سریبرینیتسا قتل عام جسے سریبرینیتسا نسل کشی کہا جاتا ہے [7][8][9][10][11][12] ((بوسنیائی: Genocid u Srebrenici)‏)، جولائی 1995ء میں سرب افواج نے ایک ہی دن میں 8,000 سے زیادہ[1][13][14][15][16] مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا، جن میں بڑی تعداد مردوں اور لڑکوں کی شامل تھی۔ سریبرینیتسا (Srebrenica تلفظ: [srɛbrɛnitsa] ) بوسنیا و ہرزیگووینا کا ایک شہر ہے۔ یہ شہر بوسنیا و ہرزیگووینا کے علاقے سرپسکا میں شامل ہے جو قدرے آزاد ہے۔ سرپسکا سرب اکثریتی علاقہ ہے مگر سریبرینیتسا ایک مسلم اکثریتی علاقہ ہے۔ بوسنیا و ہرزیگووینا کو دو علاقوں میں تقسیم کیا گیا تھا جس میں سے ایک وفاق بوسنیا و ہرزیگووینا کہلاتا ہے اور دوسرا سرپسکا کہلاتا ہے۔ 24 مارچ 2007ء کو سریبرینیتسا کی پارلیمان نے ایک قرارداد منظور کی جس میں سرپسکا سے علیحدگی اور وفاق بوسنیا میں شمولیت منظور کی گئی۔ اس میں سربوں نے حصہ نہیں لیا تھا۔ سریبرینیتسا میں بوسنیائی مسلمان 63 فی صد سے زیادہ ہیں۔ یہاں سونے، چاندی اور دیگر کانیں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ 1995ء کے قتلِ عام سے پہلے یہاں فولاد کی صنعت بھی مستحکم تھی۔ 12، 13 جولائی 1995ء کو سرب افواج نے اس شہر پر قبضہ کیا اور ایک ہی دن میں آٹھ ہزار مردوں اور لڑکوں کا قتل عام کیا۔ اس کے علاوہ علاقہ سے جان بچا کر بھاگنے والے ہزاروں افراد کی بیشتر تعداد مسلمان علاقے تک پہنچنے کی کوشش کے دوران میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ یہ قتل عام شہر میں اقوام متحدہ اور نیٹو (NATO) افواج کی موجودگی میں ہوا جو اس پر خاموش تماشائی بنے رہے۔ ہیگ کی جرائم کی عالمی عدالت ( International Criminal Tribunal for the former Yugoslavia۔ICTY) نے 2004ء میں اس قتل عام کو باقاعدہ نسل کشی قرار دیا۔

سریبرینیتسا قتل عام
Srebrenica massacre
سریبرینیتسا نسل کشی
Srebrenica genocide
بسلسلہ بوسنیائی جنگ
مقامسریبرینیتسا، بوسنیا و ہرزیگووینا
تاریخ11 جولائی 1995 – 13 جولائی 1995 (1995-07-13)
سریبرینیتسا نسل کشی یادگار
نشانہبوسنیائی مرد اور لڑکے
حملے کی قسمفوجی جارحیت، قتل عام، نسل کشی
ہلاکتیں8,372[1]
مرتکبینجمہوریہ سرپسکا فوج[2][3]
بچھو (سکارپیئن) نیم فوجی گروہ[4][5][6]

