دولت موحدین
موحدین شمالی افریقہ میں بربر نسل کے مسلمانوں کی سلطنت تھی۔اس کے بانی کا نام محمد بن تومرت تھا، یہ مغرب کے قبائل کے فرد تھے۔ بغدادکا سفر کیا اور وہاں سے تحصیل علم کیا۔
ابن تومرت
ترمیممکمل مضمون کے لیے محمد بن تومرت
اس خاندان کے بانی محمد بن تومرت تھے جو کوہ اطلس کے ایک بربر قبیلے کے رکن تھے۔ وہ ایک پیش امام کے صاحبزادے تھے۔
محمد ابن تومرت بہت بڑے عالم دین تھے۔ وہ عہد سلجوقی کے مشہور عالم امام غزالی کے شاگرد تھے اور انہی کی تحریک پر انھوں نے مغرب (یعنی مراکش) میں اپنی اصلاحی تحریک شروع کی۔
اس تحریک کا مقصد سماجی و اخلاقی اصلاح تھا۔ وہ جہاں کہیں شریعت کے خلاف کوئی حرکت دیکھتے تو اس پر ٹوکتے۔ انھوں نے مسلمانوں میں پھیلنے والی شراب نوشی اور بے پردگی سمیت دیگر برائیوں کے خاتمے کے لیے بھرپور جدوجہد شروع کی۔
ان کی ہر دلعزیزی اور مقبولیت دیکھ کر مرابطین کی حکومت کو خطرہ پیدا ہوا اور ان کو مراکش سے جلا وطن کر دیا۔ وہ دوسرے شہر اغمات آ گئے لیکن یہاں سے بھی انھیں جلا وطن کر دیا گیا۔ اب وہ اپنے وطن ہرغہ چلے گئے جو کوہ اطلس میں واقع تھا۔ یہاں کے لوگوں نے ہزاروں کی تعداد میں ان کی دعوت کی دعوت قبول کی۔ انھوں نے فوجی تربیت بھی حاصل کی اور مذہبی تعلیم بھی۔ اب مرابطین کی فوج یہاں بھی آگئی اور بستی کا محاصرہ کر لیا لیکن اب ابن تومرت کے ساتھی، جن کو موحدین کہا جاتا ہے، مقابلہ کرنے کے قابل ہو گئے تھے اس لیے بڑی سخت لڑائی ہوئی اور سرکاری فوج کو شکست ہوئی۔
اس کے بعد موحدین اور مرابطین میں لڑائیوں کا سلسلہ کئی سال تک جاری رہا۔ 524ھ میں ابن تومرت کا انتقال ہو گیا اور ان کے ایک ساتھی عبد المومن کو جماعت موحدین کا امیر منتخب کر لیا گیا۔
عبد المومن
ترمیممکمل مضمون کے لیے عبدالمومن
عبد المومن کے زمانے میں موحدین نے بڑی قوت حاصل کی انھوں نے 1147ء میں مراکش پر قبضہ کرکے مرابطین کی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔ اس کے بعد عبد المومن نے ایک فوج اندلس بھیجی جس نے مرابطین کی حکومت وہاں سے بھی ختم کردی۔ اب عبد المومن نے مشرق کا رخ کیا اور طرابلس تک اپنی سلطنت کو وسعت دے دی۔ اس زمانے میں طرابلس، تیونس اور مہدیہ (جو اس وقت افریقیا کہلاتا تھا) پر نارمن مسیحی قوم قابض تھی۔ لیکن جس طرح مشرق میں نور الدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی نے مسیحی حکومت کا خاتمہ کیا اسی طرح عبد المومن نے تیونس اور طرابلس فتح کرکے مغرب میں مسیحی اقتدار کا خاتمہ کر دیا۔ مرابطین اور موحدین کی لڑائیوں کے زمانے میں اندلس میں مسیحی پھر زور پکڑ گئے تھے۔ عبد المومن نے اندلس میں بھی ان کی پیش قدمی روکی۔
عبد المومن نور الدین زنگی کا ہمعصر تھا اور اس کا مسلمانوں پر اتنا ہی احسان ہے جتنا نور الدین اور اس کے جانشین صلاح الدین کا ہے۔ عبد المومن نے جتنی وسیع حکومت قائم کی اتنی بڑی حکومت شمالی افریقہ کے کسی مسلمان نے اب تک قائم نہیں کی تھی اور نہ اس کے بعد پھر اتنی بڑی حکومت قائم ہوئی۔
