طاعون (پلیگ plague) ایک عدوی امراض ہے جو ایک امعائیہ (enterobacteria) جراثیم، یرسنیہ طاعونی (Yersinia pestis) کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے۔ گو کہ اس کے انسان میں نمودار ہونے کے واقعات دیگر متعدی بیماریوں کی نسبت کم ہوتے ہیں اور اس کا علاج بھی ممکن ہے لیکن اس کے باوجود یہ متعدی بیماریوں میں انتہائی خطرناک شمار کی جانے والی ایک بیماری ہے، کیونکہ علاج میں کوتاہی سے اس کی شرح اموات 50 تا 90 فیصد ہوتی ہے [5] ۔ یرسنیہ طاعونی ایک گرام منفی عصیہ (bacillus) قسم کا جراثیم ہوتا ہے یعنی خرد بینی مشاہدے پر اس کی شکل سلاخ یا عصا نما نظر آتی ہے۔ یہ جرثومہ (bacteria) اصل میں خون نوش (hematophage) طفیلیات کے ذریعہ سے انسان میں داخل ہوتا ہے، ان خون نوش کیڑوں (طفیلیات) میں سب سے زیادہ ملوث پایا گیا کیڑا ایک طفیلی ہے جو پسو (flea) کہلاتا ہے۔ جبکہ اس خون نوش کیڑے میں طاعون کا جراثیم اس وقت داخل ہوتا ہے کہ جب یہ اپنی غذا کے طور پر کسی ایسے جوندگان (rodent) مثلا چوہے کا خون چوس رہا ہوتا ہے جو پہلے سے طاعون کے مرض میں مبتلا ہو اور اس چوہے کے جسم میں یرسنیہ طاعونی جرثومہ موجود ہو، اس طرح طاعون کے جراثیم اس چوہے سے پسو کے جسم میں داخل ہوجاتے ہیں اور جب یہ پسو انسان کو کاٹتا ہے یا خون چوستا ہے تو وہ طاعون کے جراثیم انسان میں منتقل کر دیتا ہے۔ اس کے علاوہ بعض اوقات یہ بیماری بغیر پسوؤں کے ملوث ہوئے بھی انسان میں داخل ہو سکتی ہے جیسے ہوا میں بکھرے ہوئے ایسے قطرات جن میں جراثیم موجود ہوں اور وہ سانس کے راستے انسان میں داخل ہو جائیں، بعض اوقات یہ جوندگان کے ساتھ براہ راست تعلق (جیسے ان کی کسی نسیج یعنی گوشت وغیرہ کا انسان کے جسم میں داخل ہوجانا) سے بھی انسان میں منتقل جاتی ہے یا پھر کسی ایسے جوندگان (چوہے) کا انسان کو کاٹ لینا جس میں طاعونی جراثیم موجود ہوں۔

طاعون
فلوریسینٹ تکنیک سے طاعون کے جراثیم کا 2 سو گنا بڑا نظارہ.
اختصاصInfectious disease
علاماتبخار, weakness, سر درد[1]
عمومی حملہ1-7 days after exposure[2]
اقسامBubonic plague, septicemic plague, pneumonic plague[1]
وجوہاتYersinia pestis[2]
تشخیصی طریقہFinding the bacterium in a lymph node, blood, sputum[2]
تدارکPlague vaccine[2]
علاجضد حیویs and supportive care[2]
معالجہGentamicin and a fluoroquinolone[3]
تشخیض مرض~10% risk of death (with treatment)[4]
تعدد~600 cases a year[2]

تاریخ ترمیم

ایشیا سے ہونے والی جہازرانی کے سبب1347ء-1351ء میں یورپ میں بدترین طاعون کی وبا پھیلی جس میں بعض شہروں کے 50 سے 70 فیصد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ مرنے والے بیشتر لوگ بوڑھے اور بچے تھے۔[6] اندازہ ہے کہ یورپ میں 5 کروڑ افراد اس وبا سے مر گئے تھے۔ تاریخ میں اس سانحہ کو بلیک ڈیتھ کا نام دیا گیا ہے۔[7]

1896ء میں انڈیا میں طاعون کی وبا پھیلی تھی جس میں 15 لاکھ لوگ مر گئے۔[8]

اہم اقسام ترمیم

ویسے تو طاعون کی کئی اقسام ہیں مگر عام طور پر جن کیفیات میں یہ زیادہ نمایاں ہوتی ہے یا انسان پر اثر انداز ہوتی ہے وہ تین ہیں اور انھیں اس کی اہم ترین سریری یا مطبی (clinical) اقسام مانا جاتا ہے۔

  1. خیارکی طاعون (bubonic plague)
  2. انتانی طاعون (septicemic plague)
  3. پھیپڑی یا رئوی طاعون (پھیپھڑے plague)

