سعد بن حارث خزاعی کا شمار شہدائے کربلا میں ہوتا ہے ۔امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے شجاع شیعوں میں سے تھے۔قبیلۂ ازدی کے کی شاخ بنی خزاعہ سے تعلق تھا نیز ان کا نام حضرت امام حسین علیہ السلام کے اصحاب با وفا میں بھی ذکر ہوتا ہے ۔

صحابیت

ترمیم

انھوں نے بچپن میں رسول خدا کی زیارت کی تھی اور آپ کے والد بھی صحابی رسول تھے۔ پھر امیر المومنین علی ؓ کے ہمراہ رہے اور کچھ عرصہ کے لیے سپاہ کوفہ کے سالار بھی رہے۔ سعد بن الحارث امیر المومنین علی ؓ کی شہادت کے بعد حضرت امام حسن ؓ و امام حسین ؓ کے ساتھ رہے۔ جب حضرت امام حسین مدینہ سے مکہ پہنچے تو وہاں مولا کی خدمت میں پیش ہوئے اور پھر مکہ سے کربلا آئے اور روز عاشور جنگ کرتے ہوئے جان قربان کر دی۔

صاحب فرسان نے حدایق الوردیہ، ابصارالعین، تنقیح المقال اورالاصابہ جیسی معتبر کتب سے ان کے حالات نقل کیے ہیں۔ [1] انھوں نے الاصابہ سے سعد کاترجمہ یوں نقل کیا ہے۔ سعید بن حارث بدل سعد بن الحارث بن شاربہ بن مرہ بن عمران بن ریاح بن سالم بن غاضر بن حبشہ بن کنجب الخزاعی مولیٰ علی بن ابی طالبؑ لہ ادراک وکان علی شرطۃ علی ؑ فی الکوفہ وولاۃ آذربایجان۔[2] لیکن موجودہ الاصابہ میں مراجعہ کرنے سے یہ مطلب نہیں ملا۔اور وسیلۃ الدارین نے بھی ص128 پر صحابی اور شہید کربلا کے عنوان سے ذکرکیا ہے تنقیح المقال کی عبارت میں بھی اس طرح موجود ہے، سعد بن الحارث الخزاعی مولیٰ امیر المومنین صحابی امامی شہید الطف ثقہ۔ مزید لکھتے ہیں کہ سعد بن الحارث لہ ادراک الصحبۃ النبیؐ وکان علی شرطۃ امیر المومنین فی الکوفہ وولاۃ آذربائیجان۔[3]

مزید تفصیلات ان کتب میں موجو د نہیں البتہ اتنا ضرور ملتا ہے کہ سعد امیر المؤمنین ؑ کی شہادت کے بعد حضرت امام حسن و امام حسین ؑ کے ہر میدان میں یارو مددگار رہے جب حضرت امام حسینؑ نے قیام کیا تو ابتدا میں اپنے مولا کی خدمت میں مکہ میں جاملے پھر مکہ سے کربلا آئے اور روز عاشور جنگ کرتے ہوئے جان قربان کردی۔ [4]

تنقیح المقال میں مامقانی[5] کے قول پر اعتراض کیا گیا کہ انھوں نے کسی مستند کا ذكر کیے بغیر انھیں صحابہ میں سے گِنا ہے۔اور اسے قبول کرنا مشکل ہے کیونکہ قدیمی مآخذ ان کی اس خصوصیت سے خالی ہیں شایداسی وجہ سے سید محسن امین نے اعیان الشیعہ میں اسے قبول نہیں کیا ہے[6] نیز شوشتری نے یہ کہہ کر کہ جب اس کی اصل ثابت نہیں ہے تو اس کی جزئیات کیسے قابل اثبات ہیں، مامقانی اور دیگران سے اختلاف کیا ہے ۔[7]

اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ محقق شوشتری نے جو ان کے صحابی ہونے پر تنقید کی ہے اس دلیل کی بنا پرکہ اگرصحابی ہوتے توقدیم منابع نے کیوں ذکر نہیں کیا [8] تو اس کا جواب یہ ہے کہ غلام شمار کرتے ہوئے اور اہل بیت کا ساتھ دینے کی وجہ سے بہت سی کتب میں اہمال و اخفا برتا گیا ہے اور بہت سی تفصیلات سے گریز کیا گیاہے لیکن مذکورہ بالا بعض معتبر منابع میں ان کا ذکر صحابی رسولؐ ہونے کے عنوان سے آجانا ہی صحابیت کے اثبات کے لیے کافی ہے۔

خلافتِ امیر المؤمنین

ترمیم

آپ حضرت علی کے غلام تھے[9] ۔ حضرت علی کی طرف سے ایک مدت تک آذربائیجان کے والی رہے اور کوفہ میں شرطۃ الخمیس کے سربراہ بھی رہے[10] ۔البتہ یہ معلوم نہیں کہ کس زمانے میں یہ ذمہ داری ان کے سپرد تھی لیکن کسی ذمہ داری کو غلاموں کے سپرد کرنے کی بعض تاریخی مستندات سے تقویت ہوتی ہے جسطرح امام علی اپنے غلام قنبر کو بعض اوقات حکومتی ذمہ داریاں سپرد کرتے تھے اسی طرح سعد بن حارث کو تحقیق کرنے کی غرض سے زیاد بن ابیہ کے تحتِ فرمان علاقے میں بھیجا جہاں اس کے ساتھ باہمی الفاظی نزاع بھی پیش آئی اور اسی طرح رے اور دستبنی کے علاقے میں حکومتی کارندے یزید بن حجیہ کی خیانت کی وجہ سے اسے جب امام علی نے زندانی کیا تو اس کی محافظت کے لیے سعد بن حارث کو مقرر کیا ۔[11]

شہادت

ترمیم

محمد بن طاہر سماوی نے ابن شہر آشوب کے حوالے سے ذکر کیا وہ پہلے حملے میں شہید ہونے والے اصحاب میں سے ہیں[12] ۔اگرچہ موجودہ مناقب ابن شہر آشوب میں اس کا تذکرہ نہیں ہے ۔

حوالہ جات

ترمیم
  1. فرسان الہیجاء، ص154
  2. فرسان الہیجاء، ص154
  3. تنقیح المقال، ج2، ص12
  4. شہدائے کربلا، ص 180
  5. مامقانی، تنقیح المقال ذیل سعد بن الحرث الخزاعی ص12
  6. امین، اعیان الشیعہ، ج7، ص221
  7. قاموس الرجال، ج5، ص27-28.
  8. قاموس الرجال، شوشتری، ج5، ص27، 28
  9. ابن اثیر، الکامل، ج3، ص288؛ ذخیرة الدارین، ص476؛ قاموس الرجال، ج5، ص27؛ امین، اعیان الشیعہ، ج7، ص221.
  10. رکـ: ذخیرة الدارین، ص476؛ تنقیح المقال، ج2، ص12؛ قاموس الرجال، ج5، ص27؛ امین، اعیان الشیعہ، ج7، ص221؛ سیمای کارگزاران، ج1، ص72، 470.
  11. ابن اثیر، الکامل، ج3، ص288؛ شرح ابن ابی الحدید، ج2، ص251-252؛ سیمای کارگزاران، ج1، ص284، 378، 379، 406، 470.
  12. سماوی۔ابصار احسین فی انصار الحسین 96/97

مآخذ

ترمیم
  • ابن ابی الحدید، عبد الحمید بن ہبۃ الله، جلوه تاریخ در شرح نہج البلاغہ، ترجمہ و تحشیہ محمود مہدوی دامغانی، نشر نی، تہران، 1367-1379ش.
  • ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، دارصادر، بیروت، 1385ق/1965م.
  • امین عاملی، سید محسن، اعیان الشیعہ، بیروت، دارالتعارف، 1421 ق.
  • تستری، محمدتقی، قاموس الرجال، موسسہ نشر الاسلامی، قم، 1414ق.
  • حسینی حائری شیرازی، عبد المجید بن محمد رضا، ذخیرة الدارین فیما یتعلق بمصائب الحسین علیہ السلام و أصحابہ، باقر دریاب نجفی، زمزم ہدایت، قم.
  • سماوی، محمد بن طاہر، ابصار العین فی انصار الحسین علیہ السلام، تحقیق محمد جعفر طبسی، مرکز الدراسات الاسلامیہ لحرس الثورة، [بی جا]، 1377ش/1419ق.
  • مامقانی، عبد اللہ، تنقیح المقال فی علم الرجال، مطبعہ المرتضویہ، نجف اشرف.

سانچے

ترمیم