امام شامل (پیدائش 1797ء۔ انتقال مارچ 1871ء) شمالی قفقاز کے مسلمانوں کے ایک عظیم رہنما تھے جن کی قیادت میں انھوں نے روسی استعمار کے خلاف جنگ قفقاز میں بے مثل شجاعت کا مظاہرہ کیا۔ وہ داغستان اور امامت قفقاز کے تیسرے سربراہ اور نقشبندی سلسلے کے تیسرے امام تھے۔ (از 1834ء تا 1859ء)

امام شامل
(اواری میں: Шамил ویکی ڈیٹا پر (P1559) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
 

معلومات شخصیت
پیدائش 26 جون 1797ء [1]  ویکی ڈیٹا پر (P569) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
گمری   ویکی ڈیٹا پر (P19) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
وفات 4 فروری 1871ء (74 سال)[2][3][4][5]  ویکی ڈیٹا پر (P570) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدینہ منورہ   ویکی ڈیٹا پر (P20) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مدفن جنت البقیع   ویکی ڈیٹا پر (P119) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
شہریت سلطنت روس   ویکی ڈیٹا پر (P27) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
مناصب
امام داغستان   ویکی ڈیٹا پر (P39) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
برسر عہدہ
19 ستمبر 1834  – 25 ستمبر 1859 
حمزہ بیک  
 
عملی زندگی
پیشہ سیاست دان ،  امام   ویکی ڈیٹا پر (P106) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عسکری خدمات
وفاداری امامت قفقاز ،  سلطنت روس   ویکی ڈیٹا پر (P945) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
عہدہ صدر اعظم (عہدہ) [6]  ویکی ڈیٹا پر (P410) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
لڑائیاں اور جنگیں جنگ قفقاز ،  جنگ کریمیا   ویکی ڈیٹا پر (P607) کی خاصیت میں تبدیلی کریں
دستخط
 

ابتدائی زمانہ

ترمیم

امام شامل 1797ء میں موجودہ داغستان کے ایک چھوٹے سے قصبے گھمری میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد ایک زمیندار تھے۔ امام شامل نے بچپن میں عربی سمیت کئی مضامین میں تعلیم حاصل کی۔ انھوں نے نقشبندی مجددی خالدیہ صوفی سلسلے میں شمولیت اختیار کرلی اور قفقاز کے علاقے کے مسلمانوں کی ایک تعلیم یافتہ اور ہر دلعزیز شخصیت بن گئے۔

جب امام شامل پیدا ہوئے تو روسی سلطنت سلطنت عثمانیہ اور فارس کے علاقے پر قبضے کرکے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کر رہی تھی۔ فارس کے سلطان کی حمایت سے جنگ قفقاز میں علاقے کے کئی مسلمان قبائل نے روسی استعمار کے بغاوت کردی۔ قفقازیوں کی مزاحمت کے اولین رہنماؤں میں شیخ منصور اور غازی ملا معروف ہیں۔ امام شامل غازی ملا کے بچپن کے دوست تھے۔

1834ء میں غازی ملا جنگ گھمری میں شہید ہو گئے اور امام شامل قفقاز کے جہاد کے رہنما اور نقشبندی مجددی خالدیہ طریقت کے امام بن گئے۔

روسی استعمار

ترمیم

روسیوں کے قبضے سے پہلے قفقاز کے علاقے کبھی ایران کی حکومت کے تحت آجاتے تھے اور کبھی ان پر عثمانی ترک قابض ہوجاتے تھے۔ شروان کا علاقہ جہاں سے اسماعیل صفوی نے اپنی حکومت کا آغاز کیا آذربائیجان کا ایک حصہ ہے۔ جب افغانوں نے اصفہان پر قبضہ کرکے صفوی سلطنت کا خاتمہ کر دیا تھا تو ایران کے ابتر حالات سے فائدہ اٹھا کر روس نے داغستان اور شمالی آذربائیجان پر اور عثمانی ترکوں نے گرجستان اور آرمینیا پر قبضہ کر لیا تھا لیکن نادر شاہ نے ان علاقوں کو جلد ہی واپس لے لیا۔ اس کے بعد روسی 1797ء میں پھر داغستان پر قابض ہو گئے اور چند سال میں دریائے اردس تک پورے آذربائیجان پر قبضہ کر لیا۔ فتح علی شاہ قاچار 1828ء میں معاہدہ ترکمانچی کے تحت ان تمام علاقوں پر سے ایران کے حق سے دستبردار ہو گیا۔

تاریخی مزاحمت

ترمیم
 
امام شامل کی گرفتاری کا منظر– 1859ء

روسیوں کی اس جارحانہ پیش قدمی کے دوران جس علاقے کے باشندوں نے حملہ آوروں کا سب سے زیادہ مقابلہ کیا وہ داغستان ہے یہاں کے جرّی باشندوں نے بار بار بغاوت کی اور روسیوں کو اپنے وطن سے نکال باہر کیا۔ آزادی کی اس جنگ میں سب سے زیادہ شہرت اور نیک نامی امام شامل نے حاصل کی۔ داغستان کے حکمران کی حیثیت سے انھوں نے 25 سال تک بے مثل شجاعت سے روسیوں کی لاتعداد فوج کا مقابلہ کیا اور 1845ء تک داغستان کے ہر حصے سے روسیوں کو نکال دیا لیکن روسی بار بار حملہ آور ہوتے تھے اور امام شامل کے ليے ان کی کثیر تعداد اور جدید اسلحے سے لیس افواج کا تنہا مقابلہ کرنا ممکن نہیں رہا۔ انھوں نے سلطنت عثمانیہ اور برطانیہ سے مدد حاصل کرنا چاہی لیکن ناکام رہے۔ آخر کار 1859ء میں غنیب کے سخت ترین معرکے میں روسیوں کی تمام شہریوں کو قتل کر دینے کی دھمکی پر انھوں نے تمام شہریوں کی جان کے بدلے خود کو روسی فوج کے حوالے کر دیا اور ہتھیار ڈال دیے۔

