حجاب پر پابندی عائد کرنے والے ممالک کی فہرست

عورتوں کا حجاب یا چہرے کو ڈھانکنے والا نقاب دنیا کے کئی ممالک میں موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ کچھ ممالک نے اس پر مکمل تو کچھ نے جزوی پابندیاں عائد کی ہیں جن کی تفصیلات ذیل میں درج ہیں:

ایک حجاب پہنی خاتون

فرانس

ترمیم

برقعے پر پابندی سب سے پہلے فرانس میں 2010ء میں متعارف کی گئی تھی۔ قانون کے مطابق، لوگوں کو برقع یا ایسا کوئی لباس عوامی جگہوں پر ڈانکنے کی اجازت نہیں ہے جس سے چہرہ چھپے (بہ شمول ماسک)، بالاکلاف (کپڑا جو مکمل چہرے کو سوائے آنکھوں کے چھپا دے)، ہلمٹ وغیرہ۔ فرانس ایسا پہلا یورپی ملک ہے جس نے حجاب پر پابندی عائد کی۔

2011ء میں اس وقت کے صدر نکولس سرکوزی نے اس قانون کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ اس کی ضرورت دکانوں سے غیر مجاز طور پر اشیاء اٹھانے والوں اور دہشت گردوں کو اپنی شناخت چھپانے کے مواقع نہیں فراہم کرنا ہے۔[1]

اس قانون کی خلاف ورزی کی صورت میں 205 امریکی ڈالر کے مساوی جرمانہ عائد ہو سکتا ہے اور مرتکبین کو فرانسیسی اخلاقیات پر درس لینے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔[2]

اسپین

ترمیم

2010ء میں برشلونہ شہر کی بلدیہ عمارتوں میں برقع اور نقاب پر پابندی عائد کر دی گئی۔ اسی طرح کی پابندیاں کاتالونیا کے کئی دیگر شہر عائد کر چکے ہیں۔ سپریم کورٹ نے ان میں سے ایک پابندی کو یہ کہ کر ہٹا دیا کہ اس سے مذہبی آزادی متاثر ہوتی ہے۔[2]

بلجئیم

ترمیم

فرانس ہی کی طرح بلجئیم نے ایک قانون متعارف کیا جس کے تحت برقع یا کسی شخص کی شناخت کو عوامی جگہ غیرواضح کرنے والے کسی بھی لباس پر 2012ء میں پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ قانون شکنوں پر 380 یورو جرمانہ اور سات دن تک کی قید کی گنجائش رکھی گئی تھی۔[1]

اطالیہ

ترمیم

اطالیہ میں کوئی سرکاری قانون نہیں ہے جس کی رو سے برقعے پر پابندی لگے۔ تاہم ملک کے 1970ء میں اطالوی مخالف دہشت گردی قانون کا مقصد سیاسی کارکنوں پر گرفت رکھنا ہے۔ اس کی رو سے عوامی جگہوں پر چہرے کو ڈھانکنا غیر قانونی ہے۔

کچھ اطالوی علاقہ جات ذیلی قوانین متعارف کر چکے ہیں جو اسلامی حجاب کو عوامی جگہوں پر پہننے کی اجازت نہیں دیتے۔ اس کے علاوہ مخالف تارکین وطن ناردرن لیگ کے کچھ میئر اسلامی طرز کی تیراکی کی پوشاکوں پر پابندی عائد کر چکے ہیں جو مکمل جسم کو چھپاتے ہیں۔

2010ء میں شمالی اطالیہ کے شہر نووارا میں ایک مسلمان عورت کو حجاب پہننے کی وجہ سے 500 یورو کا جرمانہ دینا پڑا تھا۔[1]

سویٹزرلینڈ کے اطالوی زبان گو علاقے

ترمیم

ستمبر 2013ء میں سویٹزرلینڈ کے اطالوی زبان گو علاقے تیچینو نے عوامی علاقوں میں کسی بھی گروہ کی جانب سے نقاب پر پابندی لگانے کے حق میں ووٹ کیا۔[1]

ڈنمارک

ترمیم

2008ء سے ججوں پر عدالتی احاطے میں برقع یا اسی طرح کے مذہبی یا سیاسی نشانات پر پابندی عائد ہے جس میں صلیب، یہودی ٹوپی، پگڑی شامل ہیں۔[1]

ترکی

ترمیم

ترکی نے برقع اسی طرح پوشیدہ کرنے والوں نقابوں پر 1926ء میں پابندی عائد کر دی تھی۔

تاہم 2013ء میں ترکی نے عورتوں کو مملکتی اداروں میں چہروں کو چھوڑکر سر اور بالوں کو ڈھاپنے والوں حجاب کی اجازت دے دی۔ تاہم شہری خدمات کی ملازمتیں اور سرکاری عہدے اس اذن عام سے مستثنٰی ہیں۔[1]

ہالینڈ

ترمیم

ہالینڈ نے کافی بحث کے بعد مئی 2015ء میں مکمل چہرے کے اسلامی حجاب کو سرکاری عمارتوں، اسکولوں، اسپتالوں اور عوامی حمل و نقل کی جگہوں پر ممنوع قرار دیا۔ یہ قانون حجاب پر مکمل پابندی عائد نہیں کرتا بلکہ "مخصوص حالات میں جب لوگوں کا دیکھا جانا ضروری ہے" تب پردہ داری کو غیر قانونی قرار دیتا ہے۔ قانون شکنی کی صورت میں 285 پاؤنڈ اسٹرلنگ تک کا مساوی جرمانہ عائد کیا جا سکتا ہے۔[3]

قفقاز علاقے میں بڑھتے روسیوں اور مسلمانوں کے تصادم کے پیش نظر سٹاوروپول کے ارباب مجاز نے مملکت کے زیر انتظام اسکولوں میں اسکارف پر پابندی لگادی۔ اس فیصلے کی روسی سپریم کورٹ نے توثیق کی ہے۔[2]

چین کے شہر میں برقعے پر پابندی

ترمیم

چین کے شہر اُرُومچی میں برقعے پر پابندی عائد ہے۔[2] یہ علاقہ صوبہ سنکیانگ کا دار الحکومت ہے۔

لٹویا میں ممکنہ مکمل پابندی

ترمیم

سوویت یونین کی سابقہ جمہوریہ لٹویا نے عورتوں پر اسلامی طرز کے مکمل چہرے کے حجاب پر ملک بھر میں پابندی عائد کر دی ہے۔ اس قانون پر 2017ء سے عمل آوری کا امکان ہے۔ ملک میں مسلمانوں کی تعداد 1000 ہے جو مذہب پر عمل پیرا ہیں۔[4]

حوالہ جات

ترمیم