جمال الدین افغانی
مسلم رہنما۔ پورا نام سید محمد جمال الدین افغانی۔ والد کا نام سید صفدرخان۔ مشرقی افغانستان کے کنڑ صوبے کے اسعد آباد[9] میں پیدا ہوئے۔ پان اسلام ازم یا وحدت عالم اسلام و ہندو مسلم اتحاد کے زبردست داعی اور انیسویں صدی میں دنیائے اسلام کی نمایاں شخصیت تھے۔
جمال الدین افغانی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1838ء [1][2] اسعدآباد (کنر) |
وفات | 9 مارچ 1897ء (58–59 سال)[3][4] استنبول |
مدفن | صوبہ کابل |
شہریت | افغانستان |
عملی زندگی | |
تلمیذ خاص | محمد عبدہ |
پیشہ | الٰہیات دان ، صحافی [5][6] |
پیشہ ورانہ زبان | ترکی [7]، عربی [8]، پشتو ، دری فارسی ، فارسی |
درستی - ترمیم |
سیّد جمال الدین نے کچھ عرصہ امیردوست محمد خان اور ان کے جانشینوں کی خدمت کی۔ افغانستان کے حکمرانوں کی خدمت کے دوران انھوں نے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کی بھی زیارت کی۔ 1869ء میں انھوں نے یہ ملازمت ترک کردی۔ افغانستان کو خیرباد کہا۔ ہندوستان آئے۔ یہاں سے قاہرہ گئے۔ وہاں ایک دو ماہ کے قیام کے دوران میں اسلامی اتحاد کی ضرورت و اہمیت پر لیکچر دیے۔ قاہرہ سے قسطنطنیہ گئے اور 1871ء میں قاہرہ واپس آگئے۔ مصر میں ان کی سرگرمیاں، خاص طور پر وہاں کی قومی تحریک کے لیے ان کی عملی حمایت سے انگریز حکام مشکوک ہو گئے۔ انھوں نے سیّد جمال الدین کو 1879ء میں مصر سے نکال دیا۔ تب وہ ہندوستان آگئے اور حیدرآباد دکن میں اقامت اختیار کی۔ 1882ء میں مصر کے قوم پرستوں نے، جو خدیو کی مطلق العنانی کی بجائے آئینی حکومت کا مطالبہ کر رہے تھے اور جس کے نتیجے میں مصر کے اندرونی معاملات میں برطانیہ مداخلت بے جا کررہا تھا، عرابی پاشا کی قیادت میں بغاوت کردی۔
بغاوت کا نتیجہ یہ نکلا کہ 1882ء میں برطانیہ نے مصر پر قبضہ کر لیا۔ جمال الدین نے چونکہ مصر کی قوم پرستانہ تحریک کی حمایت کی تھی اور اِسی بنا پر ہندوستان میں برطانوی حکومت نے انھیں ایک لحاظ سے نظر بند کررکھا تھا، 1882ء میں مصر پر قبضے کے بعد انھیں بھی آزادی ملی۔ تب وہ لندن چلے گئے۔ وہاں سے کچھ عرصے کے بعد پیرس چلے گئے، جہاں اْنھوں نے تین سال قیام کیا۔ وہاں سے ایک ہفت روزہ العروۃ الوثقی جاری کیا۔ 1885ء میں دوبارہ لندن گئے۔ وہاں سے ماسکو (اور بعد ازاں سینٹ پیٹرز برگ) پہنچے۔ وہاں اپنے چار سالہ قیام کے دوران انھوں نے زار کے روس میں مسلمانوں کے لیے رعایتیں حاصل کیں۔ تاہم وہ 1889ء تک وہاں ٹھہرے۔ ایران کے شاہ ناصرالدین نے انھیں واپس ایران آنے پر آمادہ کر لیا، جس سے وہ میونخ میں ملے تھے۔ لیکن چونکہ وہ آئینی تحریک کے حامی اور شاہ پرستی کے خلاف تھے، اس لیے 1890ء میں انھیں ایران سے بھی نکال دیا گیا۔
وہ 1891ء میں لندن پہنچے اور اسی سال قسطنطنیہ واپس آگئے۔ سلطان عبد الحمید نے جمال الدین کا شاہانہ استقبال کیا۔ سلطان کا خیال تھا کہ اس کی مطلق العنانی اور آمریت کے قیام و استحکام میں افغانی بطور آلہ کار مددگار ثابت ہوں گے، لیکن سلطان کو یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ افغانی نے اس کی مدد کرنے کی بجائے، الٹا ترکی میں آئینی تحریک کی تائید و حمایت کی
آپ نے اسلامی ممالک کو مغربی اقتدار سے آزاد کرانے کی جدوجہد کی۔ آپ کا مقصد مسلم ممالک کو ایک خلیفہ کے تحت متحد کرکے ان کا ایک آزاد بلاک بنانا تھا۔
