شمس وارثی
سید شمس الحسن المعروف شمس وارثی (پیدائش: یکم جولائی 1935ء - 19 جنوری 2008ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو زبان کے ممتاز نعت گو شاعر اور ادیب تھے۔ انھوں نے حمد، نعت، غزل، نظم، قومی نغمات، سلام اور منقبت کی اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی۔
شمس وارثی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائشی نام | (اردو میں: سید شمس الحسن) |
پیدائش | 1 جولائی 1935ء بارہ بنکی ضلع ، اتر پردیش ، برطانوی ہند |
وفات | 19 جنوری 2008ء (73 سال) کراچی ، پاکستان |
مدفن | سخی حسن |
شہریت | برطانوی ہند پاکستان |
عملی زندگی | |
مادر علمی | جامعہ کراچی |
تعلیمی اسناد | فاضل القانون ، ایم اے |
پیشہ | شاعر |
پیشہ ورانہ زبان | اردو |
ملازمت | نیشنل بینک آف پاکستان |
باب ادب | |
درستی - ترمیم |
حالات زندگی
ترمیمشمس وارثی یکم جولائی 1935ءکو قصبہ کھیوالی، ضلع بارہ بنکی، اتر پردیش ، برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید شمس الحسن، تخلص شمس تھا جبکہ شمس وارثی ان کا قلمی نام تھا۔ ان کے والدسید فخر الحسن وارثی اپنے قصبہ کے بڑے زمیندار اور نمبردار تھے۔ میٹرک کی تعلیم سینٹ جوزف مشنری اسکول بارہ بنکی سے حاصل کی۔ انٹرمیڈیٹ کا امتحان اسلامیہ کالج لکھنؤ سے پاس کیا۔ تقسیم ہند کے بعد والدین کے ساتھ پاکستان منتقل ہو گئے۔ ابتدا میں راولپنڈی اور بعد ازاں کراچی میں رہائش پزیر ہو گئے۔جامعہ کراچی سے ایم اے ، ایل ایل بی کی اسناد حاصل کیں اور جامعہ پنجاب سے اردو فاضل کا امتحان پاس کیا۔ نیشنل بینک آف پاکستان میں ملازمت کی اور اسی ادارے سے مدتِ ملازمت مکمل ہونے کے بعد سبکدوش ہوئے۔ نیشنل بینک میں بزمِ ادب نیشنل بینک (رجسٹرڈ) قائم کی۔ بزمِ ادب نیشنل بینک کا جوش ملیح آبادی اعزاز، پاکستان نعت اکیڈمی کا اعزاز اور ٹرانس پاک کارپوریشن کا اعزاز حاصل کیا۔ ان کی کتابوں میں حرفِ نوا (نعتیہ مجموعہ، 1975ء)، حرفِ معتبر (غزلیں، نعتیں، حمدیں، سلام، مناقب، قومی نغمات)، طیبہ جانے والے میرا سلام لے جا (نعتیہ مجموعہ)، رحمتِ تمام (نیشنل بینک کے شعرا کا نعتیہ انتخاب)، گلہائے وارث (احرام پوش فقرا کا منظوم تذکرہ، 1996ء) اور حضرت مجدد الف ثانی (سوانح) شامل ہیں۔[1]
نمونۂ کلام
ترمیمنعت
درِ حضرت کے پہنچے جو بن کر گدا، دیکھتے دیکھتے تاجور بن گئے | فیضِ سرکار سے چند لمحات میں، بے بصر صاحبانِ نظر بن گئے | |
ظلم و جبر و تشدد کی ہستی مٹی، رحم و انصاف کی اُن سے عظمت بڑھی | آمدِ شاہِ کون و مکاں کیا ہوئی، پُر سکوں کتنے شام و سحر بن گئے | |
بے سہاروں کو اُن سے سہارا ملا، ڈوبتے تھے جو اُن کو کنارا ملا | چھا چکی تھی زمانے پہ بیچارگی، آپ سب کے لیے چارہ گر بن گئے | |
کفر و باطل کی ساری سیاہی چھٹی، آپ آئے تو بس روشنی ہو گئی | ظلمتوں میں تھا بھٹکا ہوا کارواں، تاجدارِ عرب راہبر بن گئے | |
یادِ احمد سے رہتا ہے دل مطمئن، تذکرہ ہے لبوں پر یہی رات دن | جب بھی اے شمس! میں مضطرب ہو گیا، آپ تسکینِ قلب و جگر بن گئے[2] |
وفات
ترمیمشمس وارثی 19 جنوری 2008ء کو کراچی، پاکستان میں انتقال کر گئے۔ وہ سخی حسن قبرستان میں مدفون ہیں۔[3]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ منظر عارفی، کراچی کا دبستان نعت، نعت ریسرچ سینٹر کراچی، 2016ء، ص 307
- ↑ کراچی کا دبستان نعت، ص 309
- ↑ ڈاکٹر محمد منیر احمد سلیچ، وفیات نعت گویان پاکستان، نعت ریسرچ سینٹر کراچی، 2015ء، ص 64