سید نظام الدین قاسمی گیاوی

ہندوستانی دیوبندی عالم دین اور امیر شریعت سادس

سید نظام الدین قاسمی (1927-2015ء) ایک ہندوستانی، دیوبندی عالم دین، منتظم، شاعر، قائد اور امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ کے چھٹے امیر شریعت تھے، یہ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری، اسلامک فقہ اکیڈمی، ندوۃ العلماء لکھنؤ اور دارالعلوم دیوبند کے رکن شوری تھے۔

امیر شریعت سادس، مولانا

سید نظام الدین
ناظمِ امارت شرعیہ
برسر منصب
1964ء
پیشرومولانا عبد الصمد رحمانی
جانشینانیس الرحمن قاسمی
امیر شریعت سادس
برسر منصب
1991ء تا وفات
پیشرومنت اللہ رحمانی
جانشینولی رحمانی
ذاتی
پیدائش (1927-03-31) 31 مارچ 1927 (عمر 97 برس)
محلہ پرانی جیل، گیا، بہار، بھارت
مذہباسلام
قومیتہندوستانی
والدین
  • سید حسین (والد)
مدرسہمدرسہ امدادیہ دربھنگہ

دار العلوم دیوبند
بنیادی دلچسپیدعوتِ شریعت تدریس ، شاعری ،
قابل ذکر کامامارت شرعیہ کی ترقی وترویج، امیر شریعت کی حیثیت سے ہزاروں ملی فلاحی کام، مدرسہ اسلامیہ عربیہ گھوری گھاٹ کے بانی وغیرہ
اساتذہمحمد طیب قاسمی
محمد ادریس کاندھلوی
اعزاز علی امروہوی
حسین احمد مدنی
مرتبہ
شاگرد
  • قاضی عبد الجلیل قاسمی

ولادت ترمیم

مولانا کی ولادت 31 مارچ 1927ء مطابق 1 ذی الحجہ 1345ھ بروز منگل محلہ پرانی جیل، گیا (بہار) میں ہوئی، ان کے والد سید حسین، انور شاہ کشمیری کے شاگرد تھے۔ [1]

رسم بسم اللہ ترمیم

ساڑھے چار سال کی عمر میں مولانا کریم رضا نے رسم بسم اللہ ادا کرائی ، جو ان کے چچیرے نانا تھے۔ [2]

ابتدائی تعلیم ترمیم

انھوں نے اپنے آبائی گاؤں گھوری گھاٹ گیا میں اپنے والد قاضی حسین کے پاس ہی عربی ابتدائی تعلیم حاصل کی، کافیہ قدوری اور اصول الشاشی اپنے والد سے ہی پڑھی، شرح جامی کے سال 1941ء میں بہار کے مشہور علمی ادارہ مدرسہ امدادیہ دربھنگہ میں داخل ہوئے۔ [2]

دار العلوم دیوبند کا سفر ترمیم

1942ء میں دار العلوم دیوبند میں داخلہ لیا، 1946ء میں علوم متداولہ کی تکمیل کی اور دورۂ حدیث شریف سے فراغت پائی، 1947ء میں مزید ایک سال رہ کر تخصص فی الادب کیا، زمانۂ طالب علمی میں فرحت گیاوی تلخص اختیار کر کے شعر و شاعری بھی کرتے تھے، صحافت و خطابت سے فطری لگاؤ ہونے کی وجہ سے دار العلوم کی مشہور لائبریری سجاد لائبریری کے ترجمان "البیان" کے مدیر بھی رہے۔ [3]

اساتذہ کرام ترمیم

ان کے اساتذہ میں شیخ الادب اعزاز علی امروہوی، محمد ادریس کاندھلوی، محمد طیب قاسمی اور فخر الحسن مرادآبادی کے اسمائے گرامی خصوصیت سے قابل ذکر ہیں، شیخ الاسلام حسین احمد مدنی سے بھی ان کو پڑھنے اور بیعت کا شرف حاصل ہے۔ [4]

تدریسی خدمات ترمیم

فراغت کے بعد 1948ء میں بہار کے معتبر دینی ادارہ مدرسہ ریاض العلوم ساٹھی چمپارن میں بطور صدر مدرس تشریف لائے، تقریباً گیارہ سال تک طالبان علوم نبوت کو علم و فضل سے آراستہ کرتے رہے اور ہزاروں خدام دین تیار کیے، مولانا ریاض احمد کے انتقال کے بعد 1962ء میں یہ مستعفی ہو گئے، [5] اور 1963ء میں مدرسہ رشید العلوم چترا ضلع ہزاری باغ میں صدر مدرس کی حیثیت سے بحال ہوئے اور یہاں بھی دو سال تک تدریسی فرائض بخوبی انجام دیتے رہے، مولانا کے تلامذہ میں قاضی عبد الجلیل قاسمی قاضی شریعت امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ قابل ذکر ہیں۔ [6]

