زینب بنت کمال
ام عبد اللہ زینب بنت کمال الدین احمد بن عبد الرحیم سعدیہ جماعیلیہ صالحیہ مقدسیہ دمشقیہ، اہل سنت والجماعت کی مشہور خاتون عالمہ اور محدثہ ہیں، حنبلی مذہب کی پیروکار تھیں۔ مشہور علمی، دینی، سیاسی اور عسکری خاندان سے تعلق رکھتی تھیں۔ بچپن ہی سے طلب علم کا شوق تھا، علما سے ملاقات، ان سے علم حاصل کرنا اور اس کے لیے سفر کرنا شروع کر دیا تھا، یہاں تک کہ علم حدیث میں ان کے زمانے کے کبار محدثین میں شمار ہونے لگا تھا، دور دور سے تلامذہ ان کے پاس آتے تھے، ان کے تلامذہ میں سے بے شمار مشہور اور کبار علما پیدا ہوئے۔ شادی نہیں کی تھیں اس لیے انھیں "عذراء" کے لقب سے پکارا جاتا ہے، کافی لمبی عمر تقریباً 94 سال کی عمر پائی۔[2]
زینب بنت کمال | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1248ء [1] دمشق |
وفات | سنہ 1339ء (90–91 سال)[1] دمشق |
مدفن | صالحیہ، دمشق |
شہریت | ایوبی سلطنت سلطنت مملوک |
مذہب | اسلام |
فرقہ | اہل سنت |
فقہی مسلک | حنبلی |
عملی زندگی | |
استاذہ | ابن عبد الدائم ، مجد الدین بن تیمیہ |
تلمیذ خاص | ذہبی ، ابن بطوطہ ، تاج الدین السبکی ، علم الدین البرزالی ، صلاح الدین صفدی ، یوسف بن عبد الرحمن المزی |
پیشہ | عالمہ |
درستی - ترمیم |
نام و نسب
ترمیمنام:' زینب بنت کمال الدین ابو العباس احمد بن کمال الدین عبد الرحیم بن عبد الواحد بن احمد بن عبد الرحمن بن اسماعیل بن منصور سعدیہ جماعیلیہ صالحیہ مقدسیہ دمشقیہ۔ کنیت: شادی شدہ اور اولاد نہ ہونے کے باوجود ان کی دو کنیتین تھیں، (1) ام عبد اللہ۔ (2) ام محمد۔[3]
خاندان
ترمیممقدسی حنبلی خاندان "جماعیل" سے تعلق رکھتی تھیں، ان کا اصل بیت المقدس تھا۔ یہ خاندان قدس سے صلیبیوں کے قبضہ کے بعد دمشق کے علاقہ صالحیہ میں مقیم ہو گیا تھا، دمشق میں بھی یہ علمی خاندان خوب پھلا پھولا، سینکڑوں مرد وعورت علما اس خاندان سے نکلے، سب سے مشہور عالم ابن قدامہ ہیں، ان کی وجہ سے اس خاندان کو "آل قدامہ" بھی کہا جاتا ہے۔ اس خاندان کے بہت سے علمی، دینی اور ایوبی اور مملوکی عہد میں سیاسی اور عسکری کارنامے اور خدمات ہیں، اس خاندان کو حنبلی علما کی کثرت کی وجہ سے حنبلی مذہب کا ستون کہا جاتا ہے، تقریباً 700 سالوں تک اس خاندان کے سینکڑوں علما نے خدمات انجام دی ہے۔[4][5]
زینب کی خاندان میں سینکڑوں علما و فقہا تھے، ان کے دادا کے بھائی ضیاء الدین مقدسی بڑے عالم اور حنبلی فقیہ تھے، ان کے دادا کے دوسرے بھائی شمس الدین احمد بن عبد الواحد بخاری بھی بڑے عالم تھے، ان کے دادا کمال الدین عبد الرحیم بن عبد الواحد بھی جید عالم تھے، ان کے دادا کے چچا زاد بھائی عبد الرحمن بن ابراہیم فقیہ تھے، ان کے والد کے چچا زاد بھائی فخر الدین علی بن احمد عالم تھے، ان کے والد کے پھوپھو زاد بھائی سیف الدین ابن المجد عالم تھے، ان کے چچا شمس الدین محمد بن عبد الرحیم جو "ابن الکمال" نام سے مشہور ہیں بڑے عالم تھے، ان کی پھوپی فاطمہ بنت بنت عبد الرحیم بھی عالمہ تھیں، ان کے والد کمال الدین احمد بن عبد الرحیم بڑے عالم، فقیہ اور امام تھے، ان کے بہنوئی محب الدین سعدی مقدسی بھی عالم تھے، ان کے بہن کے دونوں بیٹے احمد اور محمد بھی عالم تھے۔[6][7][8]
