راس بہاری بوس

ہندوستانی تحریک آزادی کی شخصیت

راس بہاری بوس audio speaker iconتلفظ (انگریزی: Rash Behari Bose، بنگالی= রাসবিহারী বসু)، (پیدائش: 25 مئی، 1886ء - وفات: 21 جنوری، 1945ء) ہندوستان کے مشہور و معروف انقلابی لیڈر، تحریک آزادی ہند کے رہنما، آزاد ہند فوج اور غدر بغاوت کے آرگنائزر تھے۔ انھوں نے آزاد ہند فوج کی ذمہ داری سبھاش چندر بوس کے حوالے کی تھی۔

راس بہاری بوس
(بنگالی میں: রাসবিহারী বসু)[1]  ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش 25 مئی 1886ء [2]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
بردھامن ،  بنگال پریزیڈنسی   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 21 جنوری 1945ء (59 سال)[3][2]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
توکیو ،  سلطنت جاپان   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند
جاپان (1923–)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ سیاست دان ،  انقلابی ،  حریت پسند   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان جاپانی ،  بنگلہ [4]،  انگریزی   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
تحریک تحریک آزادی ہند   ویکی ڈیٹا پر (P135) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
اعزازات
 آرڈر آف دی رائزنگ سن   ویکی ڈیٹا پر (P166) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

