زبیر علی زئی

محدث، عالم اور مفتی

حافظ زبیر علی زئی (ولادت:25 جون 1957ء 26 ذو القعدہ 1376ھ- وفات: 10 نومبر 2013ء 5 محرم 1435ھ) دورِ حاضر کے عظیم محدث، مجتہد، مفتی اور غیور ناقد تھے۔[1][2] آپ وسیع النظر، وسیع المطالعہ اور کثیر الحافظہ تھے۔ حدیث، اصول حدیث، رجال اور اخبار و انساب کے امام تھے۔

زبیر علی زئی
 

معلومات شخصیت
پیدائش 25 جون 1957ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
حضرو   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 10 نومبر 2013ء (56 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
راولپنڈی   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن پیرداد   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت پاکستان   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مذہب اسلام
فرقہ سنی
فقہی مسلک سلفی
تعداد اولاد
عملی زندگی
مادر علمی جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ
وفاق المدارس السلفیہ
جامعہ پنجاب   ویکی ڈیٹا پر (P69) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ محدث ،  رجال شناس ،  عالم ،  مصنف   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
پیشہ ورانہ زبان عربی ،  اردو   ویکی ڈیٹا پر (P1412) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
ویب سائٹ
ویب سائٹ باضابطہ ویب سائٹ  ویکی ڈیٹا پر (P856) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

[3]حافظ زبیر علی زئی نسب نامہ

ابو طاہر و ابو معاذ محمد زبیر عرف حافظ زبیر علی زئی بن مجدد خان بن دوست محمد خان بن جہانگیر خان بن امیر خان بن شہباز خان بن کرم خان بن گل محمد خان بن پیر محمد خان بن آزاد خان بن اللہ داد خان بن عمر خان بن خواجہ محمد خان علی زئی افغانی (پٹھان) پاکستانی۔[4][5]

تعلیم و تربیت

حافظ زبیر علی زئی نے 3 سے 4 ماہ میں قرآن مجید حفظ کیا۔ آپ نے جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ سے سند فراغت حاصل کی وفاق المدارس السلفیہ سے شہادۃ العالمیہ کی سند بھی حاصل کی۔ نیز آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے اسلامیات اور عربی میں ایم اے بھی کیا تھا۔ آپ اپنی مادری زبان ہندکو کے ساتھ ساتھ کئی ایک زبانوں پردسترس رکھتے تھے۔ جن میں عربی، اردو، پشتو، انگریزی، یونانی، فارسی اور پنجابی زبان شامل ہیں۔

آپ کو علم الرجال سے بڑی دلچسبی تھی چنانچہ ایک پر اپنے بارے میں خود لکھا: ”راقم الحروف کو علم اسمائے الرجال سے بڑا لگاؤ ہے۔“ [6]

اساتذہ

حافظ زبیر علی زئی نے جن اساتذہ سے علم حاصل کیا ان کے نام درج ذیل ہیں:

محب اللہ شاہ راشدی

وہ اپنے استاد کے بارے میں لکھتے ہیں ”استاد محترم مولانا ابو محب اللہ شاہ الراشدی سے میری پہلی ملاقات ان کی لائبریری مکتبہ راشدیہ میں ہوئی تھی میرے ساتھ کچھ اور بھی طالب علم تھے۔

اسی طرح ایک اور جگہ لکھتے ہیں، ”اگر مجھے رکن و مقام (ابراہیم) کے درمیان میں کھڑا کر کے قسم دی جائے تو یہی کہوں گا میں شیخ محب اللہ شاہ راشدی سے زیادہ نیک، عابد، زاہد افضل اور شیخ بدیع الدین سے زیادہ عالم و فقہی انسان کوئی نہیں دیکھا۔“[7]

بدیع الدین شاہ راشدی

شاہ صاحب سے تعلق تلمذ کا ذکر کرتے ہوئے حافظ زبیر علی زئی نے لکھا کہ ”راقم الحروف کو بھی ان سے شرف تلمذ حاصل ہے۔“

