خالد بن سعید بن العاص
خالد بن سعید رضی اللہ عنہ(وفات : 13ھ) ایک صحابی رسول تھے۔ خالد سابقون الاولون میں سے تھے۔آپ نے ابتدا ہی میں اسلام قبول کر لیا تھا۔آپ کے اسلام قبول کرنے کے بعد آپ کو کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ، حبشہ کی دوسری ہجرت میں آپ نے اپنی بیوی کے ساتھ ہجرت کی۔خیبر کی فتح کے بعد آپ نے مدینہ ہجرت کی غزوہ خیبر ہو چکی تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو مال غنیمت میں سے حصہ عطاء فرمایا۔آپ نے فتح مکہ ، غزوہ تبوک ،غزوہ حنین اور طائف میں حصہ لیا۔حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دور خلافت میں جنگ فحل میں آپ نے شہادت نوش فرمائی۔
خالد بن سعید بن العاص | |
---|---|
(عربی میں: خالد بن سعيد بن العاص بن أمية بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصي القرشي الأموي) | |
معلومات شخصیت | |
پیدائش | 1 ہزاریہ مکہ |
وفات | سنہ 635ء (34–35 سال) |
زوجہ | ام حکیم امينہ بنت خلف |
بہن/بھائی | |
عملی زندگی | |
پیشہ | گورنر |
درستی - ترمیم |
نام و نسب
ترمیمخالدؓ نام، ابوسعید کنیت، سلسلہ نسب یہ ہے، خالد بن سعید بن العاص بن امیہ ابن عبد شمس بن عبدمناف بن قصی قرشی اموی، نانہالی تعلق ثقیف سے تھا۔ [1]
اسلام
ترمیمحضرت خالدؓ بن سعید ان خوش نصیب بزرگوں میں ہیں جو اس وقت مشرف باسلام ہوئے، جب چند بندگان اللہ کے سوا ساری دنیا توحید کی آواز سے نا آشنا تھی، ان ہی کے اسلام سے ان کے گھر میں اسلام کی روشنی پھیلی، ان کے اسلام کا واقعہ یہ ہے کہ دعوت اسلام کے ابتدائی زمانہ میں انھوں نے خواب دیکھا کہ یہ ایک آتشیں غار کے کنارے کھڑے ہیں اور ان کے والد ان کو اس میں ڈھکیل رہے ہیں اور رسول اللہ ﷺ گلا پکڑے ہوئے روک رہے ہیں، اس خواب پریشان نے آنکھ کھول دی، گھبرا کر اُٹھ بیٹھے اور بے ساختہ زبان سے نکل گیا کہ اللہ کی قسم یہ خواب حقیقت ہے اور اس کو حضرت ابوبکرؓ سے بیان کیا، انھوں نے کہا کہ تم ایک نہ ایک دن ضرور مشرف باسلام ہوگے، اس لیے میں تم کو دوستانہ مشورہ دیتا ہوں کہ تم فوراً حلقہ بگوش اسلام ہو جاؤ اور تمھارے والد اس آتشیں غار میں گریں گے، لیکن تم کو اسلام اس میں گرنے سے بچالے گا، چنانچہ خالدؓ نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوکر پوچھا، آپ کس چیز کی دعوت دیتے ہیں، آپ صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا بلا شرکت غیر خدائے واحد کی پرستش کرو، مجھ کو اس کا بندہ اور رسول مانو اور ان پتھروں کی پوجا چھوڑ دو، جو تمھارے نفع اور نقصان کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتے، حتی کہ اس سے بھی لا علم ہیں کہ ان کی پرستش کے دعویداروں میں کون ان کی پرستش کرتا ہے اور کون نہیں کرتا، یہ تعلیمات سن کر دل کے ساتھ زبان نے بھی اللہ کی وحدانیت اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کی تصدیق کردی۔ [2] [3]