آج کی طب میں اس کا مکمل اور مناسب علاج دریافت کر لیے جانے کے بعد گو اس کے انسانی حملے اب فرادی یا انفرادی (sporadic) ہی نمودار ہوتے ہیں یا اگر کسی کو کسی سے لگتی بھی ہے تو یہ حملہ بہت چھوٹے انسانی گروہوں تک ہی محدود رہتے ہوئے ختم کر دیا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود کسی بھی جگہ پر طاعون کے ایک وباء کی صورت پھیل جانے کے امکانات کو یکسر نظر انداز بھی نہیں کیا جا سکتا۔

سببیات ترمیم

طاعون کا سببیاتی سازندہ (aetiologic agent) ایک امعائیہ (enterobacteria) جراثیم ہوتا ہے جسے یرسنیہ طاعونی (Yersinia pestis) کہتے ہیں۔ تجربہ گاہوں میں یہ جرثومہ بے تکلف (nonfastidious) ثابت ہوتا ہے یعنی اس کو اس کو اپنے گزارے کے لیے کوئی بہت باقاعدہ ماحول کی ضرورت نہیں ہوتی اور باآسانی تجربہ میں اس کی نشو و نما ہوجاتی ہے یا یوں بھی کہـ سکتے ہیں کہ تجربات و اختبارات کے لیے یہ باآسانی جوندگانوں (مثلا چوہوں) میں منتقل ہوکر اپنی نشو و نما شروع کردیتا ہے۔

مطبی اظہار ترمیم

 
ایک طاعون سے متاثرہ شخص کے اریبہ (جانگھ) پر نمودار ہونے والا سیالہ عقدہ جو ایک خیارک یا گٹھلی (پھوڑے) کی شکل میں دکھائی دیتا ہے اسے انگریزی میں bubo کہتے ہیں اور اس قسم طاعون کو ہی خیارکی طاعون یا bubonic plague کہا جاتا ہے

مطبی اظہار (clinical presentation) سے مراد کسی مرض کی وہ شکل ہوتی ہے جس میں ایک مریض کسی مطب (clinic) یا شفاخانے (hospital) سے رجوع کرتا ہے۔ سب سے عام شکل جس میں ایک طاعون کا اظہار ہو سکتا ہے وہ خیارکی (bubonic) ہوتی ہے یعنی مریض کے سیالہ عقدے (lymph nodes) میں ورم اور سوزش کے ساتھ وہ بڑھ کر ایک گٹھلی (خیارک) بنا دیتا ہے۔ یہ نوبت بیماری کے جراثیم کے جسم میں داخل ہونے کے 3 تا 5 روز بعد ظاہر ہوا کرتی ہے اور اس 3 تا 5 روز کے دورانیئے کو طب میں تخم سازی (incubation) کا دورانیہ کہا جاتا ہے جس میں جراثیم جسم میں داخل ہونے کے بعد اپنی تعداد میں اضافہ کرتے ہیں، تخم سازی کرتے ہیں یا یوں کہ لیں کہ جیسے مرغی کی طرح اپنے انڈے یا بچے سیتے ہیں۔ چونکہ اس خیارکی مرحلے میں بننے والا خیارک یا گٹھلی، سیالہ عقدے میں ہوتی ہے اس لیے اس مرحلے کو سیالہ سوزش (lymphadenitis) بھی کہا جاتا ہے۔ عام طور پر اس گٹھلی کی جسامت 1 سینٹی میٹر سے 10 سینٹی میٹر تک ہو سکتی ہے [9]

خیارکی سے انتانی طاعون ترمیم

جراثیم جسم میں داخل ہونے کے بعد ان کے دور تخم سازی کے پورا ہوجانے پر اچانک سردی کے ساتھ تیز بخار آتا ہے جس میں کمزوری کا احساس اور سردرد ساتھ نمودار ہو سکتے ہیں مزید یہ کہ جسم کے عضلات میں درد اور متلی یا قے کی کیفیات بھی پیدا ہو سکتی ہیں۔ پھر اس کے بعد مریض جسم کے کسی حصے کے سیالہ عقدے میں سوجن یا ورم محسوس کرتا ہے جس میں شدید تکلیف اور سوزش ہوتی ہے۔ یہ سوجن بغل، گردن اور یا اربیہ (ران اور پیٹ کے جوڑ) پر ہو سکتی ہے جو سخت اور چھونے پر تکلیف دہ ہوتی ہے۔ اگر اس موقع پر درست علاج نہ ہو پائے تو طاعون اپنے اگلے مرحلے میں داخل ہو جاتی ہے جس کو انتانی طاعون کہتے ہیں۔ بعض اوقات جلد پر ارغوانہ (purpura) بھی نمودار ہوتا ہے جو جلد کے نیچے خونی یا سرخ رنگ کے دھبوں کی صورت میں دیکھا جاتا ہے اور خون کی رگوں میں سوزش اور جماؤ کے پیدا ہونے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ کچھ مریض خیارکی کی صورت حال سے گذرے بغیر ہی انتانی طاعون میں داخل ہوجاتے ہیں۔ اور جب مریض کا مطبی اظہار اس انتانی طاعون کی شکل میں ہوتا ہے جو ایک طبیب کے لیے اس کی تفریقی تشخیص (differential diagnosis) انتہائی اہم ہو جاتی ہے کیونکہ ایسی صورت میں مریض کی علامات وہی ہو سکتی ہیں جو کسی بھی دوسری عدو (infection) میں اور ان کو علاحدہ شناخت کرنا خاصہ مشکل ہوتا ہے اگر طبیب ماہر نہ ہو تو چوک کے امکانات بھی ہوتے ہیں لہذا ایسی صورت میں مناسب طبی مختبر (medical laboratory) کے مخصوص اختبارات (tests) کی ضرورت ہوتی ہے (تفصیل اختبارات کے قطعہ میں)۔

رئوی طاعون ترمیم

جب طاعون، خیارکی سے گذر کر انتانی مرحلے میں داخل ہو جائے تو سب سے خوفناک بات اس مریض کے پھیپڑوں کا ملوث ہوجانا ہوتا ہے جس کی وجہ سے سوزش رئوی (pneumonia) پیدا ہوتی ہے۔ اس کو ثانوی سوزش رئوی کہا جاتا ہے کیونکہ یہ براہ راست پھیپڑوں کی بیماری سے ہونے کی بجائے طاعون کے نتیجئے کہ طور پر نمودار ہونے والی سوزش رئوی ہوتی ہے۔ لیکن اگر یرسنیہ طاعونی کا جرثومہ براہ راست پھیپڑوں پر ہی حملہ آور ہوا ہو اور اس میں خون کی انتانی کا عمل دخل نہ ہو تو پھر اس کو ابتدائی سوزش رئوی کہا جاتا ہے اور ایسی طاعون کہ جو پھیپڑوں کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہو تو اس کو رئوی یا پھیپڑی طاعون (pulmonary plague) کہا جاتا ہے ایسا ہونے کی سب سے اہم وجہ انتانی طاعون میں ہونے والے انتان (septicemia) کی موجودگی ہوتی ہے جس میں طاعون کا جراثیم خون میں شامل ہو کر تمام جسم میں پھیل رہا ہوتا ہے اور ایسی صورت میں اس کا پھیپڑوں پر حملہ کرنا ہی رئوی طاعون کا موجب بنتا ہے۔ رئوی طاعون سے متاثر پھیپڑوں کی نسیج سے خون کا اخراج ہوتا ہے جو تھوک کے ساتھ خارج ہوتا ہے اس کو نَفثُ الدم (hemoptysis) کہا جاتا ہے، یہ کھانسی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔ اگر بلغم ہو تو وہ جراثیم سے بھرا ہوا اور بو دار ہوتا ہے۔

تشخیص ترمیم

  • طاعون کی تشخیص کا اہم ترین اختبار وہ ہوتا جس میں بذات خود یرسنیہ طاعونی جراثیم کو شناخت کر لیا جائے۔ ایسی شناخت کے لیے مریض کا خون، بلغم یا پھیپڑوں سے نکالا گیا مواد استعمال کیا جاتا ہے۔
  • جراثیم کو دیکھنے کے لیے گرام منفی تلوین (staining) اور یا پھر جسم ضدی تالُـّـق (fluorescent antibody) کے اختبارات استعمال کیے جاتے ہیں۔ (جسم ضدی تالق اختبار کی شکل اوپر خانۂ معلومات میں دیکھی جا سکتی ہے)۔
  • ایلیزا کے اختبار کا طریقۂ کار بھی استعمال کیا جاتا ہے
  • مرکزی ترشہ اختبارات کی جدید ترین سہولیات میں PCR سب سرعت اور سب اختبارات سے پہلے جراثیم کے موراثہ (genome) کی خون میں شناخت کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

حوالہ جات ترمیم

  1. ^ ا ب
  2. ^ ا ب پ ت ٹ ث
  3. Hoffman SL (1980Bold text). "Plague in the United States: the "Black Death" is still alive". Annals of Emergency Medicine 9: 319–22.
  4. "The World Could Look Like This": Weather Channel Unveils Global Warming Apocalypse Propaganda
  5. Fears Of Pneumonic Plague Outbreak After 2 Diagnosed In China - Hospital On Lockdown
  6. Modern India, by William Eleroy Curtis
  7. Cecil Text Book of Medicine; 17th Ed. ISBN 1-4160-0185-9 W.B. Saunders
  • Harrison's Principles of Internal Medicine 16th Ed. ISBN 0-07-140235-7 The McGraw Hill companies