حالات زندگی

ترمیم

راس بہاری بوس 25 مئی 1886ء کو بردھامن، بنگال پریزیڈنسی میں پیدا ہوئے۔ دہرہ دون میں جنگلاتی تحقیقی ادارے میں جونیئر افسر تھے۔ انقلابی پارٹی میں شامل ہو گئے اور اس پارٹی کی تنظیمی سرگرمیوں میں نمایاں حصہ لیا۔ اترپردیش، دہلی اور پنجاب میں اس کے دفاتر قائم کرنے کی ذمہ داری سنبھالی۔ ان ریاستوں میں برطانوی حکومت کے خلاف خفیہ سرگرمیاں جاری رکھنے کے لیے مختلف مقامات پر مراکز قائم کیے اور بہت سے بہادر اور قابل آدمیوں کو اپنی پارٹی میں شامل کر کے رفیق کار بنایا۔ جیسے کرتار سنگھ سرابھا، بسنت کمار بسواس، وشنو گنیش پنگلے، ماسٹر امیر چند، اودھ بہاری، بھائی بال مکند، دامودر سروپ، کنور پرتاب سنگھ، سچندر ناتھ سانیال اور ونایک راؤکپلے وغیرہ نے زیادہ شہرت حاصل کی۔ راس بہاری نے وائسرائے لارڈ چارلس ہارڈنگ پر اس وقت بم پھینکنے کا منصوبہ بنایا جبکہ وہ 23 دسمبر 1912ء کو شاہانہ جلوس کے ساتھ دہلی کے چاندنی چوک سے گذر رہے تھے۔ راس بہاری اپنے منصوبے کی عمل درآمد کے بعد دہرہ دون اپنے کام پر واپس آ گئے۔[5] وہ ممکنہ گرفتاری کے خوف سے دہرہ دون چھوڑ کر روپوش ہو گئے اور وارانسی میں ایک خفیہ مقام سے اپنی پارٹی کی سرگرمیوں کی رہنمائی کرتے رہے۔ غدر پارٹی کے اراکین کے ساتھ مل کر پورے شمالی ہندوستان میں ایک ساتھ بغاوت کی آگ بھڑکانے کا منصوبہ بنایا۔ غدر پارٹی کے یہ انقلابی اس مقصد کے لیے ریاستہائے متحدہ امریکا سے ہندوستان واپس آ گئے تھے۔ اس پارٹی کے تقریباً چار ہزار ارکان اور برطانوی ہندوستانی سپاہیوں کی کچھ رجمنٹیں اس بغاوت میں حصہ لینے والی تھیں۔ شمالی ہند کی چھاؤنیوں میں ہندوستانی سپاہیوں سے علاقہ قائم کر کے انھیں بغاوت میں شامل ہو جانے کی ترغیب دی گئی تھی۔ منصوبہ یہ تھا کہ ہر جگہ تار رسانی کے سلسلے کاٹ دیے جائیں اور برطانوی سپاہیوں پر جو اس زمانہ میں مقابلتاً تعداد میں کم تھے، غلبہ حاصل کر لیا جائے۔ مگر افسوس پولیس کے ایک مخبر نے اس منصوبہ پر عملدرآمد ہونے سے پہلے مخبری کر دی جو اس غدر پارٹی میں گھس آیا تھا، یوں تمام منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ برطانوی حکومت نے فوراً ہی تمام مشتبہ رجمنٹوں کو ہٹا دیا اور بڑی تعداد میں لوگوں کو گرفتار کر لیا۔راس بہاری بچ کر نکلنے میں کامیاب ہو گئے لیکن ان کے رفیقِ خاص وشنو گنیش پنگلے 23 مارچ 1915ء کو میرٹھ میں گرفتار کر لیے گئے، لاہور سازش مقدمہ کی سماعت کے نتیجے میں 28 آدمیوں کو پھانسی کی سزا دی گئی اور بڑی تعداد میں لوگوں کو عمر بھر کے لیے کالا پانی کی طویل مدت کی سزا دی گئی۔ قریب قریب 1915ء میں راس بہاری ہندوستان کو خیر باد کہہ کر جاپان پہنچ گئے، مگر وہاں بھٰ برطانوی حکومت کے گرفتار کر لینے یا ملک بدر کرنے کے خطرے سے بچنے کے لیے وہ روپوش رہے۔ ٹوکیو کے ایک ممتاز جاپانی شہری مسٹر توئے ما، مسٹر سوما اور کچھ دوسرے جاپانی دوستوں کی مدد کی وجہ سے جاپانی پولیس کے ہاتھوں گرفتاری سے بچے رہے۔ اسی دوران 6 مسافروں کی گرفتاری کے لیے جاپان کے مسافر بردار بحری جہاز کے حملے نے برطانیہ کے خلاف جاپانی عوام کے جذبات بھڑکا دیے۔ اس کے بعد جاپانی حکومت نے ان کے خلاف ملک بدری کا حکم واپس لے لیا اور اپریل 1916ء میں جاپان میں ان کے آزادی سے رہنے کا اعلان کر دیا گیا۔ وہاں انھوں نے اپنے ایک دوست مسٹر آیزوسوما کی صاحبزادی مس توسیکوسوما سے شادی کر کے جاپانی شہریت حاصل کرلی اور متعدد رسائل و پمفلٹ کے ذریعہ ہندوستان کی آزادی کا پرچار کرتے رہے۔ مارچ 1942ء میں جنوب مشرقی ایشیا کے ملکوں میں رہنے والے ہندوستانیوں کی ایک کانفرنس منعقد کی،[6] اس کانفرنس میں تھائی لینڈ میں انڈین انڈیپنڈنس لیگ قائم کرنے کا فیصلہ کیا۔ جون 1942ء میں انھوں نے بنکاک میں اس لیگ کی پہلی کانفرنس کی صدارت کی اور لیگ کے صدر دفتر کا افتتاح کیا۔ سبھاش چندر بوس کو جو اس وقت جرمنی میں تھے، بلانے اور جوب مشرقی ایشیا میں بسنے والے ہندوستانیوں کی رہنمائی کرنے کے لیے دعوت دینے کی تجویز پیش کی۔ راس بہاری 1942ء میں برطانوی ہندوستانی فوج کے پکڑے ہوئے ایک فوجی افسر کپتان موہن سنگھکے زیرِ کمان آزاد ہند فوج بنانے کی غرض سے مجلس عمل کے صدر منتخب ہوئے۔ 1943ء میں انھوں نے آزاد ہند فوج کی قیادت سبھاش چندر بوس کے سپرد کر دی۔ پھر جاپان واپس آئے اور 21 جنوری 1945ء کو ٹوکیو میں وفات پا کیے۔[7]

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب https://theprint.in/theprint-essential/rash-behari-bose-the-indian-freedom-fighter-japan-remembers-as-its-beloved-chef/62722/
  2. ^ ا ب ایس این اے سی آرک آئی ڈی: https://snaccooperative.org/ark:/99166/w6s282xm — بنام: Rash Behari Bose — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  3. مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہ — عنوان : اوپن ڈیٹا پلیٹ فارم — بی این ایف - آئی ڈی: https://catalogue.bnf.fr/ark:/12148/cb13556825g — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  4. مصنف: فرانس کا قومی کتب خانہhttp://data.bnf.fr/ark:/12148/cb13556825g — اخذ شدہ بتاریخ: 10 اکتوبر 2015 — اجازت نامہ: آزاد اجازت نامہ
  5. شہیدانِ آزادی (جلد دوم)، چیف ایڈیٹر: ڈاکٹر پی این چوپڑہ، قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی، 1998ء، ص 68
  6. شہیدانِ آزادی (جلد دوم)، ص 69
  7. شہیدانِ آزادی (جلد دوم)، ص 70