آزمائش اور استقامت
ترمیمخالد بن سعید اسلام لانے کے بعد گھر والوں سے چھپ کر آنحضرت ﷺ کے ساتھ دعوتِ اسلام میں مصروف ہو گئے، والد کو خبر ہوئی تو انھوں نے ان کے بھائیوں کو پکڑنے کے لیے بھیجا، وہ ان کو گرفتار کرکے لے گئے، پہلے اسلام چھوڑنے کا مطالبہ ہوا، یہاں جواب صاف تھا کہ جان جائے لیکن محمد ﷺ کا مذہب نہیں چھوٹ سکتا، اس جواب پر پہلے زجر و توبیخ شروع ہوئی، جب یہ بے اثر ثابت ہوئی تو زود کوب کی نوبت آئی اور اس بے دردی سے مارے گئے کہ سرپر پڑتے پڑتے لکڑی ٹکڑے ٹکڑے ہو گئی، جب مارتے مارتے تھک گئے تو پھر باز پرس شروع ہوئی کہ تم نے محمد ﷺ کی حرکتوں کو جانتے ہوئے ان کا ساتھ کیوں دیا؟ تم آنکھوں سے دیکھتے ہوکہ وہ پوری قوم کی مخالفت کرتے ہیں، ان کے معبودوں اوران کے آبا و اجداد کو برا بھلا کہتے ہیں اوراس میں تم بھی ان کی ہمنوائی کرتے ہو، مگر اس مار کے بعد بھی اس بادہ حق کے سرشار کی زبان سے نکلا کہ خداکی قسم! وہ جو کچھ کہتے ہیں سچ کہتے ہیں اور اس میں میں ان کے ساتھ ہوں،جب سنگ دل باپ ہر طرح سے تھک چکا تو عاجز ہوکر قید کرکے کھانا پینا بند کر دیا اور لوگوں کو منع کر دیا کہ کوئی شخص ان سے گفتگو نہ کرے، چنانچہ یہ کئی دن تک بے آب و دانہ تنہائی کی قید جھیلتے رہے، چوتھے دن موقع پاکر بھاگ نکلے اور اطراف مکہ میں روپوش ہو گئے۔ [4]
ہجرت حبشہ
ترمیمجب مسلمانوں کا دوسرا قافلہ حبشہ جانے لگا تو یہ بھی اپنی بیوی امیمہ یا ہمینہ اوربھائی عمروکو ساتھ لے کر حبشہ چلے گئے، یہیں ان کے صاحبزادہ سعید اورصاحبزادی ام خالد پیدا ہوئیں۔ [5]
ہجرت مدینہ اور غزوات
ترمیمغزوۂ خیبر کے زمانہ میں حبشہ سے مدینہ منورہ آئے، گویہ اس میں شریک نہیں ہوئے تھے؛لیکن آنحضرت نے مال غنیمت میں ان کا حصہ بھی لگایا، اس کے بعد عمرۃ القضا، فتح مکہ، حنین، طائف اور غزوہ تبوک وغیرہ سب میں آنحضرت ﷺ کے ہمرکاب رہے۔ [6] ابتدائی غزوات غزوہ بدر و احد وغیرہ میں شریک نہیں ہو سکے تھے، اس محرومی پر ہمیشہ متاسف رہے، آنحضرت ﷺ سے عرض کیا یا رسول اللہ! ہم لوگ بدرکے شرف سے محروم رہے، آپ نے جواب دیا؛کہ کیا تم کو یہ پسند نہیں ہے کہ لوگوں کو ایک ہجرت کا شرف حاصل ہو اور تم کو دوکا۔ [7]
مدینہ کا قیام
ترمیممدینہ آنے کے بعد سے آنحضرت صل اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مراسلات کا عہدہ ان کے متعلق کر دیا تھا اور وہ تحریری نامہ وپیام کی خدمت انجام دیتے تھے، 9ھ میں بنوثقیف کا جو وفد آیا تھا، اس کے اور آنحضرت ﷺ کے درمیان میں گفتگو کی خدمت ان ہی نے انجام دی تھی اور وفد کے مشرف باسلام ہونے کے بعد معاہدہ بھی ان ہی نے تحریر کیا تھا۔
یمن کی گورنری