ولادت و حالات زندگی
ترمیمسنہ 646 ہجری مطابق 1248 عیسوی میں دمشق میں پیدا ہوئیں، علما و فقہا سے بھرے خاندان میں پرورش ہوئی، جب ان کی عمر صرف 2 سال ہوئی سنہ 658ء میں ان کے والدین نے انھیں حبیبہ بنت ابی عمر کی خدمت میں تربیت و تعلیم کے لیے بھیج دیا، جیسے جیسے ان کی عمر پختہ ہوتی گئی علمی نشو و نما ہوتی رہی، بے شمار علما اور محدثین سے علم حاصل کیا۔[9][10]
اساتذہ اور طلبِ حدیث
ترمیم- محمد بن عبد الہادی مقدسی
- عبد الحمید بن عبد الہادی مقدسی
- خطیب مردا
- سبط ابن الجوزی (ابن جوزی کے پوتے)
- ابراہیم بن خلیل
- ابن عبد الدائم
- ابو الفہم یلدانی
طلب علم کے لیے بہت سے ممالک کا سفر کیا اور وہاں کے اساتذہ و محدثین کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا اور اجازت حدیث حاصل کی۔ دمشق سے ماردین، بغداد، حلب، حران، اسکندریہ اور قاہرہ کا سفر کیا۔
ماردین میں عبد الخالق بن انجب نشتبری کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا اور اور اجازت حدیث حاصل کی، حلب میں یوسف بن خلیل سے اجازت حاصل کی، حران میں عیسی بن سلامہ سے اجازت حاصل کی، اسکندریہ میں ابو القاسم سبط السلفی سے اجازت حاصل کی، قاہرہ میں محمد بن الخت، حافظ المنذری اور ابو القاسم بن نمیرہ سے اجازت حدیث حاصل کی۔
بغداد میں کئی علما و محدثین کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیا جن میں: ابراہیم بن محمود بن الخیر، ابو نصر بن علیق، محمد بن المثنی، عجیبہ بنت ابی بکر باقداریہ، ابن جعید بن سعدی، یحیی بن نمیرہ، ابو جعفر محمد سندی، مبارک ابن الخواص، محمد بن ہنی، محمد بن نصر ابن الحصری، محمد بن علی ابن بقاء، ابن سباک، فضل اللہ بن عبد الرزاق جیلی، علی بن عبد العزیز بن اخضر، علی بن عبد اللطیف ابن الخیمی، محمد بن علی بن ابو سہل، صالح ابن السبتی اور یحیی بن یوسف صرصری ہیں، ان تمام نے اجازت حدیث دی۔ اسی طرح دمشق میں رشید احمد بن مسلم اور ابو علی بکری نے اجازت حدیث دی۔[3][9][10]
اس کے علاوہ زینب، بلا کی ذہین اور قوی حافظہ کی مالک تھیں، سینکڑوں کتابیں اور اجزا یاد کیا کرتی تھیں،انھیں پہلے یاد کرتی، ان کے اساتذہ اور شیوخ سے اعلی سندوں کے ساتھ حاصل کرتی، ان کے پاس پڑھتی، پھر ان اساتذہ اور شیوخ سے اجازت حاصل کرتی۔ ان کتابوں کی فہرست بہت طویل ہے۔[11][11]
تلامذہ
ترمیمزینب کے علم و تفقہ کا شہرہ چہار جانب پھیل گیا اور وہ اپنے زمانے میں شام کی سند بن گئیں، ہر جگہ سے ان کے پاس تلامذہ اور طالبین علم آتے، چھوٹے بڑے ہر طرح کے تلامذہ کی سینکڑوں ہزاروں کی تعداد میں ان کے پاس بھیڑ رہا کرتی تھی۔ مشہور مایہ ناز تلامذہ میں سے:
- شمس الدین ذہبی
- تاج الدین سبکی
- علم الدین برزالی
- جمال الدین مزی
- ابن رافع
- صلاح الدین صفدی
- محمد بن الموفق احمد بن عبد المجید مرداوی
- ابراہیم کتانی
- عبد الرحمن بن احمد ذہبی
- شمس الملوک بنت ناصر
- صلاح عبد القادر بن ابراہیم
ان کے علاوہ ابن رافع، محمد بن الوانی، سروجی، ذہلی، تنسی، ابن السفاقسی اور ابن الکویک ہیں، اکثر زینب کے پاس طویل عرصہ تک رہے، خوب استفادہ کیا اور اس کے بعد ان کے علوم کو منتقل اور عام کیا۔[11][12][13]
سیرت
ترمیمان کے شاگرد ذہبی کہتے ہیں: «شام کی سند، نیک، متواضع، خود دار اور نرم اور محبت خوگر خاتون تھیں» ان کے ایک اور شاگرد ابن رافع کہتے ہیں: «انتہائی نیک وصالح، روزہ ونماز کی بہت پابند اور کتابوں کی خوگر تھیں» ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں: ان کی وفات پر لوگوں نے علم حدیث کو اٹھایا ہوا محسوس کیا» سنہ 726ھ میں مشہور سیاح ابن بطوطہ نے دمشق کی جامع اموی میں درس دیتے ہوئے دیکھا، اسے انھوں نے اجازت بھی دی، اس نے ان کے بارے میں لکھا ہے: «نیک و صالح خاتون تھیں» بچپن میں زینت دھول اور خاک کی وجہ سے کور چشم ہو گیا تھا، کمزوری کی وجہ سے کئی سالوں تک صاحب فراش ہو گئی تھیں اور پوری زندگی غیر شادی شدہ رہیں۔[3][10][14][15][16][17][18]
ان کے ایک شاگرد علم الدین برزالی نے ایک کتاب لکھی ہے، جس میں ان کی عالی اسناد احادیث کو جمع کر دیا ہے، اس کتاب کا نام "الاحادیث الموافقات العوالی للحافظہ زینب بنت کمال المقدسیہ" ہے، یہ کتاب سنہ 2006ء میں شائع ہوئی ہے۔[19]
وفات
ترمیمزینب کی وفات دوشنبہ کی رات، 19 جمادی الاولی سنہ 740ھ مطابق 22 نومبر 1339ء کو صالحیہ، دمشق میں ہوئی، اس وقت ان کی عمر تقریباً 94 سال تھی، دوشنبہ کے دن جامع حنابلہ میں ظہر کے بعد ان کی نماز جنازہ پڑھی گئی اور ان کے خاندانی مقدسی مقبرہ "تربۃ ابن قدامہ" میں مدفون ہوئیں، ان کی نماز جنازہ میں ایک جم غفیر شریک تھا اور اس میں چاروں مسالک فقہ کے قاضی اور علما بھی حاضر تھے۔[3][14]
حوالہ جات
ترمیم- ^ ا ب http://thesaurus.cerl.org/record/cnp01285987 — اخذ شدہ بتاریخ: 2 اگست 2018
- ↑ الأعلام للزركلي، ج 3، ص 65.
- ^ ا ب پ ت الوفيات لابن رافع، ج 1، ص 315-316-317-318.
- ↑ تعريف بأسرة المقادسة - مركز بيت المقدس للدراسات التوثيقية آرکائیو شدہ 16 فروری 2017 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ "آل قدامة - الموسوعة الفلسطينية"۔ 22 جون 2015 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 ستمبر 2020
- ↑ كتاب فضائل الأعمال، ص 35-36-37.
- ↑ كتاب الدرر الكامنة في أعيان المئة الثامنة، (1/419).
- ↑ كتاب الرد الوافر، (1/47).
- ^ ا ب كتاب الخامس من معجم الشيخة مريم، (1/19).
- ^ ا ب پ الدرر الكامنة في أعيان المئة الثامنة، ج 2، ص 248.
- ^ ا ب پ كتاب أعلام النساء لعمر كحالة، ج 2، ص 46-47-48-49-50.
- ↑ من العالمات العازبات: الشيخة زينب بنت أحمد المقدسية - شبكة الآلوكة آرکائیو شدہ 25 اپریل 2017 بذریعہ وے بیک مشین
- ↑ أعيان العصر وآعوان النصر، ج 2، ص 390.
- ^ ا ب تاريخ الإسلام، ج 53، ص 468-469.
- ↑ معجم الشيوخ الكبير، ج 1، ص 248
- ↑ العبر في خبر من غبر، ج 4، ص 117.
- ↑ سير أعلام النبلاء، ج 23، ص 307.
- ↑ رحلة ابن بطوطة، ج 1، ص 83.
- ↑ "الأحاديث الموافقات العوالي للحافظة زينب بنت كمال المقدسية - مكتبة رفي"۔ 09 جنوری 2020 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 17 ستمبر 2020