٹی کیلی فورنیا میں پروفیسر بنا اور سن 1973ء میں وفات پائی۔ اپنی ماں سے آئنسٹائن کے برے سلوک کی وجہ سے کافی عرصہ تک اس کے باپ سے تعلقات کشیدہ رہے۔ دوسرا بیٹا ایڈورڈ سن 1910ء میں پیدا ہوا، جو ذہنی مریض تھا اور ذہنی امراض کے اداروں میں ہی زیادہ وقت گزارا اور سن 1965ء میں زیورخ میں وفات پائی۔
ازواج
ترمیمپہلی بیوی ملیوا مارِک (Mileva Maric) سے سن 1903ء میں شادی ہوئی۔ ایک بیٹی اور دو بیٹے پیدا ہوئے۔ سن 1914ء میں برلن جانے کے بعد میاں بیوی کے تعلقات خراب ہو گئے۔ حالات اس حد تک بگڑ گئے کہ آئنسٹائن ملیوا کو صرف اس صورت اپنے ساتھ رکھنے پر راضی تھا اگر وہ یہ شرائط پوری کرے [49]
A. تم یہ یقینی بناؤ گی کہ (1) میرے کپڑے اور بسترا ٹھیک ٹھاک ہوں۔ (2) مجھے اپنے کمرے میں تین وقت کا کھانا پہنچاؤ گی۔ (3) میرا سونے اور پڑھنے کا کمرہ صاف ستھرا رکھو گی۔ میری پڑھنے والی میز کو کوئی ہاتھ نہیں لگائے گا۔ B. میرے سے تمھارے تمام ذاتی تعلقات ختم ہوں گے، سوائے لوگوں کو دکھانے کے لیے۔۔۔۔۔۔ جب مخاطب ہوں تو فوراً جواب دو گی۔۔۔۔۔ میرے بچوں کو میرے خلاف نہیں کرو گی، گفتگو سے یا اپنے عمل سے۔
اس کے بعد ملیوا بچوں کو لے کر زیورخ چلی آئی۔ سن 1916ء میں آئن سٹائن نے طلاق کا سوال کیا۔ ملیوا ذہنی صدمے سے نڈھال ہو گئی اور ہسپتال میں داخل ہوئی۔ آخر سن 1918ء میں اس شرط پر طلاق ہوئی کے اگر میاں کو نوبل انعام ملے تو اس کے پیسے ملیوا کے ہوں گے اور بچوں کو مالی طور پر میاں سہارا دے گا۔ دونوں بیٹوں کو ملیوا نے اکیلے ہی سوئٹزرلینڈ میں پالا۔ بڑا بیٹا بڑا ہو کر امریکا چلا گیا۔ سن 1948ء میں ملیوا کی وفات ہوئی تو ہسپتال میں اکیلی تھی۔
1914ء میں برلن آنے کے بعد آئنسٹائن کی شناسائی اپنی چچا زاد بہن ایلسا (Elsa) سے دوبارہ ہوئی۔ اس نے آئنسٹائن کے لیے ایک سیکرٹری ہیلن ڈیوکس (Helen Dukas) ڈھونڈ کر رکھ کے دی جو عمر بھر آئنسٹائن کی سیکرٹری رہی۔ آئنسٹائن اس شش وپنج میں تھا کہ ایلسا سے شادی بنائے یا اس کی جوان سال بیٹی سے۔[50] مگر اس کی بیٹی نے کچھ دلچسپی ظاہر نہیں کی اور آئنسٹائن نے ایلسا سے ہی شادی کر لی۔ ایلسا بعد میں آئنسٹائن کے ساتھ امریکا آ گئی جہاں سن 1936ء میں اس کا انتقال ہوا۔
عمومی اضافیت نظریہ
ترمیمنظریۂ عمومی اضافیت سائنسی میدان میں آئن سٹائن کی سب سے بڑی کامیابی تھا۔ اس نظریہ پر کام 1915ء میں مکمل کیا۔ اس میں یہ بتایا گیا کہ
- اسراع کے دوران مشاہد جو طاقت محسوس کرتا ہے وہ بعینہ کشش ثقل کی طرح ہے۔ -
- کشش ثقل (جس کی وجہ سے مثلاً سورج کے گرد سیارے کا گھومتے ہیں) کی طاقت کی ایک اور توضیح پیش کی۔ وہ یہ کہ سورج کی موجودگی سے زمان و مکان ہی ٹیڑھا ہو جاتا ہے۔ اب سیارہ اپنی طرف سے سیدھا ہی چل رہا ہوتا ہے مگر اس زمان و مکان کے ٹیڑھے پن کی وجہ سے وہ سورج کے گرد گھومتا ہے۔ اس ٹیرھے پن کا اثر برقناطیسی موجوں پر بھی ہو گا۔ مثلاً ستاروں کی روشنی سورج کے پاس سے گزرتے ہوئے اپنا رُخ ہلکا سا تبدیل کرتی ہے۔ روشنی کے اس مڑنے کی تصدیق تجرباتی طور پر سورج گرہن کے دوران میں برطانوی سائنسدانوں نے 1919ء میں کی، جس سے عمومی اضافیت نظریہ کی تصدیق ہو گئی اور آئنسٹائن کی شہرت کی اخباروں میں دھوم مچ گئی۔ تاریخ دانوں نے کہا ہے کہ برطانوی سائنس دان ایڈنگٹن نے اس تصدیق میں ڈنڈی ماری تھی۔[51]
