سلجوقی سلطنت

مسلمان حکمران کی بادشاہت
(سلجوقی سے رجوع مکرر)

سلجوقی سلطنت یا سلاجقۂ عظام [ا]11ویں تا 14ویں صدی عیسوی کے درمیان میں مشرق وسطی اور وسط ایشیا میں قائم ایک مسلم بادشاہت تھی جو نسلا اوغوز ترک تھے۔ مسلم تاریخ میں اسے بہت اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہ دولت عباسیہ کے خاتمے کے بعد عالم اسلام کو ایک مرکز پر جمع کرنے والی آخری سلطنت تھی۔ اس کی سرحدیں ایک جانب چین سے لے کر بحیرۂ متوسط اور دوسری جانب عدن سے لے کر خوارزم و بخارا تک پھیلی ہوئی تھیں۔ ان کا عہد تاریخ اسلام کا آخری عہد زریں کہلا سکتا ہے اسی لیے سلاجقہ کو مسلم تاریخ میں خاص درجہ و مقام حاصل ہے۔ سلجوقیوں کے زوال کے ساتھ امت مسلمہ میں جس سیاسی انتشار کا آغاز ہوا اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اہلیان یورپ نے مسلمانوں پر صلیبی جنگیں مسلط کیں اور عالم اسلام کے قلب میں مقدس ترین مقام (بیت المقدس) پر قبضہ کر لیا۔

سلجوقی سلطنت

سلاجقۂ عظام
Büyük Selçuklu İmparatorluğu
آلِ سلجوق
Āl-e Saljuq
1037–1194
پرچم سلطنت سلجوق
ملک شاہ اول کی موت کے وقت 1092 میں سلجوقی سلطنت اپنے دورِ عروج میں
ملک شاہ اول کی موت کے وقت
1092 میں سلجوقی سلطنت اپنے دورِ عروج میں
دار الحکومت
عمومی زبانیں
مذہب
اسلام (حنفی)
حکومتدرحقیقت: آزاد سلطان
ازروئے قانون: ماتحت خلافت[6]
خلافت 
• 1031–1075
القائم بامر اللہ
• 1180–1225
الناصر لدین اللہ
سلجوق خاندان 
• 1037–1063
طغرل بیگ (پہلا)
• 1174–1194
طغرل سوم (آخری)[7]
تاریخ 
• 
1037
1040
1071
1095–1099
1141
• 
1194
رقبہ
1080 est.[8][9]3,900,000 کلومیٹر2 (1,500,000 مربع میل)
ماقبل
مابعد
ریاستِ اوغوز یابگو
سلطنت غزنونیہ
آل بویہ
بازنطینی سلطنت
آل کاکویہ
دولت فاطمیہ
خانان قاراخانی
سلاجقہ روم
اناطولوی سرداری ریاستیں
غوری خاندان
سلطنت خوارزمیہ
آذر بائیجان کے اتابق
اتابقانِ فارس
آلِ باوند
ایوبی سلطنت
اتابقانِ دمشق
سلطنتِ زنگی
آلِ دانشمند
آلِ آرتق
شاہانِ ارمن
ریاستِ شدادیہ

طغرل بیگ اور چغری بیگ

ترمیم

طغرل بے سلجوق کا پوتا تھا جبکہ چغری بیگ اس کا بھائی تھا جن کی زیر قیادت سلجوقیوں نے غزنوی سلطنت سے علیحدگی اختیار کرنے کی کوشش کی۔ ابتدا میں سلجوقیوں کو محمود غزنوی کے ہاتھوں شکست ہوئی اور وہ خوارزم تک محدود ہو گئے لیکن طغرل اورچغری کی زیرقیادت انھوں نے 1028ء اور 1029ء میں مرو اور نیشاپور پر قبضہ کر لیا۔ ان کے جانشینوں نے خراسان اور بلخ میں مزید علاقے فتح کیے اور 1037ء میں غزنی پر حملہ کیا۔ 1039ء میں جنگ دندانیقان میں انھوں نے غزنوی سلطنت کے بادشاہ مسعود اول کو شکست دے دی اور مسعود سلطنت کے تمام مغربی حصے سلجوقیوں کے ہاتھوں گنوا بیٹھا۔ 1055ء میں طغرل نے بنی بویہ کی شیعہ سلطنت سے بغداد چھین لیا۔

الپ ارسلان

ترمیم

مکمل مضمون کے لیے دیکھیے الپ ارسلان

فائل:Seljuks-005.png
سلجوقی سلطنت اپنے عروج کے زمانے میں

الپ ارسلان اپنے چچا طغرل بیگ کے بعد سلجوقی سلطنت کے تخت پر بیٹھا اور اس نے 1064ء میں آرمینیا اور جارجیا کو سلطنت میں شامل کر لیا۔ وہ ایک بہت بیدار مغز اور بہادر حکمران تھا ۔ مشہور مدبر نظام الملک طوسی کو اپنے باپ چغری بیگ کی سفارش پر وزیر سلطنت مقرر کیا۔ اس کے عہد میں سلجوقی سلطنت کی حدود بہت وسیع ہوئیں۔ پہلے ہرات اور ماوراء النہر کو اپنی قلمرو میں شامل کیا۔ پھر فاطمی حکمران کو شکست دے کر مکہ اور مدینہ کو اپنی قلمر و میں شامل کیا۔ اس سے اسلامی دنیا میں سلجوقیوں کا اثر و اقتدار بڑھ گیا۔ بازنطنیوں نے حملہ کیا تو 26 اگست 1071ء کو ملازکرد کے مقام پر ان کو عبرتناک شکست دی۔ اور قیصر روم رومانوس چہارم کو گرفتار کر لیا۔ قیصر روم نے نہ صرف تاوان جنگ ادا کیا اور خراج دینے پر رضامند ہوا۔ بلکہ اپنی بیٹی سلطان کے بیٹے سے بیاہ دی اور آرمینیا اور جارجیا کے علاقے اس کو دے دیے ۔ خوارزمی ترکوں کے خلاف ایک مہم میں قیدی بناکر لائے گئے خوارزمی گورنر یوسف الخوارزمی کی تلوار سے شدید زخمی ہوا اور 4 دن بعد 25 نومبر 1072ء کو محض 42 سال کی عمر میں انتقال کرگیا ۔ الپ ارسلان کو مرو میں ان کے والد چغری بیگ کی قبر کے برابر میں دفن کیا گیا۔

ملک شاہ

ترمیم

مکمل مضمون کے لیے دیکھیے ملک شاہ اول

الپ ارسلان کے جانشیں ملک شاہ اول اور ان کے دو ایرانی وزراء نظام الملک اور تاج الملک کی زیر قیادت سلجوق سلطنت اپنے عروج پر پہنچ گئی جس کی مشرقی سرحدیں چین اور مغربی سرحدیں بازنطینی سلطنت سے جاملی تھیں۔ ملک شاہ نے دار الحکومت رے سے اصفہان منتقل کر دیا۔ اس دوران میں نظام الملک نے بغداد میں جامعہ نظامیہ قائم کی۔ ملک شاہ کے دور حکمرانی کو سلجوقیوں کا سنہرا دور کہا جاتا ہے۔ 1087ء میں عباسی خلیفہ نے ملک شاہ کو "سلطان مشرق و مغرب" کا خطاب کیا۔ ملک شاہ کے دور میں ہی ایران میں حسن بن صباح نے زور پکڑا جس کے فدائین نے نے کئی معروف شخصیات کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔

سلطنت کی تقسیم

ترمیم
فائل:Seljuks-007.png
سلجوقی سلطنت ما بعد تقسیم

1092ء میں ملک شاہ اول کی وفات کے بعد اس کے بھائیوں اور 4 بیٹوں کے درمیان میں اختلافات کے باعث سلطنت تقسیم ہو گئی۔ اناطولیہ میں قلج ارسلان اول ملک شاہ اول کا جانشیں مقرر ہوا جس نے سلطنت سلاجقہ روم کی بنیاد رکھی۔ شام میں اس کا بھائی توتش اول حکمران بنا جبکہ ایران میں اس کے بیٹے محمود اول نے بادشاہت قائم جس کی اپنے تین بھائیوں عراق میں برکیاروق، بغداد میں محمد اول اور خراسان میں احمد سنجر سے تصادم ہوتا رہا۔

توتش اول کی وفات کے بعد اس کے بیٹوں رضوان اور دوقق کو بالترتیب حلب اور دمشق میں وراثت میں ملا اور ان دونوں کی نااتفاقی کے باعث شام کئی حصوں میں تقسیم ہو گیا جن پر مختلف امرا کی حکومتیں تھیں۔

1118ء میں احمد سنجر نے سلطنت پر قبضہ کر لیا۔ اس کے بھتیجے اور محمد اول کے بیٹے محمود ثانی نے اس کو تسلیم نہیں کیا اور بغداد میں دار الحکومت قائم کرتے ہوئے اپنے سلطان ہونے کا اعلان کر دیا تاہم 1131ء میں بالآخر احمد سنجر نے اسے ہٹادیا۔

صلیبی جنگیں

ترمیم

مکمل مضمون کے لیے دیکھیے صلیبی جنگیں

سلجوقی سلطنت کے سیاسی زوال کے آغاز اور ملک بھر میں پھیلی خانہ جنگی اور طوائف الملوکی سے مسلم امہ کو ایک پرچم تلے اکٹھا کرنے والی آخری قوت کا بھی خاتمہ ہونے لگا تو اہلیان یورپ نے اس کو بھرپور موقع جانا اور بیت المقدس کو مسلمانوں سے واپس لینے کی دیرینہ خواہش کو عملی جامہ پہنانے کا آغاز کیا۔ اس طرح اُن صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا جو کم و بیش 200 سال مسلمانوں پر مسلط رہیں۔ ان جنگوں کے آغاز پر یورپ سے بیت المقدس کے راستے میں عیسائیوں کا سب سے اولین ٹکراؤ اناطولیہ سلجوقی مسلمانوں کی حکومت سلاجقۂ روم سے ہوا۔ عیسائیوں نے پہلی صلیبی جنگ میں بیت المقدس پر قبضہ کر لیا تھا جبکہ اس جنگ سے قبل ہی سلجوق فاطمیوں کے ہاتھوں فلسطین گنواچکے تھے۔ صلیبیوں اور منگولوں کے حملے سے سلجوقیوں کی رہی سہی طاقت بھی ختم ہوکر رہ گئی اور بالآخر 1260ء کی دہائی میں منگولوں کی اناطولیہ پر چڑھائی کے ساتھ آخری سلجوق سلطنت (سلاجقہ روم) کا بھی خاتمہ ہو گیا۔


مزید برآں، 1071ء میں سلجوقیوں نے مغربی سمت میں بازنطینیوں پر فتح حاصل کرکے اپنی سلطنت وسیع کرلی۔ سلجوق سلطان ملک شاہ ﴿دور:1072۔1092ء﴾ نے فرغانہ، شمال مغربی ترکستان، کاشغر اور ختن میں قاراخانیوں پر اپنی حکمرانی مسلط کردی۔ اپنے وزیر نظام الملک کے زیر اثر، سلجوقیوں نے بغداد اور پورے وسطی ایشیا میں مذہبی اسکولوں ﴿مدارس﴾ کی تعمیر کروائی۔ ہر چند کہ مدارس کا سلسلہ پہلے پہل شمال مشرقی ایران میں نویں صدی عیسوی کے دوران رونما ہوا تھا، جو خالصتاً دینی مطالعات کے لیے وقف تھے، مگر یہ نئے مدارس سلجوقیوں کے لیے ایک شہری دفتر شاہی ﴿کا وسیلہ﴾ مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ اسلام کی گہری فہم پیدا کرنے کی تربیت بھی دیتے تھے۔ مذہب کی طرف سلجوقیوں کا رویہ نہایت حقیقت پسندانہ تھا۔

اناطولیہ کو ترکیائی آباد کاری کے لیے کھولنے کے بعد، سلجوقیوں نے فلسطین پر بھی تسلط قائم کرنا چاہا۔ بازنطینیوں نے 1096ء میں پوپ اربن دوم سے اپیل کی، جس نے مغربی اور مشرقی روم سلطنتوں کو متحد کرنے اور ﴿غیر عیسائی﴾ اور بے دینوں سے ارض مقدس کو پھر سے جیتنے کی خاطر، پہلی صلیبی جنگ کا اعلان کیا۔ بہر حال، کسی بھی طرح سلجوقی مسیحی مخالف نہیں تھے۔ مثال کے طور پر انھوں نے وسطی ایشیا سے نسطوری عیسائیت کا صفایا نہیں کیا۔



آفتاب

سلجوقی سلاطین 1037ء تا 1157ء

ترمیم
خطاب نام دور حکومت
بیگ طغرل 1016–1063
سلطان
جلال الدولہ
ملک شاہ اول 1072–1092
سلطان الپ ارسلان 1063–1072
سلطان
ناصر الدنیا والدین
محمود بن ملک شاہ 1092–1094
سلطان
أبو المظفر رکن الدنیا والدین
برکیاروق 1094–1105
سلطان
معز الدین
ملک شاہ دوئم 1105
سلطان
غیاث الدنیا والدین
محمد تپار 1105–1118
سلطان
معز الدین
*احمد سنجر 1118–1153
خوارزم شاہی سلطنت نے 1157ء سے سلجوقی سلطنت کے بیشتر اکثر حصے پر قبضہ کر لیا اور اغوز ترکیوں نے خراسان پر قبضہ کر لیا-

سلجوقی سلاطین کرمان 1041ء تا 1187ء

ترمیم

کرمان جنوبی فارس کی ایک سلطنت تھی جو 1187ء میں طغرل سوم کے ہاتھوں ختم ہو گئی۔

  • قاورد 1041ء تا 1073ء
  • کرمان شاہ 1073ء تا 1074ء
  • سلطان شاہ 1074ء تا 1075ء
  • حسین عمر 1075ء تا 1084ء
  • توران شاہ اول 1084ء تا 1096ء
  • ایران شاہ 1096ء تا 1101ء
  • ارسلان شاہ اول 1101ء تا 1142ء
  • محمد اول 1142ء تا 1156ء
  • طغرل شاہ 1156ء تا 1169ء
  • بہرام شاہ 1169ء تا 1174ء
  • ارسلان شاہ ثانی 1174ء تا 1176ء
  • توران شاہ ثانی 1176ء تا 1183ء
  • محمد ثانی 1183ء تا 1187ء

سلجوق سلاطین شام 1076ء تا 1117ء

ترمیم
  • ابو سعید تاج الدولہ توتش اول 1085ء تا 1086ء
  • جلال الدولہ ملک شاہ اول 1086ء تا 1087ء
  • قاسم الدولہ ابو سعید 1087ء تا 1094ء
  • ابو سعید تاج الدولہ توتش اول (دوسری مرتبہ) 1094ء تا 1095ء
  • فخر الملک ردوان 1095ء تا 1113ء
  • تاج الدولہ الپ ارسلان الاخرس 1113ء تا 1114ء
  • سلطان شاہ 1114ء تا 1123ء

سلاطین و امیران دمشق

ترمیم
  • عزیز ابن اباق الخوارزمی 1076ء تا 1079ء
  • ابو سعید تاج الدولہ تاج الدولہ توتش اول 1079ء تا 1095ء
  • ابو نصر شمس الملک دوقق 1095ء تا 1104ء
  • توتش ثانی 1104ء
  • محی الدین بقتش 1104ء

اطابقین حلب

ترمیم

سلاطین سلاجقہ روم (اناطولیہ) 1077ء تا 1307ء

ترمیم
  • قلتمش 1060ء تا 1077ء
  • سلیمان ابن قلتمش 1077ءتا 1086ء
  • داؤد قلج ارسلان اول 1092ء تا 1107ء
  • ملک شاہ 1107ء تا 1116ء
  • رکن الدین مسعود 1116ء تا 1156ء
  • عز الدین قلج ارسلان ثآنی 1156ء تا 1192ء
  • غیاث الدین کے خسرو اول 1192ء تا 1196ء
  • سلیمان ثانی 1196ء تا 1204ء
  • قلج ارسلان سوم 1204ء تا 1205ء
  • غیاث الدین کے خسرو اول (دوسری مرتبہ) 1205ء تا 1211ء
  • عز الدین کیقاس اول 1211ء تا 1220ء
  • علاؤ الدین کیقباد اول 1220ء تا 1237ء
  • غیاث الدین کے خسرو دوم 1237ء تا 1246ء
  • عز الدین کیقاس ثانی 1246ء تا 1260ء
  • رکن الدین قلج ارسلان ثانی 1249ء تا 1257ء
  • غیاث الدین کے خسرو ثانی (دوسری مرتبہ ) 1257ء تا 1259ء
  • غیاث الدین کے خسرو سوم 1265ء تا 1282ء
  • غیاث الدین مسعود ثانی 1282ء تا 1284ء
  • علاؤ الدین کیقباد سوم 1284ء
  • غیاث الدین مسعود ثانی (دوسری مرتبہ) 1284ء تا 1293ء
  • علاؤ الدین کیقباد سوم (دوسری مرتبہ) 1293ء تا 1294ء
  • غیاث الدین مسعود ثانی (تیسری مرتبہ) 1294ء تا 1301ء
  • علاؤ الدین کیقباد سوم (تیسری مرتبہ) 1301ء تا 1303ء
  • غیاث الدین مسعود ثانی (چوتھی مرتبہ) 1303ء تا 1307ء
  • غیاث الدین مسعودسوم 1307ء

مزید دیکھیے

ترمیم

حواشی

ترمیم
  1. سلاجقہ، سلجوق کی جمع ہے۔جبکہ عظام کا مطلب عظیم ہے۔یعنی سادہ زبان میں عظیم سلجوق کہا جائے گا۔اسے یہ نام سلاجقۂ روم سے فرق کرنے کے لئے دیا گیا ہے۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب R. M. Savory، مدیر (1976)۔ Introduction to Islamic Civilisation۔ Cambridge University Press۔ صفحہ: 82۔ ISBN 978-0-521-20777-5 
  2. Edwin Black (2004)۔ Banking on Baghdad: Inside Iraq's 7,000-year History of War, Profit and Conflict۔ John Wiley and Sons۔ صفحہ: 38۔ ISBN 978-0-471-67186-2 
  3. ^ ا ب پ C.E. Bosworth, "Turkish Expansion towards the west" in UNESCO History of Humanity، Volume IV, titled "From the Seventh to the Sixteenth Century"، UNESCO Publishing / Routledge, p. 391: "While the Arabic language retained its primacy in such spheres as law, theology and science, the culture of the Seljuk court and secular literature within the sultanate became largely Persianized; this is seen in the early adoption of Persian epic names by the Seljuk rulers (Qubād, Kay Khusraw and so on) and in the use of Persian as a literary language (Turkish must have been essentially a vehicle for everyday speech at this time)۔"
  4. Stokes 2008, p. 615.
  5. Concise Encyclopedia of Languages of the World، Ed. Keith Brown, Sarah Ogilvie, (Elsevier Ltd.، 2009)، 1110; "Oghuz Turkic is first represented by Old Anatolian Turkish which was a subordinate written medium until the end of the Seljuk rule."
  6. Peter M. Holt (1984)۔ "Some Observations on the 'Abbāsid Caliphate of Cairo"۔ Bulletin of the School of Oriental and African Studies۔ University of London۔ 47 (3): 501–507۔ ISSN 0041-977X۔ doi:10.1017/s0041977x00113710 
  7. Grousset, Rene, The Empire of the Steppes، (New Brunswick: Rutgers University Press, 1988)، 167.
  8. Peter Turchin، Jonathan M. Adams، Thomas D. Hall (دسمبر 2006)۔ "East-West Orientation of Historical Empires"۔ Journal of World-systems Research۔ 12 (2): 223۔ ISSN 1076-156X۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 ستمبر 2016 
  9. Rein Taagepera (ستمبر 1997)۔ "Expansion and Contraction Patterns of Large Polities: Context for Russia"۔ International Studies Quarterly۔ 41 (3): 496۔ JSTOR 2600793۔ doi:10.1111/0020-8833.00053 
  10. Rene Grousset (1988)۔ The Empire of the Steppes۔ New Brunswick: Rutgers University Press۔ صفحہ: 159, 161۔ ISBN 978-0-8135-0627-2۔ In 1194, Togrul III would succumb to the onslaught of the Khwarizmian Turks, who were destined at last to succeed the Seljuks to the empire of the Middle East.