عبد الرحمان بن عبد رب انصاری

عبد الرحمان بن عبد رب انصاری خزرجی کربلا میں شہید ہونے والے حضرت امام حسین کے وہ صحابی ہیں جنھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کی اور حضرت علی ؑ کے ساتھیوں میں سے ہیں۔یہ ان اصحاب رسول اللہ میں سے ہیں جنھوں نے رحبہ کے دن لوگوں کے سامنے غدیر خم کے واقعہ کو بیان کیا اور حضرت علی علیہ السلام کی ولایت کی گواہی دی ۔

عبد الرحمان بن عبد رب انصاری خزرجی
عربی:عبد الرحمن بن عبد رب الأنصاری الخزرجی
ذاتی
وفات10 محرم الحرام, 61 A.H. / 10 October, 680 AD
موت کی وجہواقعی کربلا میں شہید ہوئے
مدفنکربلا, عراق
مذہباسلام
وجہ شہرتعلی، حسن ابن علی اور حسین ابن علی کا ساتھی ہونا

صحابہ کرام کے حوالے سے یہ بات معلوم ہونا بھی مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ کچھ احادیث اور تاریخی کتابوں کے واقعات میں راویوں پر علما اسلام کی طرف سے جرح بھی کی گئی ہے اور بہت سے راویوں کے حالات معلوم نہیں ہیں۔مسلمان امت صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور اہل بیت اطھار کے بارے میں صحیح عقائد قرآن وسنت اور مستند و صحیح احادیث نبوی سے لیتے ہیں۔چونکہ بعض روایات جو کتب احادیث و تاریخ میں اہل تشیع راویوں کی بھی ہیں وہ اس لیے قابل اعتبار نہیں کیونکہ علما اسلام نے چونکہ وہ شیعہ راویوں کو اہل بدعت سمجھتے تھے،بدعت سے نسبت رکھنے والی روایات کو مردود و مذموم قرار دیا ہے۔

صحابی ترمیم

عبد الرحمان بن عبد رب کا تعلق مدینہ کے خزرج نامی قبیلہ سے ہے اسی مناسبت آپ کو خزرجی انصاری کہا جاتا ہے۔آپ نے رسول خدا کا زمانہ درک کیا اور انھیں دیکھا ۔ لہذا آپ کو صحابی کہا جائے گا ۔ نیز آپ غدیر خم کے مقام پر موجود تھے ۔ آپ کا شمار ان اصحاب کی فہرست میں سے ہے جنھوں نے حدیث غدیر کو نقل ہی نہیں کیا بلکہ ان اصحاب میں سے ہے جنھوں نے لوگوں کے سامنے حضرت علیؑ کے حق میں حدیث غدیر کی گواہی دی۔

نیز آپ کا شمار حضرت علی کے مخلص اصحاب میں سے بھی ہوتا ہے اور منقول ہے کہ حضرت علی نے آپ کو قرآن کی تعلیم دی تھی۔[1]

رحبہ کے روز حضرت علی نے صحابۂ پیغمبر کو حدیث غدیر پر شاہد قرار دینے کے لیے کہا ۔ جنھوں نے غدیر کے دن پیغمبرؐ سے ولایت اور خلافت کی حدیث کو سنا وہ کھڑے ہو جائیں اور اس کی گواہی دیں۔ابو ایوب انصاری، ابو عمرہ بن عمرو بن محصن، ابو شینب،سہل بن حنیف،خزیمہ بن ثابت، حبشی بن جنادہ سلولی، عبید بن عاذب، لقمان بن عجلان انصاری، ثابت بن ودیعہ انصاری ، ابو فضالہ انصاری اور عبد الرحمان بن عبد رب انصاری کھڑے ہوئے۔ان سب نے کہا کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ سے سنا کہ انھوں نے فرمایا :

ألا إن الله عز وجل وليي وأنا ولي المؤمنين ، ألا فمن كنت مولاه فعلي مولاه
آگاہ رہو اللہ میرا ولی ہے اور میں مومنین کا ولی ہوں۔نیز آگاہ رہو میں جس جس کا مولا ہوں علی اس اس کے مولا ہیں۔[2]

کربلا ترمیم

طبری کے بقول نویں محرم کو بریر بن خضیر ہمدانی عبد الرحمان بن عبد رب سے مزاح کر رہے تھے تو آپ نے جواب دیا :یہ وقت مزاح کا نہیں ہے۔بریر نے جواب میں کہا : میرے بھائی!میرے اقربا اور اقوام جانتے ہیں کہ جب میں جوان تھا تو اہل مزاح نہیں تھا۔چہ جائیکہ اس عمر رسیدگی میں مزاح کروں۔لیکن میں اسے جانتا ہوں کہ جسے میں جلد دیکھنا والا ہوں۔خدا کی قسم !حور العین اور ہمارے درمیان صرف اس قوم کی تلواروں کا فاصلہ ہے اور میں اس بات کوکس قدر دوست رکھتا ہوں کہ وہ زمانہ ابھی آجائے ۔[3]

سماوی نے کسی منبع کا ذکر کیے بغیر کہا : آپ کی شہادت اشقیاء کے پہلے حملے میں واقع ہوئی۔[4]

حوالہ جات ترمیم

  1. سماوی،ابصار العین ص 157نقل از الحدائق الوردیہ122۔
  2. ابن اثیر ، اسد الغابہ ج 3 صص 307و321،ج 4 ص 28؛ابن حجر ، الاصابہ ج 4 ص276 ش5170ونیز یہ رحبہ کی حدیث ج4 ص 300ش5214 وج7 ص136ش 9969 ۔
  3. طبری ،تاریخ طبری ج 4 ص 321۔
  4. سماوی،ابصار العین،ص158۔

مآخذ ترمیم

  • سماوی،ابصار العین سال چاپ : رمضان المبارك 1419 - 1377 ش ناشر : مركز الدراسات الإسلامیہ لممثلی الولی الفقيہ في حرس الثورة الإسلاميہ۔
  • ابن اثیر ، اسد الغابہ ،ناشر : دار الكتاب العربی - بيروت - لبنان
  • ابن حجر ، الاصابہ،سال چاپ : 1415ناشر : دار الكتب العلمیہ . بيروت۔
  • طبری ،تاریخ طبری ناشر : مؤسسہ الأعلمي للمطبوعات - بيروت - لبنان.

سانچے ترمیم