- اس کے علاوہ سیارے عطارد کا مدار مشاہدے میں جیسا نظر آتا تھا، اس کی آئزک نیوٹن کا کشش ثقل نظریہ پوری طرح تشریح نہیں کر پاتا تھا، جبکہ نظریہ اضافیت کی پیشن گوئی اور مشاہدہ میں مماثلت دیکھی گئی۔
- نظریہ اضافیت کے مطابق روشنی کی شعائیں بھاری ستاروں سے نکلتے ہوئے ان شعاعوں کا تعدد روشنی کے طیف میں سرخ رنگ کی طرف تھوڑا سا کھسک جاتا ہے۔
جب آئنسٹائن نے یہ نظریہ تیار کر رہا تھا، اسی عرصہ میں اس کا عظیم جرمن سائنس دان ڈیوڈ ھلبرٹ کے ہاں کچھ دن قیام رہا اور اس سے سائنسی بحث بھی ہوتی رہی۔ آئنسٹائن سے کچھ دن پہلے ہلبرٹ نے نظریہ اضافیت پر ابنا مقالہ سائنسی جریدے کو ارسال کیا۔ آئنسٹائن نے بعد میں ھلبرٹ پر اس کے خیالات "چوری" کرنے کا الزام لگایا۔ یہ اب تک متنازع ہے کہ ھلبرٹ اور آئنسٹائن کا عمومی اضافیت نظریہ میں کتنا حصہ تھا۔[52]
علم الکائنات
ترمیمآئنسٹائن کے عمومی اضافیت کے نظریہ کا علم الکائنات سے گہرا تعلق بنتا تھا۔ اس لیے علم الکائنات کے بارے بھی آئنسٹائن نے تحقیقی نظریات پیش کیے۔
مقداریہ میکانیات
ترمیممقداریہ میکانیکات کا نظریہ اسی زمانے میں وجود میں آ رہا تھا۔ اس نظریہ کے مطابق:
- ہم یہ نہیں کہے سکتے کہ برقیہ گردش کرتا ہوا جوہر کے اندر ایک خاص مدار میں ہے، بلکہ صرف یہ کہہ سکتے ہیں برقیہ کا کسی جگہ موجود ہونے کا احتمال کیا ہے۔ یعنی جس طرح روشنی کی موجیں دوہری فطرت (dual nature) رکھتی ہیں، یعنی روشنی کی موجوں کو نوریہ ذرات پر مشتمل بھی سمجھا جا سکتا ہے، بعینہ، جوہری ذرات (مثلاً برقیہ) بھی دوہری فطرت رکھتے ہیں، یعنی انھیں بھی موجوں کی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔
- اس نظریہ سے اصولِ سببیہ (causality principle) کی بھی نفی ہو سکتی ہے۔
- غیریقینی اصول، جس کے مطابق کسی ذرے کا مقام اور معیار حرکت دونوں ایک ساتھ اپنی مرضی کی انتہائی درستی سے ناپا نہیں جا سکتا۔
آئنسٹائن نے فلسفیانہ بنیادوں پر اس نظریہ سے اختلاف کیا۔ آئنسٹائن کا قول تھا کہ "خدا طاس نہیں کھیلتا۔ " اس کا خیال تھا کہ یہ ایک عارضی نظریہ ہے اور ایک بہتر نظریہ دریافت ہو گا جس میں یہ "خامیاں " نہیں ہوں گی۔ اس سلسلہ میں اس کی بوہر سے طویل عرصہ تک بحث ہوتی رہی۔ البتہ مقداریہ میکانیکات نظریہ سائنسدانوں میں قبول ہو گیا اور جوان سائنس دان بوڑھے آئنسٹائن کو غیر مناسب سمجھنے لگے۔
صیہونیت کی معاونت