عبد المومن تاریخ اسلام کا بہت بڑا حکمران ہے۔ وہ ایک معمولی انسان تھا اس نے اپنی قابلیت سے ایک عظیم الشان سلطنت کی بنیاد ڈالی۔ وہ شریعت کا بڑا پابند تھا اور اس نے اس کی کوشش کی کہ قرآن اور سنت کے مطابق حکومت کی جائے۔ وہ علم و فن کا بھی بڑا سرپرست تھا اور اس دور کے مشہور فلسفی ابن طفیل (متوفی 1185ء) اور اس عہد کے سب سے بڑے طبیب عبدالملک ابن زہر اس کے دربار سے وابستہ تھے۔
یوسف بن عبد المومن
ترمیمعبد المومن کے بعد موحدین کی جماعت نے اس کے بیٹے یوسف کو امیر منتخب کیا۔ یوسف نے 22 سال تک بڑی قابلیت سے حکومت کی۔ اندلس کے شہر اشبیلیہ کو بڑی ترقی کی۔ یوسف اموی خلیفہ الحکم کی طرح علم و ادب کا شوقین تھا۔ اس نے مراکش میں جو کتب خانہ قائم کیا تھا اس میں چار لاکھ کتابیں تھیں۔
یعقوب المنصور
ترمیممکمل مضمون کے لیے ابو یوسف یعقوب المنصور
موحدین میں سب سے مشہور حکمران یوسف کا بیٹا یعقوب المنصور تھا۔ یعقوب کو سب سے زیادہ شہرت اس فتح کی وجہ سے ملی جو اس نے شمالی اندلس کے مسیحی حکمران الفانسو پر جنگ ارک میں حاصل کی۔
یعقوب کی زندگی عام بادشاہوں کی طرح نہیں تھی بلکہ وہ سادہ زندگی گذارتا، معمولی کپڑے پہنچا، پانچوں وقت کی نماز عام مسلمانوں کے ساتھ مسجد میں ادا کرتا تھا۔ وہ ایک انصاف پسند حکمران تھا۔
یعقوب کو عمارتیں بنانے کا بھی بہت شوق تھا۔ اس کے عہد میں ایسی عمارتیں بنائی گئیں کہ اس کی نظیر شمالی افریقہ کی تاریخ میں اس سے پہلے نہیں ملتی۔ ان میں سب سے شاندار عمارت مراکش کی جامع کتبیہ ہے۔ اس مسجد کا مینار 69 میٹر (221 فٹ) بلند ہے۔
یعقوب نے اشبیلیہ کی مسجد میں بھی مینار کا اضافہ کیا۔ یہ مینار آج کل جیرالڈا کہلاتا ہے۔ اس کی بلند بھی تقریباً 320 فٹ ہے اور یہ دنیا کے خوبصورت ترین میناروں میں شمار ہوتا ہے۔
امیر یعقوب سلطان صلاح الدین ایوبی کا ہمعصر تھا اور اس زمانے میں ساری دنیا میں سوائے سلطان صلاح الدین کے کوئی اور حکمران ان خوبیوں میں اس کا مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔
یہ اچھا حکمران 595ھ میں 15 سال حکومت کرنے کے بعد اپنے خدا سے جا ملا۔ اس وقت اس کی عمر صرف 40 سال تھی۔
دور زوال کے حکمران
ترمیمیعقوب کے بعد اس کا بیٹا محمد الناصر تخت پر بیٹھا۔ اس کا عہد بھی بڑی خوش حالی کا زمانہ تھا لیکن اس کو 609ھ میں اندلس میں معرکہ العقاب میں مسیحیوں کے مقابلے میں ایسی شکست ہوئی کہ موحدین کا زور ٹوٹ گیا۔ اگلے سال الناصر کا انتقال ہو گیا اور اس کے بعد موحدین کا زوال شروع ہو گیا۔ 1237ء میں بلنسیہ میں اور 1248ء میں اشبیلیہ پر مسیحیوں کا قبضہ ہو گیا۔ اندلس کا بڑا حصہ مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گیا۔ خود مراکش میں 667ھ میں خاندان بنو مرین نے موحدین کی حکومت کا خاتمہ کر دیا۔
خلفائے موحدین
ترمیمنام | مدتِ خلافت |
---|---|
عبد المومن | 1145-1163 |
ابو یعقوب یوسف اول | 1163–1184 |
یعقوب المنصور | 1184-1199 |
محمد ناصر | 1199-1213 |
ابو یعقوب یوسف ثانی | 1213-1224 |
عبد الواحد اول | 1224 |
عبداللہ العادل | 1224-1227 |
یحییٰ المعتصم | 1227–1235 |
ادریس اول | 1227–1232 |
عبدالواحد ثانی | 1232–1242 |
ابو الحسن السید المتعدید | 1242–1248 |
ابو حفص عمر المرتضی | 1248-1266 |
ادریس الوثیق | 1266–1269 |
مزید دیکھیے
ترمیمویکی ذخائر پر دولت موحدین سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |