خوشامد بھرے پیامات (انگریزی: Appeal to flattery) اس غلط طرز عمل کو کہا جاتا ہے جس میں ایک شخص خوشامد اور حد سے زیادہ ستائش کو بہ روئے کار لاتے ہوئے یہ کوشش کی جاتی ہے کہ حاضرین کے دلی جذبات یا خیالات کو مقصد براری کا حربہ بنایا جائے۔ خوشامد آمیز اپیلیں ایک مخصوص طرز کی جذباتی اپیل ہے۔

خوشامد کا اکثر استعمال کسی خیال یا تجویز کے اصل مقصد کی پردہ داری ہے۔ تعریف یا مدح سرائی اکثر عارضی طور شخصی فیصلہ سازی پر منفی انداز میں اثر انداز ہوتی ہے۔ تاہم یہ عام طور سے چالاک انداز میں نتائج پر مرکوز اپیل ہے، چونکہ حاضرین خوشامد کے مرحلوں سے تب تک گزرتے ہیں جب تک کہ وہ خوشامدی لفاظی سے متاثر ہوتے ہیں۔

سیاسی میدان میں خوشامد بھرے پیامات ترمیم

2019ء میں بھارت کے پارلیمان کے ریریں ایوان لوک سبھا کے انتخابی مرحلوں کے آغاز سے پہلے اسی سال اپریل میں 200 سے زائد بھارتی قلم کاروں نے ایک دستخط شدہ درخواست عوام الناس کے آگے پیش کی کہ وہ آنے والے انتخابات میں نفرت کی سیاست کو ووٹ نہ دیں اور "مختلف النوع اور مساوی بھارت" کو ووٹ دیں۔ ان حضرات میں گیریش کرناڈ، اروندھتی رائے، امیتاو گھوش، باما، نینتارا سہگل، ویویک شانبھاگ، جیت تھاییل، کے ستیانندن اور رومیلا تھاپر شامل تھے۔ اس اپیل کے پس پردہ 2014ء سے بھارت کے مختلف گوشوں میں رونما ہونے والے ایسے واقعات تھے جن میں کئی ہجومی قتل دیکھے گئے (مثلًا دادری کا واقعہ، دیماپور کا واقعہ، نعمان اختر کا قتل، وغیرہ) یا پھر فرقے اور ذات کی بنیاد پر تشدد (جیسے ہوچنگی پرساد کا واقعہ) دیکھا گیا یا پھر علاقائی منافرت جو نفرت پر مبنی سیاست سے نکلتی ہے اور جسے حکمران جماعت فروغ دیتی ہے۔ اس طرح کا ماحول جس سے سماج کے حصے کی دلجوئی اور خوشامد کی جاتی ہے دوسرے کچھ گوشوں خوف کا ماحول طاری کیا جاتا ہے۔ اس ماحول میں کئی مصنفین (جیسے گووند پانسرے)، فنکار (جیسے کہ شاہ رخ خان اور عامر خان)، فلمساز (جیسے کہ سنجے لیلا بھنسالی)، موسیقار اور کئی ثقافتی شخصیات کو ڈرایا، دھمکایا جاتا رہا ہے اور ان کے کاموں کو سخت تنقیدی نگاہوں سے دیکھا گیا ہے۔ اس سلسلے میں غداری کے الزامات بھی بڑھے ہیں (جیسے کہ کنہیار کمار پر عائد ہوئے) تاکہ آزادانہ اظہار خیال کو روکا جا سکے اور حکومت کے ناقدین کو دھمکایا جا سکے۔[1]

پاکستان کی سیاست میں، جس میں آمریت کو بڑا دخل رہا ہے، خوشامد کئی بار دیکھی گئی ہے۔ ایوب خان کے دور حکومت میں قدرت اللہ شہاب انھیں بادشاہ کہتے تھے تو پیر علی محمد راشدی فرزندِ ریحانہ سے بادشاہت کے باقاعدہ اعلان کا مطالبہ کرتے تھے۔[2]

حوالہ جات ترمیم