پس منظر

ترمیم
 
پوٹوچاری میں ایک اجتماعی قبر، تصویر 2007ت

سابقہ ملک یوگوسلاویہ کے ٹوٹنے کے بعد 15 اکتوبر 1992ء کو بوسنیا و ہرزیگووینا نے اپنی آزادی کا اعلان کر دیا جسے یورپی اتحاد نے 6 اپریل 1992ء کو اور امریکا نے اس سے اگلے دن تسلیم کر لیا۔ اس نئے ملک میں بوسنیائی نسل کے مسلمان غالب اکثریت میں تھے مگر ان کے علاوہ سرب نسل کے لوگ اور کروشیائی نسل کے لوگ بھی موجود تھے جو زیادہ تر مسیحی تھے۔ ان تینوں گروہوں میں اقتدار اور طاقت کی کشمکش شروع ہو گئی۔ سرب اور کروشیائی لوگ سابقہ ملک یوگوسلاویہ کی فوج اور پولیس میں اکثریت میں تھے چنانچہ ان کے پاس وافر اسلحہ تھا اور انھیں کسی تربیت کی ضرورت بھی نہ تھی۔ بوسنیائی مسلمانوں تک اسلحہ پہنچنے نہ دیا گیا بلکہ کروشیا جو خود ایک نیا ملک تھا اسے بوسنیا و ہرزیگوینا کا سارا ساحلِ سمندر بھی دے دیا گیا جس کی باریک پٹی نقشہ میں نمایاں نظر آتی ہے۔ سرب نسل پرستوں نے بوسنیائی مسلمانوں کے ساتھ ایک جنگ شروع کر دی۔ 1992ء میں ایک منصوبہ بندی کے تحت مسلمانوں کی نسل کشی شروع کی گئی۔ ابتدا ان علاقوں سے کی گئی جو دو سرب علاقوں کے درمیان میں آتے تھے تاکہ ان دو سرب علاقوں کو جوڑ کر بوسنیا و ہرزیگووینا سے علیحدگی کے بعد ایک نئی مملکت بنائی جا سکے۔ اس سرب علاقے کا نام آج سرپسکا ہے اور جہاں قتل عام شروع کیا گیا اس کا نام پودرینے (Podrinje) ہے۔ اس کے علاوہ یہی کام مشرقی بوسنیا میں بھی کیا گیا۔ ہزاروں مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا اور گاؤں کے گاؤں صفحۂ ہستی سے مٹا دیے گئے۔ صرف قریبی علاقہ براتوناتس (Bratunac) میں 1992ء کی ابتدا ہی میں 1156 مسلمان شہید ہو چکے تھے۔[17] بین الاقوامی جرائم کی عالمی عدالت (ICTY) کے مطابق پہلے قصبہ یا دیہات یا شہر پر قبضہ کیا جاتا اس کے بعد سرب افواج، پولیس، پیراملٹری قوتیں اور بعض جگہ عام سرب دیہاتی سب نے ایک ہی طریقۂ واردات اختیار کیا یعنی مسلمانوں کے گھروں کو جلا کر اور گرا کر مکمل طور پر تباہ کیا جاتا، مردوں اور عورتوں کو علاحدہ کیا جاتا۔ اس دوران میں تشدد کی وجہ سے بے شمار اموات ہوئیں۔ مردوں کو ایک سابقہ قید خانوں میں رکھا جاتا اور قید کے دوران میں اکثر کو قتل کیا گیا۔[18]

1992ء میں ہی سرب قوتوں نے سریبرینیتسا پر قبضہ کر کے بوسنیائی مسلمانوں کو قتل کیا یا علاقہ سے نکال دیا۔ مئی 1992ء میں بوسنیائی مسلمانوں نے ناصر اوریس (Naser Orić) کی قیادت میں سریبرینتسا کو دوبارہ حاصل کر لیا مگر سرب لوگوں بشمول افواج نے علاقہ کو گھیرے میں لیے رکھا۔ 16 اپریل 1993ء کو اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے سربرینیتسا کو محفوظ علاقہ قرار دے دیا اور تمام قوتوں کو ادھر سے نکلنے کا کہا اور اس طریقہ سے سربرینیتسا مسلمانوں کے ہاتھ سے نکل کر اقوام متحدہ کی افواج کے ہاتھ میں آگیا جو 18 اپریل 1993ء کو سریبرینتسا میں داخل ہو گئے۔ بوسنیائی افواج جو علاقہ میں موجود تھیں انھیں غیر مسلح کرنے کی کوششیں جاری رہیں مگر اس علاقے کے اردگرد سرب افواج کے پاس ٹینکوں سمیت تمام اسلحہ موجود رہا۔ اقوام متحدہ مسلمانوں کو یقین دلاتی رہی کہ سریبرینتسا ایک محفوظ علاقہ ہے اس لیے وہاں ہتھیار لانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ سربوں کا یہ محاصرہ 1995ء کے شروع تک جاری رہا جس سے سریبرینیتسا کے بوسنیائی مسلمان بالکل بے یارومددگار اور کمزور ہو گئے۔