اسی طرح ایک مقام پر شیخ محب اللہ شاہ راشدی اور شیخ بدیع الدین راشدی کے حوالہ سے کچھ یوں لکھا: ”آپ انتہائی خشوع وخضوع اور سکون و اطمینان کے ساتھ نماز پڑھاتے تھے اس کا اثر یہ ہوتا تھا کہ ہمیں آپ کے پیچھے نماز پڑھنے میں انتہائی سکون و اطمینان حاصل ہوتا تھا، گویا یہ سمجھ لیں کے آپ کی ہر نماز آخری نماز ہوتی تھی، یہی سکون و اطمینان ہیں شیخ العرب والعجم مولانا بدیع الدین شاہ راشدی کے پیچھے نماز پڑھنے میں حاصل ہوتا تھا۔”[8]

اسی طرح ایک جگہ کچھ یوں لکھا ”راقم الحروف سے آپ کا رویہ شفقت سے بھرپور تھا ایک دفعہ آپ ایک پروگرام کے سلسلہ میں راولپنڈی تشریف لائے تو کافی دیر تک مجھے سینے سے لگائے رکھا۔[9]

اللہ دتہ سوہدروی

زبیر علی زئی نے ان کے بارء میں لکھا ”جن شیوخ سے میں نے بہت زیادہ استفادہ کیا ان میں حاجی اللہ دتہ سوہدروی صاحب سرفہرست ہیں۔“[10] جن کا تعلق سوہدرہ سے تھا۔

فیض الرحمٰن الثوری

حافظ زبیر علی زئی ان کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ”راقم الحروف کو آپ سے استفادہ کا موقع استاد محترم شیخ ابو محمد بدیع الدین شاہ راشدی کے مکتبہ راشدیہ نیو سعید آباد میں ملا۔ آپ نے سند حدیث اور اس کی اجازت اپنے دستخط کے ساتھ 13 صفر 1408ھ کو مرحمت فرمائی آپ مولانا اور وہ سید نذیر حسین دہلوی سے روایت کرتے ہیں۔” [11]

عطاء اللہ حنیف بھوجیانی

عطاء اللہ حنیف بھوجیانی اہل حدیث کے علما میں سے ایک نامور عالم دین تھے آپ کی متعدد تصانیف ہیں جن میں ایک سنن نسائی کی عربی شرح التعلیقات السلفیہ ہے۔

حافظ عبد المنان نورپوری

حافظ عبد المنان نورپوری عالم باعمل شخصیت تھے علم بحرزفار تھے آپ کی کتب میں ارشاد القاری الی نقد فیض الباری مراۃ البخاری مقالات نورپوری اور احکام ومسائل جیسی بلند پایہ کتب ہیں۔

حافظ عبد السلام بھٹوی

آپ جماعت کے جید علما میں سے ہیں آپ کی مختلف کتب میں سے ایک معروف کتاب تفسیر دعوۃ القرآن ہے۔

عبد الحمید ازہر

آپ کی سکونت راولپنڈی شہر میں تھی۔ حافظ زبیر علی زئی ان کو بھی اپنا استاد مانتے تھے اور وقتًا فوقتًا ان سے محتلف موضوعات میں رہنمائی کے لیے رجوع فرماتے رہتے تھے۔

تلامذہ

پورے ملک سے کثیر طلبہ نے آپ سے استفادہ اور کسب فیض کیا ہے۔ چند ایک کے نام درج ذیل ہیں۔

  1. حافظ ندیم ظہیر
  2. حافظ شیر محمد
  3. شیخ تنویر الحق ہزاروی
  4. شیخ غلام مصطفٰی ظہیر امن پوری

5. ابو احمد فرحان الٰہی 6. ابو احمد وقاص زبیر

تصانیف

 
درسِ سنن ابی داؤد – 2012ء میں
 
مسجد نبوی میں - آخری آمد کے دوران
 
زبیر علی زئی کے ہاتھ کی لکھائی – (سنن ابی داؤد کی آخری حدیث)
زبیر علی زئی کی آواز