ترمیمآئنسٹائن فلسطین میں صیہونی ریاست اسرائیل کے قیام کا پُر جوش حامی تھا۔ 1921ء میں اس نے وائزمین (Chaim Weizmann) کے ساتھ امریکا کا دورہ کیا اور صیہونیت کے لیے چندہ جمع کرنے کے لیے متعدد شہروں میں تقریریں کیں۔ 1952ء میں آئنسٹائن کو اسرائیلی صدارت کی پیش کش ہوئی جو اس نے قبول نہیں کی۔ [53]
امریکا میں
ترمیم1933ء میں آئنسٹائن، ایلسا اور ہیلن کے ساتھ امریکا چلا آیا اور پرنسٹن یونیوسٹی میں پروفیسر لگ گیا۔ امریکا کے پہلے دوروں پر اسے مختلف یونیوسٹیوں نے پہلے سے پروفیسری کی پیشکش کر رکھی تھی۔ یہاں کے خوبصورت قدرتی ماحول میں اپنی تحقیقات میں لگ گیا جو اب قدرت کی تمام طاقتوں کا ایک متحد نظریہ دریافت کرنا تھا۔ اس میں کامیابی تو نہ ہوئی، مگر کچھ نہ کچھ کاوشیں جاری رکھیں۔ 1940ء میں امریکا کی شہریت حاصل کی۔ امریکا میں آئنسٹائن کی عظیم شخصیت کی طرح پزیرائی ہوتی تھی اور صحافی اس کے ہر موضوع پر خیالات میں دلچسپی رکھتے تھے۔ دوسری جنگ عظیم کے حوالے سے آئنسٹائن کو جرمن قوم سے سخت نفرت ہو گئی اور جنگ کے بعد پیشکش ہونے پر بھی وہ جرمنی نہیں گیا۔ 18 اپریل 1955ء کو پرنسٹن میں ہی موت ہوئی۔ آئنسٹائن hemolytic anemia کا مریض تھا۔ موت کی وجہ اس کے arota میں aneurysm کا پھٹنا تھا۔ موت کے بعد پوسٹ مارٹم کرنے والے ڈاکٹر نے خفیہ طور پر سر چیر کر دماغ مرتبانوں میں ڈال کر محفوظ کر لیا۔[54] میت کو بعد میں جلا کر راکھ (cremate) کر دیا گیا۔
ایٹم بم
ترمیم1939ء میں امریکی صدر فرینکلن روزویلٹ کو خط لکھا جس میں ایٹم بم بنانے کی ترغیب دی۔ وجہ یہ بتائی کہ شاید ایڈولف ہٹلر ایسا کرنا چاہتا ہو۔ جب ہیروشیما اور ناگاساکی پر امریکا کی طرف سے ایٹم بم کا استعمال سے لاکھوں انسان لقمۂ اجل ہوئے تو آئنسٹائن نے افسوس کا اظہار کیا۔
امریکی بحریہ کا بم ماہر
ترمیمدوسری جنگ عظیم کے دوران میں امریکی بحریہ نے اس کی خدمات اسلحہ ماہر کی حیثیت سے حاصل کیں۔ آئنسٹائن اپنی ماہرانہ رائے دیا کرتا کہ سمندر میں کس طرح کہ بم کی ساخت کامیاب رہیں گی۔
ایف۔ بی۔ آئی
ترمیمامریکی خفیہ ایجنسی FBI آئنسٹائن کے بائیں بازو (سیاسی و معاشی) نظریات کی وجہ سے شک کی نگاہ سے دیکھتی تھی اور خفیہ تحقیقات کر رہی تھی۔
آئنسٹائن کا خدا
ترمیمآئنسٹائن کے اقوال میں خدا (God) کا ذکر اکثر ملتا ہے۔ موجودہ زمانے میں مبصرین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ خدا سے مراد قدرت (nature) تھی۔ بہرحال آئنسٹائن کا نظریۂ خدا مذہبی نقطۂ نظر سے مختلف ہونے کا خیال ظاہر کیا گیا ہے۔
کتابوں سے اقتباسات
ترمیم” | ہم نے تلخ تجارب کے بعد یہ سیکھا ہے کہ معاشرتی زندگی کی گتھیاں تنہا عقل کی رو سے نہیں سلجھ سکتیں۔۔۔۔ اس لیے ہمیں تنہا عقل کو اپنا خدا نہیں بنا لینا چاہیے۔ اس خدا کے عضلات (Muscles) تو بہت مضبوط ہیں لیکن اس کی ذات (Personality) نہیں ہے۔ عقل اسباب و ذرائع پر تو خوب نگاہ رکھتی ہے لیکن مقاصد و اقدار کی طرف سے اندھی ہو جاتی ہے۔[55] | “ |
” | سائنس صرف یہ بتا سکتی ہے کہ " کیا ہے"!!!
وہ یہ نہیں بتا سکتی کہ " کیا ہونا چاہیے " !!! اس لیے اقدار کا تعین کرنا اس کے دائرے سے باہر ہے۔ سائنس کے علم برداروں نے اکثر اوقات اس امر کی کوشش کی ہے کہ وہ سائنس کی رو سے اقدار کے متعلق قطعی فیصلہ نافذ کر دیں۔۔۔۔ سائنس کے نزدیک بس ایک شے ہوتی ہے۔ اس کی دنیا میں آرزو، اقدار، خیر وشر، نصب العین حیات کا کوئی وجود نہیں ہوتا۔ سائنس نہ اقدار متعین کر سکتی ہے اور نہ انھیں انسانی سینے کے اندر داخل کر سکتی ہے۔[56] |
“ |
” | تعلیم کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ بہت ساری حقیقتیں جان لی جائیں۔ تعلیم کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دماغ کی اس طرح تربیت ہو جائے کہ جو کچھ کتابوں میں نہیں ہے وہ بھی سمجھ میں آ سکے[57] | “ |
مزید دیکھیے
ترمیم- اضافیتی پیمائشیں
- ضیا برقی اثر photoelectric effect
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب ربط: https://d-nb.info/gnd/118529579 — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اپریل 2014 — اجازت نامہ: CC0
- ^ ا ب مصنف: CC0 — مدیر: CC0 — ناشر: CC0 — خالق: CC0 — اشاعت: CC0 — باب: CC0 — جلد: CC0 — صفحہ: CC0 — شمارہ: CC0 — CC0 — CC0 — CC0 — ISBN CC0 — CC0 — اقتباس: CC0 — اجازت نامہ: CC0
- ^ ا ب مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb119016075 — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ^ ا ب بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb119016075 — اخذ شدہ بتاریخ: 22 اگست 2017
- ^ ا ب ایس این اے سی آرک آئی ڈی: https://snaccooperative.org/ark:/99166/w69k499r — بنام: Albert Einstein — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ^ ا ب عنوان : Nationalencyklopedin — NE.se ID: https://www.ne.se/uppslagsverk/encyklopedi/lång/albert-einstein — بنام: Albert Einstein — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ^ ا ب فائنڈ اے گریو میموریل شناخت کنندہ: https://www.findagrave.com/memorial/314 — بنام: Albert Einstein — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ ربط: https://d-nb.info/gnd/118529579 — اخذ شدہ بتاریخ: 10 دسمبر 2014 — اجازت نامہ: CC0
- ^ ا ب پ مدیر: الیکزینڈر پروکورو — عنوان : Большая советская энциклопедия — اشاعت سوم — باب: Эйнштейн Альберт — CC0 — اخذ شدہ بتاریخ: 28 ستمبر 2015
- ↑ عنوان : Einstein: His Life and Universe by Walter Isaacson. — جلد: 20 — صفحہ: 431-432 — شمارہ: 4 — https://dx.doi.org/10.1080/08998280.2007.11928340 — https://www.ncbi.nlm.nih.gov/pmc/articles/PMC2014819 — CC0
- ^ ا ب پ ت ٹ جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/118529579 — اخذ شدہ بتاریخ: 3 مئی 2024
- ↑ ربط: https://d-nb.info/gnd/118529579 — اخذ شدہ بتاریخ: 30 دسمبر 2014 — اجازت نامہ: CC0
- ↑ مصنف: CC0 — مدیر: CC0 — ناشر: CC0 — خالق: CC0 — اشاعت: CC0 — باب: CC0 — جلد: CC0 — صفحہ: CC0 — شمارہ: CC0 — CC0 — CC0 — CC0 — ISBN CC0 — CC0 — اقتباس: CC0 — اجازت نامہ: CC0
- ↑ https://www.history.com/news/9-things-you-may-not-know-about-albert-einstein — اخذ شدہ بتاریخ: 4 جنوری 2019
- ↑ https://www.einstein-website.de/z_information/verschiedenes.html
- ↑ JSTOR article ID: https://www.jstor.org/stable/795378
- ↑ http://www.einsteinsommerhaus.de/index.php?id=539&no_cache=1
- ↑ http://www.einsteinsommerhaus.de/index.php?id=539
