عبد الرحمن دربھنگوی

ایک ہندوستانی عالم دین، صوفی، مبلغ، مدرس، اور امیر شریعت

عبد الرحمن دربھنگوی (1903–1998ء) ایک ہندوستانی عالم دین، صوفی، مبلغ، مدرس، ولی اور متواضع بزرگ تھے، امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ و جھارکھنڈ کے تیسرے نائب امیر اور منت اللہ رحمانی کے بعد پانچویں امیر شریعت کی حیثیت سے خدمات انجام دیں،ان کی عمر تقریباً پچانوے سال تھی، امارت کے حوالے سے ان کی خصوصیت یہ ہے کہ انھیں بانی امارت شرعیہ ابو المحاسن محمد سجاد اور چاروں امرائے شریعت کے ساتھ کام کرنے اور ہر چار سے بیعت امارت کا امتیاز حاصل ہے۔

عبد الرحمن دربھنگوی
امیر شریعت خامس امارت شرعیہ بہار و اڑیسہ و جھارکھنڈ
برسر منصب
31مارچ1991 تا 29 ستمبر 1998
پیشرومنت اللہ رحمانی
جانشینسید نظام الدین قاسمی گیاوی
امارت شرعیہ کے تیسرے نائب امیر شریعت
برسر منصب
1973 تا 1991ء
پیشروعبد الصمد رحمانی
جانشینسید نظام الدین
ذاتی
پیدائش29 اکتوبر 1903
پورہ نوڈیہہ، دربھنگہ ضلع، بہار، برطانوی ہند
وفات29 ستمبر 1998(1998-90-29) (عمر  95 سال)
مذہباسلام
فقہی مسلکحنفی

ولادت ترمیم

صوبۂ بہار کے مشہور ضلع دربھنگہ سے سات کیلو میٹر مشرق میں غوثا گھاٹ کے قریب ایک گاؤں پورا نوڈیہہ ہے، وہیں ان کی ولادت منشی بشارت علی کے یہاں 17/ اپریل 1903ء میں ہوئی.والدہ کا نام بی بی بتولن تھا۔ [1]

ابتدائی تعلیم ترمیم

ان کی ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی، کچھ دن دربھنگہ کے مڈل اسکول میں بھی پڑھے، پھر مدرسہ حمیدیہ دربھنگہ میں داخلہ کرایا گیا، وہاں سے مدرسہ اسلامیہ بیتا گئے۔ بعدہ مدرسہ حمیدیہ گودنا پڑھنے گئے،منطق وغیرہ کی تعلیم کانپور اور رام پور سے حاصل کی، نہائی تعلیم مدرسہ اسلامیہ شمس الہدیٰ پٹنہ میں ہوئی، وہاں امیتازی پوزیشن کی وجہ سے طلائی تمغا ملا اور وہیں سے سند ِفضیلت حاصل کی۔ [2]

اساتذہ ترمیم

ان کے اساتذہ میں ریاض احمد شیخ التفسیر دار العلوم دیوبند، سہول احمد عثمانی سابق مفتی اعظم دار العلوم دیوبند، ظفیر الدین بہاری محدث، عبد الشکور آہ،دیانت حسین اور عبید اللہ امجھری جیسی جلیل القدر شخصیات ہیں۔ [3]

تدریسی خدمات ترمیم

فراغت کے بعد نیپال کے مدرسہ محمودیہ راج پور میں صدر مدرس کی حیثیت سے خدمات شروع کی۔1922ء میں مبارک کریم نے ان کی علمی صلاحیت سے متاثر ہو کر مدرسہ وارث العلوم چھپرہ میں صدر مدرس بننے کی پیش کش کی۔ چنانچہ اپنے استاد ریاض احمد کے مشورہ سے مدرسہ وارث العلوم بطور صدر مدرس تشریف لائے، پھر 1942ء میں جب مدرسہ حمیدیہ گودنا بارہ برسوں کے تعطل کے بعد دوبارہ جاری ہوا اور اس کے صدر مدرس کے لیے با صلاحیت عالم کی ضرورت پیش آئی تو اپنے شیخ مولانا ریاض احمد کی ایماء پر مدرسہ حمیدیہ گودنا منتقل ہو گئے اور تادم حیات وہیں رہے۔ [4]

امارت شرعیہ ترمیم

ان کی خدمات کا دائرہ بہت وسیع ہے، ستر سال سے زیادہ عرصے تک درس و تدریس سے وابستہ رہے، کتابوں کی عبارت تک ان کو ازبر ہو گئی تھی، [5] امارت شرعیہ سے بھی ابتدا سے وابستہ رہے، چاروں امرا شریعت سے بیعت کرنے کا تنہا ان کو شرف حاصل ہے، عبد الصمد رحمانی کے انتقال کے بعد 1973ء میں انھیں تیسرا نائب امیر شریعت بنایا گیا،1991ء میں منت اللہ رحمانی کے انتقال کے بعد ارباب حل و عقد نے متفقہ طور پر ان کو پانچویں امیر شریعت کے طور منتخب کر لیا، [6] ان کے دور امارت میں خوب کام ہوا، مولانا سجاد میموریل اسپتال، مولانا منت اللہ رحمانی ٹیکنیکل انسٹی ٹیوٹ کا قیام ان کے عہد امارت میں ہوا، اسی طرح افتاء و قضاء کے لیے المعہد العالی کی بنیاد رکھی گئی۔ [7]

وفات ترمیم

29/ستمبر 1998ء مطابق 8/جمادی الآخر 1419ھ بروز منگل بوقت ساڑھے سات بجے شام ان کا انتقال ہوا، پہلی نماز جنازہ سید نظام الدین گیاوی نے پڑھائی اور دوسری نماز جنازہ محمد مظہر مہتمم جامعہ سراج العلوم سیوان نے پڑھائی، مسجد حمیدیہ کے احاطہ میں ان کی تدفین ہوئی۔ [8]

حوالہ جات ترمیم

  1. وصی احمد شمسی۔ حیات عبد الرحمن (امیر شریعت خامس امارت شرعیہ (2012ء ایڈیشن)۔ دربھنگہ: انجمن تعمیر ملت۔ صفحہ: 23 
  2. وصی احمد شمسی۔ حیات عبد الرحمن (امیر شریعت خامس امارت شرعیہ (2012ء ایڈیشن)۔ دربھنگہ: انجمن تعمیر ملت۔ صفحہ: 31 
  3. شمسی 1912, p. 31.
  4. شمسی 1912, p. 32.
  5. عبد المنان طرزی۔ رفتگاں و قائماں (دربھنگہ کی منظوم ادبی تاریخ) (2091ء ایڈیشن)۔ نئی دہلی: نرالی دنیا پبلی کیشنز۔ صفحہ: 68 
  6. ظفیر الدین مفتاحی۔ امارت شرعیہ تعارف،خدمات اور سرگرمیاں۔ (1431ھ ایڈیشن)۔ پٹنہ: مکتبہ امارت شرعیہ۔ صفحہ: 10 
  7. شمسی 1912, p. 32/33.
  8. مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی۔ "امیر شریعت خامس: حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب date=29 جولائی 2021ء"۔ اشتراک۔ اخذ شدہ بتاریخ 23 جون 2023 

مزید دیکھیے ترمیم