شیخ زبیر کی اردو اور عربی زبان میں متعدد علمی و تحقیقی تصانیف ہیں جن میں سے چند ایک کے نام درج ذیل ہیں۔[12]

  • انوار السنن فی تحقیق آثار السنن
  • انوار الصحیفہ فی الاحادیث الضعیفہ من السنن الاربعہ
  • الفتح المبین فی تحقیق طبقات المدلسین
  • تحفة الاقویاء فی تحقیق کتاب الضعفاء
  • تحقیقی اصلاحی اور علمی مقالات (6 جلدیں)
  • فتاوٰی علمیۃ (المعروف توضیح الکلام 3 جلدیں)
  • نمازمیں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام
  • نور العینین فی اثبات رفع الیدین (یہ کتاب انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتی ہے یہی وجہ ہے کہ اس کتاب کے مطالعہ سے بڑی تعداد نے اس سنت متواترہ کو اپنی نماز کی زینت بنا لیا ہے۔)
  • ہدیۃ المسلمین فی جمع الاربعین من صلاۃ خاتم النبیین ﷺ - نماز کی صحیح اور مستند چالیس حدیثیں
  • نمازِ نبوی - صحیح احادیث کی روشنی میں
  • تحقیق و شرح شمائل ترمذی
  • صحیح بخاری کا دفاع
  • صحیح بخاری پر اعتراضات کا علمی جائزہ
  • مسئلۃ فاتحہ خلف الامام
  • نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام
  • اہلِ حدیث ایک صفاتی نام
  • جزء رفع الیدین
  • نصر الباری فی تحقیق جزء القراءۃ للبخاری
  • نبی کریم ﷺ کے لیل و نہار
  • القول المتین فی الجہر بالتامین
  • تحقیق و ترجمہ اختصار علوم الحدیث
  • الاتحاف الباسم تحقیق و شرح موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم
  • تحقیق و شرح اضواء المصابیح (2 جلدیں)
  • . تحقیق و شرح کتاب الاربعین لابن تیمیہ
  • تحقيقي وإصلاحي و علمي مقالات
  • الاتحاف الباسم في تحقيق موطأ الإمام مالك رواية عبد الرحمن القاسم
  • أنوار الصحيفة في الأحاديث الضعيفة من السنن الأربعة
  • مجلة الحديث الشهرية، مدير : حافظ زبير علي زئي
  • مقالات الحديث
  • أضواء المصابيح في تحقيق مشكاة المصابيح
  • محمد إسحاق بهٹي گلستان حديث (أردو)

اس کے علاوہ اور بھی کتب ہیں نیز کتب احادیث پرتحقیق و تخریج کا کام بھی کیا۔

تصنیفی خدمات کے علاوہ آپ نے ابطال باطل کے لیے مناظرے بھی کیے ہیں بلکہ مناظروں کے لیے دور دراز کا سفر بھی کیا ہے۔

کلمات ثناء و خصائص نبیلہ

علم حدیث کے ممتاز ماہر اور فن اسماء رجال کے شہ سوار تھے۔ بڑے متقی اور عابد، زاہد انسان تھے۔ علم وعمل کے آفتاب تھے۔ حق صداقت کی علامت تھے۔ جس مسئلہ کا حق ہونا ان پر واضح ہوجاتا اس پر مضبوطی سے ڈٹ جاتے اور دنیا کی طاقت انھیں اپنے موقف سے نہیں ہٹا سکتی تھی۔ اور اس معاملہ میں کسی لومۃ لائم کی پروا نہ کرتے تھے۔