1995ء کی ابتدا

ترمیم
 
دونی پوٹوچاری میں سریبرینیتسا کے قتل عام کی یادگار

1995ء کے شروع میں علاقے کی تمام رسد کاٹ دی گئی خصوصاً اسلحہ اور کھانے پینے کی چیزوں کے۔ اسلحہ کی رسد کاٹنے میں اقوامِ متحدہ برابر کی شریک رہی۔ علاقے میں اقوام متحدہ کی افواج کی اکثریت نیدرلینڈز کی افواج پر مشتمل تھی۔ 1995ء کے شروع ہی سے ایک منصوبہ کے تحت جب اقوام متحدہ کی افواج کا کوئی رکن چھٹی پر جاتا تو اسے واپس نہ بھیجا جاتا۔ یہ سلسلہ غیر محسوس طریقہ سے جاری رہا حتیٰ کہ نیدرلینڈز کی افواج کی تعداد صرف 400 رہ گئی۔[19]

مارچ 1995ء میں رودوان کرادیتش (Radovan Karadžić) جو سرپسکا کا صدر تھا اس نے حکم جاری کیا کہ سریبرینیتسا کا گھیرا سخت کیا جائے اور اس کا رابطہ گھیرے میں لیے گئے ایک دوسرے علاقے زیپا ( Žepa) سے مکمل طور پر کاٹ دیا جائے۔[20] اس وقت علاقے میں کچھ مسلح بوسنیائی مسلمان ناصر اوریس (Naser Orić) کی قیادت میں موجود تھے مگر اقوام متحدہ کی افواج کے حکم کے مطابق انھیں علاقے سے نکل جانے کے لیے کہہ دیا گیا۔ ان کو ہیلی کاپٹروں پر بٹھا کر ایک اور علاقے تزلہ (Tuzla) بھیج دیا گیا۔ رہ جانے والی بوسنیائی افواج سے اسلحہ لے کر انھیں 28 ڈویژن کے اختیار میں دے دیا گیا۔ یوں تمام علاقہ سربوں کے رحم و کرم پر رہ گیا۔[21] لوگ بھوک سے مرنا شروع ہو گئے اور انسانی صورت حال نہائت باگفتہ بہ ہو گئی۔[22]

6 سے 11 جولائی 1995ء سریبرینیتسا پر سربوں کا قبضہ

ترمیم

9 جولائی 1995ء کو سرپسکا کے صدر نے جب یہ دیکھا کہ اقوام متحدہ نے سریبرینیتسا کے بوسنیائی مسلمانوں کو بالکل غیر مسلح کر دیا ہے اور اس مسئلے پر عالمی برادری کوئی ردِ عمل نہیں دکھا رہی تو اس نے سربوں کو سریبرینیتسا پر قبضہ کا اختیار دے دیا۔[21] 10 جولائی 1995ء کو سربوں نے جنرل راتکو ملادیچ ( Ratko Mladić) کی قیادت میں باقاعدہ حملہ شروع کیا۔ نیٹو (NATO) نے کچھ ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے پہاڑوں پر کچھ فائرنگ کی مگر بعد میں یہ کہہ کر رک گئے کہ اس سے سریبرینیتسا میں موجود 400 نیدرلینڈز کی افواج کو نقصان ہو سکتا ہے۔ خود نیدرلینڈز کی فوج نے کوئی ردِ عمل نہ دکھایا بلکہ سربوں کی فتح کے بعد ان کے ساتھ شراب پینے کی 'ٹوسٹ' (toast ) کی یورپی رسم ادا کی۔[23] جنرل راتکو ملادیچ (جسے مغربی میڈیا میں اکثر بوسنیا کا قصائی کہا جاتا ہے)نے شہر پر قبضہ کے بعد تمام عمارتوں کو جلایا اور مسلمانوں کے سائن بورڈ تک اتروادیے اور یہ کہا کہ آج موقع ہے کہ ترکوں کے یورپی علاقوں پر قبضہ کا بدلہ لیا جائے۔ جنرل راتکو ملادیچ آج بھی آزاد ہے اور مبینہ طور پر سربیا میں رہتا ہے۔[23]

12۔13 جولائی 1995ء اور قتل عام

ترمیم
 
نیدرلینڈز افواج کا ہیڈ کورٹر
 
پوٹوچاری میں سریبرینیتسا کے قتل عام کی یاد میں تقریب 2007

شہر پر قبضہ کے بعد سرب افواج نے نیدرلینڈز افواج (ڈچ فوج) و اقوام متحدہ کی فوج کے ساتھ ان ہزاروں غیر مسلح اور بے یارو مددگار لوگوں کے مستقبل پر بات چیت کی جو محصور اور اب ان کے قبضے میں تھے۔ نیدرلینڈز افواج (ڈچ فوج) کی ایک عمارت جو دونی پوٹوچاری (Donji Potočari) میں تھی اس میں سینکڑوں لوگوں نے پناہ لی۔ اس میں جگہ ختم ہو گئی تو ہزاروں لوگ اس عمارت کے باہر اردگرد کے کارخانوں میں آ گئے۔ ایک اندازہ کے مطابق 25،000 سے زیادہ لوگ تھے۔[21]

 
610 بوسنیائی مسلمانوں کی شناخت کے بعد 2005ء میں تدفین
 
465 بوسنیائی مسلمانوں کی شناخت کے بعد 2007ء میں تدفین
 
775 بوسنیائی مسلمانوں کی شناخت کے بعد 2010ء میں تدفین

12 جولائی 1995ء کو سرب افواج نے شہر کی عمارتوں اور گھروں کا آگ لگا دی۔ اور سینکڑوں لوگوں کو قتل کیا جو صرف ایک ابتدا تھی۔ لاشوں کو ٹرکوں پر لاد لاد کر دوسری کسی جگہ لے جا کر دفنایا گیا جن کی خراب شدہ لاشیں کے ثبوت کئی سال بعد ملے۔ کئی گواہوں نے عالمی عدالت میں بیان دیے کہ ان کے سامنے ہجوم سے سرب افواج لوگوں کو لے جاتے رہے جو اس کے بعد نظر نہ آئے۔ کئی لوگوں نے لاشیں ٹرکوں پر جاتے ہوئے دیکھیں اور سربوں کو عورتوں کے ساتھ جنسی زیادتی کرتے دیکھا۔ کئی بچوں کے گلوں کو خنجروں اور چاقو سے کاٹ دیا گیا۔[21][24] بے شمار عورتوں سے ان کے بچوں کے سامنے زنا بالجبر کیا گیا [25] ایک گواہ نے بتایا کہ ایک سرب نے ایک بوسنیائی عورت کے ساتھ زنا بالجبر کیا جس کے دوران میں اس کا بچہ رویا تو اس سرب نے چاقو سے اس بچہ کا حلق چیر ڈالا۔[26] بیسیوں لوگوں نے یہ مناظر دیکھ کر خوف کے مارے خود کشی کر لی۔[24]

قتل عام

ترمیم

12 جولائی کی صبح سے لوگوں نے بوسنیائی محفوظ علاقوں تک جانے کی کوشش کی۔ سربوں نے 14 سال سے 70 سال تک کے تمام مردوں کو نہ جانے دیا اور عورتوں سے علاحدہ کرتے رہے۔[27][28] ان مردوں کو علاحدہ لے جا کر ایک بڑی عمارت میں رکھا جاتا رہا جس کا نام سربوں نے وائٹ ہاؤس رکھا ہوا تھا۔ بعد میں پتہ چلا کہ ان کو قتل کیا جاتا رہا ہے۔[24] اقوام متحدہ کے ایک فوجی کرنل جوزف (Colonel Joseph Kingori) نے محسوس کیا کہ بڑی تعداد میں لوگ وائٹ ہاؤس کے پیچھے لے جائے جا رہے ہیں جو دوبارہ نظر نہیں آتے۔ اس کے ادھر جا کر صورت حال کا جائزہ لینے کی کوشش کی تو اس نے فائرنگ کی آوازیں سنیں۔ مگر سرب افواج نے اسے مزید آگے نہ جانے دیا اور قتل عام جاری رہا۔[21]

سربوں نے لوگوں کے ناک کان وغیرہ ان کی زندگی میں کاٹے اور ان کو قتل کرنے کے بعد بلڈوزروں کی مدد سے ان کی لاشوں کو بڑی مشترکہ قبروں میں ڈالا۔ ایک فرانسیسی پولیس آفیسر جیں غینے رویز (Jean-René Ruez) کے مطابق بے شمار لوگ بلڈوزروں کی مدد سے زندہ بھی دفن کیے گئے جن میں ان گنت بچے بھی شامل تھے۔[29] دس سے پندرہ ہزار بوسنیائی مرد ایسے تھے جنھوں نے فیصلہ کیا تھا کہ وہ سربوں کے ہاتھ لگنے کی بجائے فرار ہو کر پہاڑوں کے پار بوسنیائی محفوظ علاقے تزلہ ( Tuzla ) تک پہنچ سکتے ہیں۔ وہ رات کی تاریکی میں جانا شروع ہوئے مگر دن کے وقت جب وہ ایک پہاڑی سڑک پر قافلہ کی صورت میں رواں تھے، سربوں نے توپوں اور مشین گنوں کی مدد سے ان پر گولے برسانا شروع کیے۔ ان پندرہ ہزار افراد میں سے صرف پانچ ہزار افراد محفوظ علاقہ تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ یوں مرنے والوں کی تعداد کسی طرح بھی 18،000 سے کم نہیں ہے جس میں سے آٹھ ہزار صرف سربرینیتسا کے قریب پوٹوچاری میں مارے گئے۔[30][31]

تزلہ ( Tuzla ) کا فاصلہ سربرینیتسا سے 55 کلومیٹر تھا۔ جو تمام تر پہاڑوں پر مشتمل تھا۔ اس میں کئی سڑکیں تھیں مگر ان پر سربوں نے پہلے ہی توپیں اور مشین گنیں پہنچا دی تھیں۔ بوسنیائی لوگوں جو تعداد میں تیس ہزار سے زیادہ تھے ان میں سے صرف پندرہ ہزار فرار کی جرات کر سکے۔ شدید گرمی اور حبس کے اس سفر میں پہلے چند افراد آگے گئے تاکہ دوسروں کی رہنمائی کر سکیں۔ اس کے بعد 100 افراد کا ایک چھوٹا قافلہ تھا جو سابقہ فوجیوں پر مشتمل تھا پھر باقی لوگ تھے۔ ان میں کچھ کلومیٹر کا فاصلہ رکھا گیا۔ مگر اس کے باوجود دو تہائی لوگ شہید ہو گئے۔ کچھ لوگ راستے کی تکلیفوں کا شکار ہوئے، کچھ نے خودکشی کر لی مگر ہزاروں سربوں کی توپوں کا شکار ہو گئے۔ ان کا شکار جنگلی جانوروں کی طرح پورا دن کیا گیا اور سربوں نے اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کی کہ کوئی بچ کر جانے نہ پائے۔ جس جگہ انسانوں کا یہ شکار کھیلا گیا اسے کیمینیکا (Kamenica ) کی پہاڑیوں کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ بچ جانے والے کچھ لوگ ادرچ کے پہاڑ (Mount Udrc) پر پہنچے تو ان کا دوسری مرتبہ شکار کیا گیا کیونکہ کچھ سرب فوج پہلے سے وہاں موجود تھی۔ ان سے جو لوگ بچے ان کی اکثریت سناگوو (Snagovo) کے مقام پر شہید کی گئی۔ اس پندرہ ہزار کے قافلے میں سے صرف چار ہزار افراد 16 جولائی 1995ء کی شام کو تزلہ (Tuzla) پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔ جبکہ دو ہزار کے قریب جنگلوں میں چھپے ہوئے تھے جن کا سرب ابھی شکار کر رہے تھے۔ یہ شکار 22 جولائی 1995ء تک جاری رہا۔

جنگ کے بعد پیش رفت

ترمیم
 
10 اگست 1995ء کو امریکی وزیر خارجہ میڈیلین آلبرائیٹ نے اقوام متحدہ میں سیٹیلائٹ سے لی گئی تصاویر دکھائیں جس میں نووا کسابا کے نزدیک مسلمانوں کو مار کر ایک ہی جگہ دفن کیا گیا۔ جنگ کے بعد وہاں سے 33 لاشیں نکلیں۔ مگر دو سال کے بعد دوبارہ تلاش سے 400 سے زیادہ لاشیں نکالی گئیں۔ تصویر دکھانے کا مقصد امریکی مقاصد کا حصول تھا۔

1995ء رادوان کارادزیچ و ملادیچ راتکو پر فرد جرم

ترمیم

16 نومبر 1995ء کو سرپسکا کے صدر رادوان کارادزیچ اور جمہوریہ سرپسکا فوج کے کماندر راتکو ملادیچ پر بین الاقوامی فوجداری عدالت نے 1995ء میں قتل عام کے الزام میں فرد جرم عائد کی۔[32] 28 اگست 1995ء کے مارکال کے قتل عام کے بعد نیٹو (NATO) کی افواج نے بوسنیا و ہرزیگووینا پر بمباری شروع کی۔ جو تقریباً ایک ماہ جاری رہی۔ یہ زیادہ تر ان علاقوں پر تھی جو سربوں اور لڑنے والے مسلمانوں پر مشتمل تھی اور بظاہر اس کا مقصد جنگ کا خاتمہ تھا۔ آخر نومبر 1995ء میں جنگ کا خاتمہ ہوا۔ کئی سال تک دنیا کو مکمل طور پر معلوم ہی نہ تھا کہ سریبرینیتسا میں کیا قیامت ٹوٹی مگر کئی سال بعد باتیں سامنے آنا شروع ہوئیں۔

1999 اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی رپورٹ

ترمیم

1999ء میں، اقوام متحدہ کے صدر کوفی عنان نے سریبرینیتسا قتل عام پر اپنی رپورٹ پیش کی۔ اس میں، انھوں نے تسلیم کیا کہ مجموعی طور پر بین الاقوامی برادری اس کا اعتراف کرتی ہے کہ 7،000 غیر مسلح افراد کو ایک سلامتی کونسل کے محفوظ شہر میں نسل کشی کا نشانہ بنایا گیا[32][33][34]

2001 فرانسیسی پارلیمانی رپورٹ

ترمیم

فرانسیسی پارلیمنٹ کی کمیٹی کی ایک رپورٹ، 2001ء میں جاری کی گئی، اس میں انھوں نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ یہ فرانس کی ناکامی تھی (فرانسیسی: un échec de la France)۔ رپورٹ کے مطابق، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن کے طور پر، انجام کار فرانس کو مسلمانوں کے قتل عام کی وجہ سے محصور علاقوں سے نکلنا پڑا۔ 10 جولائی 1995 کی شام کو، سربوں کے خلاف دوتچبت کی پیش قدمی کے جواب میں جنرل جانویر کو فضائی مدد کے لیے بار بار کی درخواستوں کو منظور کرنا چاہیے تھا۔[حوالہ درکار]

2004ء دوسری سرپسکا رپورٹ اور سرکاری معافی

ترمیم

2004ء میں سرپسکا کے سربوں کی سرکاری شماریات کے مطابق قتل ہونے والوں میں سے ان لوگوں کی تعداد 8731 تھی جن کے نام معلوم ہو سکے ہیں۔ یہ سرکاری اعداد و شمار ہیں لیکن ہزاروں کی تعداد ایسی ہے جن کے نام معلوم نہیں ہو سکے اور نہ ہی ان کا شمار ہو سکا ہے۔[35]

پیش منظر

ترمیم

10 نومبر 2004ء کو بوسنیا کے سرب علاقے سرپسکا کی حکومت نے سرکاری طور پر ان جرائم کو قبول کرتے ہوئے معافی مانگی اور ایک رپورٹ شائع کی جس میں ان واقعات کو سرب تاریخ پر بدنما دھبے سے تشبیہ دی گئی۔[36]

2 جون 2005ء کو ایک ویڈیو منظر عام پر آئی جو خفیہ طور پر بنائی گئی تھی جس میں یہ دکھایا گیا کہ ایک آرتھوڈوکس مسیحی پادری نے سرب سپاہیوں کو کیسے نجات کی خوشخبری دیتے ہوئے قتل عام کی حمایت کی جس کے بعد ان سپاہیوں نے کچھ غیر مسلح افراد جن کے اجسام پر مار پیٹ کے نشان تھے اور وہ بندھے ہوئے تھے ان کو قتل کر کے ان کی لاشیں ٹھکانے لگائیں۔ قاتلوں میں سربیا کی پولیس اور فوج کے افراد شامل تھے۔ ایک ماں نے تو اس ویڈیو میں اپنے بیٹے کے قتل کا منظر دیکھا اور کہا کہ اسے پہلے ہی معلوم تھا اور یہ بھی معلوم تھا کہ اس کے بیٹے کی لاش کو جلایا گیا تھا۔[37]

2006ء تک 42 مشترکہ بڑی قبریں دریافت ہو چکی تھیں جن میں بنیادی طور پر سربرینیتسا کے بوسنیائی مسلمانوں کو دفن کیا گیا تھا۔ 22 مزید مشترکہ قبروں کے بارے میں کچھ معلومات ہیں۔ 11 اگست 2006ء کو کامنیکا کے پہاڑ کے پاس ایک قبر دریافت کی گئی جس میں 1000 لوگ دفن تھے۔ ابھی تک صرف ان دریافت شدہ قبروں سے ملنے والے 2070 لوگوں کے نام معلوم ہو سکے ہیں۔ جبکہ 7000 ایسی لاشیں ہیں جن کی ابھی شناخت نہیں ہو سکی۔[38]

2009ء میں بوسنیا کی حکومت نے ہر سال 11 جولائی کو قومی سوگ کا دن منانے کا فیصلہ کیا۔ 2009ء کا قومی سوگ ان 500 لاشوں کا اجتماعی جنازہ پڑھ کر شروع کیا گیا۔[39]

دعائے سریبرینیتسا

ترمیم

سریبرینیتسا سے 6 کلومیٹر شمال میں ایک گاؤں کے پاس 7 ہزار مسلمان شہداء کی یادگاری لوح نصب ہے جس پر رئیس العلماء بوسنہ کی طرف سے "دعائے سریبرینیتسا" رقم ہے:

اے ہمارے رب! ہم تجھ سے غم میں رحمت اور قصاص میں زندگی اور سانحہ سریبرینیتسا پر ماؤں کے آنسوؤں میں چھپی دعا کا سوال کرتے ہیں، کہ ایسا سانحہ دوبارہ برپا نہ ہو۔ اے حالات بدلنے والے! ہمارے حالات بدل کر بہتر کر دے۔ اور ہماری آخری پکار یہی ہے کہ بے شک تمام تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں جو سب جہانوں کا رب ہے

یہ دعائیہ لوح 11 جولائی 2001ء کو نصب کی گئی۔

مزید دیکھیے

ترمیم

حوالہ جات

ترمیم
  1. ^ ا ب Potocari Memorial Center PRELIMINARY LIST of Missing Persons from Srebrenica '95 [1] آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ potocarimc.ba (Error: unknown archive URL)
  2. Paramilitaries Get 15 – 20 Years for Kosovo Crimes – [Balkan Insight http://balkaninsight.com/en/main/news/20364/]
  3. "Serbia: Mladic "Recruited" Infamous Scorpions"۔ Institute for War and Peace Reporting. [2]
  4. "European Parliament resolution of 15 جنوری 2009 on Srebrenica"۔ European Parliament۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 اگست 2009 
  5. "Office of the High Representative – "Decision Enacting the Law on the Center for the Srebrenica-Potocari Memorial and Cemetery for the Victims of the 1995 Genocide""۔ Office of the High Representative in Bosnia and Herzegovina۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 اگست 2009 
  6. "Youth Initiative for Human Rights in Serbia letter to the Serbian President to commemorate the Srebrenica genocide"۔ Youth Initiative for Human Rights in Serbia۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 10 اگست 2009 
  7. "Mladic shadow hangs over Srebrenica trial"۔ The Guardian۔ London۔ 21 اگست 2006۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 نومبر 2008 
  8. Katharina Goetze (31 اکتوبر 2008)۔ "ICTY – Tribunal Update"۔ Institute for War & Peace Reporting۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 1 نومبر 2008 
  9. Mike Corder (20 اگست 2006)۔ "Srebrenica Genocide Trial to Restart"۔ واشنگٹن پوسٹ۔ 10 جنوری 2019 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 26 اکتوبر 2010 
  10. "ICTY: The Conflicts"۔ The بین الاقوامی فوجداری ایوان عدل برائے سابقہ یوگوسلاویہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اگست 2013 
  11. Kirsten Nakjavani Bookmiller (2008)۔ The United Nations۔ Infobase Publishing۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 اگست 2013  ، p. 81.
  12. Christopher Paul, Colin P. Clarke, Beth Grill (2010)۔ Victory Has a Thousand Fathers: Sources of Success in Counterinsurgency۔ Rand Corporation۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 4 اگست 2013  ، p. 25.
  13. Marlise Simons (31 مئی 2011)۔ "Mladic Arrives in The Hague"۔ نیو یارک ٹائمز۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 20 مئی 2015 
  14. بوسنیائی سرکاری شماریات (Bratunac Municipality Officials, "Truth about Bratunac (Istina o Bratuncu)"۔ 1995 )
  15. "ICTY: The attack against the civilian population and related requirements عالمی عدالت کا بیان"۔ 18 مارچ 2004 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 مارچ 2004 
  16. "سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ۔ 15 نومبر 1999ء" (PDF)۔ 17 ستمبر 2000 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 اکتوبر 2008 
  17. اقوام متحدہ 2004ء (ICTY. "Prosecutor vs Krstic, Appeals Chamber Judgement"۔ United Nations. 19 اپریل 2004)
  18. ^ ا ب پ ت ٹ "اقوام متحدہ۔ 2 اگست 2001ء (ICTY. "Prosecutor vs Krstic, First Judgement"۔ United Nations.)" (PDF)۔ 13 ستمبر 2001 میں اصل (PDF) سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 13 ستمبر 2001 
  19. بلقان واچ (BALKAN WATCH The Balkan Institute جولائی 10, 1995 A Weekly Review of Current Events Volume 2.26 Week in Review جولائی 3–9, 1995)
  20. ^ ا ب بی بی سی کا دستاویزی پروگرام یوٹیوب پر
  21. ^ ا ب پ "پوٹوچاری کے جرائم از اقوام متحدہ"۔ 18 اگست 2001 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اگست 2001 
  22. "پوٹوچاری کے جرائم (ICTY)"۔ 18 اگست 2001 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 18 اگست 2001 
  23. سربرینیتسا کے لوگوں کا نیدرلینڈز اور اقوام متحدہ پر مقدمہ
  24. https://web.archive.org/web/20010802210134/http://www.un.org/icty/transe33/000726ed.htm پوٹوچاری میں مردوں اور عورتوں کی علیحدگی
  25. https://web.archive.org/web/20090109112306/http://www.un.org/icty/transe88/070206ED.htm مردوں کی علیحدگی۔ اقوام متحدہ
  26. سربرینیتسا میں شیطینیت از گراہم جونز سی این این
  27. https://web.archive.org/web/20010818170715/http://www.un.org/icty/krstic/TrialC1/judgement/krs-tj010802e-1.htm#IIA7b بوسنیائی مسلمانوں کا قافلہ
  28. http://193.173.80.81/srebrenica/ آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ 193.173.80.81 (Error: unknown archive URL) نیدرلینڈز انسٹی ٹیوٹ آف وار
  29. ^ ا ب Ods Home Page آرکائیو شدہ (Date missing) بذریعہ daccess-dds-ny.un.org (Error: unknown archive URL)۔ Daccess-dds-ny.un.org. اخذکردہ بتاریخ 13 اگست 2010.
  30. سیکرٹری جنرل کے بیانات۔ اقوام متحدہ۔ اخذ کردہ 13 اگست 2010.
  31. Links to دستاویزات۔ یوناٹیڈ نیشن ڈاٹ آرگ (9 ستمبر 2002)۔ اخذ کردہ 13 اگست 2010.
  32. Rachel Kerr (2007)۔ Peace and Justice۔ Polity۔ 25 دسمبر 2018 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 5 اگست 2013  ، p. 192.
  33. "بوسنیا کی رہورٹ از ایسوسی ایٹڈ پریس"۔ 07 جون 2011 میں اصل سے آرکائیو شدہ۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 اکتوبر 2008 
  34. http://www.domovina.net/tribunal/ictytv/050601_milosevic_eng.ram آرکائیو شدہ 2005-06-13 بذریعہ Library of Congress Web Archives جرائم کی عالمی عدالت۔ ویڈیو
  35. http://ww4report.com/node/2187 سربرینیتسا۔ گیارہ سال بعد بھی انصاف نہیں۔ ورلڈ وار فور رپورٹ
  36. روزنامہ جنگ - تازہ خبریں، 11 جولائی 2009ء

مزید مطالعہ و تحقیق کے لیے

ترمیم
قومی انسٹی ٹیوٹ
جامعاتی مضامین
کتب
  • Adam Lebor, 2006. "Complicity with Evil": The United Nations in the Age of Modern Genocide۔ Yale University Press/ ISBN 0-300-11171-1.
  • Van Gennep, 1999. Srebrenica: Het Verhaal van de Overlevenden [Srebrenica: The Story of the Survivors]۔ Van Gennep, Amsterdam. ISBN 90-5515-224-2. (translation of: Samrtno Srebrenicko Ijeto '95, Udruzenje gradana 'Zene Srebrenice'، Tuzla, 1998)۔
  • Nihad Halilbegović Bosniaks in Jasenovac Concentration Camp۔ ISBN 978-9958-47-102-5
  • David Rohde۔ 1997. Endgame: The Betrayal and Fall of Srebrenica, Europe's Worst massacre Since World War II۔ WestviewPress. ISBN 0-8133-3533-7.
  • Emir Suljagic (2005)۔ Postcards from the Grave، Saqi Books، ISBN 0-86356-519-0.
رپورٹیں
خبری ذرائع
این جی اوز
دیگر
سریبرینیتسا کی خواتین بارے افسانوی کہانیاں

بیرونی روابط

ترمیم