آپ عہد شباب میں افغانستان کے امیر محمد اعظم خان کے وزیر رہے۔ انگریزوں کی سازش سے افغانستان میں بغاوت ہوئی تو ہندوستان آ گئے۔ مگر یہاں دو ماہ سے بھی کم قیام کی اجازت ملی۔ یہاں سے آپ ترکی گئے مگر وہاں بھی درباری علما اور مشائخ نے ٹکنے نہ دیا تو مجبوراً قاہرہ کا رخ کیا۔ قاہرہ میں آٹھ سال تک رہے اور اپنے نظریات کی بڑے زور و شور سے تبلیغ کی۔ اب آپ کا حلقۂ اثر بہت وسیع ہو گیا تھا۔ اور اسلامی ملکوں میں انگریزوں کے مفادات پر ضرب پڑ رہی تھی۔ اس خطرے کے سدباب کے لیے انگریزوں نے خدیو مصر پر دباؤ ڈالا اور اس کے حکم پر آپ کو مصر چھوڑنا پڑا۔ مصر سے آپ پیرس گئے اور وہاں ’’العروۃ الوثقٰی ‘‘ کے نام سے ایک رسالہ عربی زبان میں جاری کیا۔ یہ رسالہ وحدت اسلامی کا نقیب تھا۔ مگر یہ دس ماہ سے زیادہ عرصے تک جاری نہ رہ سکا۔ آپ نے روس انگلستان اور حجاز کا بھی سفر کیا۔ آخری عمر میں سلطان ترکی کی دعوت پر قسطنطنیہ گئے تھے۔ یہیں سرطان کے مرض میں مبتلا ہو کر وفات پائی۔ ایک خیال یہ ہے کہ دربارِ ترکی کے ایک عالم نے انھیں حسد کی وجہ سے زہر دے کر شہید کیا۔ آپ کے قریبی ساتھیوں اور شاگردوں میں شیخ محمد عبدہ مصری بہت مشہور ہیں۔
مزید پڑھیے
ترمیمویکی ذخائر پر جمال الدین افغانی سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |
بیرونی روابط
ترمیم- ["From Reform to Revolution, Louay Safi, Intellectual Discourse 1995, Vol. 3, No. 1 ربطآرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ lsinsight.org (Error: unknown archive URL)
حوالہ جات
ترمیم- ↑ مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb12820103j — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ↑ عنوان : Encyclopædia Britannica — دائرۃ المعارف بریطانیکا آن لائن آئی ڈی: https://www.britannica.com/biography/Jamal-al-Din-al-Afghani — بنام: Jamal al-Din al-Afghani — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ https://pantheon.world/profile/person/Jamāl_al-Dīn_al-Afghānī — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
- ↑ Brockhaus Enzyklopädie online ID: https://brockhaus.de/ecs/enzy/article/afghani-djamal-ad-din-al- — بنام: Djamal ad-Din al-Afghani
- ↑ عنوان : تاريخ الصحافة العربية — جلد: 1-4
- ↑ https://projectjaraid.github.io
- ↑ مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — http://data.bnf.fr/ark:/12148/cb12820103j — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ↑ مصنف: آزاد اجازت نامہ — مدیر: آزاد اجازت نامہ — عنوان : آزاد اجازت نامہ — ناشر: آزاد اجازت نامہ — خالق: آزاد اجازت نامہ — اشاعت: آزاد اجازت نامہ — باب: آزاد اجازت نامہ — جلد: آزاد اجازت نامہ — صفحہ: آزاد اجازت نامہ — شمارہ: آزاد اجازت نامہ — آزاد اجازت نامہ — آزاد اجازت نامہ — آزاد اجازت نامہ — ISBN آزاد اجازت نامہ — حوالہ یو آر ایل: آزاد اجازت نامہ — اقتباس: آزاد اجازت نامہ — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
- ↑ From Reform to Revolution, Louay Safi, Intellectual Discourse 1995, Vol. 3, No. 1 LINK آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ lsinsight.org (Error: unknown archive URL)