ترمیمحضرت خالدؓ بن سعید کے کنبہ بھر میں حکومت کی صلاحیت تھی ، اس لیے آنحضرت صل اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے تینوں بھائیوں کو حکومت کے عہدوں پر ممتاز کیا تھا، آبان کو بحرین پر، عمرو کو تیماء پر اور خالدؓ کو یمن پر مامور کیا، یہ تینوں تاحیات نبوی خوش اسلوبی کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتے رہے، آپ کی وفات کی خبر سن کر وہاں سے واپس ہوئے، حضرت ابوبکرؓ صدیق نے دوبارہ بھیجنا چاہا اور فرمایا کہ تم لوگ آنحضرت ﷺ کے مقرر کردہ عامل ہو، تم سے زیادہ کون اس عہدہ کا مستحق ہو سکتا ہے؛لیکن انھوں نے انکار کر دیا اورکہا کہ ہم ابی حیحہ کی اولاد ہیں، آنحضرت ﷺ کے بعد کسی کے عامل نہ بنیں گے۔ [8]
ابو بکر کی بیعت میں تاخیر
ترمیمخالدؓ کو ابتدا میں حضرت ابوبکرؓ کی خلافت سے اختلاف تھا، چنانچہ دو مہینہ تک بیعت نہ کی اورحضرت علیؓ اور عثمانؓ سے جا کر کہا کہ آپ لوگوں نے غیروں کی خلافت کس طرح ٹھنڈے دل سے قبول کرلی، حضرت ابوبکرؓ نے تو کوئی باز پرس نہیں کی ؛ لیکن حضرت عمرؓ بہت برہم ہوئے، [9] مگر پھر خالدؓ نے دو مہینے کے بعد حضرت ابوبکرؓ کے حسن اخلاق سے متاثر ہوکر بیعت کرلی۔ حضرت ابوبکرؓ کے عہدِ خلافت میں فتنہ ارتداد کی روک تھام میں بڑی سرگرمی سے حصہ لیا، مشہور مرتد عمروبن معد یکرب زبیدی کو جو اسود عنسی کے حلقہ میں تھا، زخمی کیا اوراس کی تلوار اورگھوڑا چھین لیا، مگر وہ بچ کر بھاگ گیا، [10] فتنہ ارتداد فروہونے کے بعد شام کی فوج کشی کے سلسلہ میں حضرت ابوبکرؓ نے ان کو فوج کے ایک حصہ کا سپہ سالار بنایا؛ لیکن حضرت عمرؓ نے اختلاف کیا جس شخص نے بیعت میں لیت ولعل کی ہو وہ ہر گز اعتماد کے لائق نہیں، پھر وہ کوئی ایسے نبرد آزما بھی نہیں کہ فوجی ذمہ داری ان کے سپرد کی جائے، حضرت ابوبکرؓ پہلے متردد ہوئے ؛لیکن آخری میں حضرت عمرؓ کے اصرار سے مجبور ہو گئے، تاہم معزول نہیں کیا، لیکن سپہ سالاری کے عہدہ سے تنزل کرکے تیماء کی امدادی فوج کے دستہ کا امیر بنادیا اور ان کی جگہ پر یزید بن ابی سفیان کا تقرر کیا اور خالدؓ کو یہ ہدایتیں دے کر تیماء روانہ کیا کہ راستہ میں ان مسلمانوں کو جو پہلے ارتداد کی شورش میں نہ شریک ہوئے ہوں ساتھ لے لینا اوربغیر میرا حکم ملے ہوئے خود حملہ کی ابتدا نہ کرنا، رومیوں کو خبر ہوئی تو انھوں نے بہت سے عربی قبائل کو لے کر مختلف اطراف میں چھاپے مارنا شروع کردیے، خالدؓ نے دربار خلافت میں اطلاع بھیجی، وہاں سے مقابلہ کا حکم آیا، لیکن خالدؓ کے بڑہتے بڑہتے رومی منتشر ہو گئے اور عربی قبائل جو ان کے ساتھ ہو گئے تھے، پھر اسلام لے آئے، خالدؓ نے دوبارہ اطلاع بھیجی، آپ نے حکم دیا کہ ابھی پیش قدمی جاری رکھو، مگر اس طرح کہ دشمن عقب سے حملہ نہ کرسکیں اس حکم کے مطابق یہ آگے بڑے، باہان رومی مقابلہ کو نکلا، لیکن شکست کھائی، انھوں نے اس کی اطلاع دربار خلافت میں بھیجی، نیز مزید امدادی فوج طلب کی۔ [11] اسی دوران میں عام لشکر کشی ہوئی، عکرمہ ذوالکلاع اور ولید خالد کی مدد کے لیے بھیجے گئے، ان کے پہنچتے ہی خالدؓ رومیوں کے مقابلہ میں نکلے، باہان بطریق رومی اپنی فوج کو دمشق کی طرف ہٹالیے گیا، لیکن یہ برابر بڑہتے ہوئے چلے گئے اور دمشق دواقوصہ کے درمیان میں خیمہ زن ہوئے، باہان کا مسلح دستہ تاک میں لگا ہوا تھا، اس نے ہر چہار طرف سے ناکہ بندی کردی اورخود حملہ کرنے کے لیے بڑھا، راستہ میں خالدؓ کے صاحبزادہ سعید ملے ان کو گھیر کر شہید کر دیا، خالدؓ بن سعید کو خبر ہوئی تو وہ ایسے سراسمیہ ہوئے کہ پیشقدمی روک کر پیچھے ہٹ آئے اور عکرمہؓ نے ہوشیاری کے ساتھ باہان کو ان کے تعاقب سے روک دیا اور خالدؓ ذوالمروہ میں آکر مقیم ہو گئے، پھر کچھ دنوں کے بعد مدینہ گئے، حضرت ابوبکرؓ نے ان کی کمزوری پر مناسب تنبیہ کی اور فرمایا واقعی عمرؓ اور علیؓ ان کا زیادہ تجربہ رکھتے تھے، کاش !میں نے ان کے مشورہ پر عمل کیا ہوتا، [12] اس کے بعد برابر لڑائیوں میں شریک ہوتے رہے اور گذشتہ کمزوری کی تلافی میں بڑے جوش سے لڑتے تھے، چنانچہ فحل، دمشق وغیرہ میں بڑی جانبازی دکھائی۔
شہادت
ترمیمفحل کی مہم کے بعد اسلامی فوج نے مرج صفر کا رخ کیا، اسی درمیان میں خالدؓ نے ام حکیم سے عقد کر لیا اور مرج صفر پہنچ کر بیوی سے ملنے کا قصد کیا، بیوی نے کہا اس معرکہ کے بعد اطمینان سے ملنا زیادہ بہتر ہے، انھوں نے جواب دیا میرا دل کہتا ہے کہ اس لڑائی میں جان بحق پیوں گا، غرض مرج صفر ہی میں بیوی سے ملاقات کی اور صبح کو احباب کی دعوت کی، ابھی لوگ کھانے سے فارغ بھی نہ ہوئے تھے کہ رومی میدان میں آگئے، ایک رومی نے مبارز طلبی کی، خالدؓ مقابلہ کے لیے نکلے اورنکلتے ہی شہید ہو گئے، ان کی عروس کا یہ سبق آموز واقعہ قابل ذکر ہے کہ جزع فزع اورسوگ نشینی کی بجائے شوہر کے خون کے انتقام کے لیے اُٹھ کھڑی ہوئی اور مردوں کے دوش بدوش لڑکر سات رومیوں کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا۔ [13]
اولاد
ترمیمخالد بن سعید کے امیمہ یاہمینہ بنت خلف کے بطن سے دو اولادیں ہوئیں، سعید اور امہ یا ام خالد، سعید خالد کی زندگی میں شہید ہو گئے تھے امہ حضرت زبیرؓ بن عوام سے بیاہی تھیں۔ خاتم نبوی ﷺ خالدؓ کی انگوٹھی کا نقش بھی محمد ﷺ تھا، یہ انگوٹھی آنحضرت ﷺ نے ان سے لے لی تھی، جو ہمیشہ آپ کے ہاتھ میں رہی۔ [14]
فضل و کمال
ترمیمعرب کے عام دستور کے خلاف ان کو لکھنے پڑہنے میں مہارت حاصل تھی ؛چنانچہ یمن والوں کو جو امان نامہ آنحضرت ﷺ نے دیا تھا، اس کی کتابت ان ہی نے کی تھی۔ [15]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ (اصابہ:6/132)
- ↑ (مستدرک حاکم:3/248)
- ↑ "معلومات عن خالد بن سعيد على موقع viaf.org"۔ viaf.org۔ 17 سبتمبر 2016 میں اصل سے آرکائیو شدہ
- ↑ (طبقات ابن سعد، جز4، قسم1:68، واستیعاب:1/155)
- ↑ (اسدالغابہ:2/91)
- ↑ (استیعاب:1/154)
- ↑ (ابن سعد، جز4، ق1:72)
- ↑ (استیعاب:1/155)
- ↑ (طبری:2079)
- ↑ (ابن اثیر:2/288)
- ↑ (طبری:4/2079، 2081 وابن اثیر:2/208)
- ↑ (طبری:2084تا2086)
- ↑ (فتوح البلدان بلاذری:125، تفصیل ابن سعد سے ماخوذ ہے)
- ↑ (استیعاب:1/155)
- ↑ (ابوداؤد :2/25)