- ↑ https://newspapers.ushmm.org/events/albert-einstein-quits-germany-renounces-citizenship
- ↑ مصنف: آئن سٹائن — Letter to M. Berkowitz, 25 October 1950
- ↑ مصنف: آئن سٹائن — تاریخ اشاعت: 1949 — Albert Einstein: Notes for an Autobiography — اخذ شدہ بتاریخ: 7 مارچ 2019
- ↑ Brian, Dennis (1996), Einstein: A Life, New York: John Wiley & Sons, p. 127, ISBN 0-471-11459-6
- ↑ مصنف: آئن سٹائن — https://dx.doi.org/10.3929/ETHZ-A-000565688
- ^ ا ب Leidse Hoogleraren ID: https://hoogleraren.universiteitleiden.nl/s/hoogleraren/item/733 — اخذ شدہ بتاریخ: 19 جون 2019
- ↑ Zhou Peiyuan Is Dead; Educator-Scientist, 91
- ↑ THEATER REVIEW;A Fantasy Meeting of Minds
- ↑ BeWeb person ID: https://www.beweb.chiesacattolica.it/persone/persona/3852/ — اخذ شدہ بتاریخ: 13 فروری 2021
- ↑ abART person ID: https://cs.isabart.org/person/16734 — اخذ شدہ بتاریخ: 1 اپریل 2021
- ↑ The Speed of Broken Light: A meditation on duration and performance by Ted Hiebert
- ↑ Neutral monism reconsidered by Erik C. Banks
- ↑ Einstein: his life and universe
- ↑ Modern-Day Einstein Smashes Flaming Golf Ball, Sets Pants on Fire
- ↑ عنوان : Special Relativity and how it all began — BBC programme ID: https://www.bbc.co.uk/programmes/p00kwcp5
- ↑ A brief history of mathematics Episodes
- ↑ A-Z for Norfolk Science, A:Albert Einstein
- ↑ Digitalizované pobytové přihlášky pražského policejního ředitelství (konskripce) 1850-1914 — اخذ شدہ بتاریخ: 6 جنوری 2021
- ↑ مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : Albert Einstein (1879-1955), data.bnf. — بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb119016075 — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ↑ کونر آئی ڈی: https://plus.cobiss.net/cobiss/si/sl/conor/7912035
- ↑ Sieben Jahre «Schusterhandwerk»
- ↑ Albert Einstein und das IGE
- ↑ ناشر: رائل سوسائٹی — Award winners : Copley Medal — اخذ شدہ بتاریخ: 30 دسمبر 2018
- ↑ ناشر: نوبل فاونڈیشن — The Nobel Prize in Physics 1921 — اخذ شدہ بتاریخ: 3 اگست 2015
- ↑ The Nobel Prize amounts
- ↑ ناشر: نوبل فاونڈیشن — نوبل انعام شخصیت نامزدگی آئی ڈی: https://www.nobelprize.org/nomination/archive/show_people.php?id=2728
- ↑ "Physics: past, present, future"۔ Physics World۔ 1999-12-06۔ اخذ شدہ بتاریخ 01 اگست 2023
- ↑ Abraham Pais, "Einstein lived here," Clarendon Press, Oxford, 1994.
- ↑ 253524,00.html Guardian 11 Nov. 1999[مردہ ربط] Einstein's E=mc2 'was Italian's idea'
- ↑ Jake Goldberg, Albert Einstein، Franklin Watts, 1996, pp. 96
- ↑ Donald Goldsmith, Einstien: a relative history، 2005, Simon & Schuster, Inc.، pp. 89
- ↑ Denis Brian, The unexpected Einstein, Wiley, 2005, pp. 33
- ↑ Tony Rothman, everything's RELATIVE، chapter 8, Wiley, 2003
- ↑ The Register,15 نومبر 2004, Was Einstein a plagiarist?
- ↑ Einstein and the Quantum, A. Douglas Stone, Chap. 23, 2013.
- ↑ Mario Livio, The equation that could not be solved, Simon & Schuster Trade, 2005
- ↑ Out of my later years, by Albert Einstein
- ↑ (Einstein ( IBID
- ↑ The Problem With Education Today
بیرونی روابط
ترمیمویکی ذخائر پر البرٹ آئنسٹائن سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |