سلیم واحد سلیم (پیدائش: 24 اگست 1921ء– وفات : 19 فروری 1981ء) اردو زبان کے شاعر، مترجم اور نثرنگار تھے۔

سلیم واحد سلیم
معلومات شخصیت
پیدائش 24 اگست 1921ء   ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
آگرہ   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 19 فروری 1981ء (60 سال)  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لاہور   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وجہ وفات جنون   ویکی ڈیٹا پر (P509) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت برطانوی ہند (24 اگست 1921–14 اگست 1947)
پاکستان (14 اگست 1947–19 فروری 1981)  ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عملی زندگی
پیشہ شاعر ،  مترجم ،  نثر نگار   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں

سوانح

ترمیم

خاندان

ترمیم

سلیم کا خاندان کشمیر کا مشہور و معروف ’’ڈار خاندان‘‘ تھا جو کشمیر پر حکمران قدیم ہندو راجگان کی عسکری قوت رہا ہے۔کشمیر میں سلیم کا خاندان پشمینے اور ڈوری بافی کا کام کرتا تھا۔ لوگوں کی ایک بڑی تعداد باقاعدہ طور پر اِس فن کا اکتساب بھی اِس خاندان سے کیا کرتی تھی۔ خاندان کے بزرگوں کو تمام لوگ احتراماً خلیفہ یعنی استاد کے نام سے پکارتے تھے۔ یہی لفظ خلیفہ اِس خاندان کے افراد کے نام کا پہلا جزو قرار پایا[1]۔ سکھوں کے دورِ حکومت میں صدیق ڈار اور رمضان ڈار، دو بھائی یکے بعد دِیگرے کشمیر سے ہجرت کرکے پنجاب چلے آئے۔ یہاں خداوندِ عالم نے انھیں عزت و آبرو بخشی اور اولاد کی نعمت سے بھی مالا مال ہوئے[2]۔اِس سے پتا چلتا ہے کہ سلیم کے پردادا نے کشمیر چھوڑا اور مستقل طو رپر پنجاب کے دِل لاہور میں آباد ہوئے۔ سلیم کا خاندان جس جگہ مقیم تھا، وہ حویلی آج بھی محلہ چہل بیبیاں، اندرون اکبری دروازہ، لاہور میں موجود ہے۔ سلیم کے دادا کا نام عبد الرحمٰن تھا جو نہایت نیک دل اور متقی اِنسان تھے۔ سلیم کی دادی رحیم بی بی خلیفہ عبد الرحمٰن کی دوسری زوجہ تھیں جن سے خلیفہ عبد الواحد پیدا ہوئے جو سلیم کے والد تھے۔ خلیفہ عبد الواحد تمام بہن بھائیوں میں سے بڑے تھے اور انتہائی حلیم الطبع اور مرنجاں مرنج طبیعت کے مالک تھے۔ اردو زبان کے بہترین شاعر بھی تھے۔ روزنامہ انقلاب (لاہور) سے اُن کے اشعار شائع ہوتے رہے۔بعد ازاں خلیفہ عبد الواحد ایران میں ’’بانک ملی ایران‘‘ میں بطور اکاؤنٹنٹ ملازم ہو گئے[3]۔ایران میں قیام کے دوران خلیفہ عبد الواحد نے فخرسادات نامی خاتون سے شادی کی جس کے ہمراہ وہ واپس وطن بھی آئے۔واپسی پر خاندان نے امداد بیگم نامی خاتون سے شادی کردی۔ خاندانی چپقلش کے باعث خلیفہ عبد الواحد فخرسادات کے ہمراہ آگرہ چلے گئے اور وہاں جوتوں کا ایک کارخانہ شروع کیا اور پیلی کوٹھی، آگرہ میں مقیم ہوئے[4]۔یہی ایرانی النسل خاتون ’’فخر سادات‘‘ سلیم کی والدہ تھیں۔

پیدائش

ترمیم

سلیم کی پیدائش آگرہ کی پیلی کوٹھی میں 24 اگست 1921ء کو ہوئی۔اورئینٹل کالج(لاہور) جامعہ پنجاب کے سرٹیفیکیٹ مؤرخہ 26 نومبر 1942ء کے مطابق سلیم کی تاریخ پیدائش 4 اگست 1921ء درج ہے۔ آگرہ میونسپلٹی کے ریکارڈ کے مطابق سلیم کی تاریخ پیدائش کا ریکارڈ نہیں مل سکا۔

تعلیم

ترمیم

سلیم اپنی والدہ فخرسادات کی علالت کے دوران اپنے والد کے ہمراہ ایران چلے گئے تھے، لہٰذا سلیم کی ابتدائی تعلیم بھی ایران میں ہوئی۔ ابتدائی تعلیم تہران کے مدرسہ علمیہ نوشیروان میں ہوئی۔ ثانوی تعلیم زاہدان کے ’’دبستان شبانہ روزی‘‘ سے مکمل کی۔ 1937ء میں سلیم اپنے والد کے ہمراہ واپس لاہور آئے تو جامعہ پنجاب کے اورئینٹل کالج میں داخل ہو گئے اور بطور طالب علم کے باقاعدہ منشی فاضل کی جماعت میں پڑھتے رہے، لیکن سالانہ اِمتحان میں ناکام (فیل) ہو گئے۔ بالآخر 1939ء میں سلیم نے بطور پرائیویٹ طالب علم کے منشی فاضل کا امتحان تیسرے درجہ (تھرڈ ڈویژن) میں پاس کر لیا۔1940ء میں علی گڑھ کے طبیہ کالج میں داخلہ لیا اور بورڈ آف انڈین میڈیسن (یو ـ پی) کا امتحان سیکنڈ ڈویژن میں مسلم یونیورسٹی، علی گڑھ سے پاس کیا۔ مارچ 1944ء میں جامعہ پنجاب، لاہور کا میٹریکولیشن (میٹرک) کا اِمتحان دیا اور سند حاصل کی۔ اپریل 1944ء میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے یونانی میڈیسن (طب یونانی) اور سرجری (جراحت) میں ڈپلوما حاصل کیا۔[5]

ملازمت

ترمیم

26 مئی 1946ء کو سلیم مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے طبیہ کالج میں بطور ہاؤس فزیشن پچاس روپئے ماہانہ تنخواہ پر ملازم ہو گئے۔ وہاں ایک سال اور چار مہینے یہ نوکری کی۔ طبیہ کالج سے نوکری چھوڑنے کے بعد سہارنپور طبیہ کالج میں بطور پرنسپل آئے اور ایک سال وہاں تعینات رہے۔ 1948ء میں سہارنپور سے مظفر نگر انسداد امراضِ متعدی کے ہسپتال میں اُن کی تبدیلی ہو گئی اور چھ سات سال اِس ہسپتال میں تعینات رہے۔[6]

علالت و وفات

ترمیم

سلیم چونکہ انتہائی حساس شخص تھے لیکن خانگی معاملات میں اُن کی زندگی تمام تر تضادات کا شکار رہی۔ بچپن میں حقیقی والدہ سے محروم، سوتیلی ماں کے کچوکے، لڑکپن میں والد کی بے توجہی، ماحول کی ناسازی، ناموزوں شادی، سسرال کی ہٹ دھرمی، اولاد سے جدائی، دوستوں کی بے مہری، ذرائع آمدنی کی کمی، عزیزوں کا نارواء سلوک، یہ سب وہ عوامل تھے جنھوں نے سلیم کو ‘‘پیرایانا‘‘ کا مریض بنا کررکھ دیا [7]۔سلیم دن بہ دن ذہنی مریض بنتے چلے گئے ۔ سلیم کو دو مرتبہ ذہنی امراض کے ہسپتال میں داخل کروایا گیا۔آخری بار سلیم کو دماغی امراض کے ہسپتال میں 8 جنوری 1981ء کو داخل کروایا گیا لیکن 19 فروری 1981ء کو سلیم 60 سال کی عمر میں لاہور میں اِنتقال کرگئے۔ قبرستان شیر شاہ، لاہور میں تدفین کی گئی۔[8]

علمی و ادبی سرگرمیاں

ترمیم

سلیم چونکہ شاعر تھے ، لہٰذا علی گڑھ کی تمام ادبی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ فارسی زبان اُن کی مادری زبان تھی اور یہی وجہ ہے کہ اردو شاعری میں فارسی تراکیب بڑی آزادی اور روانی سے اِستعمال کیا کرتے تھے[9]۔

کتابیات

ترمیم
  • منشی محمد دین فوق: اقوام کشمیر، مطبوعہ مجلس ترقی ادب، لاہور، 1974ء
  • مسز گوہر ممتاز اختر:ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم، مطبوعہ ادارہ ثقافت اسلامیہ، لاہور، 1971ء
  • تابندہ بتول: سلیم واحد سلیم کے کلام کی تدوین، مطبوعہ علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی، اسلام آباد، 1996ء

حوالہ جات

ترمیم
  1. اقوام کشمیر، صفحہ 74۔
  2. ڈاکٹر خلیفہ عبد الحکیم، صفحہ 1۔
  3. سلیم واحد سلیم کے کلام کی تدوین، صفحہ 6-7۔
  4. سلیم واحد سلیم کے کلام کی تدوین، صفحہ 7-8۔
  5. سلیم واحد سلیم کے کلام کی تدوین، صفحہ 9۔
  6. سلیم واحد سلیم کے کلام کی تدوین، صفحہ 10۔
  7. پیرایانا کا مریض بظاہر ہر لحاظ سے متوازن ہوتا ہے اور جس موضوع پر بھی اُس سے گفتگو کی جائے، وہ انتہائی باشعور ہونے کا ثبوت دیتا ہے، لیکن ایسا انسان اپنے گرد خیال کا ایک خاص دائرہ بنالیتا ہے اور کوئی دوسرا اُس میں داخل نہیں ہو سکتا۔
  8. سلیم واحد سلیم کے کلام کی تدوین، صفحہ 12-13۔
  9. سلیم واحد سلیم کے کلام کی تدوین، صفحہ 11۔