روسی کمانڈر نے جو زار روس کا بھائی تھا، زار کو مبارکباد کا تار دیا کہ آج 100 سال سے جاری قفقاز کی جنگ ختم ہو گئی۔ اس دن کلیساؤں میں اس کامیابی پر شکرانے کی عبادت کی گئی۔

نظر بندی

ترمیم

روسی حکومت امام شامل کے ساتھ عزت و احترام سے پیش آئی۔ ان کی پنشن مقرر کر دی گئی اور رہنے کے لیے مکان دیا گیا۔ 1870ء تک امام شامل روس میں نظر بند رہے۔

حجاز مقدس آمد اور انتقال

ترمیم

1870ء میں وہ روسی حکومت کی اجازت سے حج کے ليے مکہ معظمہ گئے۔ حجاز مقدس کی جانب سفر کے دوران وہ ترکی اور مشرق وسطی کے دیگر ممالک سے گذرے جہاں کے عوام نے ان کا فقید المثال خیر مقدم کیا۔ اگلے سال 1871ء میں ان کے صاحبزادے غازی محمد روسی قید سے رہا ہوکر مکہ مکرمہ پہنچے لیکن امام شامل مدینہ منورہ انتقال کر گئے۔ انھیں جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔

شخصیت اور کارنامے

ترمیم

امام شامل کی عظمت محض ان کی دلیرانہ جنگ کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ ان کی سیاسی بصیرت، سوجھ بوجھ، انتظامی صلاحیت اور کردار کی بلندی نے عبدالقادر الجزائری اور ٹیپو سلطان کی طرح ان کی عظمت کو چار چاند لگا دیے۔ ان کا زمانہ داغستان کی تاریخ میں "شریعت کا دور" کہلاتا ہے۔ امام شامل تصوف کے نقشبندی سلسلے کے سربراہ تھے۔ ان کے مرتب کردہ انتظامی اور قانونی ضابطے "نظام شامل" کہلاتے تھے۔ اس کے تحت داغستان 32 انتظامی اضلاع میں تقسیم کیا گیا تھا۔ انتظامیہ اور عدلیہ الگ الگ تھے۔ ہر ضلع کا مفتی عدالت کے محکمے کا ذمہ دار تھا اور ضلع کا حاکم اس کے معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتا تھا۔ ہر مفتی کے تحت 4 قاضی ہوتے تھے۔ اگر کسی معاملے کو قاضی طے نہ کرسکتے تھے تو وہ مفتی کے سامنے پیش کیا جاتا تھا اور مفتی اس معاملے کو امام شامل یا مجلس شوری کے سامنے پیش کرتا تھا جس کو دیوان کا نام دیا گیا تھا۔ امام شامل نے احتساب کا محکمہ بھی قائم کیا تھا جس کے ذریعے عہدے داروں پر نگرانی رکھی جاتی تھی۔ فوجوں کی تنظیم بھی جدید طرز پر کی گئی تھی اور دار الحکومت و دینو Vedeno میں بندوقوں اور توپوں کو ڈھالنے کا کارخانہ بھی قائم کیا گیا تھا۔ ایک زمانے میں داغستان کی افواج کی تعداد 60 ہزار سوار اور پیادہ فوج تک پہنچ گئی تھی۔ فوجی تربیت کے ليے جو مراکز قائم کیے گئے تھے ان میں قید کیے جانے والے روسی افسر تربیت دیتے تھے۔

امام شامل کے ہتھیار ڈال دینے کے بعد داغستان میں 5 سال تک روسیوں کی مزاحمت جاری رہی یہاں تک کہ 21 مئی 1864ء کو داغستان کا آخری پہاڑی قلعہ بھی روسیوں کے قبضے میں آ گیا اور داغستان کی آزادی کی جنگ ختم ہو گئی۔ چچنیا میں جاری آزادی کی تحریک شاید انہی کی خاک کی چنگاری ہے۔ چیچن جانبازوں کے سربراہ شامل بسایوف کا نام ان کے والدین نے امام شامل کے نام پر ہی رکھا تھا جو رواں سال 10 جولائی 2006ء کو جاں بحق ہوئے۔

متعلقہ مضامین

ترمیم

بیرونی روابط

ترمیم
  1. عنوان : Большая российская энциклопедия — مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://bigenc.ru/ — اجازت نامہ: کام کے حقوق نقل و اشاعت محفوظ ہیں
  2. جی این ڈی آئی ڈی: https://d-nb.info/gnd/118754025 — اخذ شدہ بتاریخ: 12 اگست 2015 — اجازت نامہ: CC0
  3. عنوان : Nationalencyklopedin — NE.se ID: https://www.ne.se/uppslagsverk/encyklopedi/lång/sjamil — بنام: Sjamil — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  4. بنام: Ben Muhammed S. Efendi — ایس ای ایل آئی بی آر: https://libris.kb.se/auth/214367 — اخذ شدہ بتاریخ: 9 اکتوبر 2017
  5. عنوان : Большая российская энциклопедия — مکمل کام یہاں دستیاب ہے: https://bigenc.ru/ — اخذ شدہ بتاریخ: 19 جنوری 2019 — اجازت نامہ: کام کے حقوق نقل و اشاعت محفوظ ہیں
  6. https://web.archive.org/web/20180715194419/https://www.marxists.org/russkij/marx/cw/index.htm — سے آرکائیو اصل فی 15 جولا‎ئی 2018