احادیث کی صحت وسقم کے بارہ میں شیخ صاحب کی تحقیقات بہت وسیع تھیں اور وہ ان کی یہ عادت تھی کہ حدیث پرحکم لگانے سے پہلے اس حدیث کی پوری تحقیق فرمایا کرتے تھے اوراگراس سلسلہ میں ان سے کوئی غلطی سرزد ہوجاتی اور جب انھیں احساس ہوتا تو وہ علانیہ اپنی غلطی سے رجوع فرماتے تھے۔ اور یہ ان کی بہت بڑی خوبی تھی جو خال خال لوگوں میں ہی نظر آتی ہے۔ موجودہ دور میں گمراہ فرقے ثقہ وثبت رواۃ حدیث کو اپنی نفسیاتی خوہشات کی وجہ سے ضعیف باور کرانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں ایسے باطل فرقوں کے خلاف موصوف کا قلم فوری حرکت میں آجایا کرتا تھا۔ شیخ کی تحریر انتہائی سلیس عام فہم اردو پر مشتمل ہوا کرتی تھی اور انداز ایسا جو نتہائی اختصار اور جامع مانع ہو۔ طوالت اور اطناب آپ کی تحریر میں نظر نہیں آتا۔ محتصر مگر جامع۔ دوران مطالعہ اگر کوئی علمی نکتہ نظر آ جاتا تو اس کو اپنی ذات تک محدود نہیں رکھتے تھے بلکہ ماہنامہ الحدیث میں ایک شزرے کے طور پر شائع کرکے تمام قارئین کے لیے عام کردیتے تھے۔ حافظ زبیر علی زئی اتنہائی سادہ لوح، بے تکلف ہنس مکھ اور نرم دل ونرم مزاج آدمی تھے۔ شیخ زبیر علی زئی کا انداز تدریس بھی ممتاز تھا مسئلہ کی تفہیم اس آسانی سے فرماتے کہ طلاب علم بآسانی سمجھ جاتے تھے۔

جماعت اہل حدیث کے ممتاز علما کرام نے ان کی شان میں تعریفی کلمات کہے ہیں۔ بلاشبہ عظیم محدث علم کے پہاڑ علم اسماءالرجال کے ماہر اور انتہائی پاکیزہ صفت محقق تھے۔

وفات

جماعت اہل حدیث کے ممتاز عالم دین محقق شہر جامع صفات النبیلہ حافظ زبیر علی زئی کو اپنی آخری عمر میں فالج کا حملہ ہوا۔ تقریبًا ڈیڑھ ماہ تک اسپتال میں زیر علاج رہے۔ اور پھر بروز اتوار 5 محرم الحرام 1435 ہجری بمطابق 10 نومبر 2013ء کو اس دنیا سے رخصت ہو کر خالق حقیقی سے جا ملے۔ شیخ کا نماز جنازہ ان کے آبائی گاؤں میں حافظ عبدالحمید ازہر نے پڑھایا۔ نماز جنازہ میں علما، طلبہ سمیت کثیر تعداد میں ملک بھر سے لوگوں نے شرکت کی۔ تقریبًا 10 ہزار سے زائد افراد آپ کے جنازہ میں شریک تھے۔[حوالہ درکار]

حوالہ جات

  1. "محدث العصر حافظ زبیر علی زئی مرحوم کی چند یادیں اور الحدیث کا آپ کی حیات و خدمات پرخصوصی شمارہ"۔ Nawaiwaqt۔ 17 جولائی 2020 
  2. "A Special Magazine on the life of Zubair Ali Zai"۔ AlHadithHazro۔ 17 جولائی 2020 
  3. "حافظ زبیر علی زئی رحمتہ اللہ علیہ" 
  4. https://ishaatulhadith.com/books/pdf/Noor-ul-Enain-Rafa-ul-Yadain/#13
  5. "حافظ زبیر علی زئی رحمتہ اللہ علیہ" 
  6. https://ishaatulhadith.com/books/pdf/Maqalat-1/#498
  7. https://ishaatulhadith.com/books/pdf/Maqalat-1/#505
  8. https://ishaatulhadith.com/books/pdf/Maqalat-1/#494
  9. https://ishaatulhadith.com/books/pdf/Maqalat-1/#492
  10. https://ishaatulhadith.com/books/pdf/Maqalat-1/#509
  11. https://ishaatulhadith.com/books/pdf/Maqalat-1/#508
  12. "محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ کی کتابیں اور مضامین"