عامر عثمانی
ایسا لگتا ہے کہ اس مضمون میں قابلِ توجہیت کو ظاہر کرنے کے لیے حوالہ ناکافی ہے۔ تاہم، ایک صارف نے تلاش کی ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اس بات کی نشاندہی کرنے کے لیے کافی ذرائع موجود ہیں کہ یہ ایک قابل ذکر موضوع ہے۔
آپ معتبر ذرائع کے حوالہ جات شامل کر کے مضمون کو بہتر بنانے میں مدد کر سکتے ہیں۔ حوالہ جات کے لیے آئیڈیاز بھی بات چیت کے صفحے پر مل سکتے ہیں۔ (جانیں کہ اس سانچہ پیغام کو کیسے اور کب ختم کیا جائے) |
عامر عثمانی (1920ء – 1975ء) بھارت سے تعلق رکھنے والے اردو کے ممتاز، مصنف، محقق، ادیب اور شاعر تھے۔ ان کا تعلق دیوبندی مکتب فکر سے تھا، دارالعلوم دیوبند سے ہی تعلیم حاصل کی تھی، وہاں کے کتب خانے سے خوب استفادہ کیا۔ حالانکہ تعلق دیوبند سے تھا، مگر یہ تا حیات جماعت اسلامی ہند کے حامی رہے۔ تجلی کے عنوان سے ایک رسالہ بھی نکالتے تھے جس میں ان کے اور ان کے ہم خیال لوگوں کے مضامین شائع ہوتے تھے۔
عامر عثمانی | |
---|---|
معلومات شخصیت | |
پیدائش | سنہ 1920ء ہردوئی ضلع |
وفات | 12 اپریل 1975ء (54–55 سال) پونے |
شہریت | برطانوی ہند (–14 اگست 1947) بھارت (26 جنوری 1950–) ڈومنین بھارت (15 اگست 1947–26 جنوری 1950) |
مذہب | اسلام |
فرقہ | اہل سنت |
فقہی مسلک | حنفی |
عملی زندگی | |
پیشہ | مصنف ، ادیب ، شاعر ، صحافی |
تحریک | دیوبندی ، جماعت اسلامی |
درستی - ترمیم |
سوانح
ترمیمعامر عثمانی نومبر سنہ 1920ء میں ہردوئی میں پیدا ہوئے، اصلی نام امین الرحمن تھا لیکن عامر عثمانی کے نام سے مشہور ہوئے۔ والد کا نام مطلوب الرحمن تھا جو انجنیر تھے۔ آبائی وطن دیوبند تھا، پوری تعلیم دارالعلوم دیوبند سے حاصل کی، فارغ التحصیل ہونے کے بعد پتنگیں بنا کر بیچنے لگے، ایک عرصے تک اس کام سے جڑے رہے، لیکن اس سے ضروریات پوری نہیں ہوتی تھیں، اس لیے شیشے پر لکھنے کی مشق کرنے لگے اور اس میں وہ مہارت حاصل کی کہ اچھے اچھوں کو پیچھے چھوڑ دیا۔ مولانا کے مشہور ماہنامہ "تجلی" کے اکثر سرورق خود مولانا نے بنائے ہیں۔ اس کے بعد مولانا پر وہ دور بھی آیا کہ ان کا قلم ممبئی کی گندی فلم نگری کی طرف مڑ گیا، مگر یہ دنیا مولانا کی طبیعت سے میل نہیں کھاتی تھی اور والد مرحوم نے یہ بھی کہہ دیا کہ فلم سے کمایا ہوا ایک پیسہ بھی میں نہیں لوں گا۔ اسی لیے جلد ہی مولانا دیوبند لوٹ گئے۔ ذریعۂ معاش کے طور پر ماہنامہ "تجلی" کا اجرا کیا۔
ماہنامہ تجلی
ترمیمماہنامہ "تجلی" کا اجرا 1949ء میں کیا گیا جو مولانا کی وفات تک یعنی 25سال تک مسلسل بلا کسی انقطاع کے شائع ہوتا رہا۔ حالات و آزمائشوں کے باوجود اس رسالے نے علمی و ادبی دنیا میں بہت کم مدت میں خوب شہرت حاصل کی، منظر عام پر آتے ہی ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا، اس کے سلسلہ مضامین کا اہل علم و ذوق شدت سے انتظار کرتے تھے۔
جماعت اسلامی سے تعلق
ترمیممولانا جماعت اسلامی کے بے حد مداح تھے۔ ہندوستان میں اس وقت جماعت اسلامی کے لیے میدان کارساز نہیں تھا، جماعت اسلامی اور مولانا مودودیؒ کو کفر کے فتاوی کا سامنا کرنا پڑ رہا اس وقت مولانا عامر عثمانی نے مولانا مودودی اور جماعت اسلامی کے حق میں آواز بلند کی جماعت اسلامی کی موافقت میں بات کرنا مشکل تھا مگر مولانا عامر عثمانی ایسے وقت میں جماعت کے خلاف اٹھنے والے فتنوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے لگے۔ جب مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی نے ’’خلافت و ملوکیت‘‘ لکھی تو اسں کتاب کو شدید طنز و تعریض کا نشانہ بنایا گیا، مولانا مودودی کا استہزا کیا گیا۔ مولانا عامر عثمانی کی حمیت اس بے جا مخالفت اور مداہنت کو برداشت نہ کر سکی، نتیجتاً انھوں نے تجلی "خلافت و ملوکیت نمبر" نکالا، ان کے موقف کا زبردست دفاع کیا اور دلائل و براہین کے ایسے انبار لگائے کہ جماعت اسلامی کے مخالفین منہ دیکھتے رہ گئے۔
تصانیف
ترمیم- شاہنامہ اسلام (جدید)
- یہ قدم قدم بلائیں (شاعری)
- مسجد سے مے خانے تک
- تین طلاق مکتبہ دیوبند یوپی
- تجلیات صحابہ (مکتبہ الحجاز پاکستان)
- تجلی(رسالہ کے مدیر رہے)
- حضرت عثمان ذوالنورین
- رسول اللہ کا سایہ
- تفہیم القرآن پر اعتراضات کی علمی کمزوریاں (کشمیر سے طبع ہوئی ہے)
- مسلم پرسنل لا پر اعتراضات اور اس کے جوابات
وفات
ترمیممولانا عامر عثمانی کی وفات 12 اپریل 1975ء میں پونہ، مہاراشٹر کے ایک مشاعرے کے دوران میں اپنی مشہور نظم "جنہیں سحر نگل گئی وہ خواب ڈھونڈتا ہوں میں" سناتے ہوئے ہوئی۔ ان کے جسد خاکی کو ممبئی لایا گیا اور "ناریل واڑی قبرستان" میں تدفین ہوئی۔
طنز و مزاح نگاری
ترمیمطنز ومزاح میں آپ نے نمایاں مقام حاصل کیاتھا اس کی دلیل مسجد سے مئے خانے تک نامی کتاب سے دی جا سکتی ہے ۔
شاعری
ترمیمآپ کی شاعری میں اسلام پسندی اور حقانیت و رومانیت ایک ساتھ چلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ آپ کی نظمیں خالص اسلامی نظمیں ہیں۔[1][2]
حوالہ جات
ترمیم- ↑ مولانا عامر عثمانی ~ zaheer danish umary
- ↑ دس عالم شعرا از سید ظؔہیر صفحہ 90