امارت شرعیہ کی نظامت ترمیم

قاضی مجاہد الاسلام قاسمی کے طویل اصرار پر یہ 1964ء میں امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ و جھارکھنڈ بطور ناظم تشریف لائے اور یہیں کے ہوکر رہ گئے، [7] ان کے دور نظامت میں امارت شرعیہ کے کاموں میں مزید استحکام پیدا ہوا، مولانا خلوص و للہیت کے پیکر تھے اور خدا ترس بزرگ تھے، یہ چونتیس سال تک اس عہدۂ جلیلہ پر فائز رہے۔

[8] [9]

بطور نائب امیر شریعت خامس ترمیم

منت اللہ رحمانی کے انتقال پر ملال کے بعد 1991ء میں عبد الرحمن دربھنگوی امیر شریعت خامس منتخب ہوئے اور مولانا چوتھے نائب امیر شریعت کے طور پر منتخب ہوئے، چنانچہ ساڑھے چھ سال تک نظامت اور نیابت امیر کی دوہری ذمہ داری نبھاتے رہے۔ [10]

امیر شریعت سادس کا انتخاب ترمیم

امیر شریعت خامس عبد الرحمن دربھنگوی کی وفات کے بعد یہ 1998ء میں چھٹے امیر شریعت بنے اور تادم وفات اس عہدۂ جلیلہ پر فائز رہے، [11] [11] ان کے دور امارت میں امارت شرعیہ میں خوب ترقی ہوئی، ملی خدمات انجام دئے گئے، دار العلوم الاسلامیہ، المعہد العالی للتدریب فی القضاء و الافتاء انہی کے زمانے کی یادگار ہے۔ [12]

نکاح و اولاد ترمیم

مولانا کا نکاح 1950ء میں حافظہ خاتون سے ہوا، ان سے ان کے تین لڑکے اور چھ لڑکیاں ہوئیں۔ جو سب کی سب صاحب اولاد ہیں اور خوش حال زندگی بسر کر رہے ہیں۔ [13]

وفات ترمیم

مولانا کئی مہینوں سے بیمار تھے، آخر 3 محرم الحرام 1437ھ 17 اکتوبر 2015ء بروز سنیچر اس دار فانی سے کوچ کرگئے، نماز جنازہ امارت شرعیہ کے احاطہ میں ولی رحمانی نے پڑھائی اور پھلواری شریف کے حاجی حرمین قبرستان میں ان کی تدفین ہوئی۔ [14]

قبر ترمیم

 
حاجی حرمین قبرستان پھلواری شریف پٹنہ میں مولانا سید نظام الدین گیاوی کی قبر

حوالہ جات ترمیم

  1. عارف اقبال اقبال۔ باتیں میر کارواں کی (پہلا ایڈیشن)۔ دہلی: ایفا پبلیکیشنز۔ صفحہ: 156 
  2. ^ ا ب اقبال 2015, p. 157.
  3. اقبال 2015, p. 159.
  4. اقبال 2015, p. 168.
  5. اقبال 2015, p. 200.
  6. اقبال 2015, p. 208.
  7. عبد الباسط ندوی۔ امیر شریعت حضرت مولانا سید نظام الدین مدظلہ اور ان کی شاعری (2014ء ایڈیشن)۔ لکھنؤ: دفتر رابطہ ادب اسلامی ندوۃ العلماء لکھنؤ۔۔ صفحہ: 35 
  8. اقبال 2015, p. 243.
  9. حبیب الرحمن اعظمی (31 مئی 2022ء)۔ "حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب گیاویؒ"۔ دارالعلوم دیوبند۔ اخذ شدہ بتاریخ 21 نومبر 2023 
  10. اقبال 2015, p. 204-260.
  11. ^ ا ب مولانا رضوان احمد ندوی (2006)۔ "حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب"۔ ہمارے امیر (پہلا ایڈیشن)۔ پٹنہ: مکتبہ امارت شرعیہ پھلواری شریف۔ صفحہ: 27 
  12. اقبال 2015, p. 277.
  13. اقبال 2015, p. 174.
  14. مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی (3 اگست 2021ء)۔ "امیر شریعت سادس :حضرت مولانا سید نظام الدین رح"۔ اڑان نیوز۔ اخذ شدہ بتاریخ 22 نومبر 2023ء 

مزید دیکھیے ترمیم