جمال آذز جن کا اصل نام عبد العلیم خاں تھا کی پیدائش 26جنوری1949ء کو شہر نانپارہ میں ننہال میں ہوئی تھی۔ آپ کے والد کا نام والد کا عبد الجبار خاں اور والدہ کا نام زاہدا بیگم تھا۔ نانپارہ کے مشہور شاعر ایاز بیگ ایمنؔ چغتائی آپ کے ماموں تھے ۔

جمال آذز بہرائچی
پیدائشعبد العلیم خاں
26جنوری1949ء
محلہ بیلدارن ٹولہ شہر نانپارہ بہرائچ اتر پردیش بھارت
وفات11نومبر 2009ء
گورکھپور اتر پردیش بھارت
زباناردو
قومیتبھارتی
شہریتبھارتی
تعلیمبی اے ،ایل۔ایل۔بی۔
موضوعنعت ،غزل
اہم اعزازاتاردو اکادمی ایوارڈ
رشتہ دارایمن چغتائی نانپاروی

حالات

ترمیم

جمال آذز شہر بہرائچ کے محلہ قاضی پورہ میں رہتے تھے جہاں آپ کا آبائی مکان ہے۔ آپ نے بی۔ اے ،ایل۔ ایل۔ بی۔ کی تعلیم حاصل کی تھی اور کچھ وقت تک وکالت کا پیشہ اختیار کیا جو انھیں راس نہیں آیا۔ آپ کے ماموں ایاز بیگ ایمنؔ چغتائیجو کی ایک مشہور شاعر تھے کی رہنمائی میں جمال آذز نے شاعری شروع کی اور بعد میں اظہار وارثی سے شرف تلمذ حاصل کیا ۔ فن انتظام میں ماہر ہونے کی وجہ سے مشاعروں میں نظامت کے فرائض انجام دینے لگے۔ نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے آپ نے اپنی پر کشش آواز اور انداز بیان کی بدولت اردو ادب کی دنیا میں کافی مقبولیت حاصل کی۔ کسی بھی شاعر کو اپنا کلام پڑھنے کے لیے بلانے سے پہلے اس شاعر کی خوبیوں کا بیان پر کشش انداز میں کرنا آپ کی اہم خوبی تھی۔ جمال آذز نے اپنی نظامت کے فرائض انجام دیتے ہوئے بیرونی ممالک میں بھی اپنا اور ضلع بہرائچ کا نام روشن کیا۔ آپ کے اشعار میں سادگی ،شگفتگی،سنجیدگی ودلکثی پائی جاتی ہے۔ نعتیہ قطعات میں رسول اللہ ﷺ سے والہانہ عشق کی جھلک ملتی ہے۔ جمال آذز کا کوئی شعری مجموعہ نہیں شائع ہوا ہے۔ شاعر و ادیب شارق ربانی نے آپ کی تمام تفصیلات کو یکجا کر کے 2014ء میں ہندی روزنامہ ہندوستان میں شائع ہونے والے سلسلہ اردو ادب اور بہرائچ کے عنوان میں شائع کرایا۔ شارق ربانی کا کہنا ہے کہ جمال آذز نے اپنی زندگی اردو ادب کے لیے وقف کر دی تھی اور نظامت کی ذمہ داری بخوبی انجام دیتے تھے۔

وفات

ترمیم

جمال آذز کا انتقال11نومبر2009ء[1] کو گورکھپور اتر پردیش میں ہوا تھا ۔

نمونہ کلام

ترمیم
خیالوں میں بسا رہتا ہے سبز گنبد خضرا جو بے شک عالم انسانیت کی راجدھانی ہے
بدن مرا نظام وقت کا پابند لیکن مرے دل پر محمد مصطفی کی حکمرانی
ہوا چہرہ منور نور سے اسکا جمال ؔ آذز جو قسمت سے شہہ بطحہ کا روضہ دیکھ آیا
اسے جنت یقینََ جانی پیچانی لگے گی جو شخص اک بار بھی شہر مدینہ دیکھ آیا
فطرت ہی نہیں دونوں کی خلعت بھی ہے یکساں اب سانپ اور انساں میں کچھ انتر ہی نہیں ہے
ہاں سانپ کا کاٹا ہوا بچ سکتا ہے لیکن انساں کے کاٹے کا تو منٹر ہی نہیں ہے

حوالہ جات

ترمیم
  • ہندی روزنامہ ہندوستان جمال آذز پر شائع مضمون 2014ء

خارجی روابط

ترمیم